تاریخی اورزمینی حقائق سے ثابت ہے کہ افغان اور کشمیری دونوں بنی اسرائیل سے ہیں۔ اور اب تو اس بات پر کافی ریسرچ بھی ہوچکی ہے کہ بنی اسرائیل کے بارہ میں سے دس قبائل ان علاقوں کی طرف ہجرت کرگئے تھے یا جلاوطن کردیئے گئے تھے۔تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک قریش سردارخالد نامی افغانوں کے پاس رسالت کی خبر لے کر آئے تھے جس کے جواب میں پانچ چھ سرداراپنی قوم کی طرف سے تحقیق کے لئے ان کے ساتھ گئے اورمسلمان ہوگئے۔ ان کی واپسی پرآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بہت تحفے بھی دیئے اور آپ نے اس وفد کے امیر قیس کا نام عبدالشید رکھ دیا اور پہطان کا لقب عطا کیا جس کا مطلب ہے جہاز کا سکان۔ کہا جاتا ہے کہ یہی لفظ پہطان ہی بگڑ کر پٹھان بن گیا ہے۔
بنی اسرائیل کے دس گمشدہ قبائل کے ان علاقوں میں آنے کی وجہ سے ہی حضرت عیسی علیہ السلام کا ان علاقوں کی طرف ہجرت کرنا ایک لازمی امر تھا کیونکہ وہ بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے تھے۔ اور ان کے مبعوث ہونے کے وقت وہاں بنی اسرائیل کے صرف دو قبائل آباد تھے۔ اسی لئے انجیل میں ان کا یہ قول لکھا ہے کہ میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑخانہ کی نہیں۔ مجھے ان کی طرف بھی جانا ہے۔ اس لئے ان باقی دس قبائل کو رسالت کا پیغام پہنچانے کی خاطر وہ واقعہ صلیب کے بعد افغانستان سے ہوتے ہوئے کشمیر آگئے تھے جہاں ان کا مقبرہ آج بھی موجود ہے۔
کشمیر میں حضرت عیسی علیہ السلام کا مقبرہ
یہ BBC کی اس ڈاکیومنٹری کا ایک حصہ ہے۔ جس میں اس حوالے سے کافی مفید بحث اٹھائی گئ ہے۔
چنگیز خان یعنی تموچن خان کے نام کا سابقہ یعنی خان، یہ درست نہیں بلکہ صحیح نام ہے کان۔۔۔۔اور یہ پٹھان نہیں تھے بلکہ صحرائے گوبی سے اٹھنے والی ایک آندھی تھی۔۔۔۔۔چنگیز کان ہی کی اولاد میں لنگڑا تیمور ہوا ہے جو کہ فارسی زبان بولتا تھا اور اسی طرح ظہیر الدین بابر بھی فارسی زبان بولتا تھا۔۔۔۔میرے خیال میں افغان پٹھانوں میں زیادہ تر کا تعلق چنگیز خان کی فوج سے ہے اور لفظ خان بھی وہی سے آیا ہے
چنگیز خان کے لڑاکو ہونے کے بارے میں سب جانتے ہیں
رانا جی پٹھان بحثیت قوم بلکہ انفرادری طور پر بھی بہادر ہوتا ہے (دراصل بہادر سے میرا مقصد نڈر ہونا ہے کیونکہ بہادر اور بھی بہت سے معنوں میں آجاتا ہے)روحانی بابا میرا خیال ہے کہ بزدلی یا بہادری کسی قوم کی طرف مستقل بنیادوں پر منسوب نہیں کی جاسکتی۔ ایک قوم ایک وقت میں بہت بزدل ہوتی ہے اور دوسرے وقت میں وہی بہت بہادری دکھاتی ہے۔ کشمیریوں ہی کو دیکھ لیں۔ تقسیم کے وقت کشمیریوں کو بہت بزدل سمجھا جاتا تھا۔ لیکن کبھی یہی قوم اتنی بہادر تھی کہ محمود غزنوی نے ہندوستان پر جتنے حملے کئے ہیں ان میں سے صرف دو میں اسے شکست ہوئی ہے اور وہ دو وہی تھے جو کشمیر پر کئے گئے تھے۔
ظفری بھائی ، جب ہمارا بچپن تھا تو پاکستان کے ہر شہر کی دیواروں پہ دو نعرے نظر آیا کرتے تھے۔ چونکہ یہ بھٹو صاحب کے عروج کا زمانہ تھا اور ان کے مخالفین بھی پوری شدت سے مزاحمت کرتے دکھائے دیتے تھے۔
پہلا نعرہ کچھ یوں ہوتا :
سرخ ہے سرخ ہے ایشیا سرخ ہے
اور فریق ثانی یوں نعرہ لکھتا :
سبز ہے سبز ہے ایشیا سبز ہے
وہ سرخی اور سبزی تو وقت کے ساتھ ساتھ ماند پڑ گئی لیکن محفل پہ بھی اس سرخی اور سبزی کی رونقیں اب کمزور پڑ چکی ہیں۔ اب "سرخ رُو" منتظمین تو نظر آتے ہیں لیکن "سر سبز " ماڈریٹرز عنقا ہوتے جا رہے ہیں۔ بہت دنوں بعد آپ تشریف لائے تو آپ کا سبز رنگ دیکھ کر ہمیں ساون کے اندھے کی طرح ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آیا۔ آپ کی تحاریر چونکہ چشم کشا ہوتی ہیں اس لئیے صرف آئیے ہی نہیں بلکہ ہماری آنکھیں کھلی رکھنے کے لئیے کچھ لکھا بھی کیجئیے۔ورنہ یہاں ساون کے اندھوں کی بہتات ہو جائے گی۔
ماشاء اللہ بڑی معلوماتی بحث جاری ہے ۔
میں اپنی ناقص معلومات کے مطابق صرف اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ سارے یہودی بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں مگر سارے بنی اسرائیل یہودی نہیں ہیں ۔ مجھے اب یہ نہیں پتا کہ کس کس مائنڈ سیٹ اپ کے لوگ یہاں ، بنی اسرائیل کے ایک ” گمشدہ ” قبیلے کو کسی مذہب ( یہود ) سے کن بنیادوں پر جوڑ رہے ہیں ۔ ؟