بوسنیا کے دار الحکومت سرائیوو کی چند تصاویر

حسان خان

لائبریرین
آئیے آج آپ کو بلقان کے چھوٹے ترکی بوسنیا کے انتہائی حسین اور تاریخی حیثیت کے حامل دار الحکومت سرائیوو کی سیر کرائی جائے۔

قلعے سے شہر کا منظر
4879276857_69c9907dc0_b.jpg

4879882918_546d27036c_b.jpg


دریائے ملیاتسکا پر بنا عہدِ عثمانی کا پُل
8573387730_9ddaa92a52_b.jpg

4879854638_0eab6cf6d6_b.jpg


جنگ کے دوران سرب اشغال گروں کی گولیوں سے مضروب عمارت
4879134189_ee6147176e_b.jpg


سولہویں صدی کی علی پاشا مسجد
4879624604_6c0bbabc3e_b.jpg


آزادی چوک پر شطرنج کھیلی جا رہی ہے
4878979155_89b22c80fa_b.jpg

chess%20in%20the%20square.jpg


سرائیوو کا تاریخی پرانا مرکزی بازار باش چارشیہ
4879712120_3a1e44e78f_b.jpg

ofsen_bascarsi.jpg

4876497966_d6e6a0e949_b.jpg


5322609523_b5f4187961_b.jpg

بوسنیائیوں کی قومی مسجد، سولہویں صدی کی غازی خسرو بیگ مسجد۔۔ اس مسجد کو دیگر کئی مسجدوں کی طرح سربوں نے نقصان پہنچایا تھا۔ جنگ کے بعد اس کی دوبارہ پہلے کی طرح تعمیر ہوئی ہے۔
5737429090_88a8fce7a9_b.jpg

6318281727_74f3b4067b_b.jpg

3968711681_c302fc2868_z.jpg


our%20street.jpg

the%20hillside.jpg

to%20the%20west.jpg


مسلم قبرستان
muslim%20headstones.jpg
muslim%20graveyard.jpg
 

حسان خان

لائبریرین
سرائیوو کی مساجد۔۔۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سرائیوو شہر میں دو سو سے زائد چھوٹی بڑی مساجد ہیں، جن کی تعداد میں گزرتے سالوں کے ساتھ اضافہ ہوتا آیا ہے۔۔ اذان کی آواز شہر کے ہر گوشے میں سنائی دیتی ہے۔ بوسنیا کے مسلمان مجموعی طور پر کافی مذہبی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کی بنیادی وجہ بوسنیائیوں کی نسلی اور مذہبی شناخت کے بیچ خاص فرق کا نہ ہونا اور وہ جنگیں اور نسل کشیاں ہیں جن میں بوسنیائیوں کو صرف اُن کے مسلمان ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اکثر مبصرین کی نظر میں بوسنیائیوں کے لیے اسلام مذہب سے بڑھ کر اُن کی قومیت کا بنیادی عنصر ہے۔
سرائیوو کی اسی فیصد آبادی بوسنیائی مسلمان ہے، بقیہ بیس فیصد آبادی سرب آرتھوڈکسوں اور کروٹ کیتھولکوں پر مشتمل ہے۔
mosques%20in%20sarajevo.jpg


البتہ اس سے کوئی یہ نتیجہ اخذ نہ کرے کہ بوسنیا بھی ہماری طرح کا ایک تنگ نظر اور ملا زدہ ملک ہے، بلکہ بوسنیا اپنی تمام تر مسلمانیت کے ساتھ بھی انجامِ کار بلقان کا ایک جدید یورپی ملک ہے۔
سرائیوو کا فرہادیہ چوک (ترکی کا جھنڈا بھی دیکھا جا سکتا ہے)
7216883056_6490b039a8_b.jpg
 

عینی شاہ

محفلین
کتنی نیٹ اینڈ کلین سڑکیں اور جگہیں ہیں نا ۔۔۔کاش ہمارا پاکستان بھی ایسا صاف ستھرا ہو سکے ۔ویری نائس پکچرز حسان :)
 

حسان خان

لائبریرین
بوسنیا کو چھوٹا ترکی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جب پندرہویں صدی میں بوسنیائی لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا تو وہ ترک مسلمانوں سے بھی بڑھ کر 'ترک' اور مسلمان ہو گئے تھے۔ اور چونکہ عثمانی خلافت میں لوگوں کا بنیادی شاخص ان کی مذہبی ملت ہوا کرتی تھی، اسی وجہ سے بلقان اور مغربی یورپی دنیا کے عیسائی بوسنیائیوں اور البانویوں کو 'ترک' کہنے لگے۔ البانویوں کو ترک کہے جانے کی روایت تو ختم ہو چکی ہے، لیکن بوسنیائیوں کو ابھی بھی سرب اور کروٹ ترک کہتے ہیں۔ سریبرینتسا کے قصاب سرب کمانڈر راٹکو ملادچ نے بوسنیائی مسلمانوں کے قتلِ عام سے پہلے جو ویڈیو پیغام جاری کیا تھا اُس میں بھی اُس نے یہی کہا تھا کہ آج میں 'ترکوں' سے اپنی قوم کی پانچ سو سالہ غلامی کا بدلہ لے رہا ہوں۔
بوسنیا کے لوگ عثمانی خلافت اور ترکی کو بہت اچھی نظروں سے دیکھتے ہیں، اور ترکی کو اپنے 'بڑے بھائی' ملک کی حیثیت دیتے ہیں۔ بوسنیائیوں کی عثمانی خلفاء سے وفاداری بھی اس باہمی رشتے کی عمدہ مثال ہے۔ سربوں کے برعکس عثمانی خلاقت اُن کی نظر میں قابض قوت کے طور پر نہیں، بلکہ اُن کی اپنی نمائندہ ریاست کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ آج بھی دیکھا جائے تو بوسنیا ہر لحاظ سے ترکی جیسا ہی لگتا ہے۔
8368136988_b0924d3078_b.jpg

8228826953_be52839b1f_b.jpg

5214147236_6a972a1c2d_b.jpg


سرائیوو کے محاصرے میں مارے جانے والے ۱۱۵۴۱ بوسنیائی باشندوں کی یاد میں ایک مسجد کے آگے کتبہ نصب ہے۔
7050988953_8aab1f6121_b.jpg


موسمِ سرما
8660361226_011f03544b_b.jpg

5324016423_e3c367a38d_b.jpg
 

زبیر مرزا

محفلین
زبردست تصاویراورمعلومات جی کوللچانے والی
ہم ایسے مناظردیکھتے ہیں پھراپنا پاسپورٹ اورخیالی پلاؤ گوگل پرپکنے کورکھ دیتے ہیں
 

حسان خان

لائبریرین
زبردست تصاویراورمعلومات جی کوللچانے والی
ہم ایسے مناظردیکھتے ہیں پھراپنا پاسپورٹ اورخیالی پلاؤ گوگل پرپکنے کورکھ دیتے ہیں

اور مجھے تو اس چھوٹے سے ملک پر رشک آ رہا ہے کہ میرا ملک ایسا کیوں نہیں ہے۔ :(
بطور ایک مسلمان ملک و قوم کا فرد ہونے کے، میں نے بوسنیائی معاشرے کو بھی لائقِ تقلید معاشروں کی صف میں شامل کر لیا ہے۔
 

arifkarim

معطل
اور مجھے تو اس چھوٹے سے ملک پر رشک آ رہا ہے کہ میرا ملک ایسا کیوں نہیں ہے۔ :(
بطور ایک مسلمان ملک و قوم کا فرد ہونے کے، میں نے بوسنیائی معاشرے کو بھی لائقِ تقلید معاشروں کی صف میں شامل کر لیا ہے۔
حسان بھائی آپ کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آرہی کہ یورپی مسلمانوں یعنی ترک، چیچن، آذربائیجانی، بوسنوی، البانوی اور باقی مشرق وسطیٰ اور برصغیر کے مسلمانوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ انکی تہذیب، تمدن اور معاشرہ باقی یورپ کی طرح آزاد مگر اسلامی آمیزش کیساتھ ہے۔ یعنی یہ سب مسلمان اکثریت سیکولر ممالک ہیں۔ ہمارے علاقوں کے مسلمان اسکو سمجھنے سے ابھی قاصر ہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Islam_and_secularism#Europe

یہاں ناروے میں میرے کئی بوسنوی، البانوی، اور کوسووو کے دوست رہ چکے ہیں اور وہ ترک مسلمانوں سے بہتر مسلمان ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
حسان بھائی آپ کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آرہی کہ یورپی مسلمانوں یعنی ترک، چیچن، آذربائیجانی، بوسنوی، البانوی اور باقی مشرق وسطیٰ اور برصغیر کے مسلمانوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ انکی تہذیب، تمدن اور معاشرہ باقی یورپ کی طرح آزاد مگر اسلامی آمیزش کیساتھ ہے۔ یعنی یہ سب مسلمان اکثریت سیکولر ممالک ہیں۔ ہمارے علاقوں کے مسلمان اسکو سمجھنے سے ابھی قاصر ہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Islam_and_secularism#Europe

یہاں ناروے میں میرے کئی بوسنوی، البانوی، اور کوسووو کے دوست رہ چکے ہیں اور وہ ترک مسلمانوں سے بہتر مسلمان ہیں۔

مجھے آپ کی تمام باتوں سے اتفاق ہے۔ صرف ایک چھوٹی سی تصحیح کرنا چاہتا ہوں کہ آذربائجانی، بوسنویوں اور البانویوں کی طرح یورپی مسلمان نہیں کہے جا سکتے۔ ہاں، یہ حقیقت ہے کہ جمہوریۂ آذربائجان کا طرزِ زندگی کافی یورپی انداز کا ہے، اور وہاں کی حکومت بھی یورپ کی گرویدہ ہے، لیکن شیعہ ملک ہونے کی وجہ سے مجموعی معاشرے پر ابھی بھی ایران کا اثر دوسروں سے زیادہ ہے۔ اور پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ جمہوریہ آذربائجان میں صرف نوے لاکھ آذری آباد ہیں، جبکہ آذریوں کی اکثریت یعنی ڈھائی کروڑ آذری ایران کا حصہ ہیں، جس کے ایشیائی ہونے میں کسی کو شک نہیں ہے۔
آپ کے دیے گئے ربط میں بھی جمہوریۂ آذربائجان کو ایشیا کا حصہ گردانا گیا ہے۔


ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے

انشاءاللہ ہمارا ملک پاکستان بھی ایک دن قائدِ اعظم کے تصور کردہ مسلم پاکستان کا روپ دھارے گا۔
 
Top