جاسم محمد
محفلین
کھاتا ہے پر لگاتا بھی تو ہے کے مصداقپاکستانی معاشرہ بحیثیت مجموعی چور ڈکیٹ کو ہیرو مانتا ہے بس شرط یہ ہے کہ وو چوری کے مال سے ان کو بھی لقمہ دے دے۔
کھاتا ہے پر لگاتا بھی تو ہے کے مصداقپاکستانی معاشرہ بحیثیت مجموعی چور ڈکیٹ کو ہیرو مانتا ہے بس شرط یہ ہے کہ وو چوری کے مال سے ان کو بھی لقمہ دے دے۔
آج دونوں قومیں اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم بڑے فخر سے انگریزی میں دلواتی ہیںبنگالی ہم سے بہتر سوچ کی قوم ہے، انہوں نے پوری کوشش کی پاکستان سے بنی رہے مگر ان کی سب سے بڑی ڈیمانڈ بنگالی زبان والی بات نہ مان کر ہی بنگلہ دیش کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
عمران خان کے جرنیلوں کے خلاف آن ریکارڈ بہت سے بیانات موجود ہیں۔ اس نے پرسوں بھری تقریب میں جنرل باجوہ کی دبے الفاظ میں اچھی خاصی بے عزتی کی تھی۔ عمران میں کم از کم یہ خوبی تو ہے کہ دبنگ ہے۔ کسی سے نہیں ڈرتا۔اقتدار کی خاطر ہر ایک نے اپنا اُگلا ہوا نِگلا ہے، عمران خان بھی ویسا ہی ہے، یہ ایسا سیکورٹی رسک ہے کہ جس دن اصل حاکموں نے اسے ہٹایا اس نے ہر جا جا کر اندر کی وہ وہ کہانیاں بیان کرنی ہیں کی سبھی توبہ توبہ کریں گے۔ یہ جس کے کندھے پر چڑھ کر آگے جاتا ہے پھر اسی کے سر پر پیر رکھ کر بیٹھنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس بندے کی زبان کسی دن اس کی جان لے لے گی، مسلمانوں کے سپہ سالاروں کی موجودہ و پرانی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، یہ دشمن سے شکست برداشت کر لیتے ہیں لیکن اپنی ہتک کا بدلا ضرور لیا کرتے ہیں۔عمران خان کے جرنیلوں کے خلاف آن ریکارڈ بہت سے بیانات موجود ہیں۔ اس نے پرسوں بھری تقریب میں جنرل باجوہ کی دبے الفاظ میں اچھی خاصی بے عزتی کی تھی۔ عمران میں کم از کم یہ خوبی تو ہے کہ دبنگ ہے۔ کسی سے نہیں ڈرتا۔
عمران خان اپنی طاقت کے زعم میں ابھی تک یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کیلئے ناگزیر ہیں۔ اور یہ سچ بھی ہے کہ فی الحال ملکی سیاست میں دور دور تک ان کا کوئی متبادل موجود نہیں۔ نواز شریف کا 88 فیصد دماغ بند ہے۔ زرداری کا دماغ چھوٹا ہوگیا ہے۔ بلاول بارش آتا ہے یا آتی میں پھنسے پڑے ہیں۔ مریم کو لندن تو کیا پاکستان میں بھی اپنی کسی جائیداد کی رسیدیں نہیں مل رہی۔ ہاں شہباز شریف کے پاس متبادل قیادت کا کسی قدر موقع تھا لیکن وہ بھی انہوں نے اپنے اوپرکرپشن اور منی لانڈرنگ کے بے شمار مقدمات بنوا کر ضائع کر دیا۔اس بندے کی زبان کسی دن اس کی جان لے لے گی، مسلمانوں کے سپہ سالاروں کی موجودہ و پرانی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، یہ دشمن سے شکست برداشت کر لیتے ہیں لیکن اپنی ہتک کا بدلا ضرور لیا کرتے ہیں۔
چونکہ عمران خان کی جوانی کرکٹ کے میدان میں کھلاڑیوں کو الٹا سیدھا کہتے گزری ہے اسلئے ان کی زبان بھی بہت حد تک بازاری ہو گئی ہے۔ وہ روکنے کی کوشش تو بہت کرتے ہیں لیکن بہرحال "جگت" منہ سے نکل ہی جاتی ہےویسے اب سبھی کو معلوم ہو گیا ہے کہ کچھ اوقات ایسے ہوتے ہیں کہ جب عمران خان کی زبان اوردماغ اس کے قابو میں نہیں ہوتے (اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں)۔بدتمیزی کا جوشجر بویاگیا تھا اب کڑوے پھل ہی دے گا ناں، کڑوے خان کو کوئی سمجھائے کہ جنرل کڑوے پھل پسند نہیں کیا کرتے، آخ تُھو ہوتے دیر نہیں لگے گی۔
بات تو سچ ہے پر بات ہے رسوائی کیالحمدللہ کاکول جا کر بھی نہیں سدھرا، فوجی فیملی سے تعلق ہونے کے باوجود عین وقت پر جب لفٹین بننے کا وقت آیا تو "ناٹ ولنگ ٹو سرو بیڈ ایپلز" کہہ کر لات مار کر چلا آیا تھا، مجھے اپنے کیے پر شرمندگی نہیں، بلکہ خوشی ہے کہ میں جنرل مافیا مشین کا پرزہ نہیں بنا۔ عام فوج کو سو سلام کرتا ہوں، وہ بے چاری تو حکم کی پابند ہوتی ہے۔
یقینی طور پر، صرف ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو ہر معاملے کا اکیلے ذمہ دار سمجھنا غلط رویہ ہے۔ دراصل انیس سو پچپن کی دہائی سے انہیں سیاست میں گھسیڑ دیا گیا اور اس کے بعد یہ بے دخل نہ ہو سکے۔ کبھی سامنے آ کر مسلط ہو جاتے تھے، اور اب پس منظر میں رہ کر متحرک ہیں۔ انہیں حکمت اور سلیقے سے ہی واپس بیرکوں میں بھیجا جا سکتا ہے۔ ہمارے عوام ان کی محبت میں دیوانے ہیں اور یہ ہمارے نام نہاد سیاست دانوں سے زیادہ زیرک اور دانا ثابت ہوئے ہیں۔ ان کی توجہ داخلی معاملات سے ہٹانا سیاسی منظرنامے پر موجود نام نہاد سیاست دانوں کے بس کی بات معلوم نہیں ہوتی ہے کیونکہ ان کی اکثریت فوجی کیاریوں میں پرورش پاتی رہی ہے۔ سول بالادستی کی تحریک تو وہی چلائے گا جس کی جیب میں چیری بلاسم کی ڈبیا نہ ہو گی اور جو ماضی قریب و بعید میں بھی جی ایچ کیو کے پھیرے نہ لگاتا رہا ہو گا۔بات تو سچ ہے پر بات ہے رسوائی کی
بات رسوائی سے بڑھ کر المیے سے بھی آگے جا چکی ہے۔بات تو سچ ہے پر بات ہے رسوائی کی
اس کے پیچھے دراصل ایف اے ٹی ایف میں بلیک لسٹ کی لٹکتی تلوار ہے۔ کیونکہ ماضی میں پاکستان اپنے جنگجو کئی بار لائن آف کنٹرول سے اس طرف بھجوا چکا ہے۔ اور اس کے نتیجہ میں پوری دنیا پاکستان کو دہشت گرد سمجھتی ہے۔لیکن اگر کوئی کشمیری النسل یہ کہہ دے کہ "ہم بندوق اٹھا کر لائن آف کنٹرول کو روند کر مقبوضہ کشمیر میں مظلوم کشمیریوں کی مدد کو جائیں گے" تو جنرل کے اشارے پر وزیراعظم فرماتے ہیں" جو لائن اف کنٹرول کراس کرے گا وہ کشمیریوں کے قتلِ عام کی سازش کا حصہ بنے گا"۔ وزیراعظم سے صرف اتنا کہنا ہے کہ "جناب آپ کے ہوتےکوئی اور ایسی سازش کرنے کی جرات کر سکتا ہے؟"
کیا کل آپ اسی تلوار کی کاٹ محسوس کریں گے اور ایف اے ٹی ایف کے کہنے پر پاکستانی فوج کو بھی ختم کر دیں گے؟اس کے پیچھے دراصل ایف اے ٹی ایف میں بلیک لسٹ کی لٹکتی تلوار ہے۔ کیونکہ ماضی میں پاکستان اپنے جنگجو کئی بار لائن آف کنٹرول سے اس طرف بھجوا چکا ہے۔ اور اس کے نتیجہ میں پوری دنیا پاکستان کو دہشت گرد سمجھتی ہے۔
بیشک حق حاصل ہے۔ لیکن پاکستان فی الحال ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا سوائے ان کے حق میں آواز بلند کرنے کے۔دنیا بھر میں مقامی لوگوں کو غاصب کے خلاف لڑنے کا بنیادی حق حاصل ہے۔ کشمیری مقامی ہیں اور انڈین فوج غاصب، اس لیے یہ بھونڈہ بہانہ نہیں چلے گا
آپ نے جانے انجانے میں پاکستانی حکومت کا سچ بیان کر دیا "پاکستان فی الحال کشمیریوں کی مدد نہیں کر سکتا"۔بیشک حق حاصل ہے۔ لیکن پاکستان فی الحال ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا سوائے ان کے حق میں آواز بلند کرنے کے۔
اس حوالہ سے صورتحال واقعی غمناک ہے۔ حکومت شروع شروع میں پوری تیاری کے ساتھ کشمیر ایشو اجاگر کر رہی تھی۔ پھر درمیان میں دھرنا، نواز شریف کی بیماری اور آرمی چیف کا ایکسٹینشن آگیا۔ اور یوں ساری توجہ کشمیر ایشو سے ہٹ گئی۔آپ نے جانے انجانے میں پاکستانی حکومت کا سچ بیان کر دیا "پاکستان فی الحال کشمیریوں کی مدد نہیں کر سکتا"۔
جہاں تک آواز کی بات ہے تو وہ مجھے کہیں سنائی نہیں دیتی، بدقسمتی سے چند لفظوں پر مبنی بیان اب صرف وزیراعظم کے ٹوئٹر کے اکاؤنٹ تک محدود ہوکر رہ گیا ہے، باقیوں کے لیے کشمیر پر بیان دینا شجرِ ممنوعہ قرار دے دیا گیا ہے، اسی وجہ سے پچھلے کئی ماہ سے انٹرنیشنل میڈیا پر تو مکمل سکوت طاری ہے۔
بہت معصومانہ خیال ہے۔ گویا حکومت ایک شخص کا نام ہے، اس کی توجہ ہٹی اور کام تمام ہوا۔ وزیرِ خارجہ اور محکمۂ خارجہ تو بیٹھے چھک مارتے ہیں۔اس حوالہ سے صورتحال واقعی غمناک ہے۔ حکومت شروع شروع میں پوری تیاری کے ساتھ کشمیر ایشو اجاگر کر رہی تھی۔ پھر درمیان میں دھرنا، نواز شریف کی بیماری اور آرمی چیف کا ایکسٹینشن آگیا۔ اور یوں ساری توجہ کشمیر ایشو سے ہٹ گئی۔
بالکل ایسا ہی ہے۔ آج عمران خان اپنا فوکس کہیں اور کر لیں تو سارے کرپشن اور منی لانڈرنگ کے کیسز بند ہو جائیں۔ اس مافیا سے لڑنا آسان کام نہیں۔بہت معصومانہ خیال ہے۔ گویا حکومت ایک شخص کا نام ہے، اس کی توجہ ہٹی اور کام تمام ہوا۔ وزیرِ خارجہ اور محکمۂ خارجہ تو بیٹھے چھک مارتے ہیں۔
جن موصوف کی حکومت ہے وہ پچھلی حکومت میں وزیرخارجہ کا عہدہ نہ رکھے جانے کے معاملے کو تنقید کا نشانہ بنایا کرتے تھے لیکن انہوں نے اپنی کیبنٹ میں جس نابغے کو یہ عہدہ دیا ہوا ہے وہ موجودہ عہد کاسب سے نکما اور فوٹو سیشن وزیرخارجہ ہے۔ اگر یہ پی ٹی آئی کا سینئر بندہ نہ ہوتا اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے اسے دور رکھنے کو کوئی بڑی وزارت دے کر اسے کھڈے لائن نہ لگانا ہوتا تو اسے گھر بھیجا جا سکتا تھا کیونکہ اہلیت کے اعتبار سے وہ اس عہدے پر رہنے کے قابل ہی نہیں، شاید وہ خاموش رہ کر حکومت سے انتقام لے رہا ہے بلکہ سچ کہوں تو وزارت کے معاملاات کو کھڈے لائن لگانے والا مودی شاہ ہے۔ جہاں تک بات ہے وزارت خارجہ کی تو تنخواہ لینے والے بھی کبھی کام کیا کرتے ہیں؟ ملک کی تمام وزارتوں کی طرح اس وزارت میں زیادہ تر افسران کی چھانٹی کر کے ملک سے محبت کرنے والےنئے پڑھے لکھے اور اس میدان میں قابلیت رکھنے والے افراد کو بھرتی کیا جائے، ورنہ تو اس حکومت کے پاس ایک ہی کام رہ گیا ہے کہ ہر وزارت کے لیےایک الگ ایپ بنا دیں، عوام رائے دیں، اچھی رائے پہ کام کریں تاکہ وزارتوں کا کام عوام کریں اور افسر پہلے کی طرح گھر بیٹھے تنخواہ حرام کرتے رہیں۔بہت معصومانہ خیال ہے۔ گویا حکومت ایک شخص کا نام ہے، اس کی توجہ ہٹی اور کام تمام ہوا۔ وزیرِ خارجہ اور محکمۂ خارجہ تو بیٹھے چھک مارتے ہیں۔