ام اویس
محفلین
رات ہو چکی تھی۔ آسمان ایک سیاہ گنبد کی طرح دکھائی دے رہا تھا جس میں بے شمار ستارے چمک رہے تھے۔ چھوٹا ابراھیم چھت پر چت لیٹا آسمان پر چمکتے ستاروں کو بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔ ایک طرف سات ستاروں کا جھرمٹ تھا اس کی سیدھ میں ایک موٹا چمک دار تارہ تھا۔ اس کے دوست نے اسے بتایا ، یہ چمکتا ستارہ ہمارا معبود ہے، ہماری قسمت چمکاتا اور ہمیں مال دار بناتا ہے؛ اس لیے اس کی عبادت اچھے طریقے سے کرنی چاہیے۔
رات دبے پاؤں گزر رہی تھی۔ آسمان پر چاند بھی نمودار ہوچکا تھا ، جو خوب بڑا اور روشن تھا۔ اس کے دوست کہتے تھے یہ بھی ہمارا رب ہے۔ ابراھیم کی نظریں اس پر جم گئیں اور وہ سوچنے لگا: “کیا واقعی یہ ہمارا رب ہے ؟”
اسی سوچ وبچار میں ساری رات گزر گئی اور صبح کا اجالا پھیلنا شروع ہوا، مشرق سے سورج نمودار ہو رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں آسمان سے چاند اور سارے ستارے غائب ہو گئے۔ روشنی پھیلتی گئی اور سورج بلند ہونے لگا ۔ ابراھیم نے سوچا یہ کیسے خدا ہیں جو سورج کے سامنے ٹہر نہیں سکتے اور بھاگ جاتے ہیں۔ یہ کسی کے رب کیسے ہو سکتے ہیں ؟
سورج نے چاروں طرف روشنی اور گرمی پھیلانی شروع کر دی۔ وہ اس قدر روشن تھا کہ اس پر نظر جمانا مشکل تھا۔ ابراھیم نے سوچا: ہو نہ ہو یہ میرا رب ہو ۔ دن بھر سورج اپنی آب و تاب دکھاتا رہا ؛ لیکن جوں ہی شام ہوئی پہاڑوں کے پیچھے چھپ گیا۔
ابراھیم نے کہا: “یہ بھی چھپ گیا ہے، یہ میرا رب نہیں ہو سکتا۔”
ابراھیم کا زیادہ تر وقت اسی سوچ وبچار میں گزرتا تھا۔ آخر الله تعالی نے اس کی تڑپ اور طلب کو قبول فرما لیا؛ کیونکہ الله دلوں کا بھید جانتے ہیں۔ الله نے انہیں توحید کی سمجھ بوجھ عطا کر دی۔
مشاہدات کا دورتھا۔ ابراھیم جان چکے تھے کہ ہمارا اصل معبود وہی الله ہے جس نے زمین آسمان اور اس کی ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔ انہیں الله تعالی کی قدرت اور اختیار پر مکمل یقین تھا۔ وہ بچپن سے نکل کر جوانی میں قدم رکھ چکے تھے۔ ایک دن انہوں نے اللہ سے دعا کی : “ یا الله مجھے دکھائیے آپ مردوں کو کیسے زندہ کریں گے؟
اللہ تعالی نے فرمایا: “کیا تمہیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ میں مردوں کو زندہ کر سکتا ہوں۔”
ابراھیم نے کہا: “کیوں نہیں! مجھے پختہ یقین ہے؛ لیکن میں اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہوں تاکہ میرا دل مطمئین ہوجائے۔”
الله تعالی نے فرمایا: “چار پرندے لے کر انہیں اپنے پاس رکھو ، انہیں دانہ دنکا کھلاؤ، تاکہ وہ تمہیں اچھی طرح پہچاننے لگیں اور تم سے محبت کرنے لگیں۔”
ابراھیم چار مختلف پرندے لے کر ان کی دیکھ بھال کرنے لگے، چند ہی دن میں وہ ان سے خوب مانوس ہو گئے۔ وہ انہیں بلاتے تو وہ اُڑ کر آتے اور ان کے ہاتھ سے دانہ چگتے۔ الله تعالی نے حکم دیا اب انہیں ذبح کرکے ان کے ٹکڑے کر دیں اور ایک ایک ٹکڑا الگ الگ پہاڑ پر رکھ دیں۔
پھر میدان میں جا کر انہیں آواز دیں۔ جونہی ابراھیم نے ذبح شدہ پرندوں کو نام لے کر آواز دی وہ دوڑتے ہوئے ان کے پاس پہنچ گئے۔ یہ دیکھ کر ان کا دل بالکل مطمئن ہوگیا۔
ابراھیم جس ملک میں رہتے تھے وہاں کے لوگ چاند ، ستاروں اور سورج کو اپنا رب ماننے کے ساتھ ساتھ پتھر کے بنے بتوں کو بھی پوجتے تھے۔ خود ابراھیم کا باپ بھی ایک بت تراش تھا۔ اس کا نام آذر تھا اور وہ پتھروں کو تراش کر نہایت خوبصورت بت بنایا کرتا تھا ، جو عبادت گاہ میں رکھے جاتے تھے۔
ایک دن کا ذکر ہے۔ سب لوگ عبادت گاہ میں جمع تھے۔ابراھیم نے اپنے باپ سے اور وہاں موجود لوگوں سے کہا:”یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو ، یہ تو پتھر ہیں تم ان کی عبادت کیوں کرتے ہو؟”
انہوں نے جواب دیا: “ہمارے باپ دادا انہیں کی عبادت کرتے تھے۔
ابراھیم نے کہا: “تم اور تمہارے باپ دادا سب کے سب یقیناً کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں۔”
ان میں سے ایک شخص نے کہا: “کیا تم ہمارے پاس سچ مچ حق ﻻئے ہو یا یوں ہی مذاق کر رہے ہیں؟ “
یہ سُن کر آپ نے فرمایا: مجھے یقین ہے اور میں یہی کہتا ہوں کہ یہ پتھر معبود نہیں ہیں۔ درحقیقت میرا اور تم سب کا پروردگار تو وه ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے جس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ پھر دل ہی دل میں کہا: “اللہ کی قسم! جب تم یہاں نہیں ہوگے تو میں تمہارے ان معبودوں کے ساتھ ایک چال چلوں گا”
آخر ابراھیم کو اس کا موقع مل گیا۔ ان کی بستی کے باہر ہر سال ایک میلہ لگتا تھا۔ جس کے لیے پورے سال تیاری کی جاتی تھی۔ اس میلے میں بستی کے تمام افراد کی شرکت ضروری تھی۔ بچے، بوڑھے، جوان ،عورتیں ، مرد سب شامل ہوتے۔ اچھے اچھے کپڑے پہنتے ، ڈھیر سارے تحائف اور رنگ برنگے جھنڈے لے کر اس میلے میں شمولیت کے لیے جلوس کی شکل میں جاتے ۔ بڑے سے میدان میں ایک طرف بادشاہ کا خیمہ گاڑ دیا جاتا۔ بادشاہ زرق برق قیمتی لباس پہنے، سونے کا تاج سر پر سجائے، زیورات سے لدا پھدا ، خوبصورت منقش تخت پر شان سے بیٹھ جاتا۔ وہ بہت مغرور بادشاہ تھا۔ باری باری تمام لوگ اسے سجدہ کرتے اور نذرانے پیش کرتے۔ ابراھیم کے والد نے اسے بھی میلے میں ساتھ چلنے کا کہا:
ابراھیم کو اپنے رب کی طرف سے توحید کی پہچان مل چکی تھی۔ وہ تو اس سوچ میں گُم پریشان رہتے کہ اپنے باپ اور بستی والوں کو کیسے سمجھائیں؛ چنانچہ انہوں نے کہا “میری طبیعت ٹھیک نہیں اس لیے میں اپنے آپ کو اس میلے میں جانے کے قابل نہیں پاتا۔”
ان کے باپ نے بہت اصرار کیا پھر بیٹے کے زرد چہرے کو دیکھتے ہوئے اسے گھر رہنے کی اجازت دے دی۔
جب بستی کے تمام لوگ میلے میں شرکت کے لیے روانہ ہوگئے تو ابراھیم اپنی مہم پر روانہ ہوئے۔ انہوں نے ایک کلہاڑا پکڑا اور بستی کی عبادت گاہ میں پہنچ گئے۔ یہ ایک بہت بڑا کمرا تھا جسے گنبد کی شکل میں بنایا گیا تھا۔ دروازے کے دونوں طرف محافظوں کی وردی پہنے دو بُت کھڑے تھے۔ مشہور تھا کہ یہ بُت چوروں اور ڈاکوؤں سے بستی کے لوگوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اندر داخل ہوتے ہی سب سے پہلے ان کو سجدہ کیا جاتا تھا۔ ابراھیم نے ایک بت کو ہاتھ لگایا ، اسے ہلایا جلایا پھر کلہاڑا اٹھا کر اس کے بازو پر دے مارا، محافظ بت کا بازو دور جا گرا ۔ پھر اس کی ٹانگ پر کلہاڑا مارا اس کی ٹانگ ٹوٹ کر نیچے گر گئی۔“یہ کیسا محافظ ہے جو خود اپنی حفاظت نہیں کر سکتا” ابراھیم نے کہا اور آگے بڑھ گئے۔ ایک بت کے منہ پر مکھی بیٹھی تھی۔ ابراھیم نے اس پر کلہاڑا دے مارا مکھی اُڑ گئی ، لیکن بت کا ناک چکنا چور ہوگیا:
“جو اپنی ناک پر بیٹھی مکھی نہیں اڑا سکتا وہ ہمارا خدا کیسے ہو سکتا ہے؟ ” ابراھیم نے زور سے کہا: معبد میں بہت سے بت تھے، کوئی رزق دینے کے لیے مشہور تھا، تو کوئی اولاد دیتا تھا۔ کسی بت کو لوگ دولت کا خدا کہتے تھے تو کوئی صحت دیتا تھا، کوئی طاقت دیتا اور کوئی شہرت دینے کے لیے مشہور تھا۔ ان کے سامنے کھانے پینے کی چیزوں کے بھرے خوان رکھے تھے۔ ابراھیم نے بلند آواز سے انہیں مخاطب کیا اور کہا: “تم یہ کھانے کیوں نہیں کھاتے اور تم میری کسی بات کا جواب کیوں نہیں دیتے؟ “
یہ کہہ کر ابراھیم نے کلہاڑا اٹھایا اور انہیں توڑنا شروع کردیا۔ خوب توڑ پھوڑ کرنے بعد تھک کر کلہاڑا سب سے بڑے بت کے ہاتھ میں پکڑا دیا اور گھر واپس آکر لیٹ گئے۔
اگلے دن بستی میں کہرام مچا ہوا تھا۔ تمام لوگ عبادت گاہ میں جمع تھے اور بتوں کی حالت دیکھ کر سخت غصے میں تھے۔ آزر بھی وہیں موجود تھا۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے۔
“ کون ہے جس نے ہمارے خداؤں کا یہ حال کر دیا؟ “ معبد کا بڑا بچاری غصے سے چلایا:
“ساری بستی میں ایک ہی لڑکا ہے جو ہمارے خداؤں کی عبادت نہیں کرتا، اور ان کا مزاق بناتا ہے” مجمع میں سے ایک شخص بولا:
“ ابراھیم “ دوسرا چلایا: “وہ کل ہمارے ساتھ میلے میں بھی موجود نہیں تھا۔ میں نے اسے وہاں نہیں دیکھا”
“ ہاں ! ہاں ، وہی ہے ، یہ اسی کا کام ہوسکتا ہے” پجاری نے کہا: سب لوگوں نے اس کی تائید کی۔
“آزر! فورا جاؤ اور اپنے بیٹے کو یہاں لے آؤ ، آج اسے معاف نہیں کیا جائے گا” پجاری نے آزر کو حکم دیا۔
جب ابراھیم وہاں پہنچے تو سب لوگ سخت مشتعل تھے۔ ابراھیم سکون سے اپنے والد کے ہمراہ معبد میں داخل ہوئے اور بڑے پجاری کے سامنے کھڑے ہوگئے۔
“کیا تم نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ سب کیا ہے؟” بڑے پجاری نے غصے سے سوال کیا:
“آپ دیکھ رہے ہیں اس بڑے بت کے گلے میں کلہاڑا ہے۔ آپ اس سے کیوں نہیں پوچھتے یقیناً اسی نے دوسرے بتوں کو توڑا ہوگا ؟ “ابراھیم نے نہایت اعتماد سے جواب دیا:
اس کی یہ بات سن کر پجاری خاموش ہوگیا، سب لوگ ششدر تھے۔ پجاری نے ایک نظر مجمع کے بدلتے رنگ پر ڈالی اور بات سنبھالتے ہوئے بولا تم جانتے ہو یہ ایسا نہیں کر سکتا۔
ابراھیم نے کہا: “اگر یہ ایسا نہیں کر سکتا اور ان بتوں میں اپنے آپ کو بچانے کی طاقت بھی نہیں ہے تو یہ ہمیں کسی آفت یا مصیبت سے کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں ؟ تم لوگوں پر افسوس ہے کہ تم ان بے جان پتھروں کی عبادت کرتے ہو۔”
سب لوگ اصل بات سمجھ گئے؛ لیکن ضد اور ہٹ دھرمی نے انہیں سچ نہ ماننے دیا۔
پجاری نے حکم دیا: “ابراھیم کو پکڑ کر باندھ دو۔ ہم اسے بادشاہ کے پاس لے جائیں گے۔ اب اس مقدمے کا فیصلہ بادشاہ کرے گا۔ ابراھیم کو ہمارے معبود توڑنے کی سخت سزا ملے گی۔”
بستی کے لوگ ابراھیم کو لے کر بادشاہ کے حضور جا پہنچے۔
بادشاہ نے اپنا دربار سجا رکھا تھا اور بڑی شان و شوکت اور غرور کے ساتھ اپنے تخت پر براجمان تھا۔
ابراھیم کو اس کے سامنے پیش کیا گیا اور بتوں کی توڑ پھوڑ کا واقعہ بیان کیا گیا۔ بادشاہ کو سخت غصہ آیا۔ اس نے ابراھیم سے کہا: “کیا تم مجھے اپنا رب نہیں مانتے ؟” کیا تم نے کسی اور کو اپنا رب بنا لیا ہے؟ “
ابراہیم نے جواب دیا: “ میرا رب تو وہ ہے جو زندگی اور موت دیتا ہے۔ “
بادشاہ غرور کے عالم میں کہنے لگا: “زندگی اور موت تو میں بھی دے سکتا ہوں۔
میں جسے چاہوں مار دوں اور جسے چاہوں زندہ چھوڑ دوں یہ کونسا مشکل کام ہے۔”
ابراہیم نے کہا: میرا اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے آپ اسے مغرب سے نکال دیجئے۔” یہ سن کر وہ کافر ہکا بکا رہ گیا۔
بجائے اس منطقی جواب پر غور و فکر کرنے کے ، انتہائی طیش کے عالم میں اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا لکڑیاں اکٹھی کر کے آگ کا ایک بڑا الاؤ دہکایا جائے ، جب آگ خوب بڑہک اٹھے تو اس میں ابراھیم کو ڈال دیا جائے۔
چنانچہ انہوں نے لکڑیوں کا ایک بڑا ڈھیر جمع کیا۔ ہر شخص بتوں کو راضی کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ لکڑیاں جمع کرکے لایا اور ابراھیم کو اس بھڑکتے ہوئے عظیم الاؤ میں ڈال دیا گیا۔ ادھر الله تعالی نے آگ کو حکم دیا : اے آگ سرد ہو جا اور ابراہیم پر سلامتی والی بن جا۔
الله کے حکم سے ابراھیم اس آگ سے محفوظ رہے۔ ان کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔ سب لوگ حیران و ششدر تھے۔
ابراھیم زندہ سلامت اپنے گھر واپس آگئے اور دوبارہ لوگوں کو الله کی وحدانیت کی دعوت دینے لگے۔
کچھ دن بعد ابراھیم علیہ السلام نے اپنے والد سے کہا: “ ابا جان! آپ ان بتوں کی پوجا پاٹ کیوں کرتے ہیں جو نہ تو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ آپ کو کچھ فائده پہنچا سکتے ہیں؟”
“والدِ محترم! آپ دیکھیئے میرے پاس وه علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں ہے۔ میری بات مانیں میں بالکل سیدھی راه کی طرف آپ کی رہبری کروں گا۔ “
“ ابّا جان! آپ شیطان کی پرستش سے باز آجائیں شیطان مہربان اللہ کا بڑا ہی نافرمان ہے اور ابّا جان! مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ پر الله کی طرف سے کوئی عذاب نہ آپڑے اور آپ شیطان کے ساتھی بن جائیں۔”
ان کے والد نے کہا: “ اے ابراہیم! کیا تو ہمارے معبودوں کا انکار کر رہا ہے۔ بات سن ! اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا، دور ہو ! جا چلا جا یہاں سے۔
ابراھیم نے ادب سے جواب دیا: “ اچھا ! آپ کی مرضی ، آپ پر سلام ہو، میں اپنے پروردگار سے آپ کی بخشش کی دعا کرتا رہوں گا، وه مجھ پر حد درجہ مہربان ہے۔”
ابراھیم کے باپ اور ان کی قوم کی بدنصیبی کی انتہاء تھی کہ اتنا بڑا معجزہ دیکھنے کے باوجود ایک آدمی بھی ایمان نہیں لایا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق چھوڑکر اپنے دو تین ساتھیوں کے ہمراہ ملک شام کی طرف روانہ ہوگئے۔
راستے میں ان کا گزر مصر سے ہوا جہاں ایک ظالم اور عیاش بادشاہ حکومت کرتا تھا۔
رات دبے پاؤں گزر رہی تھی۔ آسمان پر چاند بھی نمودار ہوچکا تھا ، جو خوب بڑا اور روشن تھا۔ اس کے دوست کہتے تھے یہ بھی ہمارا رب ہے۔ ابراھیم کی نظریں اس پر جم گئیں اور وہ سوچنے لگا: “کیا واقعی یہ ہمارا رب ہے ؟”
اسی سوچ وبچار میں ساری رات گزر گئی اور صبح کا اجالا پھیلنا شروع ہوا، مشرق سے سورج نمودار ہو رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں آسمان سے چاند اور سارے ستارے غائب ہو گئے۔ روشنی پھیلتی گئی اور سورج بلند ہونے لگا ۔ ابراھیم نے سوچا یہ کیسے خدا ہیں جو سورج کے سامنے ٹہر نہیں سکتے اور بھاگ جاتے ہیں۔ یہ کسی کے رب کیسے ہو سکتے ہیں ؟
سورج نے چاروں طرف روشنی اور گرمی پھیلانی شروع کر دی۔ وہ اس قدر روشن تھا کہ اس پر نظر جمانا مشکل تھا۔ ابراھیم نے سوچا: ہو نہ ہو یہ میرا رب ہو ۔ دن بھر سورج اپنی آب و تاب دکھاتا رہا ؛ لیکن جوں ہی شام ہوئی پہاڑوں کے پیچھے چھپ گیا۔
ابراھیم نے کہا: “یہ بھی چھپ گیا ہے، یہ میرا رب نہیں ہو سکتا۔”
ابراھیم کا زیادہ تر وقت اسی سوچ وبچار میں گزرتا تھا۔ آخر الله تعالی نے اس کی تڑپ اور طلب کو قبول فرما لیا؛ کیونکہ الله دلوں کا بھید جانتے ہیں۔ الله نے انہیں توحید کی سمجھ بوجھ عطا کر دی۔
مشاہدات کا دورتھا۔ ابراھیم جان چکے تھے کہ ہمارا اصل معبود وہی الله ہے جس نے زمین آسمان اور اس کی ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔ انہیں الله تعالی کی قدرت اور اختیار پر مکمل یقین تھا۔ وہ بچپن سے نکل کر جوانی میں قدم رکھ چکے تھے۔ ایک دن انہوں نے اللہ سے دعا کی : “ یا الله مجھے دکھائیے آپ مردوں کو کیسے زندہ کریں گے؟
اللہ تعالی نے فرمایا: “کیا تمہیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ میں مردوں کو زندہ کر سکتا ہوں۔”
ابراھیم نے کہا: “کیوں نہیں! مجھے پختہ یقین ہے؛ لیکن میں اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہوں تاکہ میرا دل مطمئین ہوجائے۔”
الله تعالی نے فرمایا: “چار پرندے لے کر انہیں اپنے پاس رکھو ، انہیں دانہ دنکا کھلاؤ، تاکہ وہ تمہیں اچھی طرح پہچاننے لگیں اور تم سے محبت کرنے لگیں۔”
ابراھیم چار مختلف پرندے لے کر ان کی دیکھ بھال کرنے لگے، چند ہی دن میں وہ ان سے خوب مانوس ہو گئے۔ وہ انہیں بلاتے تو وہ اُڑ کر آتے اور ان کے ہاتھ سے دانہ چگتے۔ الله تعالی نے حکم دیا اب انہیں ذبح کرکے ان کے ٹکڑے کر دیں اور ایک ایک ٹکڑا الگ الگ پہاڑ پر رکھ دیں۔
پھر میدان میں جا کر انہیں آواز دیں۔ جونہی ابراھیم نے ذبح شدہ پرندوں کو نام لے کر آواز دی وہ دوڑتے ہوئے ان کے پاس پہنچ گئے۔ یہ دیکھ کر ان کا دل بالکل مطمئن ہوگیا۔
ابراھیم جس ملک میں رہتے تھے وہاں کے لوگ چاند ، ستاروں اور سورج کو اپنا رب ماننے کے ساتھ ساتھ پتھر کے بنے بتوں کو بھی پوجتے تھے۔ خود ابراھیم کا باپ بھی ایک بت تراش تھا۔ اس کا نام آذر تھا اور وہ پتھروں کو تراش کر نہایت خوبصورت بت بنایا کرتا تھا ، جو عبادت گاہ میں رکھے جاتے تھے۔
ایک دن کا ذکر ہے۔ سب لوگ عبادت گاہ میں جمع تھے۔ابراھیم نے اپنے باپ سے اور وہاں موجود لوگوں سے کہا:”یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو ، یہ تو پتھر ہیں تم ان کی عبادت کیوں کرتے ہو؟”
انہوں نے جواب دیا: “ہمارے باپ دادا انہیں کی عبادت کرتے تھے۔
ابراھیم نے کہا: “تم اور تمہارے باپ دادا سب کے سب یقیناً کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں۔”
ان میں سے ایک شخص نے کہا: “کیا تم ہمارے پاس سچ مچ حق ﻻئے ہو یا یوں ہی مذاق کر رہے ہیں؟ “
یہ سُن کر آپ نے فرمایا: مجھے یقین ہے اور میں یہی کہتا ہوں کہ یہ پتھر معبود نہیں ہیں۔ درحقیقت میرا اور تم سب کا پروردگار تو وه ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے جس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ پھر دل ہی دل میں کہا: “اللہ کی قسم! جب تم یہاں نہیں ہوگے تو میں تمہارے ان معبودوں کے ساتھ ایک چال چلوں گا”
آخر ابراھیم کو اس کا موقع مل گیا۔ ان کی بستی کے باہر ہر سال ایک میلہ لگتا تھا۔ جس کے لیے پورے سال تیاری کی جاتی تھی۔ اس میلے میں بستی کے تمام افراد کی شرکت ضروری تھی۔ بچے، بوڑھے، جوان ،عورتیں ، مرد سب شامل ہوتے۔ اچھے اچھے کپڑے پہنتے ، ڈھیر سارے تحائف اور رنگ برنگے جھنڈے لے کر اس میلے میں شمولیت کے لیے جلوس کی شکل میں جاتے ۔ بڑے سے میدان میں ایک طرف بادشاہ کا خیمہ گاڑ دیا جاتا۔ بادشاہ زرق برق قیمتی لباس پہنے، سونے کا تاج سر پر سجائے، زیورات سے لدا پھدا ، خوبصورت منقش تخت پر شان سے بیٹھ جاتا۔ وہ بہت مغرور بادشاہ تھا۔ باری باری تمام لوگ اسے سجدہ کرتے اور نذرانے پیش کرتے۔ ابراھیم کے والد نے اسے بھی میلے میں ساتھ چلنے کا کہا:
ابراھیم کو اپنے رب کی طرف سے توحید کی پہچان مل چکی تھی۔ وہ تو اس سوچ میں گُم پریشان رہتے کہ اپنے باپ اور بستی والوں کو کیسے سمجھائیں؛ چنانچہ انہوں نے کہا “میری طبیعت ٹھیک نہیں اس لیے میں اپنے آپ کو اس میلے میں جانے کے قابل نہیں پاتا۔”
ان کے باپ نے بہت اصرار کیا پھر بیٹے کے زرد چہرے کو دیکھتے ہوئے اسے گھر رہنے کی اجازت دے دی۔
جب بستی کے تمام لوگ میلے میں شرکت کے لیے روانہ ہوگئے تو ابراھیم اپنی مہم پر روانہ ہوئے۔ انہوں نے ایک کلہاڑا پکڑا اور بستی کی عبادت گاہ میں پہنچ گئے۔ یہ ایک بہت بڑا کمرا تھا جسے گنبد کی شکل میں بنایا گیا تھا۔ دروازے کے دونوں طرف محافظوں کی وردی پہنے دو بُت کھڑے تھے۔ مشہور تھا کہ یہ بُت چوروں اور ڈاکوؤں سے بستی کے لوگوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اندر داخل ہوتے ہی سب سے پہلے ان کو سجدہ کیا جاتا تھا۔ ابراھیم نے ایک بت کو ہاتھ لگایا ، اسے ہلایا جلایا پھر کلہاڑا اٹھا کر اس کے بازو پر دے مارا، محافظ بت کا بازو دور جا گرا ۔ پھر اس کی ٹانگ پر کلہاڑا مارا اس کی ٹانگ ٹوٹ کر نیچے گر گئی۔“یہ کیسا محافظ ہے جو خود اپنی حفاظت نہیں کر سکتا” ابراھیم نے کہا اور آگے بڑھ گئے۔ ایک بت کے منہ پر مکھی بیٹھی تھی۔ ابراھیم نے اس پر کلہاڑا دے مارا مکھی اُڑ گئی ، لیکن بت کا ناک چکنا چور ہوگیا:
“جو اپنی ناک پر بیٹھی مکھی نہیں اڑا سکتا وہ ہمارا خدا کیسے ہو سکتا ہے؟ ” ابراھیم نے زور سے کہا: معبد میں بہت سے بت تھے، کوئی رزق دینے کے لیے مشہور تھا، تو کوئی اولاد دیتا تھا۔ کسی بت کو لوگ دولت کا خدا کہتے تھے تو کوئی صحت دیتا تھا، کوئی طاقت دیتا اور کوئی شہرت دینے کے لیے مشہور تھا۔ ان کے سامنے کھانے پینے کی چیزوں کے بھرے خوان رکھے تھے۔ ابراھیم نے بلند آواز سے انہیں مخاطب کیا اور کہا: “تم یہ کھانے کیوں نہیں کھاتے اور تم میری کسی بات کا جواب کیوں نہیں دیتے؟ “
یہ کہہ کر ابراھیم نے کلہاڑا اٹھایا اور انہیں توڑنا شروع کردیا۔ خوب توڑ پھوڑ کرنے بعد تھک کر کلہاڑا سب سے بڑے بت کے ہاتھ میں پکڑا دیا اور گھر واپس آکر لیٹ گئے۔
اگلے دن بستی میں کہرام مچا ہوا تھا۔ تمام لوگ عبادت گاہ میں جمع تھے اور بتوں کی حالت دیکھ کر سخت غصے میں تھے۔ آزر بھی وہیں موجود تھا۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے۔
“ کون ہے جس نے ہمارے خداؤں کا یہ حال کر دیا؟ “ معبد کا بڑا بچاری غصے سے چلایا:
“ساری بستی میں ایک ہی لڑکا ہے جو ہمارے خداؤں کی عبادت نہیں کرتا، اور ان کا مزاق بناتا ہے” مجمع میں سے ایک شخص بولا:
“ ابراھیم “ دوسرا چلایا: “وہ کل ہمارے ساتھ میلے میں بھی موجود نہیں تھا۔ میں نے اسے وہاں نہیں دیکھا”
“ ہاں ! ہاں ، وہی ہے ، یہ اسی کا کام ہوسکتا ہے” پجاری نے کہا: سب لوگوں نے اس کی تائید کی۔
“آزر! فورا جاؤ اور اپنے بیٹے کو یہاں لے آؤ ، آج اسے معاف نہیں کیا جائے گا” پجاری نے آزر کو حکم دیا۔
جب ابراھیم وہاں پہنچے تو سب لوگ سخت مشتعل تھے۔ ابراھیم سکون سے اپنے والد کے ہمراہ معبد میں داخل ہوئے اور بڑے پجاری کے سامنے کھڑے ہوگئے۔
“کیا تم نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ سب کیا ہے؟” بڑے پجاری نے غصے سے سوال کیا:
“آپ دیکھ رہے ہیں اس بڑے بت کے گلے میں کلہاڑا ہے۔ آپ اس سے کیوں نہیں پوچھتے یقیناً اسی نے دوسرے بتوں کو توڑا ہوگا ؟ “ابراھیم نے نہایت اعتماد سے جواب دیا:
اس کی یہ بات سن کر پجاری خاموش ہوگیا، سب لوگ ششدر تھے۔ پجاری نے ایک نظر مجمع کے بدلتے رنگ پر ڈالی اور بات سنبھالتے ہوئے بولا تم جانتے ہو یہ ایسا نہیں کر سکتا۔
ابراھیم نے کہا: “اگر یہ ایسا نہیں کر سکتا اور ان بتوں میں اپنے آپ کو بچانے کی طاقت بھی نہیں ہے تو یہ ہمیں کسی آفت یا مصیبت سے کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں ؟ تم لوگوں پر افسوس ہے کہ تم ان بے جان پتھروں کی عبادت کرتے ہو۔”
سب لوگ اصل بات سمجھ گئے؛ لیکن ضد اور ہٹ دھرمی نے انہیں سچ نہ ماننے دیا۔
پجاری نے حکم دیا: “ابراھیم کو پکڑ کر باندھ دو۔ ہم اسے بادشاہ کے پاس لے جائیں گے۔ اب اس مقدمے کا فیصلہ بادشاہ کرے گا۔ ابراھیم کو ہمارے معبود توڑنے کی سخت سزا ملے گی۔”
بستی کے لوگ ابراھیم کو لے کر بادشاہ کے حضور جا پہنچے۔
بادشاہ نے اپنا دربار سجا رکھا تھا اور بڑی شان و شوکت اور غرور کے ساتھ اپنے تخت پر براجمان تھا۔
ابراھیم کو اس کے سامنے پیش کیا گیا اور بتوں کی توڑ پھوڑ کا واقعہ بیان کیا گیا۔ بادشاہ کو سخت غصہ آیا۔ اس نے ابراھیم سے کہا: “کیا تم مجھے اپنا رب نہیں مانتے ؟” کیا تم نے کسی اور کو اپنا رب بنا لیا ہے؟ “
ابراہیم نے جواب دیا: “ میرا رب تو وہ ہے جو زندگی اور موت دیتا ہے۔ “
بادشاہ غرور کے عالم میں کہنے لگا: “زندگی اور موت تو میں بھی دے سکتا ہوں۔
میں جسے چاہوں مار دوں اور جسے چاہوں زندہ چھوڑ دوں یہ کونسا مشکل کام ہے۔”
ابراہیم نے کہا: میرا اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے آپ اسے مغرب سے نکال دیجئے۔” یہ سن کر وہ کافر ہکا بکا رہ گیا۔
بجائے اس منطقی جواب پر غور و فکر کرنے کے ، انتہائی طیش کے عالم میں اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا لکڑیاں اکٹھی کر کے آگ کا ایک بڑا الاؤ دہکایا جائے ، جب آگ خوب بڑہک اٹھے تو اس میں ابراھیم کو ڈال دیا جائے۔
چنانچہ انہوں نے لکڑیوں کا ایک بڑا ڈھیر جمع کیا۔ ہر شخص بتوں کو راضی کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ لکڑیاں جمع کرکے لایا اور ابراھیم کو اس بھڑکتے ہوئے عظیم الاؤ میں ڈال دیا گیا۔ ادھر الله تعالی نے آگ کو حکم دیا : اے آگ سرد ہو جا اور ابراہیم پر سلامتی والی بن جا۔
الله کے حکم سے ابراھیم اس آگ سے محفوظ رہے۔ ان کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔ سب لوگ حیران و ششدر تھے۔
ابراھیم زندہ سلامت اپنے گھر واپس آگئے اور دوبارہ لوگوں کو الله کی وحدانیت کی دعوت دینے لگے۔
کچھ دن بعد ابراھیم علیہ السلام نے اپنے والد سے کہا: “ ابا جان! آپ ان بتوں کی پوجا پاٹ کیوں کرتے ہیں جو نہ تو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ آپ کو کچھ فائده پہنچا سکتے ہیں؟”
“والدِ محترم! آپ دیکھیئے میرے پاس وه علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں ہے۔ میری بات مانیں میں بالکل سیدھی راه کی طرف آپ کی رہبری کروں گا۔ “
“ ابّا جان! آپ شیطان کی پرستش سے باز آجائیں شیطان مہربان اللہ کا بڑا ہی نافرمان ہے اور ابّا جان! مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ پر الله کی طرف سے کوئی عذاب نہ آپڑے اور آپ شیطان کے ساتھی بن جائیں۔”
ان کے والد نے کہا: “ اے ابراہیم! کیا تو ہمارے معبودوں کا انکار کر رہا ہے۔ بات سن ! اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا، دور ہو ! جا چلا جا یہاں سے۔
ابراھیم نے ادب سے جواب دیا: “ اچھا ! آپ کی مرضی ، آپ پر سلام ہو، میں اپنے پروردگار سے آپ کی بخشش کی دعا کرتا رہوں گا، وه مجھ پر حد درجہ مہربان ہے۔”
ابراھیم کے باپ اور ان کی قوم کی بدنصیبی کی انتہاء تھی کہ اتنا بڑا معجزہ دیکھنے کے باوجود ایک آدمی بھی ایمان نہیں لایا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق چھوڑکر اپنے دو تین ساتھیوں کے ہمراہ ملک شام کی طرف روانہ ہوگئے۔
راستے میں ان کا گزر مصر سے ہوا جہاں ایک ظالم اور عیاش بادشاہ حکومت کرتا تھا۔
مدیر کی آخری تدوین: