مہ جبین
محفلین
بندہ ملنے کو قریبِ حضرتِ قادر گیا
لمعہء باطن میں گمنے جلوہء ظاہر گیا
تیری مرضی پاگیا ، سورج پھرا الٹے قدم
تیری انگلی اٹھ گئی مہ کا کلیجہ چِر گیا
بڑھ چلی تیری ضیا اندھیر عالم سے گھٹا
کھل گیا گیسو ترا رحمت کا بادل گھر گیا
بندھ گئی تیری ہوا سادہ میں خاک اڑنے لگی
بڑھ چلی تیری ضیا آتش پہ پانی پھر گیا
تیری رحمت سے صفی اللہ کا بیڑا پار تھا
تیرے صدقے سے نجی اللہ بجرا تِر گیا
تیری آمد تھی کہ بیت اللہ مجرے کو جھکا
تیری ہیبت تھی کہ ہر بت تھر تھرا کر گر گیا
مومن اُن کا کیا ہوا اللہ اُس کا ہوگیا
کافر اُن سے کیا پھرا ، اللہ ہی سے پھر گیا
وہ کہ اُس در کا ہوا خلقِ خدا اُس کی ہوئی
وہ کہ اُس در سے پھرا ، اللہ اُس سے پھر گیا
مجھ کو دیوانہ بتاتے ہو میں وہ ہشیار ہوں
پاؤں جب طوفِ حرم میں تھک گئے سَر پھر گیا
رحمۃللعالمین آفت میں ہوں کیسے کروں
میرے مولیٰ میں تو اس دل سے بَلا میں گھر گیا
میں ترے ہاتھوں کے صدقے کیسی کنکریاں تھیں وہ
جن سے اتنے کافروں کا دفعتاً منہ پھر گیا
کیوں جنابِ بو ہریرہ تھا وہ کیسا جامِ شیر
جس سے ستّر صاحبوں کا دودھ سے منہ پھر گیا
واسطہ پیارے کا ایسا ہو کہ جو سُنّی مرے
یوں نہ فرمائیں تِرے شاہد کہ وہ فاجِر گیا
عرش پر دھومیں مچیَں وہ مومنِ صالح ملا
فرش سے ماتم اٹھے وہ طیّب و طاہر گیا
اللہ اللہ یہ علوِ خاص عبدیت رضا
بندہ ملنے کو قریبِ حضرتِ قادر گیا
ٹھوکریں کھاتے پھروگے، اُنکے در پر پڑ رہو
قافلہ تو اے رضا ، اول گیا آخر گیا
الشاہ امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ
لمعہء باطن میں گمنے جلوہء ظاہر گیا
تیری مرضی پاگیا ، سورج پھرا الٹے قدم
تیری انگلی اٹھ گئی مہ کا کلیجہ چِر گیا
بڑھ چلی تیری ضیا اندھیر عالم سے گھٹا
کھل گیا گیسو ترا رحمت کا بادل گھر گیا
بندھ گئی تیری ہوا سادہ میں خاک اڑنے لگی
بڑھ چلی تیری ضیا آتش پہ پانی پھر گیا
تیری رحمت سے صفی اللہ کا بیڑا پار تھا
تیرے صدقے سے نجی اللہ بجرا تِر گیا
تیری آمد تھی کہ بیت اللہ مجرے کو جھکا
تیری ہیبت تھی کہ ہر بت تھر تھرا کر گر گیا
مومن اُن کا کیا ہوا اللہ اُس کا ہوگیا
کافر اُن سے کیا پھرا ، اللہ ہی سے پھر گیا
وہ کہ اُس در کا ہوا خلقِ خدا اُس کی ہوئی
وہ کہ اُس در سے پھرا ، اللہ اُس سے پھر گیا
مجھ کو دیوانہ بتاتے ہو میں وہ ہشیار ہوں
پاؤں جب طوفِ حرم میں تھک گئے سَر پھر گیا
رحمۃللعالمین آفت میں ہوں کیسے کروں
میرے مولیٰ میں تو اس دل سے بَلا میں گھر گیا
میں ترے ہاتھوں کے صدقے کیسی کنکریاں تھیں وہ
جن سے اتنے کافروں کا دفعتاً منہ پھر گیا
کیوں جنابِ بو ہریرہ تھا وہ کیسا جامِ شیر
جس سے ستّر صاحبوں کا دودھ سے منہ پھر گیا
واسطہ پیارے کا ایسا ہو کہ جو سُنّی مرے
یوں نہ فرمائیں تِرے شاہد کہ وہ فاجِر گیا
عرش پر دھومیں مچیَں وہ مومنِ صالح ملا
فرش سے ماتم اٹھے وہ طیّب و طاہر گیا
اللہ اللہ یہ علوِ خاص عبدیت رضا
بندہ ملنے کو قریبِ حضرتِ قادر گیا
ٹھوکریں کھاتے پھروگے، اُنکے در پر پڑ رہو
قافلہ تو اے رضا ، اول گیا آخر گیا
الشاہ امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ