سید ذیشان
محفلین
بچپن میں ہم جانوروں کی کہانیاں پڑھتے تھے جن کے آخر میں ایک نتیجہ اخذ کیا جاتا تھا۔ (غالباً انسانوں کی کہانیوں سے اچھا سبق نہیں سیکھا جا سکتا اس لیے جانوروں کی کہانیاں پڑھائی جاتی ہیں) کہانی تو مزیدار ہوتی تھی لیکن نتیجہ کافی مشکل سا محاورہ ہوتا تھا جو سر کے اوپر سے گذر جاتا۔ ذیل میں ہم کچھ کہانیوں کا جدید ورژن پیش کریں گے جن کے نتائج قدرے آسان ہوں گے اور سر سے اوپر گذرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کہانیوں کو جدید کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ قدیم کہانیاں نہایت ہی خستہ ہو گئی ہیں اور ہر ایک کو زبانی یاد ہیں اور اس پر عمل کرنے سے حتی الوسع احتراز کیا جاتا ہے۔ جدید دور کے جدید تقاضے ہیں اور جدید کہانیاں۔ ویسے بھی تعلیم و تربیت بچوں کو معاشرے میں زندہ رہنے کے لئے اور اپنا مقام بنانے کے لئے کی جاتی ہے۔ اب آپ خود ہی بتائیں ”غرور کا سر نیچا“، ”سچ کو آنچ نہیں“ وغیرہ جیسے اقوال پر عمل کرنے والے ہمارے معاشرے میں کے دن جی سکیں گے؟
پہلی کہانی ”کچھوا اور خرگوش“
ایک مرتبہ تیز رفتار خرگوش کی سست رفتار کچھوے کیساتھ ریس لگی جس کی ایک ٹانگ پیدائشی خرابی کی وجہ سے ناپید تھی، جس سے کچھوا مزید سست رفتار ہو گیا تھا اور گھونگے سے قدرے تیز سفر کر سکتا تھا۔ کچھوے کو کیا سوجھی جو اس نے اس احمقانہ حرکت کی ٹھانی یہ تو خدا کو یا پھر کچھوے کو ہی معلوم ہے یا آپ کو آگے معلوم ہو جائے گا۔ خرگوش ذقندیں لگاتا ہوا کچھوے سے دور نکل گیا۔ بیچ میں خوابِ خرگوش کے بھی خوب مزے لئے۔ کچھوے نے بھی چالاکی سے ایسے راستے کا انتخاب کیا تھا جس کے بیچ میں ایک بہت بڑا تالاب تھا۔ اب خرگوش تالاب تک پہنچا تو حیرت کے مارے اپنی انگلیاں دانتوں تلے دبا دیں۔ ٹینشن بڑھ جائے تو کھانے کا ہی خیال آتا ہے۔ خرگوش اپنی انگلیاں گاجریں خیال کر کے چبانے لگا، تھوڑی دیر بعد درد سے بلبلانے لگا اور خرگوش نے ایک سنہری سبق سیکھا کہ ہر خیال شاعر یہ فلسفی کا خیال نہیں ہوتا اور خیالی گاجر کھانے کی نسبت خیالی پلاو پکانا پہتر ہے کہ اس میں انگلیاں چبانے کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ قصہ المختصر، کچھوا تالاب میں تیرتا ہوا اور amphibian wannabe rocks کے نعرے بلند کرتا ہوا منزلِ مقصود تک پہنچ گیا۔
نتیجہ: ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا
دوسری کہانی ”لالچی کتا“
ایک کتے کو ہڈی ملتی ہے اور وہ دانتوں میں دبائے نہر کے پل پر سے رال ٹپکاتا ہوا گذر رہا ہوتا ہے۔ نہر میں اس کو ایک اور ہڈی نظر آتی ہے بڑی تگڑی قسم کی۔ چونکہ اس نے پہلی جماعت میں ماسٹر صاحب سے لالچی کتے والی کہانی پڑھی ہوتی ہے اس لئے پانی میں اپنا عکس تلاش کرتا ہے۔ پانی انتہائی غلیظ اور گدلا ہوتا ہے۔ اس لئے اس میں اپنا عکس دیکھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کتا پہلے آس پاس دیکھتا ہے کہ کوئی ہے تو نہیں اور پل کی ایک ٹوٹی ہوئی لکڑی اٹھا کر ہڈی اس کے نیچے دبا دیتا ہے اور لکڑی اس طرح سے واپس رکھتا ہے کہ کسی کو نظر نہ آئے۔ کتے کو معلوم ہوتا ہے کہ مون سون کا سیزن ابھی کافی دور ہے تو نہر کا پانی گہرا نہیں ہوگا۔ اور پھر پانی میں چھلانک مار کر دوسری ہڈی پر بھی قبضہ جما لیتا ہے۔ اور پل پر دوبارہ چڑھ کر پہلی ہڈی بھی نکالتا ہے اور خوب مزے اڑاتا ہے۔
نتیجہ: جب ناچنے لگی تو کھونکھٹ کیسا؟
تیسری کہانی ”شیر اور بکری کا بچہ“
شیر تیسری مرتبہ جنگل کا بادشاہ بنا۔ ایک دن ایک بکری کا بچہ دریا سے پانی پی رہا تھا۔ شیر نے سوچا لو جی آج کے ڈنر کا بندوبست ہو گیا ہے۔ اس بکری کے بچے کے نمکین تکے بنا کر خوب مزے اڑائیں گے۔ شیر نے بکری کے بچے سے سوال کیا کون ہے تو اور میرے ہوتے ہوئے یہاں سے پانی پینے کی جرات کیسے کر رہا ہے؟ بکری کے بچے نے سینہ پھلا کر جواب دیا۔ چل بے بڈھے، شیر ہو گا تو اپنے لئے۔ میرے خالہ زاد کے پھوپی زاد کے چچھیرے نانا کے خانساماں کے پوتے کا صاحب 111 اسلحہ بردار چیتوں کے گروپ میں ہے۔ چل اپنا رستہ ناپ۔ شیر یہ سن کر اپنی کھسیانی خالہ کی طرح کھمبا نوچنے لگا۔
نتیجہ: کھسیانی بلی کھمبا نوچے
چوتھی کہانی ”شیخ چلی چکن“
شیخ چلی چکن ایک دن چند انڈے خرید لایا اور ٹوکری میں ڈال دئیے۔ ٹوکری سر پر رکھ کر ایک سبق اموز سفر پر روانا ہوا۔ کہانی سب کو معلوم ہے کہ کس طرح اس نے اس سوچا کہ انڈوں سے چوزے بنیں گے، پھر مرغیاں، وغیرہ۔ پھر اسے خیال آیا کہ چھوڑو یار اتنی دور کی کیا سوچتے ہو انڈوں کا مزیدار سا املیٹ بنا کر کھا جاؤ۔ ابھی اس نے املیٹ بنایا ہی تھا کہ ایک اجنبی وارد ہوا جس نے اپنا نام شیخ فرائڈ چکن بتایا۔ شیخ چلی چکن نے بادل نخواستہ اس کو بھی کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ شیخ فرائیڈ چکن کو املیٹ نہایت ہی مزیدار معلوم ہوا۔پوری طرح سیر ہونے کے بعد اس نے صدا لگائی مجھے اپنا گوہر مقصود مل گیا۔ دراصل شیخ فرائیڈ چکن اس ملک کا بادشاہ تھا جو کہ فقیر کا بھیس بدل کر جگہ جگہ مزیدار کھانوں کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ اس کے شاہی باورچی نہایت ہی بدذائقہ کھانا بناتے تھے تو اس نے تہیہ کیا کہ جب تک اس کو لذیذ کھانا نہیں ملے گا یوں ہی در در کی خاک چھانتا پھرے گا۔ اب شیخ چلی شاہی باورچی کے عہدے پر فائز ہے جو بادشاہت کے بعد سب سے زیادہ پاورفل عہدہ ہے۔
نتیجہ: ”جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے“
پہلی کہانی ”کچھوا اور خرگوش“
ایک مرتبہ تیز رفتار خرگوش کی سست رفتار کچھوے کیساتھ ریس لگی جس کی ایک ٹانگ پیدائشی خرابی کی وجہ سے ناپید تھی، جس سے کچھوا مزید سست رفتار ہو گیا تھا اور گھونگے سے قدرے تیز سفر کر سکتا تھا۔ کچھوے کو کیا سوجھی جو اس نے اس احمقانہ حرکت کی ٹھانی یہ تو خدا کو یا پھر کچھوے کو ہی معلوم ہے یا آپ کو آگے معلوم ہو جائے گا۔ خرگوش ذقندیں لگاتا ہوا کچھوے سے دور نکل گیا۔ بیچ میں خوابِ خرگوش کے بھی خوب مزے لئے۔ کچھوے نے بھی چالاکی سے ایسے راستے کا انتخاب کیا تھا جس کے بیچ میں ایک بہت بڑا تالاب تھا۔ اب خرگوش تالاب تک پہنچا تو حیرت کے مارے اپنی انگلیاں دانتوں تلے دبا دیں۔ ٹینشن بڑھ جائے تو کھانے کا ہی خیال آتا ہے۔ خرگوش اپنی انگلیاں گاجریں خیال کر کے چبانے لگا، تھوڑی دیر بعد درد سے بلبلانے لگا اور خرگوش نے ایک سنہری سبق سیکھا کہ ہر خیال شاعر یہ فلسفی کا خیال نہیں ہوتا اور خیالی گاجر کھانے کی نسبت خیالی پلاو پکانا پہتر ہے کہ اس میں انگلیاں چبانے کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ قصہ المختصر، کچھوا تالاب میں تیرتا ہوا اور amphibian wannabe rocks کے نعرے بلند کرتا ہوا منزلِ مقصود تک پہنچ گیا۔
نتیجہ: ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا
دوسری کہانی ”لالچی کتا“
ایک کتے کو ہڈی ملتی ہے اور وہ دانتوں میں دبائے نہر کے پل پر سے رال ٹپکاتا ہوا گذر رہا ہوتا ہے۔ نہر میں اس کو ایک اور ہڈی نظر آتی ہے بڑی تگڑی قسم کی۔ چونکہ اس نے پہلی جماعت میں ماسٹر صاحب سے لالچی کتے والی کہانی پڑھی ہوتی ہے اس لئے پانی میں اپنا عکس تلاش کرتا ہے۔ پانی انتہائی غلیظ اور گدلا ہوتا ہے۔ اس لئے اس میں اپنا عکس دیکھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کتا پہلے آس پاس دیکھتا ہے کہ کوئی ہے تو نہیں اور پل کی ایک ٹوٹی ہوئی لکڑی اٹھا کر ہڈی اس کے نیچے دبا دیتا ہے اور لکڑی اس طرح سے واپس رکھتا ہے کہ کسی کو نظر نہ آئے۔ کتے کو معلوم ہوتا ہے کہ مون سون کا سیزن ابھی کافی دور ہے تو نہر کا پانی گہرا نہیں ہوگا۔ اور پھر پانی میں چھلانک مار کر دوسری ہڈی پر بھی قبضہ جما لیتا ہے۔ اور پل پر دوبارہ چڑھ کر پہلی ہڈی بھی نکالتا ہے اور خوب مزے اڑاتا ہے۔
نتیجہ: جب ناچنے لگی تو کھونکھٹ کیسا؟
تیسری کہانی ”شیر اور بکری کا بچہ“
شیر تیسری مرتبہ جنگل کا بادشاہ بنا۔ ایک دن ایک بکری کا بچہ دریا سے پانی پی رہا تھا۔ شیر نے سوچا لو جی آج کے ڈنر کا بندوبست ہو گیا ہے۔ اس بکری کے بچے کے نمکین تکے بنا کر خوب مزے اڑائیں گے۔ شیر نے بکری کے بچے سے سوال کیا کون ہے تو اور میرے ہوتے ہوئے یہاں سے پانی پینے کی جرات کیسے کر رہا ہے؟ بکری کے بچے نے سینہ پھلا کر جواب دیا۔ چل بے بڈھے، شیر ہو گا تو اپنے لئے۔ میرے خالہ زاد کے پھوپی زاد کے چچھیرے نانا کے خانساماں کے پوتے کا صاحب 111 اسلحہ بردار چیتوں کے گروپ میں ہے۔ چل اپنا رستہ ناپ۔ شیر یہ سن کر اپنی کھسیانی خالہ کی طرح کھمبا نوچنے لگا۔
نتیجہ: کھسیانی بلی کھمبا نوچے
چوتھی کہانی ”شیخ چلی چکن“
شیخ چلی چکن ایک دن چند انڈے خرید لایا اور ٹوکری میں ڈال دئیے۔ ٹوکری سر پر رکھ کر ایک سبق اموز سفر پر روانا ہوا۔ کہانی سب کو معلوم ہے کہ کس طرح اس نے اس سوچا کہ انڈوں سے چوزے بنیں گے، پھر مرغیاں، وغیرہ۔ پھر اسے خیال آیا کہ چھوڑو یار اتنی دور کی کیا سوچتے ہو انڈوں کا مزیدار سا املیٹ بنا کر کھا جاؤ۔ ابھی اس نے املیٹ بنایا ہی تھا کہ ایک اجنبی وارد ہوا جس نے اپنا نام شیخ فرائڈ چکن بتایا۔ شیخ چلی چکن نے بادل نخواستہ اس کو بھی کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ شیخ فرائیڈ چکن کو املیٹ نہایت ہی مزیدار معلوم ہوا۔پوری طرح سیر ہونے کے بعد اس نے صدا لگائی مجھے اپنا گوہر مقصود مل گیا۔ دراصل شیخ فرائیڈ چکن اس ملک کا بادشاہ تھا جو کہ فقیر کا بھیس بدل کر جگہ جگہ مزیدار کھانوں کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ اس کے شاہی باورچی نہایت ہی بدذائقہ کھانا بناتے تھے تو اس نے تہیہ کیا کہ جب تک اس کو لذیذ کھانا نہیں ملے گا یوں ہی در در کی خاک چھانتا پھرے گا۔ اب شیخ چلی شاہی باورچی کے عہدے پر فائز ہے جو بادشاہت کے بعد سب سے زیادہ پاورفل عہدہ ہے۔
نتیجہ: ”جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے“
آخری تدوین: