فرخ منظور
لائبریرین
بورخیس کی کہانیاں
(ترجمہ و تبصرہ: عاصم بخشی)
بین الاقوامی ادب کے شائقین جانتے ہیں کہ بورخیس کے موضوعات معانی کا ایک سمندر ہیں اور وہ تاریخ، اساطیر، فلسفہ، مذہب اور ریاضی وغیرہ سے تصورات مستعار لیتے ہوئے عمومی طور پر طلسماتی حقیقت نگاری (magical realism) کی ادبی روایت میں کہانی اور کردار تخلیق کرتے ہیں۔ادبی نقادوں کے نزدیک ان کی شاعری اسپینوزا(Spinoza) اور ورجل (Vergil)سے ایک مسلسل مکالمہ ہے۔ وجودیاتی فلسفے میں بورخسی معمّہ (Borgesian Conundrum) ان سے منسوب ہے جو یہ سوال اٹھاتا ہے کہ آیا ادیب کہانی تخلیق کرتا ہے یا پھر کہانی اسے تخلیق کرتی ہے؟ مگر معانی کے اس سمندر میں ایک قاری کی حیثیت سے غواصی ایک مترجم کی رسائی سے کہیں مختلف ہے۔ محمد حسن عسکری نے ترجمے کے باب میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ترجمہ بعینہٖ ایک دوسری روایت کی ترجمانی شاید ہی کر سکتا ہے لہٰذا وہ اصل کی نسبت ایک اور تخلیق کو جنم دیتا ہے اور کم سے کم درجے میں اسے اس نئی روایت میں کچھ نہ کچھ تو بن ہی جانا چاہئے۔ میری ناقص رائے میں یہ پیش کش بورخیس کی طلسماتی حقیقت نگاری کو پہلے سے موجود بہت سی کوششوں کے ساتھ اردو روایت میں کچھ نہ کچھ بنانے کی ایک اوراپنی سی کوشش ہے۔(عاصم بخشی)
بابل کا کتب خانہ
اس فن کے ذریعے تم تئیس حروف کے تغیرات پر غور کر سکتے ہو۔۔۔۔( تشریح ِافسردہ خیالی از رابرٹ برٹن)
کائنات (جسے دوسرے کتب خانہ کہتے ہیں) ایک لاتعداد بلکہ شاید لامتناہی گردشی راہداریوں پر مشتمل ہے۔ہر راہداری کے وسط میں ایک ہوادان ہے جو ایک پست احاطے پر ختم ہوتا ہے۔کسی بھی مسدس سے اوپر اور نیچے جاتی یکے بعد دیگرے لا انتہامنزلیں دیکھی جا سکتی ہیں۔راہداریوں کی ترتیب ہمیشہ سے یکساں ہے: کتابوں کی بیس الماریاں، مسدس کی چھ اطراف میں چوتھی قطار کے ہر طرف پانچ ، الماریوں کی اونچائی زمین تا چھت ایک عام کتاب دان کے قد سے شاید کچھ ہی زیادہ۔ مسدس کے آزاد اضلاع میں سے ایک ضلع تنگ سی ڈیوڑھی میں کھلتا ہے، جو ایک اور راہداری میں کھلتی ہے جو بعینہ پہلی ، بلکہ ہر ایک جیسی ہے۔ڈیوڑھی کے دائیں اوربائیں دو ننھی سی کوٹھڑیاں ہیں۔ ایک سونے کے لئے، بالکل سیدھے اور دوسری رفع حاجت کیلئے۔یہاں سے بھی ایک مرغولہ نما زینہ گزرتا ہے جو اوپر نیچےدور تک چکر کھاتا چلا جاتا ہے۔ڈیوڑھی میں ایک آئینہ وفاداری سے تمام منظر کی عکاسی کرتا ہے۔انسان اکثر اس آیئنے سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کتب خانہ لامتناہی نہیں کیونکہ اگر وہ ایسا ہوتا تو اِس پُر فریب عکاسی کی کیا ضرورت ؟ میں اس تصور کو ترجیح دیتا ہوں کہ صیقل سطحیں لامتناہیت کا خاکہ اور امید ہیں۔۔۔روشنی کچھ ایسے کرّوی پھلوں سے فراہم کی جاتی ہے جنہیں ’’بلب‘‘ کہتےہیں۔ ہر مسدس میں ایسے دو بلب آرپار آویزاں ہیں۔ ان کی فراہم کردہ روشنی ناکافی اور دائمی ہے۔
کتب خانے کے تمام باشندوں کی طرح میں نے بھی اپنی جوانی میں سفر کیا۔ میں کتاب کی تلاش میں منزلوں پر منزلیں،یا شاید فہرستوں پر فہرستیں طے کرتا رہا۔ اب جب کہ میری آنکھیں میری اپنی تحریر بھی بمشکل پڑھ سکتی ہیں ، میں اس مسدس سے، جو میری جائے پیدائش ہے، کچھ ہی کوس دور مرنےکی تیاری کر رہا ہوں۔میری موت واقع ہونے پر ہمدرد ہاتھ مجھے احاطے سے نیچے پھینک دیں گے، اتھاہ ہوا میرا مقبرہ ہو گی، میرا جسم زمانوں ڈوبتا رہے گا اور آخر کار میرے گرنے سے وجود میں آتی لامتناہی ہوا میں گل سڑ کے گھل جائے گا۔ میں اعلان کرتا ہوں کہ کتب خانہ بے انت ہے۔مثالیت پسندوں کا دعوٰی ہے کہ مسدس کمرے مکان ِ مطلق کی ناگزیر صورت ہیں یا کم از کم ہمارے ادراکِ مکان کی۔ان کا دعوٰی یہ ہے کہ ایک تکون یا مخمس کمرہ ناقابل تصور ہے۔ (عارفوں کا دعویٰ ہے کہ ان کا وجد ایک دائری کمرے کا وجودو افشا کرتا ہے جس میں ایک ضخیم گول کتاب موجود ہے جوجس کا مسلسل پشتہ دیواروں کے دائرے کا چکر مکمل کرتاہے ۔مگر ان کی شہادت مشتبہ ہے اور ان کےالفاظ مبہم۔یہ دائرو ی کتاب خدا ہے۔) ایک لمحے کے لئے اس مستند اظہار پر اکتفا ءکیجئے جسے میں یوں دہراتا ہوں: کتب خانہ ایک کرّہ ہے جس کا مرکز کوئی بھی مسدس ہے اور جس کا محیط ناقابلِ رسائی۔
ہرایک مسدس کی ہر دیوار پانچ کتابی الماریوں سے مزین ہے، ہر کتابی الماری میں یکساں وضع کی بتیس کتابیں موجود ہیں، ہر کتاب کے چار سو دس صفحات ہیں، ہر صفحہ پر چالیس سطریں اور ہر سطر میں تقریباً اسی سیاہ حروف۔ ہر کتاب کے سرورق پر بھی حروف کندہ ہیں۔ یہ حروف نہ تو نشاندہی کرتے ہیں اور نہ ہی یہ بتاتے ہیں کہ اندر کے صفحات میں کیا ہے۔مجھے علم ہے کہ تبادلہ و ابلاغ کا فقدان کبھی انسانوں کو پر اسرار لگتا تھا۔ اس راز کے حل کا خلاصہ پیش کرنے سے قبل (جس کی دریافت المناک نتائج کے باوجود شاید تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے) میں کچھ بدیہی مسلمات دہرانا چاہتا ہوں۔
اول: کتب خانہ ازل سے موجود ہے۔یہ صداقت جس کا لازمی نتیجہ دنیا کی آنے والی ابدیت ہےکوئی معقول ذہن نہیں جھٹلا سکتا۔انسان، ایک غیر کامل کتابدار، یاتوشاید اتفاقات کا حاصل یا پھر بد باطن دیوتاؤں کی تخلیق ہوسکتا ہے ، مگر کائنات اپنی شاندار ترتیب ، یعنی اپنی کتابی الماریوں، چیستانی کتب،مسافر کے لئے اپنے بے تکان زینوں، اور براجمان کتابدار کے لئے اپنی آبی طہارت گاہوں کے ساتھ ، کسی خدا ہی کی صناعی ہو سکتی ہے۔ اگر انسان اور ہستئ مطلق کے درمیان فاصلے کو ذہن کی گرفت میں لانا مقصود ہو تو صرف ان تھرتھراتی ہوئی خام علامتوں کا موازنہ کرلیجئے جنہیں میرے مائل بہ خطا ہاتھ بدخطی سے ایک کتاب کے سرورق پر لکھ رہے ہیں جس کے اندر نامیاتی حروف موجودہیں، صاف ستھرے، نازک، گہرے سیاہ اور بے نظیر تناسب کے ساتھ۔
دوم: ابجدی علامات پچیس ہیں(اصل مسودے میں نہ تو اعداد ہیں اور نہ ہی حروف جلی، رموز اوقاف واوین اور وقفوں تک محدود ہیں۔یہ دو نشانات، فاصلہ اور بایئس حروف ابجد وہ پچیس علامات ہیں جن کی طرف ہمارا نامعلوم مصنف اشارہ کر رہا ہے۔مدیر)۔تین سو سال قبل اس دریافت نے انسانیت کو ایک عمومی نظریہ ء کتب خانہ تشکیل دینے کے قابل کیا اور اس طرح اس پہیلی کو حل کر دیا جس کا بھید آج تک کوئی قیاسی مفروضہ نہ کھول سکا تھا یعنی تقریبا تمام کتب کی ایک بے شکل اور منتشر ہئیت۔ایک کتاب جسے ایک دفعہ میرے والد نے ۹۴۔۱۵ نمبر گردش کی ایک مسدس میں دیکھا تھا صرف حروف’’ م۔ک۔و ‘‘ پر مشتمل تھی جو پہلی سے آخری سطر تک کج روی سے دہرائے گئے تھے۔ایک اور (جس سے اس حلقے میں کافی راہنمائی لی جاتی ہے) فقط حروف کی بھول بھلیوں پر مشتمل ہے جس کےآخری سے پہلے صفحے پر یہ عبارت درج ہے: ’’اے وقت تیرے مزار‘‘۔اتنا معلوم ہے کہ ہر معقول سطر یا بے باک بیان کے عوض بے معنی کریہہ الصوتی، لفظی لغویات اور بے ربطی کے مجموعے ہیں۔(میں ایک ایسے نیم وحشی حلقے سے باخبرہوں جہاں کے کتابدار کتابوں میں مفہوم تلاش کرنے کی ’’بے ثمر اور ضعیف الاعتقاد‘‘ عادت کو مسترد کرتے ہیں اور ایسی کسی بھی جستجو کو خوابوں اور کسی ہاتھ کی منتشر لکیروں میں معانی ڈھونڈنے کے برابر سمجھتے ہیں۔وہ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ تحریر کے موجدین نے پچیس فطری علامات کی نقل کی مگر ان کا دعوٰی ہے کہ اپنانے کا یہ عمل بے سبب اور اتفاقیہ تھا اور یہ کہ کتابیں فی نفسہٖ معانی نہیں رکھتیں۔یہ دلیل جیسا کہ ہم دیکھیں گے مکمل طور پر مغالطہ آمیز نہیں ہے۔)
کئی سال تک یہ مانا جاتا رہا کہ یہ ناقابل نفوذ کتابیں قدیمی یا دوردراز کی زبانوں میں ہیں۔یہ سچ ہے کہ کئی قدیم لوگ یعنی کہ اولین کتابدار ہماری رائج بولی سے بہت مختلف زبان استعمال کرتے تھے، یہ بھی سچ ہے کہ یہاں سے کچھ کوس دائیں ہماری زبان لہجوں میں ڈھلنا شروع ہو جاتی ہے اور نوے منزلیں اوپر یہ بالکل ناقابل فہم ہو جاتی ہے۔میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ یہ سب سچ ہے لیکن چار سو دس غیر متغیر ’’ م۔ک۔و ‘‘ کسی بھی زبان سے تعلق نہیں رکھ سکتے، چاہےلہجہ کتنا ہی مختلف یا غیر متمدن کیوں نہ ہو۔کچھ لوگوں کی تجویز یہ ہے ہر حرف اگلے پر اثر ڈالتا ہے اور ’’ م۔ک۔و ‘‘ کی جو قیمت صفحہ ۷۱سطر۳ پر ہے وہ کسی اور صفحہ اور سطر پر اسی سلسلے کی قیمت سے مختلف ہے، مگر یہ مبہم نظریہ کچھ زیادہ مقبول نہیں ہو سکا۔ اس کے برعکس دوسروں نے کسی خفیہ لغت کا امکان ظاہر کیا ہے اور یہ قیاسی مفروضہ بالاتفاق تسلیم کر لیا گیا ہے، گو اس تاثر میں نہیں جس میں اس کے بانیوں نے اولین تشکیل کی تھی۔
لگ بھگ پانچ صد سال قبل کسی مسدس ِبالا(قدیم وقتوں میں ہر تین مسدسوں کی جگہ ایک آدمی تھا۔ خود کشی اور پھیپھڑوں کے امراض نے اس تناسب کو بگاڑ کے رکھ دیا۔ایک ناگفتہ بہ پر ملال یاداشت: میں نے بعض اوقات ایک بھی کتابدار سے مڈبھیڑ ہوئے بغیر، لمبی غلام گردشوں اور صیقل زینوں کے سفرمیں راتیں گزاریں ہیں۔) کے ایک مہتمم کے ہاتھ ایک ایسی کتاب لگی جو باقیوں کی طرح گڈ مڈ توتھی مگر اس کے تقریباً دو صفحات یکساں سطروں پر مشتمل تھے۔اس نے اپنی یہ دریافت ایک رمز شناس مسافر کو دکھلائی جس کی رائے میں وہ سطریں پرتگالی زبان میں تحریر کردہ تھیں، کچھ دوسروں نے کہا کہ یہ یہودی زبان تھی۔ایک صدی کے اندر ہی ماہرین یہ متعین کر دیا کہ وہ زبان اصل میں کونسی تھی: کلاسیکی عربی کی تصریف کے ساتھ گوارانی کا ایک سامویائی لیتھوانی لہجہ(ارجنٹائن کے ایک صوبے میں بولی جانے والی ایک جنوبی امریکی زبان۔)۔اس کے ساتھ ہی مشمولات کا تعین بھی کر دیا گیا: لا انتہا متواتر تغیرات کی مثالوں سے مزین مبادیء علم اتصال۔ان مثالوں کی مدد سے ایک نابغہ کتابدارنے کتب خانے کا بنیادی قانون دریافت کر لیا۔اِس فلسفی نے مشاہدہ کیا کہ تمام کتب چاہے وہ ایک دوسرے سے کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہوں یکساں عناصر پر مشتمل ہیں: فاصلہ، وقفہ ، علامتِ وقف اور ابجد کے بائیس حروف۔اس نے مفروضے کے طور یہ واقعہ بھی پیش کیا جس کی توثیق اس دن سے تمام مسافر کرتے آئے ہیں: سارے کتب خانہ میں کوئی دو کتابیں ایک جیسی نہیں ہیں۔ ان غیر متنازعہ مقدمات سے کتابدار نے یہ نتیجہ نکالا کہ کتب خانہ ’’کل‘‘یعنی بے عیب ، مکمل اور پورا ہے ، اور اس کی کتابی الماریاں بائیس (ایک ایسا عدد جو ناقابل تصورہونے کے باوجود لامتناہی نہیں ہے ) حروفی علامات کی تمام ممکنہ ترکیبوں پر مشتمل ہیں، یعنی وہ سب کچھ جو ہر ایک زبان میں قابلِ بیان ہے۔سب کچھ۔۔۔مستقبل کی تفصیلی تاریخ، رؤسائے ملائکہ کی سوانح، کتب خانہ کی قابل ِ اعتماد اور ہزاروں ناقابل ِ اعتماد فہرستیں، ان ناقابلِ اعتماد فہرستوں کے کذب کے ثبوت، درست فہرست کے کذب کا ایک ثبوت، اسکندریہ کے مدرس باسیلیدی (Basilides)سے منسوب غناسطی انجیل(Gnostic Gospel)، اس انجیل کی شرح، اس شرح کے حواشی، آپ کی موت کی سچی کہانی، ہر کتاب کا ہر ایک زبان میں ترجمہ، ہر ایک کتاب کا باقی تمام کتب میں ادراج، سیکسن اقوام کی اساطیری روایت سے متعلق وہ رسالہ جو سینٹ بیڈ(Saint Bede) لکھ سکتا تھا (مگر اس نے نہ لکھا)، رومن مؤرخ تیکیطوس کی گمشدہ کتابیں۔
جب یہ اعلان کیا گیا کہ کتب خانے میں ہر کتاب پائی جاتی ہے تو پہلا ردعمل بے پایاں مسرت کا تھا۔ لوگوں نے اپنے آپ کو ایک محفوظ اور خفیہ خزانے کا مالک سمجھا۔ایسا کوئی انفرادی یا اجتماعی مسئلہ نہ تھا جس کا فصیح و بلیغ حل کہیں کسی مسدس میں نہ پایا جاتا۔ کائنات کا جواز مل گیا، وہ یک لخت انسانی آدرشوں کے غیر محدود طول و عرض سے موافق ٹھہری۔اس وقت ایک ’’مجموعہ برأت‘‘ کا ذکر زبان زدِ عام تھا یعنی غیب گوئی اور بریت کی وہ کتب جو آنے والے ہر زمانے کے لئے کائنات کے ہر انسان کو بری قرار دیں۔انسانوں کے مستقبل کے واسطے یہ ایک حیرت انگیز اکسیرِ اعظم تھا۔ ہزاروں حریص افراد ، اپنی اپنی’’ کتاب برأت‘‘ کو تلاش کرنے کی ایک لاحاصل خواہش سے مغلوب، اپنے پر سکون مسدس چھوڑ کر بالائی اور زیریں منزلوں کی طرف بھاگے۔یہ زائرین تنگ غلام گردشوں میں ایک دوسرے سے جھگڑتے، بدترین لعنتیں بڑبڑاتے، مقدس زینوں میں ایک دوسر ے کا گلا گھونٹتے، پُر فریب جلدیں ہوا دانوں سے نیچے پھینکتے، دور دراز علاقوں کے انسانوں کے ہاتھوں اپنی موت سے جاملے۔ دوسرے اپنے حواس کھو بیٹھے۔۔۔۔’’مجموعہ برأت‘‘ موجود ہے (میں نے اس میں شامل دو کتابیں دیکھی ہیں جومستقبل کے دو ایسےافراد کا ذکر کرتی ہیں جو شاید فرضی نہیں ہیں) مگر اس کی کھوج میں نکلنے والے مہم جو یہ بھلابیٹھے کہ انسان کے ہاتھ اس کی اپنی ’’کتاب برأت‘‘ یا اس کی کسی جعلی نقل لگ جانے کا امکان صفر تھا۔
اسی زمانے میں یہ امید بھی قائم تھی کہ بنی نوع انسان کے بنیادی اسرار یعنی کتب خانہ اور زمان کی ابتداء بھی شاید ظاہر ہو جائیں۔آثار قوی ہیں کہ یہ عمیق راز واقعتاً الفاظ میں بیان کئے جا سکیں ۔ اگر اس کے لئے فلاسفہ کی زبان کافی نہ ہو توعظیم الہیئت کتب خانے نے یقیناً ایسی کسی غیر معمولی زبان کو بمع اس کی لغت اور قواعد کےجنم ضرور دیا ہوگا۔ چار صدیاں لوگ پھرتی کے ساتھ مسدسوں کے چکر کاٹتے رہے۔۔۔سرکاری’’تفتیش کار‘‘ آج بھی موجود ہیں۔ میں نے انہیں اپنے کام میں مصروف دیکھا ہے: وہ تھکے ہارے ، ایک زینے کی بابت بڑبڑاتےہوئے جس نے چند سیڑھیاں نہ ہونے کے باعث انہیں قریباً مارڈالا کسی مسدس پر پہنچتے ہیں ، کتابدار سے احاطوں اور زینوں کے بارے میں بات چیت میں مشغول رہتے ہیں، اور کبھی کبھار کوئی قریبی کتاب اٹھا کر شرمناک اور ذلت آمیز الفاظ ڈھونڈنے کی نیت سے ورق گردانی کر لیتے ہیں۔ ظاہر ہے کوئی ان سے کسی دریافت کی امید نہیں رکھتا۔
اس بے لگام امید کے بعد فطری طور پر ایک ویسی ہی غیر متناسب مایوسی نے آلیا۔ یہ یقین کہ کہیں کسی مسدس میں کوئی کتابی الماری قیمتی کتابوں پر مشتمل ہے مگر ان قیمتی کتابوں تک رسائی دائماً ناممکن ، تقریباً ناقابل برداشت تھا۔ ایک گستاخانہ فرقے نے تجویز دی کہ تلاش ترک کر دی جائے اور تمام لوگ حروف اور علامات کی ترتیب بدلتے رہیں یہاں تک کہ وہ تفویض کردہ کتابیں حادثاتی طور پر متشکل ہو جائیں۔حکام کو سخت احکامات صادر کرنے پڑے۔فرقہ تو معدوم ہو گیا مگر میں نے اپنے بچپن میں دھاتی طبق اور پانسے کی ڈبیا لئے کئی بوڑھے آدمیوں کو بیت الخلاء میں چھپے، خدائی بے ترتیبی کی دھیمی نقالی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
دوسروں نے بالکل الٹ سمت اپناتے ہوئے یہ سوچا کہ پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ تمام بے مصرف کتابوں کو تلف کر دیا جائے۔وہ مسدسوں پر آ دھمکتے، اپنے وثیقہء تقرر دکھاتے جو ہمیشہ غلط نہیں ہوتے تھے، نفرت سے ایک جلد کے صفحے پلٹتے اور کتابوں کی پوری دیوار کے خلاف فیصلہ صادر کر دیتے۔لاکھوں جلدوں کا احمقانہ ضیاع انہی کے صحت بخش اور زاہدانہ طیش کا مرہونِ منت ہے۔ان کا نام آج مطعون ہے مگر وہ جو ان ’’خزانوں‘‘ کی اس جنونی تباہی کے غم میں الم زدہ ہیں، دو عمومی طور پر تسلیم شدہ واقعات سے صرفِ نظر کرتے ہیں: اول کہ کتب خانہ اتنا وسیع ہے کہ انسانی ہاتھوں کسی بھی قسم کی کمی بے وقعت ہے۔اور دوم یہ کہ گو ہر کتاب بے مثل اور بے بدل ہے، لیکن (چوں کہ کتب خانہ کل ہے) ہمیشہ کچھ لاکھ ناقص ہو بہو نقلیں موجود ہوتی ہیں جو اصل سے ایک حرف یا ایک علامت وقف سے زیادہ مختلف نہیں۔ عمومی رائے کے باوجود میں یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہوں کہ ’’مخلصین‘‘ کی غارت گری کےاثرات میں مبالغہ کی وجہ وہ دہشت ہے جو انہی جنونیوں کا فیضان ہے۔ایک مقدس اشتیاق سے متحرک وہ اس کوشش میں سرگرم تھے کسی دن انتھک کوشش سے وہ’’ ارغوانی مسدس ‘‘ کی کتابوں تک پہنچ جائیں گے یعنی قدرتی کتابوں سے چھوٹی ، قادرِ مطلق، منقش اور طلسماتی کتابیں۔
ہمیں اس زمانے کی ایک اور ضعیف الاعتقادی کا بھی علم ہے یعنی ایک ’’کتابی انسان‘‘ نامی ہستی پر اعتقاد۔یہ مفروضہ پیش کیا گیا کسی مسدس کی کسی الماری میں کہیں ایک کتاب ایسی ہونی چاہیئے جو بقیہ تمام کتابوں کی کنجی اور بے عیب تلخیص ہو اور کسی کتابدار نے ضرور اس کا معائنہ کیا ہو گا۔ یہ کتابدار خدا کا مثیل مانا جاتا تھا۔اس حلقے کی زبان میں آج بھی اس فرقے کی سراغ مل جاتے ہیں جو اس دور دراز کتابدار کو پوجتا تھا۔کئی لوگ اس کی تلاش میں نکلے ۔پورے سو سال لوگوں نےلاحاصل تلاش میں ہر ممکن راستے اور ہر ایک راستے کی خاک چھانی۔ کسی ایسی مقدس خفیہ مسدس کو کوئی کیسے تلاش کر سکتا ہے جس نے متلاشی ہی کو اوٹ دے رکھی ہو؟کچھ نے تلاش کے لئے بتدریج تنزلی کا طریقہ تجویز کیا: کتاب’’ الف‘‘ تلاش کرنے کے لئے پہلے کتاب ’’ب‘‘ سے رجوع کیا جائے جو کتاب’’ الف‘‘ تک راہنمائی کرے، کتاب’’ب‘‘ تلاش کرنے کے لئے پہلے کتاب ’’ج‘‘ سے رجوع کیا جائے، اور اس طرح لاانتہا۔۔۔اسی قسم کے جوکھم ہیں جن میں پراگندہ حال ، میں نےاپنے ماہ و سال صرف کئے۔میں اسے خلاف قیاس نہیں سمجھتا کہ ایسی کو ئی’’کل کتاب‘‘(میں دہراتا ہوں: ایک کتاب کے موجود ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ ممکن ہو۔ صرف ناممکن مستثنٰی ہے۔مثال کے طور پر کوئی کتاب ایسی نہیں جو زینہ بھی ہو گو بے شک ایسی کتابیں موجود ہیں جو اس امکان کے بارے میں بحث کرتی ہیں اوراس کا رد و اثبات کرتی ہیں ، علاوہ ازیں دوسری ہیں جن کی ساخت ایک زینے سے مشابہ ہے۔) کائنات میں کسی الماری میں موجود ہو۔میں نامعلوم خداؤں سے دعاگو ہوں کہ کوئی انسان، بے شک صرف ایک انسان ایسا ہو جس نے بیسیوں صدیاں پہلے احتیاط سے جانچ کر اُس کتاب کا مطالعہ کیا ہو۔اگر ایسے کسی مطالعے سے حاصل ہونے وا لی عزت، حکمت اور مسرت میری قسمت میں نہیں تو دوسروں کے لئے تو ہو۔جنت موجود ہونی چاہئے بھلے میرا ٹھکانہ جہنم ہو۔چاہے تعذیب، اذیت اور نیست و نابود ہونا میرا مقدر ٹھہرے مگر فقط ایک ساعت، ایک مخلوق ایسی ہو جس میں تیرا ضخیم و جسیم کتب خانہ اپنا جواز پا سکے۔
بےاعتقادوں کا دعوٰی ہے کہ کتب خانے کا قاعدہ ’’ معنی‘‘ نہیں بلکہ ’’بےمعنی‘‘ ہے اور معقولیت (یہاں تک کہ عاجز، خالص مطابقت) تقریباً معجزانہ استثناء ہے۔ مجھے علم ہے کہ وہ ’’ایک بے چین کتب خانے ‘‘ کےمتعلق بات کرتے ہیں ’’جس کی بے قاعدہ جلدیں مسلسل دوسری جلدوں کی ہئیت میں ڈھل جانے کی دھمکی دیتی رہتی ہیں تاکہ تمام اشیاء کا رد ّو اثبات کیا جا سکے اور انہیں درہم برہم ، منتشر اور مبہم کیا جا سکے، جیسے کوئی دیوانی اور پراگندہ الوہیت ہو۔‘‘ یہ الفاظ جو نہ صرف بے ترتیبی کو مشتہر کرتے بلکہ اس کی نظیر بھی پیش کرتے ہیں، بے اعتقادوں کے تأسف انگیز ذوق اور یاسیت انگیز جہالت کا بیّن ثبوت ہیں۔کیوں کہ کتب خانہ میں گو تمام لفظی ڈھانچے موجود ہیں، یعنی پچیس حروفی علامات کے تمام ممکنہ تغیرات، اس میں کوئی ایک بھی مطلقاً نامعقول نمونہ موجود نہیں۔یہ مشاہدہ بے معنی ہے کہ میری زیر نگرانی تمام مسدسوں میں موجود بہترین جلد کا عنوان ’’بل کھاتی گرج‘‘ ہے، یا ایک اور کا عنوان ’’پلستر زدہ شکنجہ‘‘ یا ایک اور ’’ایکساایکساایکساز ملو‘‘ ہے۔یہ عبارتیں جو کہ پہلی نظر میں مہمل لگتی ہیں بلا شک و شبہ ایک رمزی یا تمثیلی ’’مطالعہ‘‘ کا موضوع بن سکتی ہیں۔ وہ مطالعہ یعنی کہ لفظوں کی ترتیب اور وجود کا وہ جواز ، بذاتِ خود لفظی اور فرضی ہے اور کتب خانے کے اندر ہی کہیں موجود ہے۔حرفی علامتوں کی کوئی ممکنہ ترکیب مثلاً ’’دحکمرلکھتدج‘‘ تخلیق نہیں کی جا سکتی جو مقدس کتب خانے کی پیش بینی سے بعید ہو اور جو اپنے ایک یا ایک سے زیادہ خفیہ لہجوں میں کوئی ہولناک مفہوم نہ رکھتی ہو۔ایسا کوئی صوتی پیکر منہ سے نہیں اگلا جا سکتا جو نزاکت یا دہشت سے لبریز نہ ہو، جو ان میں سے کسی بھی زبان میں خدا کا اسمِ اعظم نہ ہو۔ بات کرنا ایسے ہی ہے جیسےتکرار معنی ۔یہ بے معنی لفّاظ مراسلہ پہلے ہی سے لاتعداد مسدسوں میں سے کسی ایک کی پانچ الماریوں میں رکھی گئی تیس میں سےکسی ایک جلدمیں موجود ہے۔(تمام ممکنہ زبانوں کی کوئی ایک تعداد ’’لا‘‘ یکساں ذخیرہء الفاظ پر مشتمل ہے۔ ان میں سے چند کے اندر علامت ’’کتب خانہ‘‘درست تعریف رکھتی ہے یعنی ’’ایک ہی وقت میں ہر جگہ موجود مسدس راہداریوں کا ایک لازوال نظام‘‘، جبکہ کتب خانہ ایک شے کی حیثیت میں روٹی کا ایک ٹکڑا ہے ، یا کوئی مقبرہ یا کچھ اور، اور وہ چھ حروف جو اس کی تعریف کرتے ہیں آ پ اپنی مزید تعریفیں رکھتے ہیں۔تم جو میری تحریر میں غوطہ زن ہو، کیا تمھیں یقین ہے کہ تم میری زبان سمجھتے ہو؟)
باضابطہ تصنیف نگاری میرا رخ انسانیت کی موجودہ حالت کی طرف سے پھیر دیتی ہے۔ یہ یقین کہ ہر چیز پہلے ہی ضابطہءتحریر میں لائی جا چکی ہے ہمیں موقوف کر دیتا ہے یا پھر محض ایک پیکرِ خیالی بنا چھوڑتا ہے۔مجھے ایسے اضلاع معلوم ہیں جہاں جوان لوگ کتابوں کے آگے سر بسجود ہیں اور گو کہ وہ ایک لفظ بھی پڑھنے سے قاصر ہیں، غیر مہذب وحشیوں کی طرح ان کے صفحات کو چومتے ہیں۔ وبائی امراض، ملحدانہ تنازعات، اور ناگزیر طور پر بگڑ کر قزّاقی میں ڈھل چکی زیارتیں، آبادی کو نابود کر چکی ہیں۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے خود کشیوں کا ذکر کیا تھا جو ہر سال پہلے سے زیادہ کثیرالوقوع ہوتی جاتی ہیں۔ شاید میں بڑھاپے اور خوف کے ہاتھوں بھٹک چکا ہوں مگر مجھے گمان ہے کہ بنی نوع انسان (اکلوتی نوع ) معدومی کے کنارے پر جھول رہی ہے اور فنا کے قریب ہے پھر بھی کتب خانہ — روشن خیال، خلوت پسند، لامتناہی، بدرجہء کامل غیر متحرک، قیمتی جلدوں سے لیس، بے معنی، ناقابل تحلیل اور خفیہ — ہمیشہ قائم رہے گا۔
میں نے صرف لفظ ’’لامتناہی ‘‘ لکھا ہے۔ میں نے یہ صفت محض خطیبانہ عادت کے زیر اثر استعمال نہیں کی، بلکہ میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ عالم کو لامتناہی سمجھنا غیر منطقی نہیں ہے۔ اس کو محدود جاننے والے یہ مفروضہ قائم کرتے ہیں کہ شایدکسی دور دراز مقام یا مقامات پر غلام گردشوں اور زینوں اور مسدسوں کا اختتام ممکن ہے ، جو کہ ناقابل تصور اور لایعنی ہے۔اور پھر بھی عالم کو لامحدود گرداننے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ممکنہ کتابوں کی تعداد لامحدود نہیں ہے۔میں جرأت مندی سے کام لیتے ہوئے اس قدیم مسئلے کا یہ حل تجویز کروں گا: کتب خانہ لامحدود مگر تکراری ہے۔ اگر ایک دائمی مسافر کسی بھی سمت میں سفر کرتا رہے تو وہ ناقابل ِبیان صدیوں کے بعد انہی جلدوں کو یکساں بے ترتیبی کے ساتھ دہراتے ہوئے پائے گا جو اس تسلسل کے باعث، ایک ترتیب ہے: ایک ترتیب۔ میری تنہائیاں اس حوصلہ افزا امید سے پر مسرت ہیں ۔( لیٹیزیا ایلواریز ڈی ٹولیڈو نے یہ مشاہدہ کیا کہ وسیع کتب خانہ بے معنی ہے، دقّت نظر سے کام لیں تو عام جسامت کی نو یا دس ٹائپ میں تحریر کردہ ایک جلد کافی ہے جو لامتناہی تعداد میں لامتناہی رقاقت کے حامل صفحات پر مشتمل ہو۔(سترھویں صدی کی اوائل میں کیویلیئری نے یہ دعوی کیا کہ ہر ٹھوس جسم لامتناہی مسطحات کا انطباق ہے۔)اس نفیس دستور العمل کااستعمال آسان نہیں ہے: ہر ظاہری صفحہ دوسرے اسی طرح کے صفحات میں کھلے گا اور ناقابل تصور وسطی صفحے کا کوئی ’’عقب‘‘ نہیں ہو گا۔)
پسِ تحریر: یوں تو بورخیس کی تمام تحریروں کی متعدد تعبیرات موجود ہیں لیکن ’’بابل کا کتب خانہ ‘‘ اس لئے ممتاز ہے کہ اس نے سائنس ، فلسفے، فلم اور آرٹ میں جا بجا اپنے تأثرات چھوڑے ہیں اور ثانوی نوعیت کے مستقل مباحث کو بھی جنم دیا ہے۔ ایک کہانی کی حیثیت میں اس کا موضوع بورخیس ہی کے مضمون ’’ کتب خانۂ کل (۱۹۳۹) The Total Library‘‘ سے ماخوذ ہے جس میں انہوں نے اس مضمون کا ابتدائی محرک جرمن کہانی نگار کرڈ لاسوٹز کی ۱۹۰۱ میں لکھی گئی ایک کہانی کو قرار دیا ہے۔بورخیس کے کہانیوں اور مضامین میں استعمال شدہ مخصوص تصورات جیسے کہ حقیقت، لامتناہیت، مذہبی نفسیات، سری استدلال (cabalistic reasoning) اور بھول بھلیاں وغیرہ اس کہانی میں بھی موجود ہیں۔
کتب خانے کے تصور کی کئی تعبیرات پیش کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً اسے کائنات کے ایک ایسے تصور کی تمثیل سمجھا جا سکتا ہے جو کروّی ہے اور جس کا مرکز ہر نقطہ ہے اور محیط لامتناہی۔ سترھویں صدی کے ماہر ریاضیات اور فلسفی بلز پاسکال (Blaise Pascal) نے کائنات کے لئے ایک ایسا استعارہ ہی استعمال کیا تھااور بورخیس نے اپنے کسی مضمون میں اس کا ذکر کیا ہے۔مزید برآں یہ تصور بھی وزن رکھتا ہے کہ ایک ایسے کتب خانہ میں کوئی کتاب موجود نہیں جس میں تمام ممکنہ کتابیں موجود ہوں اور بے ترتیبی سے رکھی ہوئی ہوں کیوں کہ ایسے کتب خانے سے کوئی معانی درآمد کرنا نظری طور پر ناممکن ہے۔ اس نظریہ کو بورخیس کے کئی شارحین نے مختلف کمپیوٹر پروگراموں کے ذریعے واضح کیا ہے۔کتب خانے کی ایک اور دلچسپ ترین جہت ریاضیات سے تعلق رکھتی ہے جس کے باب میں کچھ ریاضی دانوں نے کتب خانے کی کتابوں کا ایک تخمینہ لگانے کی کوشش کی ہے اور ان کے نزدیک اس کی ایک کتاب معلوم کائنات جتنی جگہ کا احاطہ کر لے گی۔ ایک لامتناہی کتب خانے سے کئی فلسفیانہ مسائل بھی جڑے ہیں۔ کانٹ (Kant) کے مطابق ذہن ہمارے حقیقت کے متعلق تجربے کو متشکل کرتا ہے لہٰذا قوائدِحقیقت ذہن سے تعلق رکھتے ہیں۔اگر ہم ان قواعد کو جان لیں تو ہم حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں۔اسی طرز پر چوں کہ کتب خانے کی ہر کتاب کی کنجی کسی دوسری کتاب میں ہے، لہٰذا’’ارغوانی مسدس‘‘ میں شاید کوئی ایسا ہی مجموعہ قوائد پوشیدہ ہے جو دوسری تمام مسدسوں میں موجود کتابوں کے لئے کنجیوں کا کام کر سکتا ہے۔کتب خانہ کو پورے طور پر سمجھناا صل میں حقیقتِ مطلق تک مکمل رسائی ہے اور اس کوشش کی نفسیاتی جہت یہ ہے کہ معلومات کا لامتناہی خزانہ اپنے اندر اتنی بے انتہا کشش رکھتا ہے کہ انسان اس جستجو میں کھو کر اپنی کتاب زندگی لکھنے سے قاصر رہتا ہے۔ کیوں کہ آخر جو بھی وہ لکھے گا وہ تو پہلے ہی اسے کسی نہ کسی مسدس کی کتاب الماری میں کہیں موجود ہے۔ایک تعبیر یہ بھی ہے کہ اگر ایک مصنف ارب ہا ارب سال کتب خانہ کی مختلف کتابو ں سے حروفی علامات جمع کرتا رہے تو آخرکار وہ متن تشکیل پا جائے گا جو اس کے تصور میں ہے۔ مزید ایک تعبیر وہ جوابی دلیل ہے جو خدا کی ہستی کے اثبات میں دلائل کے خلاف ڈیوڈ ہیوم (David Hume)نےایک فکری تجربے کے طور پر پیش کی ہے جس میں ایک اسی طرز کےفطری کتب خانے کا ذکر ہے۔آخر میں اس انوکھی تعبیر کا ذکر ضروری ہے جس کے مطابق کتب خانہ متناہی ہے کیوں کہ ہم نظری طور پر تاریخ میں ایک ایسی ساعت پر ضرور پہنچیں گے جب سب کچھ تحریر میں آ چکا ہو گا اور یہ کہ مورس علامتی نظام (Morse Code)اور ثنائی ضابطہ (Binary Code) کی ایجادات کے بعد پورا کتب خانہ صرف دو علامات یعنی نقطے اوروقفے کی مدد سے تعمیر کیا جا سکتا ہے اور کائنات کی ہر صداقت اور ہر قابل بیان شے انہیں دو نشانات کی مسلسل ترتیب بدلنے سے بیان کی جا سکتی ہے۔
خفیہ معجزہ
اورخدا نے اسے سو سال کے لئے موت دے دی
، پھر اسے زندہ کیا اور کہا: ’’تم یہاں کتنے دن رہے؟‘‘
’’ایک دن یا اس کا کچھ حصہ‘‘، اس نے جواب دیا۔
(القرآن:البقرۃ ،۲۵۹)
نامکمل ناٹک ’’دشمن‘‘، ایک کتاب’’ابدیت کا دفاع‘‘ اور جیکب بوہم کے بالواسطہ یہودی مآخذ پر مشتمل ایک مقالے کے مصنف جیرومیر ہلادک نے۱۴ مارچ، ۱۹۴۳ءکی رات پراگ کی ایک گلی زیلٹرنر گاسے کے ایک مکان میں خواب میں شطرنج کی ایک طویل بازی دیکھی۔کھلاڑی دو افراد نہ تھے بلکہ دو ممتاز خاندان، اور کھیل صدیوں سے جاری تھا۔ کسی کو نہیں یاد کہ کیا شرطیں باندھی گئیں، مگر وہ غیرمعمولی تھیں، شاید لامتناہی۔ مہرے اور بساط ایک خفیہ مینار میں موجود تھے۔جیرومیر(اپنے خواب میں) مقابلے میں مشغول ایک خاندان کا پہلا چشم و چراغ تھا۔گھڑی نے اگلی چال چلنے کا گھنٹہ بجایا جسے ملتوی نہیں کیا جا سکتا تھا۔خواب دیکھنے والا ایک بارانی صحرا میں سرپٹ بھاگتا چلا جا رہا تھا اور شطرنج کے مہرے اور کھیل کے قوانین فراموش کر چکا تھا۔اسی اثناء میں اس کی آنکھ کھل گئی۔ بارش اور ہولناک گھڑیوں کی جھنکار تھم گئی۔زیلٹرنرگاسے سے ایک ہم آہنگ، یکساں شور اٹھا جس میں وقفے وقفے سے احکامات کی صدائیں بھی شامل تھیں۔ یہ صبح کاذب کی گھڑی تھی اور نازی ٹینکوں کا ہراول دستہ پراگ میں داخل ہو رہا تھا۔
انیس تاریخ کو شہر کے حکام کو بین الاقوامی معاہدے کے کالعدم ہونے کی اطلاع دی گئی، اسی دن انیس ہی کی شام جیرومیر ہلادک کو گرفتار کر لیا گیا۔ اسے عفونتی مواد سے پاک کرنے کی ایک جگہ لے جایا گیا ، یہ دریائے ولٹاوا کے دوسرے کنارے پر واقع سفید بیرکیں تھیں۔وہ نازی خفیہ پولیس گسٹاپو کےلگائے ہوئے کسی بھی الزام کو رد نہیں کر سکا، اس کی ماں کا خاندانی نام جیروسلاوسکی تھا، وہ یہودی النسل تھا، اس کے مطالعۂ بوہم پر واضح یہودی اثرات تھے، آنشلوس (Anschluss) یعنی آسٹریا کے نازی جرمنی کے ساتھ جبری الحاق کے خلاف اس کے ایک سے زیادہ دستخط موجود تھے۔ ۱۹۲۸ میں اس نے ہرمن بارسڈورف نامی اشاعتی ادارے کے لئے یہودی عرفانی ادب کی اولین کتاب سفر یتزیرا (Sepher Yezirah) کا ترجمہ کیا ۔ اشاعتی ادارے کی ناگوار فہرست نے اشتہاری مقاصد کے لئے مترجم کی شہرت میں مبالغہ آرائی کی، اور فہرست کا معائنہ جولیس روتھ نامی ایک اہلکار نے کیا جس کے باتھ میں ہلادک کا مقدر تھا۔ اس کے اپنے شعبۂ تخصص سے باہر شاید ہی کوئی فرد ہو گا جو سریع الاعتقاد نہ ہو، فقط دو یا تین اسمائے صفات کا گوتھک طرزِ تحریر میں استعمال ہی جولیس روتھ کو ہلادک کی اہمیت جتانے کے لئے کافی تھا، اور اس نے دوسروں کو عبرت کی خاطر اسے موت کی سزا سنا دی۔ ۲۹ مارچ کو صبح نو بجے سزا پر عمل درآمد ہونا تھا۔اس تاخیر (جس کی اہمیت قاری کو بعد میں سمجھ آئے گی) کی وجہ یہ تھی کہ حکام سبزیوں اور پودوں کی طرز پر غیر شخصی انداز میں سست رفتاری سے آگے بڑھنا چاہتے تھے۔
ہلادک کا پہلا ردِعمل محض دہشت تھی۔وہ پھانسی کے تختے، (مذبح کے )پتھریا خنجر سے اتنا زیادہ خوفزدہ نہیں تھا مگر بندوقوں سے مسلح دستہ کی گولیوں کا سامنا ناقابلِ برداشت تھا۔بادلِ نخواستہ اس نے اپنے آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ خوف کی وجہ موت کا بس واقع ہوجانا تھا اس کےخاص حالات نہیں۔وہ تھکے بغیر سے یہ سب حالات تصور میں لاتا رہااور احمقانہ طور پران کےتمام ممکن تغیرات کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ یونہی بے خواب پڑا وہ صبح صادق سے لے کر اُس پراسرار شام کے ڈھلنے تک اپنے مرنے کے عمل کے متعلق پیش بینی کرتا رہا۔دن کے اختتام تک وہ ہندسی احتمالات سے متجاوز شکلوں اور زاویوں والے احاطوں میں جولیس روتھ کے ہاتھوں ہزاروں دفعہ مر چکا تھا۔ متعدد نئے نئے سپاہیوں کی گولیوں نے کبھی اسے کچھ فاصلے سے مارا اور کبھی قریب سے۔اس نے ان تخیلاتی سزاؤں کا سامنا حقیقی دہشت (شاید حقیقی دلیری سے بھی) سے کچھ اس طرح کیا کہ ہر شبیہ کا دورانیہ کچھ ہی سیکنڈ تھا۔جب یہ تخیلاتی دائرہ اختتام کو پہنچا تو جیرومیر ایک بار پھر، اور اس دفعہ ناقابلِ اختتام طور پر ،اپنی موت کی لرزاں گھڑیوں میں لوٹ آیا۔ پھر اس نے سوچا کہ حقیقت اوراس کے متعلق ہماری توقعات عمومی طور پر ایک دوسرے سے موافقت نہیں رکھتیں۔ اپنی خود ساختہ منطق کے ذریعے اس نے یہ استنباط کیا کہ کسی اتفاقی واقعہ کی پیش بینی اُس کو وقوع پذیر ہونے سے روک سکتی ہے۔ اِس کمزور طلسم پر انحصار کرتے ہوئے اُس نے خود اُنہیں واقعات کو وقوع پذیر ہونے سے روکنے کے لئے ہولناک ترین نئے واقعات ایجاد کئے۔ آخر کار فطری طور پر اسے یہ خدشہ تولاحق ہونا ہی تھا کہ یہ پیشین گوئیاں برحق ہیں ۔خستہ حال راتوں میں وہ وقت کے عارضی جوہر سے چمٹے رہنے کی جدوجہد کرتا رہا۔ اسے معلوم تھا کہ وقت انتیس تاریخ کا سورج طلوع ہونے کی جانب تیزی سے پیش قدمی کر رہا ہے۔اس نے بآوازِ بلند استدلال کیا:’’میں اِس وقت بائیس کی رات گزار رہا ہوں، جب تک یہ رات باقی ہے (اور چھ مزید راتیں) میں ناقابل تسخیر اور لافانی ہوں۔‘‘ شب خوابی کے اوقات اسے ایسے گہرے سیاہ تالاب محسوس ہوتے تھے جن میں وہ اپنا آپ غرقاب کر سکتا تھا۔ایسی ساعتیں بھی گزریں جب وہ گولی کی اس آخری آواز کا شدت سے منتظر تھا، جو اسے اچھے یا برے انجام سے قطع نظر، اپنے تخیلات کے لاحاصل جبر سے آزاد کر دے۔ اٹھائیسویں کی شام جب آخری غروبِ آفتاب سلاخیں لگی کھڑکیوں سے منعکس ہو رہا تھا، اپنے ڈرامے ’’دشمن‘‘ کے خیال نے اس کی توجہ ان پست حال تفکرات سے ہٹائی۔
ہلادک اپنی عمر کے چالیسویں سال میں تھا۔کچھ قربتوں اور کئی عادات سے قطع نظر، اس کی زندگی کا حاصل اد بی تجربات تھے۔ تمام لکھاریوں کی طرح اس کے نزدیک دوسروں کی کامیابیوں کا پیمانہ ان کے تکمیل یافتہ کارہائے نمایاں تھے ،جبکہ اپنے متعلق اس کا مطالبہ یہ تھا کہ کامیابی کا معیار اس کےتخیلاتی نقشوں اورمنصوبوں کو گردانا جائے۔ اس کی تمام چھپی ہوئی کتابوں نے اسے ندامت کے ایک پیچیدہ احساس سے دوچار کیا تھا۔اس کے ابراہیم ابن عذرا، بوہن اور رابرٹ فلڈ کے مطالعات کی نوعیت لازمی طور پر محض اطلاقی تھی، اوراس کا’’ سفر یتزیرا ‘‘ کا ترجمہ بے احتیاطی، کسل مندی اور ظن سے پُر تھا۔ ’’ابدیت کے دفاع‘‘ میں شاید کچھ کم خامیاں تھیں۔ جلد اول ابدیت کے متعلق مختلف انسانی تصورات کی تاریخ پر مشتمل تھی، اور پارمنیدس کی غیرمنقلب ہستی سے شروع ہو کر جیمز ہِنٹن کے قابلِ اصلاح ماضی پر تمام ہوتی تھی۔ دوسری جلد(فرانسس براڈلے کے ساتھ) اس قضیے کے رد پر مشتمل تھی کہ کائنات کے تمام واقعات ایک زمانی سلسلہ سے جڑے ہیں، اس استدلال کے ساتھ کہ ممکنہ انسانی تجربات کی تعداد لامتناہی نہیں ہے اور ایک واحد ’’تکرار‘‘ یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ زمان ایک مغالطہ ہے۔۔۔بدقسمتی سے وہ دلائل جو اس مغالطے کی وضاحت کرتے ہیں بدرجہ مساوی مغالطہ آمیز ہیں۔ایک حقارت آمیز تذبذب سےان دلائل کاجائزہ لینا ہلادک کی عادت تھی۔ اس نے کچھ اظہاریت پسند نظمیں بھی لکھیں تھیں، اور شاعر کے لئے یہ واقعہ باعث خجالت تھا کہ ۱۹۲۴ میں ایک منتخب شعراء کی ایک بیاض کا حصہ بننے کے بعد کسی بھی آنے والےمجموعے نے انہیں چھاپنے سے انکار کر دیا۔ہلادک کو امید تھی کہ اس کا منظوم ڈرامہ ’’دشمن‘‘ اس تمام غیر تسلی بخش اور بے کیف ماضی کی تلافی کر سکے گا۔(ہلادک کے خیال میں نظم کی صنف ناگزیر تھی کیوں کہ یہ تماشائیوں کی نگاہ ِ تخیل کو کمزور نہیں پڑنے دیتی ، جو فنون لطیفہ کا ایک ناگزیر امر ہے۔ )
اس ڈرامے کا موضوع زمان، مکان اور عمل کی اکائیوں کا مشاہدہ تھا۔ڈرامے کا پس منظر ہرادشانی (Hradčany) میں بارون فان روئمرشتادت کی لائبریری میں انیسویں صدی کی آخری دوپہروں میں سے ایک دوپہر تھی۔ پہلے سین کے پہلے ایکٹ میں ایک عجیب و غریب آدمی روئمرشتادت سے ملاقات کے لئے آتا ہے۔(ایک گھڑی پرسات بجنے والے ہیں ، ڈوبتے ہوئے سورج کی شعائیں پوری سر گرمی سے کھڑکیوں کو اپنے نور سے معمور کر رہی ہیں، ایک دل سوز، جانی پہچانی ہنگری کی دُھن سنائی دے رہی ہے۔) اس ملاقات کے بعد مزید ملاقاتی آنا شروع ہو جاتے ہیں، روئمرشتادت ان لوگوں کو نہیں جانتا جو اس سے ملنے آ رہے ہیں، مگر اس کو یہ بے چین کر دینے والا احساس ہے کہ اس نے انہیں پہلے کہیں دیکھا ہے، شاید کسی خواب میں۔ ویسے تو وہ اس کے سامنے ٹوڈی پن کا مظاہرہ کر تے ہیں ، مگر پہلے ناظرین ،او ربعد میں بارون پر یہ عیاں ہوجاتا ہے کہ وہ خفیہ دشمن ہیں جو اس کی تباہی کے لئے اکٹھے ہیں۔ روئمرشتادت ان کی چالوں کو روکنے اور ان کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ مکالمے میں اس کی محبوب جولیا فان ویڈیناؤ اور ایک آدمی جاروسلاو کیوبن کا ذکر ہوتا ہے جس نےماضی میں کبھی اس کی طرف اپنے التفات کا اظہار کیا تھا۔کیوبن اب اپنی یاداشت کھو چکا ہے اور اپنے آپ کو روئمرشتادت سمجھتا ہے۔خطرات بڑھتے جاتےہیں اور روئمرشتادت دوسرے ایکٹ کے اختتام پر سازشیوں میں سے ایک کو قتل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ تیسرے اور آخری ایکٹ کا آغاز ہوتا ہے۔ بےربطگیاں بتدریج بڑھتی جاتی ہیں، اداکار جو کھیل سے خارج ہو چکے ہیں ایک بار پھر ظاہر ہو جاتے ہیں، وہ آدمی جسے روئمرشتادت قتل کر چکا تھا ایک لمحے کے لئے واپس آ جاتا ہے۔ کوئی نشاندہی کرتا ہے کہ شام ابھی نہیں ڈھلی، گھڑی سات گا گھنٹہ بجاتی ہے، اونچی کھڑکیوں میں مغربی سورج لرزاں ہے، فضا ہنگری کی دھنوں سے لبریز ہے۔پہلا اداکار واپس نمودار ہوتا ہے اور پہلے سین کے اولین ایکٹ کی ادا کی گئی سطریں دہراتا ہے۔ روئمرشتاد ت کسی حیرت کے بغیر اس سے بات کرتا ہے۔ ناظرین سمجھ جاتے ہیں کہ روئمرشتادت اصل میں بے چارہ جاروسلاو کیوبن ہے۔ ڈرامہ تو کبھی پیش ہی نہیں کیا گیا، یہ تو وہ دائروی سراسیمگی کا عالم ہے جس میں کیوبن لاانتہا طور پر بار بار زندہ ہوتاہے۔
ہلادک نے کبھی خود سے یہ سوال نہیں کیا اس کی غلطیوں کا الم طربیہ مضحکہ خیز تھا یا قابلِ تعریف، سوچا سمجھا تھا یا بے سروپا۔اس نے محسوس کیا کہ یہ پورا خاکہ اس کی کوتاہیوں کو چھپانے اور قابلیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے بہترین طور پر بُنا گیا تھا، اور امکان تھا کہ وہ اپنی زندگی کے معانی کو (علامتی طور)دوبارہ حاصل کر سکے۔ اس نے پہلے ایکٹ اور تیسرےکے ایک یا دو سین کا اختتام کیا، شاعرانہ بحر کے باعث اس کے لئے یہ ممکن تھا کہ وہ مسودہ سامنے رکھے بغیربحر ِمسدس میں ردوبدل کی مددسے اپنا کام دہراتا رہے۔اس نے سوچا کہ اب بھی دو ایکٹ باقی ہیں اور وہ عنقریب مر جائے گا۔وہ اندھیرے میں خدا سے یوں گویا ہوا:’’اگر میں کسی طور موجود ہوں، اگر میں تیری تکرار یا غلطیوں میں سےایک نہیں ہوں، تو میری ہستی ’’دشمن‘‘ کے مصنف کی حیثیت ہے۔مجھے اس ڈرامے کے اختتام کے لئے جو میرا اور تیرا جواز ہے ایک سال مزید درکار ہے۔تو جس کی گرفت صدیوں اور زمان پر ہےمجھے یہ مدت بخش دے۔‘‘ یہ آخری رات تھی، سب سے زیادہ دہشت ناک، مگر دس منٹ بعد نیند گہرے سیاہ پانی کی طرح اسے اپنی آغوش میں لے چکی تھی۔
سحر کے قریب اس نے خواب دیکھا کہ وہ کتب خانۂ کلمانتین کے وسط میں بغلی راستوں کی بیچ چھپا بیٹھا ہے۔ ایک سیاہ شیشوں والی عینک پہنے کتابدار اس سے سوال کرتا ہے:’’تم کیا تلاش کر رہے ہو؟‘‘ ہلادک جوب دیتا ہے:’’میں خدا کی تلاش میں ہوں۔‘‘ کتابدار اس سے کہتا ہے:’’خدا کلمانتین میں موجود چار لاکھ جلدوں کے کسی ایک صفحے پر لکھا کوئی ایک حرف ہے۔ میرے آباؤ اجداد اور ان کے آباؤ اجداد اس حرف کو تلاش کرتے رہیں ہیں، میں اس کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے نابینا ہو چکا ہوں۔‘‘ وہ اپنی عینک اتار دیتا ہے اور ہلادک اس کی بجھی ہوئی آنکھیں دیکھ لیتا ہے۔اتنے میں ایک قاری ایک اطلس واپس کرنے آتا ہے۔ ’’یہ اطلس کسی کام کا نہیں،‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اسے ہلادک کو پکڑا دیتا ہے جو اسے ایسے ہی بے قاعدگی سے کسی بھی جگہ سے کھول لیتا ہے۔ اس کے سامنے ہندوستان کا نقشہ ہے اور حالت ایسی ہے جیسے اوسان خطا ہو گئے ہوں۔ پھر اچانک اس کی حالت سنبھلتی ہے اور وہ سب سے ننھے حرف کو چھوتا ہے۔ سارے میں چھائی ہوئی ایک آواز اس سےکہتی ہے:’’تمہاری محنت کی مدت تمہیں عطا کی جاتی ہے۔‘‘ اسی وقت ہلادک کی آنکھ کھل گئی۔
اسے یاد آیا کہ انسانوں کے خواب خدا کی ملکیت ہوتے ہیں، اور یہ کہ موسی بن میمون نے لکھا ہے کہ خواب میں سنے گئے الفاظ، اگر وہ واضح اور غیرمبہم ہوں اور ان کا بولنے والا نہ دیکھا جا سکے،تو وہ ملکوتی ہوتے ہیں۔اس نے کپڑے پہنے، دو سپاہی اس کی کوٹھڑی میں داخل ہوئے اور اسے اپنے ساتھ چلنے کا حکم دیا۔
دروازے کے پیچھے سے ہلادک گزرگاہوں، زینوں اور مختلف عمارتوں پر مشتمل بھول بھلیوں کی خیالی تصویریں بُنتا رہا۔ مگر حقیقت کم شاندار تھی: وہ تنگ آہنی زینوں سے ہوتے ہوئےایک اندرونی عدالتی احاطے میں پہنچے۔ کئی سپاہی ،جن میں سے کچھ کی وردیوں کے بٹن کھلےتھے، ایک موٹر سائیکل کا معائنہ کر تے ہوئے آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔ حوالدار نے گھڑی کی جانب دیکھا، آٹھ بج کر چوالیس منٹ ہو رہے تھے۔ انہیں نو بجے کا انتظار تھا۔ہلادک جس کی حالت قابلِ ترس ہونے سے زیادہ غیر اہم تھی لکڑی کے ایک ڈھیر پر بیٹھ گیا۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ سپاہیوں کی آنکھیں اس سے نظر چُرا رہی ہیں۔ انتظار کی گھڑیاں آسان کرنے کے لئے حوالدار نے اسے ایک سگریٹ دیا۔ہلادک سگریٹ نہیں پیتا تھا مگر عاجزی اور شائستگی کی خاطر قبول کر لیا۔ سگریٹ سلگاتے وقت اس نے مشاہدہ کیا کہ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ آسمان پربادل چھا رہے ، سپاہی اس طرح سرگوشیوں میں بات کر رہے تھے جیسے وہ پہلے ہی مر چکا ہو۔اس نے اس عورت کو یاد کرنے کی ایک لاحاصل کوشش کی جس کی علامت جولیا ویڈیناؤ تھی۔
دستہ تشکیل ہوا اور ہوشیار کھڑا ہو گیا۔ بیرک کی دیوار کے ساتھ لگے ہوئے ہلادک گولیوں کی بوچھاڑ کا انتظار کرتا رہا۔ کسی نے نشاندہی کی کہ دیوار خون کی دھبوں سے آلودہ ہو جائے گی اور مجرم کو چند قدم آگے ہونے کا حکم دے دیا گیا۔اس ساری بے سروپائی میں ہلادک کو فوٹوگرافروں کی ناتجربہ کار تیاریاں یاد آ گئیں۔ بارش کا ایک بڑا قطرہ ہلادک کی پیشانی پر ٹپکا اور پھسلتے ہوئے آہستہ آہستہ گال تک آ پہنچا۔ حوالدار نے چلا کر آخری حکم دیا۔
طبعی کائنات ساکن ہو گئی۔
بندوقوں کی نالیاں ہلادک کی سمت ہو گئیں، مگر جو آدمی اسے قتل کرنے پر مامور تھے وہ ساکت رہے۔ حوالدار کا بازو ابدی طور پر معلق حالت میں تھا۔صحن کے پختہ فرش پر ایک مکھی کا غیر متغیر سایہ پڑ رہا تھا۔ہوا تھم چکی تھی جیسے کسی تصویر میں ہو۔ہلادک نے چیخنے کی کوشش کی، ایک لفظ، ہاتھ کی ایک حرکت۔ اس احساس ہوا کہ وہ مفلوج ہو چکا ہے۔ ساکن کائنات سے کوئی صدا بھی اس تک نہیں پہنچ رہی تھی۔اس نے سوچا:’’میں جہنم میں ہوں، میں مر چکا ہوں۔‘‘ اس نے سوچا:’’میں پاگل ہو چکا ہوں۔‘‘ اس نے سوچا:’’وقت تھم چکا ہے۔‘‘ پھر اس نے غور کیا کہ اگر ایسا ہوتا تو اس کا ذہن بھی کام کرنا چھوڑ دیتا۔وہ اسے پرکھنا چاہتا تھا، اس نے ورجل کےپراسرار چوتھے قصیدۃ رعویۃ (Eclogue) کو ہونٹ ہلائے بغیر دہرانا شروع کیا۔اس نے تصور کیا کہ اب دور کھڑے سپاہی بھی اس کی پریشانی میں حصہ دار ہیں، وہ ان سے تبادلۂ خیالات کرنا چاہتا تھا۔ تھکن کے قلیل ترین احساس ،یہاں تک کے حرکت کی غیرموجودگی میں اعضاء کا سُن تک نہ ہونا، اس کے لئے حیران کن تھا۔ کچھ غیرمتعین وقت کے بعد اس کی آنکھ لگ گئی۔ جب وہ اٹھا تو کائنات بدستور ساکن اور گنگ تھی۔ پانی کا قطرہ اب بھی اس کی گال سے چپکا ہوا تھا، اور مکھی کا سایہ فرش سے۔سگریٹ کا دھواں جو اس نے اگلا تھا ابھی تک فضا میں منتشر نہیں ہوا تھا۔ہلادک کے سمجھنے سے پہلے ہی ایک اور ’’دن‘‘ گزر گیا۔
اس نے خدا سے التجا کی تھی کہ اپنا کام ختم کرنے کے لئے ایک سال دیا جائے، قدرت مطلقہ نے اسے یہ مدت عطا کی۔ خدا نے اس کی خاطر ایک خفیہ معجزے کا اہتمام کیا، اس نے مقررہ گھنٹے پر جرمن سیسے کے ہاتھوں مرنا تھا، مگر اس کے ذہن میں حکم اور اس کی تعمیل کے درمیان ایک سال نے گزرنا تھا۔وہ اضطراب کی کیفیت سے سکتے کی حالت میں پہنچا، سکتے سے تسلیم و رضا اوردستبرداری، اور دستبرداری سے ایک اچانک تشکر کی کیفیت۔
اپنی یاداشت کے سوا اس کے پاس کوئی دستاویز نہ تھا۔ ہر اضافی بحرِ مسدس کے ساتھ حاصل کردہ تربیت نے اسے ایک ایسا نظم و ضبط بخشا تھا جو ان کے گمان سے باہر تھا جو عارضی ، نامکمل عبارات کو فراموش کرنے کا قصد کرتے ہیں۔اس کی محنت اپنی آنے والی نسل کی خاطر نہ تھی، نہ ہی خدا کے لئے جس کے ادبی ذوق سے وہ ناواقف تھا۔بہت ہی باریک بین، بے حرکت اور خفیہ طریقےپر اس نے اپنی پُرشوکت اور غیر مرئی بھول بھلیاں تخلیق کی تھیں۔ تیسرے ایکٹ پر اس نے دو بار کام کیا۔ اس نے کچھ علامات کو ضرورت سے زیادہ واضح سمجھتے ہوئے حذف کر دیا تھا، جیسے گھڑیال کا بار بار بجنا اور موسیقی۔ اسے کوئی عجلت نہیں تھی۔اس نے استخراج کیا، تلخیص کی اور وضاحت کی۔ کچھ معاملات میں وہ اصل کی طرف لوٹ آیا۔وہ صحن اور بیرکوں میں ایک اپناپن محسوس کرنے لگا، اپنے سامنے موجود چہروں میں سے ایک نے اس کے ذہن میں موجود روئمرشتادت کے تصور کو بدل دیا۔ اس نے دریافت کیا کہ وہ تھکا دینے والا کریہہ الصوتی شور جس نے فلوبیر کو اتنا پریشان کیا تھاز بان کے ذریعے ادا کئے گئے لفظ کی بجائے محض تحریر شدہ لفظ کے بصری توہمات، کمزوریاں اور حدود تھیں۔۔۔اس نے اپنے ڈرامے کا اختتام کر دیا۔ اب اس کے سامنے صرف ایک واحد عبارت کا مسئلہ تھا۔وہ اسے مل گئی۔ پانی کا قطرہ اس کے گال سے نیچے پھسلا۔اس نے ایک دل دہلا دینے والی چیخ ماری اور منہ کھولا، اپنے چہرے کو حرکت دی اور ایک چوگنا دھماکے کے آواز کے ساتھ ہی زمین پرگر پڑا۔
جیرومیرہلادک کا انتقال انتیس مارچ کی صبح نو بج کر دو منٹ پر ہوا۔
(جاری ہے۔۔۔)
(ترجمہ و تبصرہ: عاصم بخشی)
بین الاقوامی ادب کے شائقین جانتے ہیں کہ بورخیس کے موضوعات معانی کا ایک سمندر ہیں اور وہ تاریخ، اساطیر، فلسفہ، مذہب اور ریاضی وغیرہ سے تصورات مستعار لیتے ہوئے عمومی طور پر طلسماتی حقیقت نگاری (magical realism) کی ادبی روایت میں کہانی اور کردار تخلیق کرتے ہیں۔ادبی نقادوں کے نزدیک ان کی شاعری اسپینوزا(Spinoza) اور ورجل (Vergil)سے ایک مسلسل مکالمہ ہے۔ وجودیاتی فلسفے میں بورخسی معمّہ (Borgesian Conundrum) ان سے منسوب ہے جو یہ سوال اٹھاتا ہے کہ آیا ادیب کہانی تخلیق کرتا ہے یا پھر کہانی اسے تخلیق کرتی ہے؟ مگر معانی کے اس سمندر میں ایک قاری کی حیثیت سے غواصی ایک مترجم کی رسائی سے کہیں مختلف ہے۔ محمد حسن عسکری نے ترجمے کے باب میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ترجمہ بعینہٖ ایک دوسری روایت کی ترجمانی شاید ہی کر سکتا ہے لہٰذا وہ اصل کی نسبت ایک اور تخلیق کو جنم دیتا ہے اور کم سے کم درجے میں اسے اس نئی روایت میں کچھ نہ کچھ تو بن ہی جانا چاہئے۔ میری ناقص رائے میں یہ پیش کش بورخیس کی طلسماتی حقیقت نگاری کو پہلے سے موجود بہت سی کوششوں کے ساتھ اردو روایت میں کچھ نہ کچھ بنانے کی ایک اوراپنی سی کوشش ہے۔(عاصم بخشی)
بابل کا کتب خانہ
اس فن کے ذریعے تم تئیس حروف کے تغیرات پر غور کر سکتے ہو۔۔۔۔( تشریح ِافسردہ خیالی از رابرٹ برٹن)
کائنات (جسے دوسرے کتب خانہ کہتے ہیں) ایک لاتعداد بلکہ شاید لامتناہی گردشی راہداریوں پر مشتمل ہے۔ہر راہداری کے وسط میں ایک ہوادان ہے جو ایک پست احاطے پر ختم ہوتا ہے۔کسی بھی مسدس سے اوپر اور نیچے جاتی یکے بعد دیگرے لا انتہامنزلیں دیکھی جا سکتی ہیں۔راہداریوں کی ترتیب ہمیشہ سے یکساں ہے: کتابوں کی بیس الماریاں، مسدس کی چھ اطراف میں چوتھی قطار کے ہر طرف پانچ ، الماریوں کی اونچائی زمین تا چھت ایک عام کتاب دان کے قد سے شاید کچھ ہی زیادہ۔ مسدس کے آزاد اضلاع میں سے ایک ضلع تنگ سی ڈیوڑھی میں کھلتا ہے، جو ایک اور راہداری میں کھلتی ہے جو بعینہ پہلی ، بلکہ ہر ایک جیسی ہے۔ڈیوڑھی کے دائیں اوربائیں دو ننھی سی کوٹھڑیاں ہیں۔ ایک سونے کے لئے، بالکل سیدھے اور دوسری رفع حاجت کیلئے۔یہاں سے بھی ایک مرغولہ نما زینہ گزرتا ہے جو اوپر نیچےدور تک چکر کھاتا چلا جاتا ہے۔ڈیوڑھی میں ایک آئینہ وفاداری سے تمام منظر کی عکاسی کرتا ہے۔انسان اکثر اس آیئنے سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کتب خانہ لامتناہی نہیں کیونکہ اگر وہ ایسا ہوتا تو اِس پُر فریب عکاسی کی کیا ضرورت ؟ میں اس تصور کو ترجیح دیتا ہوں کہ صیقل سطحیں لامتناہیت کا خاکہ اور امید ہیں۔۔۔روشنی کچھ ایسے کرّوی پھلوں سے فراہم کی جاتی ہے جنہیں ’’بلب‘‘ کہتےہیں۔ ہر مسدس میں ایسے دو بلب آرپار آویزاں ہیں۔ ان کی فراہم کردہ روشنی ناکافی اور دائمی ہے۔
کتب خانے کے تمام باشندوں کی طرح میں نے بھی اپنی جوانی میں سفر کیا۔ میں کتاب کی تلاش میں منزلوں پر منزلیں،یا شاید فہرستوں پر فہرستیں طے کرتا رہا۔ اب جب کہ میری آنکھیں میری اپنی تحریر بھی بمشکل پڑھ سکتی ہیں ، میں اس مسدس سے، جو میری جائے پیدائش ہے، کچھ ہی کوس دور مرنےکی تیاری کر رہا ہوں۔میری موت واقع ہونے پر ہمدرد ہاتھ مجھے احاطے سے نیچے پھینک دیں گے، اتھاہ ہوا میرا مقبرہ ہو گی، میرا جسم زمانوں ڈوبتا رہے گا اور آخر کار میرے گرنے سے وجود میں آتی لامتناہی ہوا میں گل سڑ کے گھل جائے گا۔ میں اعلان کرتا ہوں کہ کتب خانہ بے انت ہے۔مثالیت پسندوں کا دعوٰی ہے کہ مسدس کمرے مکان ِ مطلق کی ناگزیر صورت ہیں یا کم از کم ہمارے ادراکِ مکان کی۔ان کا دعوٰی یہ ہے کہ ایک تکون یا مخمس کمرہ ناقابل تصور ہے۔ (عارفوں کا دعویٰ ہے کہ ان کا وجد ایک دائری کمرے کا وجودو افشا کرتا ہے جس میں ایک ضخیم گول کتاب موجود ہے جوجس کا مسلسل پشتہ دیواروں کے دائرے کا چکر مکمل کرتاہے ۔مگر ان کی شہادت مشتبہ ہے اور ان کےالفاظ مبہم۔یہ دائرو ی کتاب خدا ہے۔) ایک لمحے کے لئے اس مستند اظہار پر اکتفا ءکیجئے جسے میں یوں دہراتا ہوں: کتب خانہ ایک کرّہ ہے جس کا مرکز کوئی بھی مسدس ہے اور جس کا محیط ناقابلِ رسائی۔
ہرایک مسدس کی ہر دیوار پانچ کتابی الماریوں سے مزین ہے، ہر کتابی الماری میں یکساں وضع کی بتیس کتابیں موجود ہیں، ہر کتاب کے چار سو دس صفحات ہیں، ہر صفحہ پر چالیس سطریں اور ہر سطر میں تقریباً اسی سیاہ حروف۔ ہر کتاب کے سرورق پر بھی حروف کندہ ہیں۔ یہ حروف نہ تو نشاندہی کرتے ہیں اور نہ ہی یہ بتاتے ہیں کہ اندر کے صفحات میں کیا ہے۔مجھے علم ہے کہ تبادلہ و ابلاغ کا فقدان کبھی انسانوں کو پر اسرار لگتا تھا۔ اس راز کے حل کا خلاصہ پیش کرنے سے قبل (جس کی دریافت المناک نتائج کے باوجود شاید تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے) میں کچھ بدیہی مسلمات دہرانا چاہتا ہوں۔
اول: کتب خانہ ازل سے موجود ہے۔یہ صداقت جس کا لازمی نتیجہ دنیا کی آنے والی ابدیت ہےکوئی معقول ذہن نہیں جھٹلا سکتا۔انسان، ایک غیر کامل کتابدار، یاتوشاید اتفاقات کا حاصل یا پھر بد باطن دیوتاؤں کی تخلیق ہوسکتا ہے ، مگر کائنات اپنی شاندار ترتیب ، یعنی اپنی کتابی الماریوں، چیستانی کتب،مسافر کے لئے اپنے بے تکان زینوں، اور براجمان کتابدار کے لئے اپنی آبی طہارت گاہوں کے ساتھ ، کسی خدا ہی کی صناعی ہو سکتی ہے۔ اگر انسان اور ہستئ مطلق کے درمیان فاصلے کو ذہن کی گرفت میں لانا مقصود ہو تو صرف ان تھرتھراتی ہوئی خام علامتوں کا موازنہ کرلیجئے جنہیں میرے مائل بہ خطا ہاتھ بدخطی سے ایک کتاب کے سرورق پر لکھ رہے ہیں جس کے اندر نامیاتی حروف موجودہیں، صاف ستھرے، نازک، گہرے سیاہ اور بے نظیر تناسب کے ساتھ۔
دوم: ابجدی علامات پچیس ہیں(اصل مسودے میں نہ تو اعداد ہیں اور نہ ہی حروف جلی، رموز اوقاف واوین اور وقفوں تک محدود ہیں۔یہ دو نشانات، فاصلہ اور بایئس حروف ابجد وہ پچیس علامات ہیں جن کی طرف ہمارا نامعلوم مصنف اشارہ کر رہا ہے۔مدیر)۔تین سو سال قبل اس دریافت نے انسانیت کو ایک عمومی نظریہ ء کتب خانہ تشکیل دینے کے قابل کیا اور اس طرح اس پہیلی کو حل کر دیا جس کا بھید آج تک کوئی قیاسی مفروضہ نہ کھول سکا تھا یعنی تقریبا تمام کتب کی ایک بے شکل اور منتشر ہئیت۔ایک کتاب جسے ایک دفعہ میرے والد نے ۹۴۔۱۵ نمبر گردش کی ایک مسدس میں دیکھا تھا صرف حروف’’ م۔ک۔و ‘‘ پر مشتمل تھی جو پہلی سے آخری سطر تک کج روی سے دہرائے گئے تھے۔ایک اور (جس سے اس حلقے میں کافی راہنمائی لی جاتی ہے) فقط حروف کی بھول بھلیوں پر مشتمل ہے جس کےآخری سے پہلے صفحے پر یہ عبارت درج ہے: ’’اے وقت تیرے مزار‘‘۔اتنا معلوم ہے کہ ہر معقول سطر یا بے باک بیان کے عوض بے معنی کریہہ الصوتی، لفظی لغویات اور بے ربطی کے مجموعے ہیں۔(میں ایک ایسے نیم وحشی حلقے سے باخبرہوں جہاں کے کتابدار کتابوں میں مفہوم تلاش کرنے کی ’’بے ثمر اور ضعیف الاعتقاد‘‘ عادت کو مسترد کرتے ہیں اور ایسی کسی بھی جستجو کو خوابوں اور کسی ہاتھ کی منتشر لکیروں میں معانی ڈھونڈنے کے برابر سمجھتے ہیں۔وہ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ تحریر کے موجدین نے پچیس فطری علامات کی نقل کی مگر ان کا دعوٰی ہے کہ اپنانے کا یہ عمل بے سبب اور اتفاقیہ تھا اور یہ کہ کتابیں فی نفسہٖ معانی نہیں رکھتیں۔یہ دلیل جیسا کہ ہم دیکھیں گے مکمل طور پر مغالطہ آمیز نہیں ہے۔)
کئی سال تک یہ مانا جاتا رہا کہ یہ ناقابل نفوذ کتابیں قدیمی یا دوردراز کی زبانوں میں ہیں۔یہ سچ ہے کہ کئی قدیم لوگ یعنی کہ اولین کتابدار ہماری رائج بولی سے بہت مختلف زبان استعمال کرتے تھے، یہ بھی سچ ہے کہ یہاں سے کچھ کوس دائیں ہماری زبان لہجوں میں ڈھلنا شروع ہو جاتی ہے اور نوے منزلیں اوپر یہ بالکل ناقابل فہم ہو جاتی ہے۔میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ یہ سب سچ ہے لیکن چار سو دس غیر متغیر ’’ م۔ک۔و ‘‘ کسی بھی زبان سے تعلق نہیں رکھ سکتے، چاہےلہجہ کتنا ہی مختلف یا غیر متمدن کیوں نہ ہو۔کچھ لوگوں کی تجویز یہ ہے ہر حرف اگلے پر اثر ڈالتا ہے اور ’’ م۔ک۔و ‘‘ کی جو قیمت صفحہ ۷۱سطر۳ پر ہے وہ کسی اور صفحہ اور سطر پر اسی سلسلے کی قیمت سے مختلف ہے، مگر یہ مبہم نظریہ کچھ زیادہ مقبول نہیں ہو سکا۔ اس کے برعکس دوسروں نے کسی خفیہ لغت کا امکان ظاہر کیا ہے اور یہ قیاسی مفروضہ بالاتفاق تسلیم کر لیا گیا ہے، گو اس تاثر میں نہیں جس میں اس کے بانیوں نے اولین تشکیل کی تھی۔
لگ بھگ پانچ صد سال قبل کسی مسدس ِبالا(قدیم وقتوں میں ہر تین مسدسوں کی جگہ ایک آدمی تھا۔ خود کشی اور پھیپھڑوں کے امراض نے اس تناسب کو بگاڑ کے رکھ دیا۔ایک ناگفتہ بہ پر ملال یاداشت: میں نے بعض اوقات ایک بھی کتابدار سے مڈبھیڑ ہوئے بغیر، لمبی غلام گردشوں اور صیقل زینوں کے سفرمیں راتیں گزاریں ہیں۔) کے ایک مہتمم کے ہاتھ ایک ایسی کتاب لگی جو باقیوں کی طرح گڈ مڈ توتھی مگر اس کے تقریباً دو صفحات یکساں سطروں پر مشتمل تھے۔اس نے اپنی یہ دریافت ایک رمز شناس مسافر کو دکھلائی جس کی رائے میں وہ سطریں پرتگالی زبان میں تحریر کردہ تھیں، کچھ دوسروں نے کہا کہ یہ یہودی زبان تھی۔ایک صدی کے اندر ہی ماہرین یہ متعین کر دیا کہ وہ زبان اصل میں کونسی تھی: کلاسیکی عربی کی تصریف کے ساتھ گوارانی کا ایک سامویائی لیتھوانی لہجہ(ارجنٹائن کے ایک صوبے میں بولی جانے والی ایک جنوبی امریکی زبان۔)۔اس کے ساتھ ہی مشمولات کا تعین بھی کر دیا گیا: لا انتہا متواتر تغیرات کی مثالوں سے مزین مبادیء علم اتصال۔ان مثالوں کی مدد سے ایک نابغہ کتابدارنے کتب خانے کا بنیادی قانون دریافت کر لیا۔اِس فلسفی نے مشاہدہ کیا کہ تمام کتب چاہے وہ ایک دوسرے سے کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہوں یکساں عناصر پر مشتمل ہیں: فاصلہ، وقفہ ، علامتِ وقف اور ابجد کے بائیس حروف۔اس نے مفروضے کے طور یہ واقعہ بھی پیش کیا جس کی توثیق اس دن سے تمام مسافر کرتے آئے ہیں: سارے کتب خانہ میں کوئی دو کتابیں ایک جیسی نہیں ہیں۔ ان غیر متنازعہ مقدمات سے کتابدار نے یہ نتیجہ نکالا کہ کتب خانہ ’’کل‘‘یعنی بے عیب ، مکمل اور پورا ہے ، اور اس کی کتابی الماریاں بائیس (ایک ایسا عدد جو ناقابل تصورہونے کے باوجود لامتناہی نہیں ہے ) حروفی علامات کی تمام ممکنہ ترکیبوں پر مشتمل ہیں، یعنی وہ سب کچھ جو ہر ایک زبان میں قابلِ بیان ہے۔سب کچھ۔۔۔مستقبل کی تفصیلی تاریخ، رؤسائے ملائکہ کی سوانح، کتب خانہ کی قابل ِ اعتماد اور ہزاروں ناقابل ِ اعتماد فہرستیں، ان ناقابلِ اعتماد فہرستوں کے کذب کے ثبوت، درست فہرست کے کذب کا ایک ثبوت، اسکندریہ کے مدرس باسیلیدی (Basilides)سے منسوب غناسطی انجیل(Gnostic Gospel)، اس انجیل کی شرح، اس شرح کے حواشی، آپ کی موت کی سچی کہانی، ہر کتاب کا ہر ایک زبان میں ترجمہ، ہر ایک کتاب کا باقی تمام کتب میں ادراج، سیکسن اقوام کی اساطیری روایت سے متعلق وہ رسالہ جو سینٹ بیڈ(Saint Bede) لکھ سکتا تھا (مگر اس نے نہ لکھا)، رومن مؤرخ تیکیطوس کی گمشدہ کتابیں۔
جب یہ اعلان کیا گیا کہ کتب خانے میں ہر کتاب پائی جاتی ہے تو پہلا ردعمل بے پایاں مسرت کا تھا۔ لوگوں نے اپنے آپ کو ایک محفوظ اور خفیہ خزانے کا مالک سمجھا۔ایسا کوئی انفرادی یا اجتماعی مسئلہ نہ تھا جس کا فصیح و بلیغ حل کہیں کسی مسدس میں نہ پایا جاتا۔ کائنات کا جواز مل گیا، وہ یک لخت انسانی آدرشوں کے غیر محدود طول و عرض سے موافق ٹھہری۔اس وقت ایک ’’مجموعہ برأت‘‘ کا ذکر زبان زدِ عام تھا یعنی غیب گوئی اور بریت کی وہ کتب جو آنے والے ہر زمانے کے لئے کائنات کے ہر انسان کو بری قرار دیں۔انسانوں کے مستقبل کے واسطے یہ ایک حیرت انگیز اکسیرِ اعظم تھا۔ ہزاروں حریص افراد ، اپنی اپنی’’ کتاب برأت‘‘ کو تلاش کرنے کی ایک لاحاصل خواہش سے مغلوب، اپنے پر سکون مسدس چھوڑ کر بالائی اور زیریں منزلوں کی طرف بھاگے۔یہ زائرین تنگ غلام گردشوں میں ایک دوسرے سے جھگڑتے، بدترین لعنتیں بڑبڑاتے، مقدس زینوں میں ایک دوسر ے کا گلا گھونٹتے، پُر فریب جلدیں ہوا دانوں سے نیچے پھینکتے، دور دراز علاقوں کے انسانوں کے ہاتھوں اپنی موت سے جاملے۔ دوسرے اپنے حواس کھو بیٹھے۔۔۔۔’’مجموعہ برأت‘‘ موجود ہے (میں نے اس میں شامل دو کتابیں دیکھی ہیں جومستقبل کے دو ایسےافراد کا ذکر کرتی ہیں جو شاید فرضی نہیں ہیں) مگر اس کی کھوج میں نکلنے والے مہم جو یہ بھلابیٹھے کہ انسان کے ہاتھ اس کی اپنی ’’کتاب برأت‘‘ یا اس کی کسی جعلی نقل لگ جانے کا امکان صفر تھا۔
اسی زمانے میں یہ امید بھی قائم تھی کہ بنی نوع انسان کے بنیادی اسرار یعنی کتب خانہ اور زمان کی ابتداء بھی شاید ظاہر ہو جائیں۔آثار قوی ہیں کہ یہ عمیق راز واقعتاً الفاظ میں بیان کئے جا سکیں ۔ اگر اس کے لئے فلاسفہ کی زبان کافی نہ ہو توعظیم الہیئت کتب خانے نے یقیناً ایسی کسی غیر معمولی زبان کو بمع اس کی لغت اور قواعد کےجنم ضرور دیا ہوگا۔ چار صدیاں لوگ پھرتی کے ساتھ مسدسوں کے چکر کاٹتے رہے۔۔۔سرکاری’’تفتیش کار‘‘ آج بھی موجود ہیں۔ میں نے انہیں اپنے کام میں مصروف دیکھا ہے: وہ تھکے ہارے ، ایک زینے کی بابت بڑبڑاتےہوئے جس نے چند سیڑھیاں نہ ہونے کے باعث انہیں قریباً مارڈالا کسی مسدس پر پہنچتے ہیں ، کتابدار سے احاطوں اور زینوں کے بارے میں بات چیت میں مشغول رہتے ہیں، اور کبھی کبھار کوئی قریبی کتاب اٹھا کر شرمناک اور ذلت آمیز الفاظ ڈھونڈنے کی نیت سے ورق گردانی کر لیتے ہیں۔ ظاہر ہے کوئی ان سے کسی دریافت کی امید نہیں رکھتا۔
اس بے لگام امید کے بعد فطری طور پر ایک ویسی ہی غیر متناسب مایوسی نے آلیا۔ یہ یقین کہ کہیں کسی مسدس میں کوئی کتابی الماری قیمتی کتابوں پر مشتمل ہے مگر ان قیمتی کتابوں تک رسائی دائماً ناممکن ، تقریباً ناقابل برداشت تھا۔ ایک گستاخانہ فرقے نے تجویز دی کہ تلاش ترک کر دی جائے اور تمام لوگ حروف اور علامات کی ترتیب بدلتے رہیں یہاں تک کہ وہ تفویض کردہ کتابیں حادثاتی طور پر متشکل ہو جائیں۔حکام کو سخت احکامات صادر کرنے پڑے۔فرقہ تو معدوم ہو گیا مگر میں نے اپنے بچپن میں دھاتی طبق اور پانسے کی ڈبیا لئے کئی بوڑھے آدمیوں کو بیت الخلاء میں چھپے، خدائی بے ترتیبی کی دھیمی نقالی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
دوسروں نے بالکل الٹ سمت اپناتے ہوئے یہ سوچا کہ پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ تمام بے مصرف کتابوں کو تلف کر دیا جائے۔وہ مسدسوں پر آ دھمکتے، اپنے وثیقہء تقرر دکھاتے جو ہمیشہ غلط نہیں ہوتے تھے، نفرت سے ایک جلد کے صفحے پلٹتے اور کتابوں کی پوری دیوار کے خلاف فیصلہ صادر کر دیتے۔لاکھوں جلدوں کا احمقانہ ضیاع انہی کے صحت بخش اور زاہدانہ طیش کا مرہونِ منت ہے۔ان کا نام آج مطعون ہے مگر وہ جو ان ’’خزانوں‘‘ کی اس جنونی تباہی کے غم میں الم زدہ ہیں، دو عمومی طور پر تسلیم شدہ واقعات سے صرفِ نظر کرتے ہیں: اول کہ کتب خانہ اتنا وسیع ہے کہ انسانی ہاتھوں کسی بھی قسم کی کمی بے وقعت ہے۔اور دوم یہ کہ گو ہر کتاب بے مثل اور بے بدل ہے، لیکن (چوں کہ کتب خانہ کل ہے) ہمیشہ کچھ لاکھ ناقص ہو بہو نقلیں موجود ہوتی ہیں جو اصل سے ایک حرف یا ایک علامت وقف سے زیادہ مختلف نہیں۔ عمومی رائے کے باوجود میں یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہوں کہ ’’مخلصین‘‘ کی غارت گری کےاثرات میں مبالغہ کی وجہ وہ دہشت ہے جو انہی جنونیوں کا فیضان ہے۔ایک مقدس اشتیاق سے متحرک وہ اس کوشش میں سرگرم تھے کسی دن انتھک کوشش سے وہ’’ ارغوانی مسدس ‘‘ کی کتابوں تک پہنچ جائیں گے یعنی قدرتی کتابوں سے چھوٹی ، قادرِ مطلق، منقش اور طلسماتی کتابیں۔
ہمیں اس زمانے کی ایک اور ضعیف الاعتقادی کا بھی علم ہے یعنی ایک ’’کتابی انسان‘‘ نامی ہستی پر اعتقاد۔یہ مفروضہ پیش کیا گیا کسی مسدس کی کسی الماری میں کہیں ایک کتاب ایسی ہونی چاہیئے جو بقیہ تمام کتابوں کی کنجی اور بے عیب تلخیص ہو اور کسی کتابدار نے ضرور اس کا معائنہ کیا ہو گا۔ یہ کتابدار خدا کا مثیل مانا جاتا تھا۔اس حلقے کی زبان میں آج بھی اس فرقے کی سراغ مل جاتے ہیں جو اس دور دراز کتابدار کو پوجتا تھا۔کئی لوگ اس کی تلاش میں نکلے ۔پورے سو سال لوگوں نےلاحاصل تلاش میں ہر ممکن راستے اور ہر ایک راستے کی خاک چھانی۔ کسی ایسی مقدس خفیہ مسدس کو کوئی کیسے تلاش کر سکتا ہے جس نے متلاشی ہی کو اوٹ دے رکھی ہو؟کچھ نے تلاش کے لئے بتدریج تنزلی کا طریقہ تجویز کیا: کتاب’’ الف‘‘ تلاش کرنے کے لئے پہلے کتاب ’’ب‘‘ سے رجوع کیا جائے جو کتاب’’ الف‘‘ تک راہنمائی کرے، کتاب’’ب‘‘ تلاش کرنے کے لئے پہلے کتاب ’’ج‘‘ سے رجوع کیا جائے، اور اس طرح لاانتہا۔۔۔اسی قسم کے جوکھم ہیں جن میں پراگندہ حال ، میں نےاپنے ماہ و سال صرف کئے۔میں اسے خلاف قیاس نہیں سمجھتا کہ ایسی کو ئی’’کل کتاب‘‘(میں دہراتا ہوں: ایک کتاب کے موجود ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ ممکن ہو۔ صرف ناممکن مستثنٰی ہے۔مثال کے طور پر کوئی کتاب ایسی نہیں جو زینہ بھی ہو گو بے شک ایسی کتابیں موجود ہیں جو اس امکان کے بارے میں بحث کرتی ہیں اوراس کا رد و اثبات کرتی ہیں ، علاوہ ازیں دوسری ہیں جن کی ساخت ایک زینے سے مشابہ ہے۔) کائنات میں کسی الماری میں موجود ہو۔میں نامعلوم خداؤں سے دعاگو ہوں کہ کوئی انسان، بے شک صرف ایک انسان ایسا ہو جس نے بیسیوں صدیاں پہلے احتیاط سے جانچ کر اُس کتاب کا مطالعہ کیا ہو۔اگر ایسے کسی مطالعے سے حاصل ہونے وا لی عزت، حکمت اور مسرت میری قسمت میں نہیں تو دوسروں کے لئے تو ہو۔جنت موجود ہونی چاہئے بھلے میرا ٹھکانہ جہنم ہو۔چاہے تعذیب، اذیت اور نیست و نابود ہونا میرا مقدر ٹھہرے مگر فقط ایک ساعت، ایک مخلوق ایسی ہو جس میں تیرا ضخیم و جسیم کتب خانہ اپنا جواز پا سکے۔
بےاعتقادوں کا دعوٰی ہے کہ کتب خانے کا قاعدہ ’’ معنی‘‘ نہیں بلکہ ’’بےمعنی‘‘ ہے اور معقولیت (یہاں تک کہ عاجز، خالص مطابقت) تقریباً معجزانہ استثناء ہے۔ مجھے علم ہے کہ وہ ’’ایک بے چین کتب خانے ‘‘ کےمتعلق بات کرتے ہیں ’’جس کی بے قاعدہ جلدیں مسلسل دوسری جلدوں کی ہئیت میں ڈھل جانے کی دھمکی دیتی رہتی ہیں تاکہ تمام اشیاء کا رد ّو اثبات کیا جا سکے اور انہیں درہم برہم ، منتشر اور مبہم کیا جا سکے، جیسے کوئی دیوانی اور پراگندہ الوہیت ہو۔‘‘ یہ الفاظ جو نہ صرف بے ترتیبی کو مشتہر کرتے بلکہ اس کی نظیر بھی پیش کرتے ہیں، بے اعتقادوں کے تأسف انگیز ذوق اور یاسیت انگیز جہالت کا بیّن ثبوت ہیں۔کیوں کہ کتب خانہ میں گو تمام لفظی ڈھانچے موجود ہیں، یعنی پچیس حروفی علامات کے تمام ممکنہ تغیرات، اس میں کوئی ایک بھی مطلقاً نامعقول نمونہ موجود نہیں۔یہ مشاہدہ بے معنی ہے کہ میری زیر نگرانی تمام مسدسوں میں موجود بہترین جلد کا عنوان ’’بل کھاتی گرج‘‘ ہے، یا ایک اور کا عنوان ’’پلستر زدہ شکنجہ‘‘ یا ایک اور ’’ایکساایکساایکساز ملو‘‘ ہے۔یہ عبارتیں جو کہ پہلی نظر میں مہمل لگتی ہیں بلا شک و شبہ ایک رمزی یا تمثیلی ’’مطالعہ‘‘ کا موضوع بن سکتی ہیں۔ وہ مطالعہ یعنی کہ لفظوں کی ترتیب اور وجود کا وہ جواز ، بذاتِ خود لفظی اور فرضی ہے اور کتب خانے کے اندر ہی کہیں موجود ہے۔حرفی علامتوں کی کوئی ممکنہ ترکیب مثلاً ’’دحکمرلکھتدج‘‘ تخلیق نہیں کی جا سکتی جو مقدس کتب خانے کی پیش بینی سے بعید ہو اور جو اپنے ایک یا ایک سے زیادہ خفیہ لہجوں میں کوئی ہولناک مفہوم نہ رکھتی ہو۔ایسا کوئی صوتی پیکر منہ سے نہیں اگلا جا سکتا جو نزاکت یا دہشت سے لبریز نہ ہو، جو ان میں سے کسی بھی زبان میں خدا کا اسمِ اعظم نہ ہو۔ بات کرنا ایسے ہی ہے جیسےتکرار معنی ۔یہ بے معنی لفّاظ مراسلہ پہلے ہی سے لاتعداد مسدسوں میں سے کسی ایک کی پانچ الماریوں میں رکھی گئی تیس میں سےکسی ایک جلدمیں موجود ہے۔(تمام ممکنہ زبانوں کی کوئی ایک تعداد ’’لا‘‘ یکساں ذخیرہء الفاظ پر مشتمل ہے۔ ان میں سے چند کے اندر علامت ’’کتب خانہ‘‘درست تعریف رکھتی ہے یعنی ’’ایک ہی وقت میں ہر جگہ موجود مسدس راہداریوں کا ایک لازوال نظام‘‘، جبکہ کتب خانہ ایک شے کی حیثیت میں روٹی کا ایک ٹکڑا ہے ، یا کوئی مقبرہ یا کچھ اور، اور وہ چھ حروف جو اس کی تعریف کرتے ہیں آ پ اپنی مزید تعریفیں رکھتے ہیں۔تم جو میری تحریر میں غوطہ زن ہو، کیا تمھیں یقین ہے کہ تم میری زبان سمجھتے ہو؟)
باضابطہ تصنیف نگاری میرا رخ انسانیت کی موجودہ حالت کی طرف سے پھیر دیتی ہے۔ یہ یقین کہ ہر چیز پہلے ہی ضابطہءتحریر میں لائی جا چکی ہے ہمیں موقوف کر دیتا ہے یا پھر محض ایک پیکرِ خیالی بنا چھوڑتا ہے۔مجھے ایسے اضلاع معلوم ہیں جہاں جوان لوگ کتابوں کے آگے سر بسجود ہیں اور گو کہ وہ ایک لفظ بھی پڑھنے سے قاصر ہیں، غیر مہذب وحشیوں کی طرح ان کے صفحات کو چومتے ہیں۔ وبائی امراض، ملحدانہ تنازعات، اور ناگزیر طور پر بگڑ کر قزّاقی میں ڈھل چکی زیارتیں، آبادی کو نابود کر چکی ہیں۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے خود کشیوں کا ذکر کیا تھا جو ہر سال پہلے سے زیادہ کثیرالوقوع ہوتی جاتی ہیں۔ شاید میں بڑھاپے اور خوف کے ہاتھوں بھٹک چکا ہوں مگر مجھے گمان ہے کہ بنی نوع انسان (اکلوتی نوع ) معدومی کے کنارے پر جھول رہی ہے اور فنا کے قریب ہے پھر بھی کتب خانہ — روشن خیال، خلوت پسند، لامتناہی، بدرجہء کامل غیر متحرک، قیمتی جلدوں سے لیس، بے معنی، ناقابل تحلیل اور خفیہ — ہمیشہ قائم رہے گا۔
میں نے صرف لفظ ’’لامتناہی ‘‘ لکھا ہے۔ میں نے یہ صفت محض خطیبانہ عادت کے زیر اثر استعمال نہیں کی، بلکہ میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ عالم کو لامتناہی سمجھنا غیر منطقی نہیں ہے۔ اس کو محدود جاننے والے یہ مفروضہ قائم کرتے ہیں کہ شایدکسی دور دراز مقام یا مقامات پر غلام گردشوں اور زینوں اور مسدسوں کا اختتام ممکن ہے ، جو کہ ناقابل تصور اور لایعنی ہے۔اور پھر بھی عالم کو لامحدود گرداننے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ممکنہ کتابوں کی تعداد لامحدود نہیں ہے۔میں جرأت مندی سے کام لیتے ہوئے اس قدیم مسئلے کا یہ حل تجویز کروں گا: کتب خانہ لامحدود مگر تکراری ہے۔ اگر ایک دائمی مسافر کسی بھی سمت میں سفر کرتا رہے تو وہ ناقابل ِبیان صدیوں کے بعد انہی جلدوں کو یکساں بے ترتیبی کے ساتھ دہراتے ہوئے پائے گا جو اس تسلسل کے باعث، ایک ترتیب ہے: ایک ترتیب۔ میری تنہائیاں اس حوصلہ افزا امید سے پر مسرت ہیں ۔( لیٹیزیا ایلواریز ڈی ٹولیڈو نے یہ مشاہدہ کیا کہ وسیع کتب خانہ بے معنی ہے، دقّت نظر سے کام لیں تو عام جسامت کی نو یا دس ٹائپ میں تحریر کردہ ایک جلد کافی ہے جو لامتناہی تعداد میں لامتناہی رقاقت کے حامل صفحات پر مشتمل ہو۔(سترھویں صدی کی اوائل میں کیویلیئری نے یہ دعوی کیا کہ ہر ٹھوس جسم لامتناہی مسطحات کا انطباق ہے۔)اس نفیس دستور العمل کااستعمال آسان نہیں ہے: ہر ظاہری صفحہ دوسرے اسی طرح کے صفحات میں کھلے گا اور ناقابل تصور وسطی صفحے کا کوئی ’’عقب‘‘ نہیں ہو گا۔)
پسِ تحریر: یوں تو بورخیس کی تمام تحریروں کی متعدد تعبیرات موجود ہیں لیکن ’’بابل کا کتب خانہ ‘‘ اس لئے ممتاز ہے کہ اس نے سائنس ، فلسفے، فلم اور آرٹ میں جا بجا اپنے تأثرات چھوڑے ہیں اور ثانوی نوعیت کے مستقل مباحث کو بھی جنم دیا ہے۔ ایک کہانی کی حیثیت میں اس کا موضوع بورخیس ہی کے مضمون ’’ کتب خانۂ کل (۱۹۳۹) The Total Library‘‘ سے ماخوذ ہے جس میں انہوں نے اس مضمون کا ابتدائی محرک جرمن کہانی نگار کرڈ لاسوٹز کی ۱۹۰۱ میں لکھی گئی ایک کہانی کو قرار دیا ہے۔بورخیس کے کہانیوں اور مضامین میں استعمال شدہ مخصوص تصورات جیسے کہ حقیقت، لامتناہیت، مذہبی نفسیات، سری استدلال (cabalistic reasoning) اور بھول بھلیاں وغیرہ اس کہانی میں بھی موجود ہیں۔
کتب خانے کے تصور کی کئی تعبیرات پیش کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً اسے کائنات کے ایک ایسے تصور کی تمثیل سمجھا جا سکتا ہے جو کروّی ہے اور جس کا مرکز ہر نقطہ ہے اور محیط لامتناہی۔ سترھویں صدی کے ماہر ریاضیات اور فلسفی بلز پاسکال (Blaise Pascal) نے کائنات کے لئے ایک ایسا استعارہ ہی استعمال کیا تھااور بورخیس نے اپنے کسی مضمون میں اس کا ذکر کیا ہے۔مزید برآں یہ تصور بھی وزن رکھتا ہے کہ ایک ایسے کتب خانہ میں کوئی کتاب موجود نہیں جس میں تمام ممکنہ کتابیں موجود ہوں اور بے ترتیبی سے رکھی ہوئی ہوں کیوں کہ ایسے کتب خانے سے کوئی معانی درآمد کرنا نظری طور پر ناممکن ہے۔ اس نظریہ کو بورخیس کے کئی شارحین نے مختلف کمپیوٹر پروگراموں کے ذریعے واضح کیا ہے۔کتب خانے کی ایک اور دلچسپ ترین جہت ریاضیات سے تعلق رکھتی ہے جس کے باب میں کچھ ریاضی دانوں نے کتب خانے کی کتابوں کا ایک تخمینہ لگانے کی کوشش کی ہے اور ان کے نزدیک اس کی ایک کتاب معلوم کائنات جتنی جگہ کا احاطہ کر لے گی۔ ایک لامتناہی کتب خانے سے کئی فلسفیانہ مسائل بھی جڑے ہیں۔ کانٹ (Kant) کے مطابق ذہن ہمارے حقیقت کے متعلق تجربے کو متشکل کرتا ہے لہٰذا قوائدِحقیقت ذہن سے تعلق رکھتے ہیں۔اگر ہم ان قواعد کو جان لیں تو ہم حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں۔اسی طرز پر چوں کہ کتب خانے کی ہر کتاب کی کنجی کسی دوسری کتاب میں ہے، لہٰذا’’ارغوانی مسدس‘‘ میں شاید کوئی ایسا ہی مجموعہ قوائد پوشیدہ ہے جو دوسری تمام مسدسوں میں موجود کتابوں کے لئے کنجیوں کا کام کر سکتا ہے۔کتب خانہ کو پورے طور پر سمجھناا صل میں حقیقتِ مطلق تک مکمل رسائی ہے اور اس کوشش کی نفسیاتی جہت یہ ہے کہ معلومات کا لامتناہی خزانہ اپنے اندر اتنی بے انتہا کشش رکھتا ہے کہ انسان اس جستجو میں کھو کر اپنی کتاب زندگی لکھنے سے قاصر رہتا ہے۔ کیوں کہ آخر جو بھی وہ لکھے گا وہ تو پہلے ہی اسے کسی نہ کسی مسدس کی کتاب الماری میں کہیں موجود ہے۔ایک تعبیر یہ بھی ہے کہ اگر ایک مصنف ارب ہا ارب سال کتب خانہ کی مختلف کتابو ں سے حروفی علامات جمع کرتا رہے تو آخرکار وہ متن تشکیل پا جائے گا جو اس کے تصور میں ہے۔ مزید ایک تعبیر وہ جوابی دلیل ہے جو خدا کی ہستی کے اثبات میں دلائل کے خلاف ڈیوڈ ہیوم (David Hume)نےایک فکری تجربے کے طور پر پیش کی ہے جس میں ایک اسی طرز کےفطری کتب خانے کا ذکر ہے۔آخر میں اس انوکھی تعبیر کا ذکر ضروری ہے جس کے مطابق کتب خانہ متناہی ہے کیوں کہ ہم نظری طور پر تاریخ میں ایک ایسی ساعت پر ضرور پہنچیں گے جب سب کچھ تحریر میں آ چکا ہو گا اور یہ کہ مورس علامتی نظام (Morse Code)اور ثنائی ضابطہ (Binary Code) کی ایجادات کے بعد پورا کتب خانہ صرف دو علامات یعنی نقطے اوروقفے کی مدد سے تعمیر کیا جا سکتا ہے اور کائنات کی ہر صداقت اور ہر قابل بیان شے انہیں دو نشانات کی مسلسل ترتیب بدلنے سے بیان کی جا سکتی ہے۔
خفیہ معجزہ
اورخدا نے اسے سو سال کے لئے موت دے دی
، پھر اسے زندہ کیا اور کہا: ’’تم یہاں کتنے دن رہے؟‘‘
’’ایک دن یا اس کا کچھ حصہ‘‘، اس نے جواب دیا۔
(القرآن:البقرۃ ،۲۵۹)
نامکمل ناٹک ’’دشمن‘‘، ایک کتاب’’ابدیت کا دفاع‘‘ اور جیکب بوہم کے بالواسطہ یہودی مآخذ پر مشتمل ایک مقالے کے مصنف جیرومیر ہلادک نے۱۴ مارچ، ۱۹۴۳ءکی رات پراگ کی ایک گلی زیلٹرنر گاسے کے ایک مکان میں خواب میں شطرنج کی ایک طویل بازی دیکھی۔کھلاڑی دو افراد نہ تھے بلکہ دو ممتاز خاندان، اور کھیل صدیوں سے جاری تھا۔ کسی کو نہیں یاد کہ کیا شرطیں باندھی گئیں، مگر وہ غیرمعمولی تھیں، شاید لامتناہی۔ مہرے اور بساط ایک خفیہ مینار میں موجود تھے۔جیرومیر(اپنے خواب میں) مقابلے میں مشغول ایک خاندان کا پہلا چشم و چراغ تھا۔گھڑی نے اگلی چال چلنے کا گھنٹہ بجایا جسے ملتوی نہیں کیا جا سکتا تھا۔خواب دیکھنے والا ایک بارانی صحرا میں سرپٹ بھاگتا چلا جا رہا تھا اور شطرنج کے مہرے اور کھیل کے قوانین فراموش کر چکا تھا۔اسی اثناء میں اس کی آنکھ کھل گئی۔ بارش اور ہولناک گھڑیوں کی جھنکار تھم گئی۔زیلٹرنرگاسے سے ایک ہم آہنگ، یکساں شور اٹھا جس میں وقفے وقفے سے احکامات کی صدائیں بھی شامل تھیں۔ یہ صبح کاذب کی گھڑی تھی اور نازی ٹینکوں کا ہراول دستہ پراگ میں داخل ہو رہا تھا۔
انیس تاریخ کو شہر کے حکام کو بین الاقوامی معاہدے کے کالعدم ہونے کی اطلاع دی گئی، اسی دن انیس ہی کی شام جیرومیر ہلادک کو گرفتار کر لیا گیا۔ اسے عفونتی مواد سے پاک کرنے کی ایک جگہ لے جایا گیا ، یہ دریائے ولٹاوا کے دوسرے کنارے پر واقع سفید بیرکیں تھیں۔وہ نازی خفیہ پولیس گسٹاپو کےلگائے ہوئے کسی بھی الزام کو رد نہیں کر سکا، اس کی ماں کا خاندانی نام جیروسلاوسکی تھا، وہ یہودی النسل تھا، اس کے مطالعۂ بوہم پر واضح یہودی اثرات تھے، آنشلوس (Anschluss) یعنی آسٹریا کے نازی جرمنی کے ساتھ جبری الحاق کے خلاف اس کے ایک سے زیادہ دستخط موجود تھے۔ ۱۹۲۸ میں اس نے ہرمن بارسڈورف نامی اشاعتی ادارے کے لئے یہودی عرفانی ادب کی اولین کتاب سفر یتزیرا (Sepher Yezirah) کا ترجمہ کیا ۔ اشاعتی ادارے کی ناگوار فہرست نے اشتہاری مقاصد کے لئے مترجم کی شہرت میں مبالغہ آرائی کی، اور فہرست کا معائنہ جولیس روتھ نامی ایک اہلکار نے کیا جس کے باتھ میں ہلادک کا مقدر تھا۔ اس کے اپنے شعبۂ تخصص سے باہر شاید ہی کوئی فرد ہو گا جو سریع الاعتقاد نہ ہو، فقط دو یا تین اسمائے صفات کا گوتھک طرزِ تحریر میں استعمال ہی جولیس روتھ کو ہلادک کی اہمیت جتانے کے لئے کافی تھا، اور اس نے دوسروں کو عبرت کی خاطر اسے موت کی سزا سنا دی۔ ۲۹ مارچ کو صبح نو بجے سزا پر عمل درآمد ہونا تھا۔اس تاخیر (جس کی اہمیت قاری کو بعد میں سمجھ آئے گی) کی وجہ یہ تھی کہ حکام سبزیوں اور پودوں کی طرز پر غیر شخصی انداز میں سست رفتاری سے آگے بڑھنا چاہتے تھے۔
ہلادک کا پہلا ردِعمل محض دہشت تھی۔وہ پھانسی کے تختے، (مذبح کے )پتھریا خنجر سے اتنا زیادہ خوفزدہ نہیں تھا مگر بندوقوں سے مسلح دستہ کی گولیوں کا سامنا ناقابلِ برداشت تھا۔بادلِ نخواستہ اس نے اپنے آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ خوف کی وجہ موت کا بس واقع ہوجانا تھا اس کےخاص حالات نہیں۔وہ تھکے بغیر سے یہ سب حالات تصور میں لاتا رہااور احمقانہ طور پران کےتمام ممکن تغیرات کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ یونہی بے خواب پڑا وہ صبح صادق سے لے کر اُس پراسرار شام کے ڈھلنے تک اپنے مرنے کے عمل کے متعلق پیش بینی کرتا رہا۔دن کے اختتام تک وہ ہندسی احتمالات سے متجاوز شکلوں اور زاویوں والے احاطوں میں جولیس روتھ کے ہاتھوں ہزاروں دفعہ مر چکا تھا۔ متعدد نئے نئے سپاہیوں کی گولیوں نے کبھی اسے کچھ فاصلے سے مارا اور کبھی قریب سے۔اس نے ان تخیلاتی سزاؤں کا سامنا حقیقی دہشت (شاید حقیقی دلیری سے بھی) سے کچھ اس طرح کیا کہ ہر شبیہ کا دورانیہ کچھ ہی سیکنڈ تھا۔جب یہ تخیلاتی دائرہ اختتام کو پہنچا تو جیرومیر ایک بار پھر، اور اس دفعہ ناقابلِ اختتام طور پر ،اپنی موت کی لرزاں گھڑیوں میں لوٹ آیا۔ پھر اس نے سوچا کہ حقیقت اوراس کے متعلق ہماری توقعات عمومی طور پر ایک دوسرے سے موافقت نہیں رکھتیں۔ اپنی خود ساختہ منطق کے ذریعے اس نے یہ استنباط کیا کہ کسی اتفاقی واقعہ کی پیش بینی اُس کو وقوع پذیر ہونے سے روک سکتی ہے۔ اِس کمزور طلسم پر انحصار کرتے ہوئے اُس نے خود اُنہیں واقعات کو وقوع پذیر ہونے سے روکنے کے لئے ہولناک ترین نئے واقعات ایجاد کئے۔ آخر کار فطری طور پر اسے یہ خدشہ تولاحق ہونا ہی تھا کہ یہ پیشین گوئیاں برحق ہیں ۔خستہ حال راتوں میں وہ وقت کے عارضی جوہر سے چمٹے رہنے کی جدوجہد کرتا رہا۔ اسے معلوم تھا کہ وقت انتیس تاریخ کا سورج طلوع ہونے کی جانب تیزی سے پیش قدمی کر رہا ہے۔اس نے بآوازِ بلند استدلال کیا:’’میں اِس وقت بائیس کی رات گزار رہا ہوں، جب تک یہ رات باقی ہے (اور چھ مزید راتیں) میں ناقابل تسخیر اور لافانی ہوں۔‘‘ شب خوابی کے اوقات اسے ایسے گہرے سیاہ تالاب محسوس ہوتے تھے جن میں وہ اپنا آپ غرقاب کر سکتا تھا۔ایسی ساعتیں بھی گزریں جب وہ گولی کی اس آخری آواز کا شدت سے منتظر تھا، جو اسے اچھے یا برے انجام سے قطع نظر، اپنے تخیلات کے لاحاصل جبر سے آزاد کر دے۔ اٹھائیسویں کی شام جب آخری غروبِ آفتاب سلاخیں لگی کھڑکیوں سے منعکس ہو رہا تھا، اپنے ڈرامے ’’دشمن‘‘ کے خیال نے اس کی توجہ ان پست حال تفکرات سے ہٹائی۔
ہلادک اپنی عمر کے چالیسویں سال میں تھا۔کچھ قربتوں اور کئی عادات سے قطع نظر، اس کی زندگی کا حاصل اد بی تجربات تھے۔ تمام لکھاریوں کی طرح اس کے نزدیک دوسروں کی کامیابیوں کا پیمانہ ان کے تکمیل یافتہ کارہائے نمایاں تھے ،جبکہ اپنے متعلق اس کا مطالبہ یہ تھا کہ کامیابی کا معیار اس کےتخیلاتی نقشوں اورمنصوبوں کو گردانا جائے۔ اس کی تمام چھپی ہوئی کتابوں نے اسے ندامت کے ایک پیچیدہ احساس سے دوچار کیا تھا۔اس کے ابراہیم ابن عذرا، بوہن اور رابرٹ فلڈ کے مطالعات کی نوعیت لازمی طور پر محض اطلاقی تھی، اوراس کا’’ سفر یتزیرا ‘‘ کا ترجمہ بے احتیاطی، کسل مندی اور ظن سے پُر تھا۔ ’’ابدیت کے دفاع‘‘ میں شاید کچھ کم خامیاں تھیں۔ جلد اول ابدیت کے متعلق مختلف انسانی تصورات کی تاریخ پر مشتمل تھی، اور پارمنیدس کی غیرمنقلب ہستی سے شروع ہو کر جیمز ہِنٹن کے قابلِ اصلاح ماضی پر تمام ہوتی تھی۔ دوسری جلد(فرانسس براڈلے کے ساتھ) اس قضیے کے رد پر مشتمل تھی کہ کائنات کے تمام واقعات ایک زمانی سلسلہ سے جڑے ہیں، اس استدلال کے ساتھ کہ ممکنہ انسانی تجربات کی تعداد لامتناہی نہیں ہے اور ایک واحد ’’تکرار‘‘ یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ زمان ایک مغالطہ ہے۔۔۔بدقسمتی سے وہ دلائل جو اس مغالطے کی وضاحت کرتے ہیں بدرجہ مساوی مغالطہ آمیز ہیں۔ایک حقارت آمیز تذبذب سےان دلائل کاجائزہ لینا ہلادک کی عادت تھی۔ اس نے کچھ اظہاریت پسند نظمیں بھی لکھیں تھیں، اور شاعر کے لئے یہ واقعہ باعث خجالت تھا کہ ۱۹۲۴ میں ایک منتخب شعراء کی ایک بیاض کا حصہ بننے کے بعد کسی بھی آنے والےمجموعے نے انہیں چھاپنے سے انکار کر دیا۔ہلادک کو امید تھی کہ اس کا منظوم ڈرامہ ’’دشمن‘‘ اس تمام غیر تسلی بخش اور بے کیف ماضی کی تلافی کر سکے گا۔(ہلادک کے خیال میں نظم کی صنف ناگزیر تھی کیوں کہ یہ تماشائیوں کی نگاہ ِ تخیل کو کمزور نہیں پڑنے دیتی ، جو فنون لطیفہ کا ایک ناگزیر امر ہے۔ )
اس ڈرامے کا موضوع زمان، مکان اور عمل کی اکائیوں کا مشاہدہ تھا۔ڈرامے کا پس منظر ہرادشانی (Hradčany) میں بارون فان روئمرشتادت کی لائبریری میں انیسویں صدی کی آخری دوپہروں میں سے ایک دوپہر تھی۔ پہلے سین کے پہلے ایکٹ میں ایک عجیب و غریب آدمی روئمرشتادت سے ملاقات کے لئے آتا ہے۔(ایک گھڑی پرسات بجنے والے ہیں ، ڈوبتے ہوئے سورج کی شعائیں پوری سر گرمی سے کھڑکیوں کو اپنے نور سے معمور کر رہی ہیں، ایک دل سوز، جانی پہچانی ہنگری کی دُھن سنائی دے رہی ہے۔) اس ملاقات کے بعد مزید ملاقاتی آنا شروع ہو جاتے ہیں، روئمرشتادت ان لوگوں کو نہیں جانتا جو اس سے ملنے آ رہے ہیں، مگر اس کو یہ بے چین کر دینے والا احساس ہے کہ اس نے انہیں پہلے کہیں دیکھا ہے، شاید کسی خواب میں۔ ویسے تو وہ اس کے سامنے ٹوڈی پن کا مظاہرہ کر تے ہیں ، مگر پہلے ناظرین ،او ربعد میں بارون پر یہ عیاں ہوجاتا ہے کہ وہ خفیہ دشمن ہیں جو اس کی تباہی کے لئے اکٹھے ہیں۔ روئمرشتادت ان کی چالوں کو روکنے اور ان کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ مکالمے میں اس کی محبوب جولیا فان ویڈیناؤ اور ایک آدمی جاروسلاو کیوبن کا ذکر ہوتا ہے جس نےماضی میں کبھی اس کی طرف اپنے التفات کا اظہار کیا تھا۔کیوبن اب اپنی یاداشت کھو چکا ہے اور اپنے آپ کو روئمرشتادت سمجھتا ہے۔خطرات بڑھتے جاتےہیں اور روئمرشتادت دوسرے ایکٹ کے اختتام پر سازشیوں میں سے ایک کو قتل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ تیسرے اور آخری ایکٹ کا آغاز ہوتا ہے۔ بےربطگیاں بتدریج بڑھتی جاتی ہیں، اداکار جو کھیل سے خارج ہو چکے ہیں ایک بار پھر ظاہر ہو جاتے ہیں، وہ آدمی جسے روئمرشتادت قتل کر چکا تھا ایک لمحے کے لئے واپس آ جاتا ہے۔ کوئی نشاندہی کرتا ہے کہ شام ابھی نہیں ڈھلی، گھڑی سات گا گھنٹہ بجاتی ہے، اونچی کھڑکیوں میں مغربی سورج لرزاں ہے، فضا ہنگری کی دھنوں سے لبریز ہے۔پہلا اداکار واپس نمودار ہوتا ہے اور پہلے سین کے اولین ایکٹ کی ادا کی گئی سطریں دہراتا ہے۔ روئمرشتاد ت کسی حیرت کے بغیر اس سے بات کرتا ہے۔ ناظرین سمجھ جاتے ہیں کہ روئمرشتادت اصل میں بے چارہ جاروسلاو کیوبن ہے۔ ڈرامہ تو کبھی پیش ہی نہیں کیا گیا، یہ تو وہ دائروی سراسیمگی کا عالم ہے جس میں کیوبن لاانتہا طور پر بار بار زندہ ہوتاہے۔
ہلادک نے کبھی خود سے یہ سوال نہیں کیا اس کی غلطیوں کا الم طربیہ مضحکہ خیز تھا یا قابلِ تعریف، سوچا سمجھا تھا یا بے سروپا۔اس نے محسوس کیا کہ یہ پورا خاکہ اس کی کوتاہیوں کو چھپانے اور قابلیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے بہترین طور پر بُنا گیا تھا، اور امکان تھا کہ وہ اپنی زندگی کے معانی کو (علامتی طور)دوبارہ حاصل کر سکے۔ اس نے پہلے ایکٹ اور تیسرےکے ایک یا دو سین کا اختتام کیا، شاعرانہ بحر کے باعث اس کے لئے یہ ممکن تھا کہ وہ مسودہ سامنے رکھے بغیربحر ِمسدس میں ردوبدل کی مددسے اپنا کام دہراتا رہے۔اس نے سوچا کہ اب بھی دو ایکٹ باقی ہیں اور وہ عنقریب مر جائے گا۔وہ اندھیرے میں خدا سے یوں گویا ہوا:’’اگر میں کسی طور موجود ہوں، اگر میں تیری تکرار یا غلطیوں میں سےایک نہیں ہوں، تو میری ہستی ’’دشمن‘‘ کے مصنف کی حیثیت ہے۔مجھے اس ڈرامے کے اختتام کے لئے جو میرا اور تیرا جواز ہے ایک سال مزید درکار ہے۔تو جس کی گرفت صدیوں اور زمان پر ہےمجھے یہ مدت بخش دے۔‘‘ یہ آخری رات تھی، سب سے زیادہ دہشت ناک، مگر دس منٹ بعد نیند گہرے سیاہ پانی کی طرح اسے اپنی آغوش میں لے چکی تھی۔
سحر کے قریب اس نے خواب دیکھا کہ وہ کتب خانۂ کلمانتین کے وسط میں بغلی راستوں کی بیچ چھپا بیٹھا ہے۔ ایک سیاہ شیشوں والی عینک پہنے کتابدار اس سے سوال کرتا ہے:’’تم کیا تلاش کر رہے ہو؟‘‘ ہلادک جوب دیتا ہے:’’میں خدا کی تلاش میں ہوں۔‘‘ کتابدار اس سے کہتا ہے:’’خدا کلمانتین میں موجود چار لاکھ جلدوں کے کسی ایک صفحے پر لکھا کوئی ایک حرف ہے۔ میرے آباؤ اجداد اور ان کے آباؤ اجداد اس حرف کو تلاش کرتے رہیں ہیں، میں اس کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے نابینا ہو چکا ہوں۔‘‘ وہ اپنی عینک اتار دیتا ہے اور ہلادک اس کی بجھی ہوئی آنکھیں دیکھ لیتا ہے۔اتنے میں ایک قاری ایک اطلس واپس کرنے آتا ہے۔ ’’یہ اطلس کسی کام کا نہیں،‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اسے ہلادک کو پکڑا دیتا ہے جو اسے ایسے ہی بے قاعدگی سے کسی بھی جگہ سے کھول لیتا ہے۔ اس کے سامنے ہندوستان کا نقشہ ہے اور حالت ایسی ہے جیسے اوسان خطا ہو گئے ہوں۔ پھر اچانک اس کی حالت سنبھلتی ہے اور وہ سب سے ننھے حرف کو چھوتا ہے۔ سارے میں چھائی ہوئی ایک آواز اس سےکہتی ہے:’’تمہاری محنت کی مدت تمہیں عطا کی جاتی ہے۔‘‘ اسی وقت ہلادک کی آنکھ کھل گئی۔
اسے یاد آیا کہ انسانوں کے خواب خدا کی ملکیت ہوتے ہیں، اور یہ کہ موسی بن میمون نے لکھا ہے کہ خواب میں سنے گئے الفاظ، اگر وہ واضح اور غیرمبہم ہوں اور ان کا بولنے والا نہ دیکھا جا سکے،تو وہ ملکوتی ہوتے ہیں۔اس نے کپڑے پہنے، دو سپاہی اس کی کوٹھڑی میں داخل ہوئے اور اسے اپنے ساتھ چلنے کا حکم دیا۔
دروازے کے پیچھے سے ہلادک گزرگاہوں، زینوں اور مختلف عمارتوں پر مشتمل بھول بھلیوں کی خیالی تصویریں بُنتا رہا۔ مگر حقیقت کم شاندار تھی: وہ تنگ آہنی زینوں سے ہوتے ہوئےایک اندرونی عدالتی احاطے میں پہنچے۔ کئی سپاہی ،جن میں سے کچھ کی وردیوں کے بٹن کھلےتھے، ایک موٹر سائیکل کا معائنہ کر تے ہوئے آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔ حوالدار نے گھڑی کی جانب دیکھا، آٹھ بج کر چوالیس منٹ ہو رہے تھے۔ انہیں نو بجے کا انتظار تھا۔ہلادک جس کی حالت قابلِ ترس ہونے سے زیادہ غیر اہم تھی لکڑی کے ایک ڈھیر پر بیٹھ گیا۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ سپاہیوں کی آنکھیں اس سے نظر چُرا رہی ہیں۔ انتظار کی گھڑیاں آسان کرنے کے لئے حوالدار نے اسے ایک سگریٹ دیا۔ہلادک سگریٹ نہیں پیتا تھا مگر عاجزی اور شائستگی کی خاطر قبول کر لیا۔ سگریٹ سلگاتے وقت اس نے مشاہدہ کیا کہ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ آسمان پربادل چھا رہے ، سپاہی اس طرح سرگوشیوں میں بات کر رہے تھے جیسے وہ پہلے ہی مر چکا ہو۔اس نے اس عورت کو یاد کرنے کی ایک لاحاصل کوشش کی جس کی علامت جولیا ویڈیناؤ تھی۔
دستہ تشکیل ہوا اور ہوشیار کھڑا ہو گیا۔ بیرک کی دیوار کے ساتھ لگے ہوئے ہلادک گولیوں کی بوچھاڑ کا انتظار کرتا رہا۔ کسی نے نشاندہی کی کہ دیوار خون کی دھبوں سے آلودہ ہو جائے گی اور مجرم کو چند قدم آگے ہونے کا حکم دے دیا گیا۔اس ساری بے سروپائی میں ہلادک کو فوٹوگرافروں کی ناتجربہ کار تیاریاں یاد آ گئیں۔ بارش کا ایک بڑا قطرہ ہلادک کی پیشانی پر ٹپکا اور پھسلتے ہوئے آہستہ آہستہ گال تک آ پہنچا۔ حوالدار نے چلا کر آخری حکم دیا۔
طبعی کائنات ساکن ہو گئی۔
بندوقوں کی نالیاں ہلادک کی سمت ہو گئیں، مگر جو آدمی اسے قتل کرنے پر مامور تھے وہ ساکت رہے۔ حوالدار کا بازو ابدی طور پر معلق حالت میں تھا۔صحن کے پختہ فرش پر ایک مکھی کا غیر متغیر سایہ پڑ رہا تھا۔ہوا تھم چکی تھی جیسے کسی تصویر میں ہو۔ہلادک نے چیخنے کی کوشش کی، ایک لفظ، ہاتھ کی ایک حرکت۔ اس احساس ہوا کہ وہ مفلوج ہو چکا ہے۔ ساکن کائنات سے کوئی صدا بھی اس تک نہیں پہنچ رہی تھی۔اس نے سوچا:’’میں جہنم میں ہوں، میں مر چکا ہوں۔‘‘ اس نے سوچا:’’میں پاگل ہو چکا ہوں۔‘‘ اس نے سوچا:’’وقت تھم چکا ہے۔‘‘ پھر اس نے غور کیا کہ اگر ایسا ہوتا تو اس کا ذہن بھی کام کرنا چھوڑ دیتا۔وہ اسے پرکھنا چاہتا تھا، اس نے ورجل کےپراسرار چوتھے قصیدۃ رعویۃ (Eclogue) کو ہونٹ ہلائے بغیر دہرانا شروع کیا۔اس نے تصور کیا کہ اب دور کھڑے سپاہی بھی اس کی پریشانی میں حصہ دار ہیں، وہ ان سے تبادلۂ خیالات کرنا چاہتا تھا۔ تھکن کے قلیل ترین احساس ،یہاں تک کے حرکت کی غیرموجودگی میں اعضاء کا سُن تک نہ ہونا، اس کے لئے حیران کن تھا۔ کچھ غیرمتعین وقت کے بعد اس کی آنکھ لگ گئی۔ جب وہ اٹھا تو کائنات بدستور ساکن اور گنگ تھی۔ پانی کا قطرہ اب بھی اس کی گال سے چپکا ہوا تھا، اور مکھی کا سایہ فرش سے۔سگریٹ کا دھواں جو اس نے اگلا تھا ابھی تک فضا میں منتشر نہیں ہوا تھا۔ہلادک کے سمجھنے سے پہلے ہی ایک اور ’’دن‘‘ گزر گیا۔
اس نے خدا سے التجا کی تھی کہ اپنا کام ختم کرنے کے لئے ایک سال دیا جائے، قدرت مطلقہ نے اسے یہ مدت عطا کی۔ خدا نے اس کی خاطر ایک خفیہ معجزے کا اہتمام کیا، اس نے مقررہ گھنٹے پر جرمن سیسے کے ہاتھوں مرنا تھا، مگر اس کے ذہن میں حکم اور اس کی تعمیل کے درمیان ایک سال نے گزرنا تھا۔وہ اضطراب کی کیفیت سے سکتے کی حالت میں پہنچا، سکتے سے تسلیم و رضا اوردستبرداری، اور دستبرداری سے ایک اچانک تشکر کی کیفیت۔
اپنی یاداشت کے سوا اس کے پاس کوئی دستاویز نہ تھا۔ ہر اضافی بحرِ مسدس کے ساتھ حاصل کردہ تربیت نے اسے ایک ایسا نظم و ضبط بخشا تھا جو ان کے گمان سے باہر تھا جو عارضی ، نامکمل عبارات کو فراموش کرنے کا قصد کرتے ہیں۔اس کی محنت اپنی آنے والی نسل کی خاطر نہ تھی، نہ ہی خدا کے لئے جس کے ادبی ذوق سے وہ ناواقف تھا۔بہت ہی باریک بین، بے حرکت اور خفیہ طریقےپر اس نے اپنی پُرشوکت اور غیر مرئی بھول بھلیاں تخلیق کی تھیں۔ تیسرے ایکٹ پر اس نے دو بار کام کیا۔ اس نے کچھ علامات کو ضرورت سے زیادہ واضح سمجھتے ہوئے حذف کر دیا تھا، جیسے گھڑیال کا بار بار بجنا اور موسیقی۔ اسے کوئی عجلت نہیں تھی۔اس نے استخراج کیا، تلخیص کی اور وضاحت کی۔ کچھ معاملات میں وہ اصل کی طرف لوٹ آیا۔وہ صحن اور بیرکوں میں ایک اپناپن محسوس کرنے لگا، اپنے سامنے موجود چہروں میں سے ایک نے اس کے ذہن میں موجود روئمرشتادت کے تصور کو بدل دیا۔ اس نے دریافت کیا کہ وہ تھکا دینے والا کریہہ الصوتی شور جس نے فلوبیر کو اتنا پریشان کیا تھاز بان کے ذریعے ادا کئے گئے لفظ کی بجائے محض تحریر شدہ لفظ کے بصری توہمات، کمزوریاں اور حدود تھیں۔۔۔اس نے اپنے ڈرامے کا اختتام کر دیا۔ اب اس کے سامنے صرف ایک واحد عبارت کا مسئلہ تھا۔وہ اسے مل گئی۔ پانی کا قطرہ اس کے گال سے نیچے پھسلا۔اس نے ایک دل دہلا دینے والی چیخ ماری اور منہ کھولا، اپنے چہرے کو حرکت دی اور ایک چوگنا دھماکے کے آواز کے ساتھ ہی زمین پرگر پڑا۔
جیرومیرہلادک کا انتقال انتیس مارچ کی صبح نو بج کر دو منٹ پر ہوا۔
(جاری ہے۔۔۔)