بچوں کی تربیت میں جھول کیوں؟
عذرا دکنی
عذرا دکنی
یہ گئے وقتوں کی بات ہے جب کہا جاتا تھا کہ بچوں کو "کھلاؤ سونے کا نوالہ دیکھو شیر کی نگاہ سے" نہ صرف کہا جاتا تھا بلکہ اس پر عمل بھی کیا جاتا تھا۔ بچوں کو تمام سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ ادب وآداب بھی سکھائے جاتے تھے۔ روایات و اقدار سے نہ صرف واقفیت ، تربیت کا لازمی جز ہوتی تھی بلکہ کسی بھی صورت میں بد تمیزی کی اجازت نہ چھوٹوں کو تھی اور نہ بڑوں کو۔اس وقت مادی ترقی کی دوڑ اتنی تیز نہ تھی جتنی آج ہے اور ترقی کا مطلب صرف آسائشوں اور سہولتوں کی فراہمی نہ تھا ، بلکہ اخلاق و کردار کی تعمیر بھی ضروری تھی۔ اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا اس وقت کے بچے قابل و پر اعتماد ، ہونہار نہیں تھے؟ کیا وہ فرمانبردار نہ تھے ، کیا وہ زندگی کی دوڑ میں کسی سے پیچھے تھے؟
وقت بدلا ، ترقی ہوئی (صرف مادّی) ۔ بچوں کو پالنے اور تربیت کا ڈھنگ تک بدل گیا۔ سائنسی تحقیقات کا سہارا لیکر بچوں کی تربیت کے حوالے سے مختلف پہلو زیر غور آئے جن میں زیادہ اہمیت ان باتوں کو دی گئی کہ ڈانٹ ڈپٹ اور روک ٹوک سے بچوں کی شخصیت پر برا اثر پڑتا ہے۔ ان میں خود اعتمادی پروان نہیں چڑھتی۔ بے شک بے جا روک ٹوک اور بلا وجہ ڈانٹ ڈپٹ شخصیت کی بگاڑ کا سبب ہوتی ہے ، آج زمانے میں تربیت کے رنگ ڈھنگ واہ واہ کیا کہیں۔ ماں باپ کسی کام کو کرنے سے منع کریں تو بچے اس کی وجہ پوچھتے ہیں کہ انہیں اس کام سے کیوں روکا جا رہا ہے۔ موبائیل فون کی گھنٹی بجتے ہی بچے بچیاں محفل چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ نہ سلام ، نہ دعا ، نہ اجازت۔ نہ بڑوں کا ادب نہ چھوٹوں کا لحاظ اور والدین کو اس پر کوئی شرمندگی یا پچھتاوا نہیں ہوتا۔
کسی کی توجہ ہی اس طرف نہیں جاتی کہ اگر بچوں کے رویے ایسے ہی رہے تو کل کیا ہوگا؟
بچوں کو ضرور پیار کیجئے ، ضروریات اور آسائشیں فراہم کیجئے لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کی صحیح خطوط پر تربیت بھی کیجئے۔ بحثیت والدین خاص طور پر مائیں اپنے فرا ئض کو پہچانیں اور سوچیں کیا ہمارے بچے خاندان اور ہمارے ماحول کے عکاس ہیں؟ اپنی زندگی کو تج دینے والے والدین کو کیا آج اتنا بھی حق نہیں کہ اولاد کو غلط راہ پر چلنے سے روک سکیں۔ ماں باپ بچوں کو اگر کسی کام سے منع کریں تو یہ ان کا حق بھی ہے اور فرض بھی۔ اس میں فائدہ اولاد کا ہی ہے۔ یہ بھی غلط ہے کہ بچوں پر بے جا سختی کی جائے۔ ہر بات پر روکا ٹوکا جائے اور ہروقت اپنے حکم کے تابع کیا جائے ، مگر جیسے ہر کام کے نئے حدود و قیود کا تعین ضروری ہے ، اسی طرح تربیت کے بھی اصول ہوتے ہیں۔ بچوں کو اگر کسی بات یا کسی چیز سے منع کریں تو اس کی وجہ ضرور بتائیں۔ اپنا حق استعمال کریں۔
زندگی چاہے بڑوں کی ہو یا بچوں کی اگر اصولوں کی قید سے آزاد ہوجائے تو پھر انسان اور جانور میں فرق ہی کیا رہ جائے گا؟
والدین نے بچوں کی تربیت صرف اچھے انگلش میڈیم اسکولوں میں داخل کرنا ، انہیں ٹیوشن ( مہنگے سے مہنگا) پڑھوانا ، اعلیٰ معیاری ریستوران میں کھانا کھلانا ، بے ڈھنگے کپڑے ، آسائشوں کی فراوانی اور منہ سے نکلی ہر بات کو پورا کرنا سمجھ لیا ہے۔ اور اسی کے گرد گھوم رہے ہیں۔
یہ سب ایسے معاشرے کی بنیاد ہیں جہاں مادّی ترقی تو ضرور نظر آئے گی مگر انسانوں کا دامن تہذیب و اقدار سے خالی ہوگا اور پھر ہمارے بچے بھی مغرب کی بھٹکی ہوئی ، بگڑی ہوئی نسلوں کی طرح نظر آئیں گے۔ اگر ہم ان معاملات میں بہتری کے خواہاں ہیں تو آج سے تربیت کے سنہرے اصول اپنالیں ۔ اپنے جگر کے گوشوں کو ایک بہترین انسان بنانے کی کوشش کریں اور سب سے پہلے یہ طئے کریں کہ وہ بچوں میں مذہب ، اخلاقیات ، تہذیب ، و اقدار کے حوالے سے کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اپنی ترجیحات کا تعین کر کے لائحہ عمل طئے کریں اور بچوں کو شتر بے مہار کی طرح چھوڑنے کے بجائے ان کی تربیت کا آغاز صحیح خطوط پر کریں۔
جاری ہے۔۔۔۔