الف نظامی
لائبریرین
یہی معاملہ فوجی قیادت کے بارے میں بھی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے طالوت کو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر بادشاہ مقرر کیا تو اس کی وجہ یہ بتائی:
(اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیا ہے اور اس کو علمی اور جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں۔۔۔ البقرہ:۲۴۷)۔
قیادت اور علم:
ہر قسم کی قیادت کے لیے علم شرط ہے، خواہ وہ سیاسی اور انتظامی قیادت ہو۔
جیسے حضرت یوسفؑ کی قیادت، کہ جب ان سے شاہِ مصر نے کہا:
اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌo
(اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور ہمیں آپ کی امانت پر پورا بھروسا ہے۔۔۔ یوسف:۵۴)۔
تو انہوں نے کہا:
اِجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئنِ الْاَرْضِ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌo
(ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔۔ یوسف:۵۵)
اس میں آپ علیہ السلام نے اپنی خاص اہلیتوں کے بارے میں بتایا جو آپؑ کو اس عظیم کام کا اہل ثابت کر رہی تھیں، جس میں اس دَور کے مطابق مالی اور اقتصادی امور، زراعت، منصوبہ بندی اور رسد کے انتظامات شامل تھے۔ ان اہلیتوں میں بنیادی حیثیت دو امور کی تھی۔ ایک حفاظت یعنی امانت، اور دوسرا علم۔یہاں علم سے مراد تجربہ بھی ہے اور کافی معلومات بھی۔
یہ دونوں صفات سورۂ قصص میں شیخ کبیر کی بیٹی کی زبان سے نکلی ہوئی صفات کے موافق ہیں جو اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملازم کے طور پر رکھنے کے لیے اپنے باپ کو بتائی تھیں۔ اس نے کہا تھا:
اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُo
(بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھ لیں وہی ہو سکتا ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو۔۔۔ القصص:۲۶)۔
یہی معاملہ فوجی قیادت کے بارے میں بھی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے طالوت کو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر بادشاہ مقرر کیا تو اس کی وجہ یہ بتائی:
اِنَّ اﷲَ اصْطَفٰہُ عَلَیْکُمْ وَ زَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ۔۔۔
(اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیا ہے اور اس کو علمی اور جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں۔۔۔ البقرہ:۲۴۷)۔
یہی معاملہ عدالتی امور کا بھی ہے۔ حتیٰ کہ قاضی کے لیے بھی وہی شرط لگائی ہے جو خلیفہ کے لیے مقرر ہے، اور وہ یہ کہ وہ مجتہد ہو۔ یہاں اس بات پر اکتفا نہیں کیا گیا کہ وہ محض دوسروں کا مقلد ایک عالم ہو۔ علم کی اصل حقیقت یہ ہے کہ آدمی حق کو دلیل کے ساتھ پہچانے، نہ کہ انسانوں میں سے کسی زید یا عمرو کے ساتھ موافقت کو اپنے اوپر لازم سمجھ لے۔ جس نے کسی دلیل کے بغیر یا کسی بھونڈی دلیل کے ساتھ اپنے جیسے ایک انسان کی پیروی کی، تو یہ علم نہیں بلکہ جہالت ہے۔
مقلّد کی قضا کو ضرورتاً قبول کیا گیا ہے جیسا کہ اس شخص کی ولایت کو ضرورتاً قبول کیا گیا ہے جو فقاہت نہ رکھتا ہو۔ اس کے باوجود علم کی ایک حد مقرر ہے کہ کم ازکم اتنا علم اس میں ضرور ہونا چاہیے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو وہ جہالت کے ساتھ فیصلے کرے گا اور آگ والوں میں سے بن جائے گا۔
حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’قاضی تین قسم کے ہیں: ان میں سے دو آگ میں جائیں گے اور ایک جنت میں۔ ایک وہ شخص جس نے حق کو پہچانا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا تو وہ جنت میں ہوگا۔ دوسرا وہ شخص جو جہالت کے ساتھ لوگوں کے فیصلے کرتا ہے، یہ آگ میں ہوگا اور تیسرا وہ ہے جو حق کو پہچانے لیکن ظلم کرتے ہوئے غلط فیصلہ دے تو یہ بھی آگ میں ہوگا‘‘۔ (صحیح الجامع الصغیر)
نیرنگ خیال
(اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیا ہے اور اس کو علمی اور جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں۔۔۔ البقرہ:۲۴۷)۔
قیادت اور علم:
ہر قسم کی قیادت کے لیے علم شرط ہے، خواہ وہ سیاسی اور انتظامی قیادت ہو۔
جیسے حضرت یوسفؑ کی قیادت، کہ جب ان سے شاہِ مصر نے کہا:
اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌo
(اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور ہمیں آپ کی امانت پر پورا بھروسا ہے۔۔۔ یوسف:۵۴)۔
تو انہوں نے کہا:
اِجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئنِ الْاَرْضِ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌo
(ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔۔ یوسف:۵۵)
اس میں آپ علیہ السلام نے اپنی خاص اہلیتوں کے بارے میں بتایا جو آپؑ کو اس عظیم کام کا اہل ثابت کر رہی تھیں، جس میں اس دَور کے مطابق مالی اور اقتصادی امور، زراعت، منصوبہ بندی اور رسد کے انتظامات شامل تھے۔ ان اہلیتوں میں بنیادی حیثیت دو امور کی تھی۔ ایک حفاظت یعنی امانت، اور دوسرا علم۔یہاں علم سے مراد تجربہ بھی ہے اور کافی معلومات بھی۔
یہ دونوں صفات سورۂ قصص میں شیخ کبیر کی بیٹی کی زبان سے نکلی ہوئی صفات کے موافق ہیں جو اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملازم کے طور پر رکھنے کے لیے اپنے باپ کو بتائی تھیں۔ اس نے کہا تھا:
اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُo
(بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھ لیں وہی ہو سکتا ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو۔۔۔ القصص:۲۶)۔
یہی معاملہ فوجی قیادت کے بارے میں بھی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے طالوت کو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر بادشاہ مقرر کیا تو اس کی وجہ یہ بتائی:
اِنَّ اﷲَ اصْطَفٰہُ عَلَیْکُمْ وَ زَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ۔۔۔
(اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیا ہے اور اس کو علمی اور جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں۔۔۔ البقرہ:۲۴۷)۔
یہی معاملہ عدالتی امور کا بھی ہے۔ حتیٰ کہ قاضی کے لیے بھی وہی شرط لگائی ہے جو خلیفہ کے لیے مقرر ہے، اور وہ یہ کہ وہ مجتہد ہو۔ یہاں اس بات پر اکتفا نہیں کیا گیا کہ وہ محض دوسروں کا مقلد ایک عالم ہو۔ علم کی اصل حقیقت یہ ہے کہ آدمی حق کو دلیل کے ساتھ پہچانے، نہ کہ انسانوں میں سے کسی زید یا عمرو کے ساتھ موافقت کو اپنے اوپر لازم سمجھ لے۔ جس نے کسی دلیل کے بغیر یا کسی بھونڈی دلیل کے ساتھ اپنے جیسے ایک انسان کی پیروی کی، تو یہ علم نہیں بلکہ جہالت ہے۔
مقلّد کی قضا کو ضرورتاً قبول کیا گیا ہے جیسا کہ اس شخص کی ولایت کو ضرورتاً قبول کیا گیا ہے جو فقاہت نہ رکھتا ہو۔ اس کے باوجود علم کی ایک حد مقرر ہے کہ کم ازکم اتنا علم اس میں ضرور ہونا چاہیے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو وہ جہالت کے ساتھ فیصلے کرے گا اور آگ والوں میں سے بن جائے گا۔
حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’قاضی تین قسم کے ہیں: ان میں سے دو آگ میں جائیں گے اور ایک جنت میں۔ ایک وہ شخص جس نے حق کو پہچانا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا تو وہ جنت میں ہوگا۔ دوسرا وہ شخص جو جہالت کے ساتھ لوگوں کے فیصلے کرتا ہے، یہ آگ میں ہوگا اور تیسرا وہ ہے جو حق کو پہچانے لیکن ظلم کرتے ہوئے غلط فیصلہ دے تو یہ بھی آگ میں ہوگا‘‘۔ (صحیح الجامع الصغیر)
نیرنگ خیال