سید شہزاد ناصر
محفلین
بھیڑ
بھیڑ کی کھال مشہور ہے، بھیڑ کی چال مشہور ہے اور بھیڑ کا مآل بھی مشہور ہے۔ بہت کم بھیڑیں عمرِ طبعی کو پہنچتی ہیں۔
جو رشتہ شیر بکری سے ہم نے بیان کیا ہے، وہی رشتہ بھیڑ کا بھیڑیے سے ہے۔ بھیڑیں کئی طرح کی ہوتی ہیں۔ سفید بھیڑیں، کالی بھیڑیں وغیرہ، لیکن بھیڑیا سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہے اور یکساں چاہت سے لقمہ بناتا ہے۔
اِس جانور میں قربانی کا مادہ بہت ہوتا ہے اور انسان اس مادے سے بہت فائدہ اُٹھاتا ہے۔ گوشت کھا جاتا ہے، کھال بیچ دیتا ہے۔
بکری
گرچہ چھوٹی ہے ذات بکری کی، لیکن دودھ یہ بھی دیتی ہے۔ عام طور پرصرف دودھ دیتی ہے لیکن مجبور کریں تو کچھ منگنیاں بھی ڈال دیتی ہے۔
جن بکریوں کو شہرتِ عام اور بقائے دوام میں جگہ ملی ہے، ان میں ایک گاندھی جی کی بکری تھی اور ایک اخفش نامی
بزرگ کی، روایت ہے کہ وہ بکری نہیں بکرا تھا، معقول صورت۔ یہ جو شاعری میں اوزان اور بحروں کی بدعت ے۔ یہ اخفش صاحب سے ہی منسوب کی جاتی ہے۔ بیٹھے فاعلاتن فاعلات کیا کرتے تھے، جہاں شک ہو تصدیق کے لئے بکرے سے پوچھتے تھے کہ کیوں حضرت ٹھیک ہے نہ؟ وہ بکرا اللہ اُسے جنت میں یعنی جنت والوں کے پیٹ میں جگہ دے، سر ہلا کر ان کی بات پر صاد کر دیتا تھا۔ اس بکرے کی جسل بہت پھیلی، پاکستان میں بھی پائی جاتے ہے۔ سوتے جاگتے اس کے منہ سے یس سر، یس سر، جی حضور، بجافرمایا وغیرہ نکلتا رہتا ہے۔ اسے بات سننے اور سمجھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
جن ملکوں میں بہت انصاف ہو ان میں شیر اور بکریاں ایک گھاٹ پر پانی پینے لگتی ہیں، جس طرح علامہ اقبال کے ایک شعر میں محمود اور ایاز ایک صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس میں فائدہ یہ ہے کہ شیر پانی پینے کے بعد وہیں بکری کو دبوچ لیتا ہے، اُسے ناشتے کے لئے زیادہ دور نہیں جانا پڑتا۔
بھیڑ کی کھال مشہور ہے، بھیڑ کی چال مشہور ہے اور بھیڑ کا مآل بھی مشہور ہے۔ بہت کم بھیڑیں عمرِ طبعی کو پہنچتی ہیں۔
جو رشتہ شیر بکری سے ہم نے بیان کیا ہے، وہی رشتہ بھیڑ کا بھیڑیے سے ہے۔ بھیڑیں کئی طرح کی ہوتی ہیں۔ سفید بھیڑیں، کالی بھیڑیں وغیرہ، لیکن بھیڑیا سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہے اور یکساں چاہت سے لقمہ بناتا ہے۔
اِس جانور میں قربانی کا مادہ بہت ہوتا ہے اور انسان اس مادے سے بہت فائدہ اُٹھاتا ہے۔ گوشت کھا جاتا ہے، کھال بیچ دیتا ہے۔
بکری
گرچہ چھوٹی ہے ذات بکری کی، لیکن دودھ یہ بھی دیتی ہے۔ عام طور پرصرف دودھ دیتی ہے لیکن مجبور کریں تو کچھ منگنیاں بھی ڈال دیتی ہے۔
جن بکریوں کو شہرتِ عام اور بقائے دوام میں جگہ ملی ہے، ان میں ایک گاندھی جی کی بکری تھی اور ایک اخفش نامی
بزرگ کی، روایت ہے کہ وہ بکری نہیں بکرا تھا، معقول صورت۔ یہ جو شاعری میں اوزان اور بحروں کی بدعت ے۔ یہ اخفش صاحب سے ہی منسوب کی جاتی ہے۔ بیٹھے فاعلاتن فاعلات کیا کرتے تھے، جہاں شک ہو تصدیق کے لئے بکرے سے پوچھتے تھے کہ کیوں حضرت ٹھیک ہے نہ؟ وہ بکرا اللہ اُسے جنت میں یعنی جنت والوں کے پیٹ میں جگہ دے، سر ہلا کر ان کی بات پر صاد کر دیتا تھا۔ اس بکرے کی جسل بہت پھیلی، پاکستان میں بھی پائی جاتے ہے۔ سوتے جاگتے اس کے منہ سے یس سر، یس سر، جی حضور، بجافرمایا وغیرہ نکلتا رہتا ہے۔ اسے بات سننے اور سمجھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
جن ملکوں میں بہت انصاف ہو ان میں شیر اور بکریاں ایک گھاٹ پر پانی پینے لگتی ہیں، جس طرح علامہ اقبال کے ایک شعر میں محمود اور ایاز ایک صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس میں فائدہ یہ ہے کہ شیر پانی پینے کے بعد وہیں بکری کو دبوچ لیتا ہے، اُسے ناشتے کے لئے زیادہ دور نہیں جانا پڑتا۔