محمد علم اللہ
محفلین
یہ میرے ایک دوست ’’انکر کمار جھا ‘‘ کی تحریر ہے ۔جسے اس نے اپنے بلاگ پر پوسٹ کیا ہے ۔میں انکر کی اجازت سے اس کا ترجمہ اردو محفل میں پیش کر رہا ہوں ۔کہ یہ ہمارے مطلب کی بھی ہے ۔(دیکھئے ! زبان اور بولی کے فرق کو انکر نے کس خوبصورتی سے بیان کیا ہے)
علم
زبان نرم ہوتی ہے۔بولی کچھ بھی۔ زبان ڈسپلن میں رہتی ہے، والدین کی نگرانی میں رہنے والے بچوں کی طرح۔اور بولی بغیر والدین کے بچوں کی طرح پوری طرح سے بےلگام۔ جو کیا وہی ٹھیک ہےقوائد اورگرامر سے کوئی مطلب نہیں۔ جیسا بولا، ویسا ہی صحیح۔ کسی کی پرواہ نہیں۔ کسی کے باپ کے راج میں نہیں رہتے۔ کیوں سہیں گے کسی کا ڈنڈا۔ کیوں چلیں گے کسی کے کہے مطابق۔ سب کچھ اپنی مرضی سے سینہ ٹھوك كر۔پسند کرنا ہے تو کرو، ورنہ بھاڑ میں جاؤ۔
جس زبان سے دل چاہے اسی سے لفظ اٹھا لئے۔ روک سکو تو روک لو !دیکھ لیں گے۔ نہیں ہوا تو اپنے ہی لفظ بنا لیے۔ بولی میں بڑی خوبی ہوتی ہے الفاظ کےتعمیر کی۔ ایسے ایسے الفاظ بنتے ہیں کہ زبان سوچ بھی نہیں سکتی۔ سن کر دنگ رہ جاتی ہے۔ مشینی الفاظ پر بولی ایسا زبردست پالش کرتی ہے کہ کچھ دنوں میں زبان بھی اس کی چمک میں کھو جاتی ہے۔ جیسے پہلے موڈرن لڑکے کو دیکھ کر ڈسپلن اور مبینہ پڑھنےوالے بچے بھی سگریٹ پینے لگتے ہیں۔
بولی اپنا وجود خود بناتی ہے۔ اس لئے بیباک ہوتی ہے۔ٹھیٹ منہ پھٹ ۔زیادہ سوچتی نہیں۔ کسی کے پیچھے بھاگتی نہیں۔ بولی کا ای فیکٹ بھی زبردست ہوتا ہے۔ ہر عام مقامات پر بولی کا قبضہ ہے۔ ریلوے اسٹیشن، بس اسٹینڈ، آٹو اسٹینڈ، سرکاری دفتر یا پھر ڈاکٹر کے کلینک پر۔قواعد پر سوار ہوکر زبان بولنے سے کام نہیں ہوگا۔ گھگھياتے رہیں گے، کوئی نہیں سنے گا۔ جو کام کروانے میں زبان کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں، اسے بولی چٹکیوں میں کروا لیتی ہے، رتبے میں رہتی ہے بولی۔ اور جو بولی کا رتبہ ہوتا ہے، وہیں اسے بولنےوالو ں کا۔ یہی سبب ہے کہ اس کی مقبولیت بھی زیادہ ہے۔
علم
زبان نرم ہوتی ہے۔بولی کچھ بھی۔ زبان ڈسپلن میں رہتی ہے، والدین کی نگرانی میں رہنے والے بچوں کی طرح۔اور بولی بغیر والدین کے بچوں کی طرح پوری طرح سے بےلگام۔ جو کیا وہی ٹھیک ہےقوائد اورگرامر سے کوئی مطلب نہیں۔ جیسا بولا، ویسا ہی صحیح۔ کسی کی پرواہ نہیں۔ کسی کے باپ کے راج میں نہیں رہتے۔ کیوں سہیں گے کسی کا ڈنڈا۔ کیوں چلیں گے کسی کے کہے مطابق۔ سب کچھ اپنی مرضی سے سینہ ٹھوك كر۔پسند کرنا ہے تو کرو، ورنہ بھاڑ میں جاؤ۔
جس زبان سے دل چاہے اسی سے لفظ اٹھا لئے۔ روک سکو تو روک لو !دیکھ لیں گے۔ نہیں ہوا تو اپنے ہی لفظ بنا لیے۔ بولی میں بڑی خوبی ہوتی ہے الفاظ کےتعمیر کی۔ ایسے ایسے الفاظ بنتے ہیں کہ زبان سوچ بھی نہیں سکتی۔ سن کر دنگ رہ جاتی ہے۔ مشینی الفاظ پر بولی ایسا زبردست پالش کرتی ہے کہ کچھ دنوں میں زبان بھی اس کی چمک میں کھو جاتی ہے۔ جیسے پہلے موڈرن لڑکے کو دیکھ کر ڈسپلن اور مبینہ پڑھنےوالے بچے بھی سگریٹ پینے لگتے ہیں۔
بولی اپنا وجود خود بناتی ہے۔ اس لئے بیباک ہوتی ہے۔ٹھیٹ منہ پھٹ ۔زیادہ سوچتی نہیں۔ کسی کے پیچھے بھاگتی نہیں۔ بولی کا ای فیکٹ بھی زبردست ہوتا ہے۔ ہر عام مقامات پر بولی کا قبضہ ہے۔ ریلوے اسٹیشن، بس اسٹینڈ، آٹو اسٹینڈ، سرکاری دفتر یا پھر ڈاکٹر کے کلینک پر۔قواعد پر سوار ہوکر زبان بولنے سے کام نہیں ہوگا۔ گھگھياتے رہیں گے، کوئی نہیں سنے گا۔ جو کام کروانے میں زبان کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں، اسے بولی چٹکیوں میں کروا لیتی ہے، رتبے میں رہتی ہے بولی۔ اور جو بولی کا رتبہ ہوتا ہے، وہیں اسے بولنےوالو ں کا۔ یہی سبب ہے کہ اس کی مقبولیت بھی زیادہ ہے۔