واجدحسین
معطل
بنیاد پر ست طعنہ یا تمغہ
مغر بی ذرائع ابلاغان گروہ یا افر اد کو جو اسلام کو ایک مکمل جامع اورتا قیامت قائم رہنے والے نظام حیات کے طور پر مانتے ہیں اور دل سے تسلیم کرتے ہیں ان کو بنیاد پر ست کہتے ہیں۔ مغرب راسخ العقیدہ مسلمانوں کو بنیاد پر ست کہہ کر یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ یہ لوگ ذہنی طور پر دورقدیم کے رہنے والے تاریک خیال' سائنسی دشمن 'علم دوانش سے خالی ' تر قی کے مخالف 'قد امت پسند روایت پر ست ' جنگجو' دہشت گرد اور شدت پسند ہیں جنہیں دور حاضرکے نت نئے مسائل اور بد لتے ہوئے حالا ت کاعلم اور تہہ بہ تہہ معاملا ت کا شعور نہیں جب شاہ ایر ان کے خلاف تحر یک زوروں پر تھی ' لیبیا سر ابھار رہاتھا اور فلسطین کی تحر یک مزاحمت نئ کروٹ لے رہی تھی تو امر یکی ومغر بی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کےلیے Militantجنگجوکی اصطلاح استعمال کرتے تھے جس کامطلب تھا کہ اگر کوئی قوم غلامی یادوسروں کے مظالم کے خلاف یااپنے حق آزادی کے لیے اٹھ کھڑ ی ہو' کوئی کمز ور ملک اگر سپر طاقت کے مقابلے میں سراٹھاتا دکھائی دے اور لوگ اپنی سرزمین پر ناجائز قبضہ کے خلاف بغاوت کریں تو فوراً جنگجو بن جاتے ہیں۔ گویا غیر ملکی بالادستی قبول کیےرکھنا اور فرنگی تہذ یب ومعاشر ت کاغلام بنے رہنا' روشن حیالی ' ماڈرن ازم اور تر قی پسند ی ہے اس کے بر عکس اللہ اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وفاداری اور اطاعت کا اظہار کرنا 'شعائر اسلامی اختیار کرنا اور اسلام کو رہنمائی کاسر چشمہ قر اردینا اپنے عزیز واقارب اور احباب کو بھی احکامات اسلامی کے مطابق زندگی بسر کرنے کی طرف متوجہ کرانا بنیادپر ستی ہے ۔
احساس کتری: مسلمانوں کاایک طبقہ اور ان کے بعض رہنماتہذ یبی اور ذہنی طور پر مغر ب سے اس قدرمرعوب ہیں کہ ہماری زندگی کا بیشتر حصہ صرف اس تک ودو میں صرف ہوجاتاہے کہ ہم عملی واخلاقی طور پراس طرح نطر آئیں جیسا کہ بے دین مغرب چاہتا ہے اور ایسا نظر آنے کےلیے اپنی شکل وصورت ' لباس ' اٹھنے بیٹھنے اور کردارواخلاق سے لے کر اسلام کے بنیادی اصولوں تک کاحلیہ بگاڑنے پر آمادہ ومستعد رہتے ہیں جسے وہ اسلا م کہیں ہم ویسا ہی اسلام پیش کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ جسے وہ آداب زندگی بتائیں ہم فوراًاختیار کرلیتے ہیں جس طرح کی وہ تہذ یب پسند کریں ہم اس طرح بننے میں اپنی تو انا ئیاں صرف کردیتے ہیں ' جو مسلمانی ان کو درکارہے ہم ویسے ہی مسلمان بن جاتے ہیں حالانکہ اسلا م ومسلمانی میں مغر ب کی رضا مطلوب نہیں بلکہ اللہ تعالٰی اوراس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامطلوب ہے کیونکہ اسوہً رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے نام کی نسبت سے ہماراملی تشخص قائم ہے وگر نہ رنگ ' نسل علاقہ اور زبان کسی کو مسلمان یا کافر نہیں بناتے ۔
ہرگزخوش نہیں: یہی وہ احساس کمتر ی ہے جو ہم کو اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی دور لے گیاہے ۔ ہم اپنے ہاتھوں میں کتوں کے پلے سجائے اور ملکی پارلیمنٹ کی لابی میں بیٹھے ہوئے غیر ملکی سفیرون کے سامنے کتنا ہی لبر ل ' تر قی پسند 'ماڈرن ظاہر کرتے ہوئے امت کے اجتماعی ضمیر اور مجموعی احساس سے غداری کرکے کتنا ہی شر مناک رویہ نہ اپنا ئیں پھر بھی یہ بد نیت ' نقصان پہنچا نے والے دشمن خداکسی نہ کسی بہا نے ضرور مسلمانوں کو بد نا م اور تنگ کرتے ہی رہیں گے گز شتہ اسی (۸۰)سال سے شعائر اسلام کو تر ک کرنے کے باجود وہ لوگ تر کی کو یو ر پین یو نین میں شامل کرنے کو تیار نہیں ۔ ان کو حجاب تو دورکی بات ہے صرف سر پرا سکارف بھی گوارانہیں حالانکہ ان کی ننیں (وہ خواتین جو کلیسامیں عیسائیت کے لیے وقف کردیں) ساتر لباس زیب تن کرتی ہیں ۔ قرآن نے تو واضح طور پر فرمادیا ہے ''یہودی وعیسائی تم سے ہر گز راضی نہ ہو ں گے جب تک تم ان کے طر یقہ پر نہ چلنے لگو''(البقرہ ۱۲۰) یعنی ان کو خطر ہ ہماری شکل وصورت ' افرادی و مالی وسائل سے نہیں انہیں ڈرہمارے حیات آفرین ' طاقتور 'زندہ ' متحرک اور ہر چیلنج کا سامنا کرنے والے نظر یہ حیات سے ہے اگر مسلمان اپنے نظر یہ حیات سے دستبر دار ہونا چاہتے ہیں تو دوسری بات ہے ورنہ اسلام کے فیصلہ کن کردارکی موجودگی میں مغرب اور دشمنان اسلام ہم سے کبھی خوش ومطمئن اور بے فکر نہیں ہو سکتے ۔تھوڑ ے سے ڈالر وں کی حصول کی خاطر کفار کے مفادات کاتحفظ کرنے والوں کے لیے یہ عبر ت کامقام ہےکہ کشمیر وسرحد میں زلز لہ آیا تو مسلمانوں کو تباہ کرنے کےلیے کھر بو ں ڈالر خرچ کرنے والے یہودونصاریٰ بڑ ے پیمانے پر امداد کرنے کے بجائے ہمارے پہاڑوں کی چوٹیوں کی او نچائی اور نالوں کی گہرائی نا پنے کے چکر میں لگے رہے اور ہمیں قر ضوں اور وعدوں پر ٹرخادیا۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مغر بی ذرائع ابلاغان گروہ یا افر اد کو جو اسلام کو ایک مکمل جامع اورتا قیامت قائم رہنے والے نظام حیات کے طور پر مانتے ہیں اور دل سے تسلیم کرتے ہیں ان کو بنیاد پر ست کہتے ہیں۔ مغرب راسخ العقیدہ مسلمانوں کو بنیاد پر ست کہہ کر یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ یہ لوگ ذہنی طور پر دورقدیم کے رہنے والے تاریک خیال' سائنسی دشمن 'علم دوانش سے خالی ' تر قی کے مخالف 'قد امت پسند روایت پر ست ' جنگجو' دہشت گرد اور شدت پسند ہیں جنہیں دور حاضرکے نت نئے مسائل اور بد لتے ہوئے حالا ت کاعلم اور تہہ بہ تہہ معاملا ت کا شعور نہیں جب شاہ ایر ان کے خلاف تحر یک زوروں پر تھی ' لیبیا سر ابھار رہاتھا اور فلسطین کی تحر یک مزاحمت نئ کروٹ لے رہی تھی تو امر یکی ومغر بی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کےلیے Militantجنگجوکی اصطلاح استعمال کرتے تھے جس کامطلب تھا کہ اگر کوئی قوم غلامی یادوسروں کے مظالم کے خلاف یااپنے حق آزادی کے لیے اٹھ کھڑ ی ہو' کوئی کمز ور ملک اگر سپر طاقت کے مقابلے میں سراٹھاتا دکھائی دے اور لوگ اپنی سرزمین پر ناجائز قبضہ کے خلاف بغاوت کریں تو فوراً جنگجو بن جاتے ہیں۔ گویا غیر ملکی بالادستی قبول کیےرکھنا اور فرنگی تہذ یب ومعاشر ت کاغلام بنے رہنا' روشن حیالی ' ماڈرن ازم اور تر قی پسند ی ہے اس کے بر عکس اللہ اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وفاداری اور اطاعت کا اظہار کرنا 'شعائر اسلامی اختیار کرنا اور اسلام کو رہنمائی کاسر چشمہ قر اردینا اپنے عزیز واقارب اور احباب کو بھی احکامات اسلامی کے مطابق زندگی بسر کرنے کی طرف متوجہ کرانا بنیادپر ستی ہے ۔
احساس کتری: مسلمانوں کاایک طبقہ اور ان کے بعض رہنماتہذ یبی اور ذہنی طور پر مغر ب سے اس قدرمرعوب ہیں کہ ہماری زندگی کا بیشتر حصہ صرف اس تک ودو میں صرف ہوجاتاہے کہ ہم عملی واخلاقی طور پراس طرح نطر آئیں جیسا کہ بے دین مغرب چاہتا ہے اور ایسا نظر آنے کےلیے اپنی شکل وصورت ' لباس ' اٹھنے بیٹھنے اور کردارواخلاق سے لے کر اسلام کے بنیادی اصولوں تک کاحلیہ بگاڑنے پر آمادہ ومستعد رہتے ہیں جسے وہ اسلا م کہیں ہم ویسا ہی اسلام پیش کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ جسے وہ آداب زندگی بتائیں ہم فوراًاختیار کرلیتے ہیں جس طرح کی وہ تہذ یب پسند کریں ہم اس طرح بننے میں اپنی تو انا ئیاں صرف کردیتے ہیں ' جو مسلمانی ان کو درکارہے ہم ویسے ہی مسلمان بن جاتے ہیں حالانکہ اسلا م ومسلمانی میں مغر ب کی رضا مطلوب نہیں بلکہ اللہ تعالٰی اوراس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامطلوب ہے کیونکہ اسوہً رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے نام کی نسبت سے ہماراملی تشخص قائم ہے وگر نہ رنگ ' نسل علاقہ اور زبان کسی کو مسلمان یا کافر نہیں بناتے ۔
ہرگزخوش نہیں: یہی وہ احساس کمتر ی ہے جو ہم کو اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی دور لے گیاہے ۔ ہم اپنے ہاتھوں میں کتوں کے پلے سجائے اور ملکی پارلیمنٹ کی لابی میں بیٹھے ہوئے غیر ملکی سفیرون کے سامنے کتنا ہی لبر ل ' تر قی پسند 'ماڈرن ظاہر کرتے ہوئے امت کے اجتماعی ضمیر اور مجموعی احساس سے غداری کرکے کتنا ہی شر مناک رویہ نہ اپنا ئیں پھر بھی یہ بد نیت ' نقصان پہنچا نے والے دشمن خداکسی نہ کسی بہا نے ضرور مسلمانوں کو بد نا م اور تنگ کرتے ہی رہیں گے گز شتہ اسی (۸۰)سال سے شعائر اسلام کو تر ک کرنے کے باجود وہ لوگ تر کی کو یو ر پین یو نین میں شامل کرنے کو تیار نہیں ۔ ان کو حجاب تو دورکی بات ہے صرف سر پرا سکارف بھی گوارانہیں حالانکہ ان کی ننیں (وہ خواتین جو کلیسامیں عیسائیت کے لیے وقف کردیں) ساتر لباس زیب تن کرتی ہیں ۔ قرآن نے تو واضح طور پر فرمادیا ہے ''یہودی وعیسائی تم سے ہر گز راضی نہ ہو ں گے جب تک تم ان کے طر یقہ پر نہ چلنے لگو''(البقرہ ۱۲۰) یعنی ان کو خطر ہ ہماری شکل وصورت ' افرادی و مالی وسائل سے نہیں انہیں ڈرہمارے حیات آفرین ' طاقتور 'زندہ ' متحرک اور ہر چیلنج کا سامنا کرنے والے نظر یہ حیات سے ہے اگر مسلمان اپنے نظر یہ حیات سے دستبر دار ہونا چاہتے ہیں تو دوسری بات ہے ورنہ اسلام کے فیصلہ کن کردارکی موجودگی میں مغرب اور دشمنان اسلام ہم سے کبھی خوش ومطمئن اور بے فکر نہیں ہو سکتے ۔تھوڑ ے سے ڈالر وں کی حصول کی خاطر کفار کے مفادات کاتحفظ کرنے والوں کے لیے یہ عبر ت کامقام ہےکہ کشمیر وسرحد میں زلز لہ آیا تو مسلمانوں کو تباہ کرنے کےلیے کھر بو ں ڈالر خرچ کرنے والے یہودونصاریٰ بڑ ے پیمانے پر امداد کرنے کے بجائے ہمارے پہاڑوں کی چوٹیوں کی او نچائی اور نالوں کی گہرائی نا پنے کے چکر میں لگے رہے اور ہمیں قر ضوں اور وعدوں پر ٹرخادیا۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔