بچوں کی تعلیم و تربیت: برے الفاظ اور گالیاں

زیک

مسافر
بچے ماں باپ، سکول، دوستوں، میڈیا، کتب اور دیگر جگہوں سے سیکھتے ہیں۔جب انہیں کسی نئے لفظ کا علم ہوتا ہے تو وہ متجسس ہوتے ہیں۔ اب یہ نیا لفظ برے معنی بھی رکھ سکتا ہے اور ایسا لفظ بھی ہو سکتا ہے جو مہذب لوگ استعمال کرنے سے گریز کرتے ہوں۔ ایسی صورتحال میں آپ کیا کرتے ہیں (یا کریں گے)؟

اگر آپ کا بیٹا یا بیٹی آپ کے سامنے ایسا لفظ استعمال کرے یا کسی ایسے لفظ کے بارے میں آپ سے پوچھے تو آپ کا کیا ردِ عمل ہو گا؟
 

مقدس

لائبریرین
یہ تو ڈیپنڈ کرتا ہے کہ آپ کا بچہ کس عمر کا ہے کیونکہ آویسلی بچوں کو ان کی ایج کے مطابق ہی ڈیل کیا جانا چاہیے۔۔جیسے چھوٹے بچے لائیک طلحہ کی ایج کے بچے اگر کچھ ایسا کہیں تو شدید ردعمل کے بجائے اس کو جسٹ اگنور کیا جانا چاہیے۔۔۔ وہ ایک یا دو بار کہہ کر بھول جائیں گے لیکن اگر آپ اس بات پر ہنس دئیے یا اس کو بار بار پوائنٹ آوٹ کرنا اسٹارٹ کر دیا تو بچے متجسس ہو کر بار بار اس کو رپیٹ کریں گے آپ کا ردعمل دیکھنے کے لیے اور اگر آپ کا بچہ اس ایج کا ہے جب وہ آپ کی بات سمجھ سکتا ہے تو تحمل سے پیار سے سمجھانا چاہیے اور فرسٹلی خود کو دیکھنا چاہیے کہ کیا آپ کا بچہ یہ غلط باتیں آپ سے سیکھ رہا ہے اگر ہاں تو خود پر کنٹرول کریں تو بچے خود ہی سدھر جائیں گے
 

زیک

مسافر
مقدس ظاہر ہے کہ بچے کی عمر پر منحصر ہے۔ اگر بچہ پڑھتا لکھتا ہے اور سکول جاتا ہے تو میرے خیال میں اسے سب سے پہلے ڈکشنری میں لفظ کا مطلب دیکھنے کو کہیں تاکہ بچے کو معلوم ہو کہ اس برے لفظ کے کیا معانی ہیں اور وہ کیوں برا ہے۔ اس کے بعد بچے سے اس بات پر ڈسکشن ہو کہ لفظ کس لحاظ سے برا ہے اور اسے استعمال کرنا کیوں غلط ہے۔
 

حسن ترمذی

محفلین
بچہ کافی چھوٹی ایج کا ہو تو نئے نئے لفظ سیکھتا ہے.. اس وقت آپ اس کچھ اچھا برا بولنے سے محظوظ ہوتے ہیں لیکن یہ کیفیت زیادہ وقت نہیں رہتی.. پھر مستقل الفاظ کی باری آتی ہے جب بچہ جنرلی کی جانے والی بات چیت سمجھتا ہے لیکن اچھے برے کا نہیں پتا ہوتا.. اس وقت والدین کو احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ آگے جاکر بچہ ان باتوں کو اپنا سکتا ہے۔ جیسے گالی دینا.. اگر چہ آپ گالی دیتے ہیں اور بچے کو پتا ہے کہ یہ بری شے ہے تو وہ آپ کے ڈر سے گھر میں تو گالی نہیں دیگا لیکن باہر اپنے ہم عمر بچوں میں گالی دے گا.. اور اگر گھر میں گالی گلوچ سے پاک ماحول ہے تو بچہ باہر بھی ایسا نہیں کرے گا.. ہمیں ردعمل سے پہلے اپنے عمل و زبان کو بہتر کرنا ہوگا
 
میرے بچے نہیں ہیں۔ لیکن میں یہ بتا سکتا ہوں کہ ابو جان ایسے موقعوں پر کیا کرتے تھے۔
ان کا ہم پر بہت رعب تھا۔ ہم پوجتے تھے انھیں۔ برے لفظوں ہی پر موقوف نہیں، تجسس کے اور موقعے بھی زندگی میں آتے ہیں۔ ایسے وقتوں میں ابو ہم سے کہتے تھے، "بیٹا! ابھی سمجھنے کی بات نہیں ہے یہ۔ ایسا نہ کرو۔ ایسا نہ کہو۔ بڑے ہو گے تو معلوم ہو جائے گا!"
شاید آپ کہیں کہ یہ تو سبھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ بات درست ہے۔ مگر حق یہ ہے کہ اثر اسی باپ کی بات میں ہوتا ہے جس کا احترام اور اعتبار بچوں کے دل میں ہو۔ وہ کہے کہ بعد میں معلوم ہو جائے گا اور بچے مان لیں کہ واقعی بعد میں معلوم ہو جائے گا اور یہ کہ ابھی یہ جاننا ان کے لیے فائدے سے زیادہ نقصان کا باعث ہے۔ یہ کھیل سارا رشتے کی نوعیت کا ہے۔
میں شاید یہ بات ایک مثال سے واضح کر سکوں۔ ابو ڈاکٹر تھے۔ پتا نہیں کس عمر کا ہوں گا میں۔ میں نے ان کی کسی کتاب میں انسانی جسم کے کچھ ایسے عکس دیکھے جو انفارمیشن ٹیکنالوجی سے پہلے شریف لوگوں کو صرف طب کی کتابوں ہی میں ملتے تھے۔ میں محو تھا کہ ابو آ گئے۔ انھوں نے کتاب مجھ سے لے لی اور مجھے اپنے مخصوص انداز میں سمجھا دیا۔
کچھ عرصے کے بعد وہ کتاب مجھے پھر ابو کی میز پر نظر آ گئی۔ میں نے چپکے سے اسے اٹھایا اور گھر لے جا کر کہیں چھپا دیا۔ پھر ایک عجیب جنگ کا آغاز ہوا۔ میں کوئی تین چار دن خود سے جھگڑتا رہا۔ موقع ملتے ہی کتاب اٹھاتا تھا۔ پھر رکھ دیتا تھا۔ ہمت نہیں پڑتی تھی کہ اسے کھول لوں۔ آخر ایک دن ہمت ہار گیا۔ کتاب لے کر واپس ابو کے کلینک گیا اور بے تابی میں کتاب دروازے پر پھینک کر بھاگ نکلا۔ اس طرح ابو جان وہ جنگ جیت گئے جس میں اپنی طرف سے بھی میں لڑ رہا تھا اور ان کی جانب سے بھی!
اس کے بعد شاید ہی ایسا ہوا ہو کہ ابو نے کسی بات کے بارے میں ایسا کوئی اشارہ دیا ہو اور میں نے سرِ تسلیم خم نہ کیا ہو۔
تربیت کے قوانین، ضابطے، اصول اور نظریات ایک طرف اور مربی کا کردار ایک طرف۔ اگر بچوں کو ماں باپ کا کردار کم از کم اپنی عقل کے مطابق تضاد سے پاک معلوم ہو تو عجب نہیں کہ وہ ان کی ہر بات پہ ان دیکھا بھروسا کریں۔ انھیں کہہ دیا جائے کہ مناسب وقت پر بتا دیا جائے گا اور وہ بے فکر نہ ہو جائیں۔ ان کا تجسس اعتماد اور بھروسے سے مغلوب نہ ہو جائے۔ بات صرف رشتے کی نوعیت کی ہے!
 
آخری تدوین:

صائمہ شاہ

محفلین
بچے کی عمر کچھ بھی ہو تربیت نہیں رکتی ۔
ہر نیا لفظ تربیت کا در کھولتا ہے ۔ ہمارے گھر میں Slang کی اجازت نہیں ۔ زبان کی خوبصورتی اس کے شستہ استعمال میں ہے ۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کسی لفظ کو ڈسکس نہیں کرتے نہ صرف ڈسکس کرتے ہیں بلکہ اس کے بیک گراونڈ اور اور اچھے برے استعمال کا بھی ذکر ہوتا ہے ۔ بچوں کو اچھے متبادل الفاظ کے استعمال اور فوائد کی تربیت اس گفتگو سے ہی ملتی ہے ۔
 
اس کا جواب تو حمیرا عدنان ہی دے سکتیں۔
انکے پتر صاحب نے پاکستان آ کر "بے غیرت" لفظ سیکھا تھا۔
اب انہوں نے اس پر کیا ردعمل دیا؟ کس طرح سمجھایا بجھایا،یا متبادل لفظ بتلایا؟
 
اس کا جواب تو حمیرا عدنان ہی دے سکتیں۔
انکے پتر صاحب نے پاکستان آ کر "بے غیرت" لفظ سیکھا تھا۔
اب انہوں نے اس پر کیا ردعمل دیا؟ کس طرح سمجھایا بجھایا،یا متبادل لفظ بتلایا؟
عبداللہ بھائی میں نے جواب اتنا ہی کہا تھا میری جان ایسا نہیں بولتے نہیں تو اللہ تعالٰی ناراض ہو جاتے ہیں....
میں تو مقدس کی بات کی ہی تائید کروں گی.... میرے پتر کا صحیح معنوں میں یہ پہلا پاکستانی کا دورہ ہے .. بہت سی نئی نئی باتیں اور نئے الفاظ سیکھ رہا ہے جیسے ابھی کل کی ہی بات ہے گرمی میں بھاگنے کی وجہ سے مجھ سے ڈانٹ پڑی تو جواباً مجھے جن الفاظ سے نوازا گیا وہ یہ ہیں " کُٹی" میں تو سچ میں حیران ہو گئی اور ہنسی بھی آئی لیکن ایان کے سامنے نہیں ہنسی
 

زیک

مسافر
کئی لوگ برے الفاظ کو بگاڑ کر کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ مثلاً گاڈ ڈیم کہنا انتہائی برا سمجھتے ہیں مگر گاش ڈارن میں کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن میں نے بیٹی کو کہہ رکھا ہے کہ میں یہ بگڑے ہوئے الفاظ ہرگز نہ سنوں۔ اگر ہمت ہے تو اصل الفاظ استعمال کرو۔ محض کچھ حروف یا تلفظ بدلنے سے الفاظ پاک صاف نہیں ہو جاتے۔
 

جاسمن

لائبریرین
بچوں کی تربیت میں پہلے نمبر پہ خاندان،پھر دوست احباب ،رشتہ دار اور پڑوسی،تیسرے نمبر پہ میڈیا اور چوتھے نمبر پہ تعلیمی ادارے ہیں۔ نمبروں کی یہ ترتیب بدل بھی جاتی ہے۔اور کچھ منفی بھی ہو جاتا ہے۔
اس لئے بچوں کے غلط باتیں سیکھنے کے حوالے سے یہ سب اپنی اپنی جگہ کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔
ایسے میں والدین اچھے دوست بھی بن سکیں تو اِن برے اثرات کو دور کر سکتے ہیں۔
خود عمل کرنا لازمی شرط۔ ہے۔ بچوں کو زیادہ وقت دیں۔ ان کی باتیں سنیں۔ آج کیا کیا ہوا؟؟؟آپ کی نرمی،دوستی،باتیں سننے کا شوق ۔۔۔انہیں راغب کرے گا کہ وہ آپ سے اپنے"راز"شئیر کریں۔
محمد نے بس ایک بار الو والی گالی دی تھی،میں نے توجہ ہی نہیں دی اور وہ بھول بھال گیا۔ اس کے علاوہ ہم انہیں بتاتے رہتے ہیں۔ کوئی بھی بری بات سامنے آ جائے تو ہم اچھی طرح راہنمائی کرتے ہیں۔
کچھ باتیں ہم نظر انداز کر دیتے ہیں۔ توجہ ہی نہیں دیتے تو وہ خود بخود ختم ہو جاتی ہیں۔
گزشتہ دو سالوں سے محمد کے چند ہم جماعت اپنے ساتھیوں کے "علم" میں اضافے کا باعث بن رہے تھے۔ ایسے میں ہم بہت پریشان تھے۔ میں نے اپنے بیٹے کو اکیلے میں لے کے بیٹھ جانا اور ساری باتیں پوچھنا۔پھر اسے اُن باتوں کے بارے میں اپنے انداز سے بتانا۔ سکول جا کے پرنسپل اور استانیوں سے ملی۔ اُن دو لڑکوں کو ان کی حرکتوں کی وجہ سے باری باری سکول سے نکال دیا گیا۔
ہم نے یہ بھی سمجھ لیا کہ بچوں کو ہم باہر کے ایسے ماحول سے مکمل نہیں بچا سکتے۔ سکول جتنا اچھا بھی ہو گا،اس طرح کے بچے ہر جگہ مختلف تناسب سے ہوں گے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد ہم نے اپنے بچوں کے ساتھ دوستی پہ اورزیادہ توجہ کی۔
دعائیں۔۔۔بہت اہم ہیں۔ اپنی کوششوں(یہ کوششیں بھی اللہ رب العزت کی توفیق کردہ ہیں) سے بھی پہلے دعائیں۔۔۔دعائیں۔۔۔اور دعائیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
میری دوست کے بھائی نے باہر سے ایک گالی سیکھ لی۔ اسے جب غصہ آتا،گالی دیتا۔ ماں بہت پریشان۔ ایک ترکیب سوچی۔ بچہ کی گالی کو نظر انداز کیا اور جب ماں کو غصہ آتا تو زور دے کےکہتیں۔
"اللہ تمہیں حج کرائے۔"
نتیجہ یہ ہوا کہ بچہ نے بھی غصہ کے عالم میں یہی دعا زور سے کہنی شروع کر دی۔
 
Top