بوستانِ سعدی اور 'غتربود' - سید متین احمد

حسان خان

لائبریرین
ایک شخص شیخ سعدی کی "بوستان" پڑھتا تھا. جب اس شعر پر پہنچا:
سعدی کہ گوئے بلاغت ربود
در ایام بوبکر بن سعد بود
‏(سعدی جو بلاغت میں سبقت لے گیا تھا، سلطان ابو بکر بن سعد کے زمانے میں تھا.) تو جا کر اپنے استاد فارسی سے پوچھا کہ ایک لفظ کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا. استاد نے پوچھا : کون سا لفظ ہے؟ شاگرد بولا : غتربود.
استاد پر سکتہ طاری ہو گیا کہ اس کتاب کا پرانا مدرس ہوں میری نظر سے یہ لفظ نہیں گزرا. شاگرد سے پوچھا کس شعر میں ہے؟ اس نے مذکورہ بالا شعر پڑھا تو استاد نے مسکرا کر طالب علم سے کہا کہ آپ نے دو الفاظ غلط طور پر ملا کر نیا لفظ بنا لیا ہے. یعنی لفظ بلاغت سے "بلا " کو پیچھے ملا کر "غت" کو "ربود" (فعل) سے ملا کر لفظ "غتربود" تیار کر لیا. اس وقت سے یہ محاورہ اردو زبان کا بھی مستقل جز ہے اور جب کوئی کلام فہمی میں اس طرح کی غلطی کرتا ہے تو کہا جاتا ہے اس نے معنی غتربود کر لیا ہے. ‏‎ ‎

(سید متین احمد)
مأخذ
 
سعدی کہ گوئے بلاغت ربود
اگر چہ یہ تبصرہ بے وقت ہے مگر بے جا نہیں، دیکھنے والوں کو اس سے، ان شاء اللہ، فائدہ ہوگا!
عرض یہ ہے کہ پہلے مصرع کے ابتداء میں بھی لفظ "کہ" ہے اور صحیح یوں ہے:
کہ سعدی کہ گوئے بلاغت ربود
یہ مصرع اصل میں ماقبل سے جڑا ہوا ہے اور اشعار کا تسلسل ابتداء قصیدہ سے اس طرح ہے:
××× ذکر مَحامِد اَتابُک ابوبکر بن سعد زنگی طابَ ثَراهُ ×××
مرا طبع زیں نوع خواہاں نبود
سر مِدحت پادشاہاں نبود
ولے نظم کردم بنام فلاں
مگر باز گویند صاحبدلاں
کہ سعدی کہ گوئے بلاغت ربود
در ایام بوبکر بن سعد بود

(بوستان سعدی، ص 12)
 
Top