غزل قاضی
محفلین
بُجھ گئی شمعِ حَرم ، باب ِ کلیسا نہ کُھلا
کُھل گئے زخم کے لب تیرا دریچہ نہ کُھلا
در ِ توبہ سے بگوُلوں کی طرح گُزرے لوگ
اُبر کی طرح اُمڈ آئے جو مَے خانہ کُھلا
شہر در شہر پھری میرے گُناہوں کی بیاض
بعض نظروں پہ مِرا سوز ِ حکِیمانہ کُھلا
نازنِینوں میں رسائی کا یہ عالم تھا کبھی
لاکھ پہروں میں بھی کاشانے پہ کاشانہ کُھلا
اَب جو بےباک ہُوئے بھی تو بہ صد اندیشہ
اَب جو اِک شخص کُھلا بھی تو حجابانہ کُھلا
مِل کے بھی تُجھ سے رہی اب کے طبعیت اَیسے
جیسے بادل سا گِھر آیا جو نہ برسا نہ کُھلا
ہم پری زادوں میں کھیلے ، شب ِ افسوں میں پلے
ہم سے بھی تیرے طلسمات کا عُقدہ نہ کُھلا
ایک اک شکل کو دیکھا ہے بڑی حیرت سے
اجنبی کون ہے اَور کون شناسا نہ کُھلا
ریت پر پھینک گئی عقل کی گُستاخ لبی
پھر کبھی کشف و کرامات کا دریا نہ کُھلا
مصطفیٰ زیدی
(قبائے ساز )