بچوں کے ساتھ انگلستان منتقل ہونے سے پہلے یہ وی لاگ ضرور سُنیے!

محمداحمد

لائبریرین
مختلف ملکوں اور علاقوں کے مسلمانوں کی اقدار میں کافی فرق ہے۔

مختلف علاقوں کے مسلمانوں میں تھوڑا بہت فرق تو ہے، لیکن اسلام کے بنیادی عقائد کی حد تک تو تو تقریباً سب ہی متفق ہیں۔

اور اسلام ہی کیا، اب تو مغرب میں جن چیزوں کو رواج دیا جا رہاہے وہ تو دیگر مذاہب کے لئے بھی قابلِ قبول نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ مذکورہ چیزیں فطرت اور عقلِ سلیم تک کے خلاف ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ ہمارا معاشرہ زمرے کا انتہائی اہم موضوع ہے آج کے دور میں ۔ خصوصا پاکستانی معاشرے کے تناظر میں ۔
یہ بات تو درست ہے۔ لیکن "ہمارا معاشرہ" آزاد نہیں ہے۔

یعنی یہ زمرہ زیرِ ادارت ہے۔
محفل جیسے پلیٹ فارم پر اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو ہونی چاہیے اور اس پر ہر نگاہ سے زاویے واضح ہونے چاہئیں۔
زیرِ ادارت زمرے میں سیر حاصل گفتگو ذرا مشکل ہی ہوتی ہے۔ چونکہ:

؎ ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ تکلم کا۔

اور یہ کہ جوابات بروقت نہ ملنے سے کچھ عجیب و غریب تکرار بھی ہوتی ہے۔

اگر رپورٹنگ کے سسٹم کو ہی بہتر طریقے پر استعمال کیا جائے تو اتنی سخت موڈریشن کی ضرورت نہ پڑے۔

پاکستان سے ہر سال نقل مکانی کرنے والے نو جوانوں کی تعداد روز افزوں اعداد و شمار ظاہر کر رہی ہے کل ان نوجوانوں کے سامنے یہی مسائل سامنے کھڑے ہوں گے ۔
جی!

یہ تو ہے۔
روز مرہ کے معمولات میں خاندانی ہجرتوں جیسے بڑے اہم معاملات نہیں آتے ۔
پاکستانیوں کے تو روز مرہ ہی بڑے بڑے معاملات میں گزر رہے ہیں۔ :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
لگتا ہے یہ کوئی ٹرینڈ چل نکلا ہے یوکے میں بیٹھے پاکستانی یوٹیوبیرز کا کہ وہاں کی برائیاں کریں (صرف ویڈیوز بنانے کے چکر میں)۔ چند دن پہلے لندن سے ایک کزن نے بھی ایک ویڈیو بھیجی کہ جس میں ایک پاکستانی لڑکا وہاں کے معاشی حالات کی برائیاں بیان کرتے ہوئے دوسروں کو بتارہا تھا کہ یہاں کے معاشی حالات پاکستان سے بھی خراب ہیں۔ میں نے انہیں بھی یہی کہا کہ یہ لڑکا جتنی بھی برائیاں کررہا ہے لیکن یہ خود کبھی یوکے نہیں چھوڑے گا کیونکہ اسے پتہ ہے کہ پاکستان میں اس سےبھی بدتر حالات ہیں۔

رانا بھائی! یوٹیوب جیسے بڑے پلیٹ فارم پر ہر طرح کے ٹرینڈز چلتے ہیں۔اس طرح کے ٹرینڈز بھی کم نہیں ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
میرا محدود سا مشاہدہ اور شنید ہے کہ جو مسلمان مغربی ممالک میں رہتے ہیں وہ عموماً نظریاتی اور عملی اعتبار سے مسلم ممالک کے باشندوں کی بنسبت زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوتے ہیں۔بعض دوستوں کے معمولات میں فرائض، نوافل حتیٰ کہ مسنون اذکار کا ایسا اہتمام دیکھا ہے کہ اپنے اردگرد کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ کیا کسی اور کا بھی ایسا مشاہدہ ہے یا یہ محض اتفاقی بات ہے؟

عبید بھائی! یہ بات میں نے بھی کچھ لوگوں میں واضح طور پر محسوس کی ہے لیکن یہ وہ مسلم تھے جو میچورٹی کی عمر کو پہنچنے کے قریب یا بعد میں بیرونِ ممالک پہنچے۔ شاید ایسے لوگوں نے یہی خیال کیا ہو کہ اس نئے ماحول میں اگر اپنے دین کو بچانے کے لئے اضافی کوششیں نہیں کیں تو وہ اپنا دین نہیں بچا سکیں گے۔ اسی لئے لوگ یہاں سے جانے کے بعد زیادہ مذہبی اور عمل پسند ہو گئے۔

لیکن جو مسلمان بچے بہت چھوٹی عمر میں ایسے ممالک پہنچ جائیں یا وہیں پیدا ہوں اُن کا معاملہ قدرے مختلف ہو سکتا ہے۔ اُن کی دین کی اساس ویسی نہیں ہو سکتی جیسا کہ کسی مسلم ملک کے شہری کی ہو سکتی ہے ۔ الا یہ کہ والدین اس کے لئے بہت زیادہ کوششیں کریں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ہاں ۔ آپس میں تعلق نہ سہی لیکن اسلامی تہذیب تمدن اور اقدار سے ہیڈ آن متصادم تصورات ہیں ۔ اس لیے اقدار کے تحفظ کے لیے خطرہ تو ہیں خصوصا چھوٹی عمر میں۔

بالخصوص ایل جی بی ٹی کا معاملہ تو اب یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ اسلام کے علاوہ عیسائی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی اس سے بیزار ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اور مختلف ممالک کی طرف سے اس کے خلاف آوازیں آنا شروع ہو گئی ہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ فساد فی الارض، بدعنوانی وغیرہ کا مذہبی اقدار سے واسطہ نہیں۔ معاشرے میں کیا ہو رہا ہے اور اس سے میرے بچے کیا سیکھیں گے مجھے تو یہ اقدار کا اہم حصہ معلوم ہوتا ہے۔
یہ ہماری بہت بڑی کمزوری ہے کہ ہم لا قانونیت بد عنوانی دھوکہ دہی اقربا پروری اور کئی دیگر معاشرتی معائب کو مذہبی اقدار نہیں سمجھتے۔ اور نماز روزے ڈاڑھی ٹوپی برقعےفاتحہ خوانی تک مذہبی موضوعات اور اقدار کو قید کر رکھا ہے۔
 

زیک

مسافر
میرا محدود سا مشاہدہ اور شنید ہے کہ جو مسلمان مغربی ممالک میں رہتے ہیں وہ عموماً نظریاتی اور عملی اعتبار سے مسلم ممالک کے باشندوں کی بنسبت زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوتے ہیں۔بعض دوستوں کے معمولات میں فرائض، نوافل حتیٰ کہ مسنون اذکار کا ایسا اہتمام دیکھا ہے کہ اپنے اردگرد کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ کیا کسی اور کا بھی ایسا مشاہدہ ہے یا یہ محض اتفاقی بات ہے؟
یورپ اور برطانیہ کا ذکر نہیں کروں گا کہ گرچہ میرا مشاہدہ ہے لیکن محدود البتہ شمالی امریکا میں آپ کو ہر طرح کے مسلمان مل جائیں گے۔ اچھی بات یہ ہے کہ تقریباً تمام ہی جیو اور جینے دو پر عمل پیرا ہیں اورخود پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔

کافی عرصہ پہلے امریکی مسلمانوں سے متعلق ایک سروے پر لڑی کھولی تھی۔ وہ اب کافی پرانا ہو چکا اس لئے ممکن ہے معاملات اب کچھ مختلف ہوں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
یہ ہماری بہت بڑی کمزوری ہے کہ ہم لا قانونیت بد عنوانی دھوکہ دہی اقربا پروری اور کئی دیگر معاشرتی معائب کو مذہبی اقدار نہیں سمجھتے۔ اور نماز روزے ڈاڑھی ٹوپی برقعےفاتحہ خوانی تک مذہبی موضوعات اور اقدار کو قید کر رکھا ہے۔
میرے خیال میں یہ سرسری جائزے کا نتیجہ تو ہو سکتا ہے، حقیقت نہیں۔
دونوں قسموں کو مذہبی اقدار میں ہی گنا جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ پہلی قسم جو کہ معاملات سے تعلق رکھتی ہے ہر دور میں ایک مشکل کام رہا ہے۔ اور آج جس قسم کا دور چل رہا ہے اس میں سہل پسندی کو بہت زیادہ دخل ہے۔
اور ویسے بھی پہلی قسم کا زیادہ تر تعلق عوام الناس کے معاملات سے زیادہ حکومتی معاملات سے ہے۔ اور حکومت کن کے ہاتھوں میں ہے یہ بتانے کی حاجت تو نہیں ہے۔
 

زیک

مسافر
ہاں ۔ آپس میں تعلق نہ سہی لیکن اسلامی تہذیب تمدن اور اقدار سے ہیڈ آن متصادم تصورات ہیں ۔ اس لیے اقدار کے تحفظ کے لیے خطرہ تو ہیں خصوصا چھوٹی عمر میں۔
پیڈوفلیا جرم ہے اور دنیا کے تقریباً ہر ملک میں جرم ہے سوائے ان اسلامی ممالک کے جو بچیوں کی چھوٹی عمر میں شادیاں کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ یہ جرم مغرب میں بھی اتنا ہی برا سمجھا جاتا ہے جتنا پاکستان میں۔ اس کی سزا یہاں بھی کافی سخت ہے۔ اس جرم کے واقعات کی مثالیں پاکستان میں بھی اسی طرح ملتی ہیں جیسے امریکا میں۔
 

زیک

مسافر
ویسے اگر کبھی امیگریش کی تو امریکا کی بائبل بیلٹ والی ریاستوں کی طرف ہی کروں گا
اک عرصہ ہوا بائبل بیلٹ میں رہتے لیکن آپ شاید اسے میڈیا کے لینز سے دیکھ رہے ہیں اس لئے صحیح سمجھ نہیں سکے۔
جس پر خود امریکی قدامت پسند بھی برانگیختہ ہیں ... گویا پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے :) )
دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ امریکی قدامت پسند evangelicals کے ساتھ ہیں اور امریکی مسلمانوں کی واضح اکثریت اس کے مخالف کھڑی ہے۔ کبھی غور کریں اس بات پر کہ اگر مسلم امت کا کوئی وجود ہے تو آپ امریکی مسلمانوں کے ساتھ کیوں نہیں؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
زیرِ ادارت زمرے میں سیر حاصل گفتگو ذرا مشکل ہی ہوتی ہے۔ چونکہ:

سخت موڈریشن کی ضرورت اسی لیے پڑتی ہے کہ موڈریشن سے بچنے کے لیے غیر متعلقہ زمرہ جات میں پوسٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس مرتبہ لڑی کو زیرادارت زمرہ میں منتقل کیا گیا ہے۔ آئندہ میں ایسی صورتحال میں لڑی حذف کرنے پر مجبور ہوں گا۔ اس کا خیال رکھنے کی درخواست ہے۔
 
دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ امریکی قدامت پسند evangelicals کے ساتھ ہیں اور امریکی مسلمانوں کی واضح اکثریت اس کے مخالف کھڑی ہے
میں ان کے ساتھ کھڑا ہوں، لیکن وہ میرے ساتھ نہیں کھڑے ... :)
لیکن ہم جنس پرستی اور ٹرانس جینڈر ازم کے مقابلے میں مجھے ایوینجلکلز کی نفرت قبول ہے ... تلخ حقیقت یہی ہے کہ اس فتنہ کی بیخ کنی مسلمانوں کے بس کی بات نہیں، امریکی کنزروٹوز ہی یہ کام کر سکتے ہیں ... ورنہ بہت سے امریکی "اماموں" کا حال یہ ہے کہ علی اعلان پرائیڈ پریڈز میں شرکت کرتے ہیں.
 

زیک

مسافر
مختلف علاقوں کے مسلمانوں میں تھوڑا بہت فرق تو ہے، لیکن اسلام کے بنیادی عقائد کی حد تک تو تو تقریباً سب ہی متفق ہیں۔
آپ اسلام اور مسلمانوں کو بہت محدود لینز سے دیکھ رہے ہیں۔ اور بنیادی عقائد میں بہت کچھ شامل کر رہے ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ دنیا پھریں اور ہر علاقے میں مسلمانوں سے مل کر دیکھیں۔ سماجی مسائل پر ان کے خیالات میان آپ بہت تنوع پائیں گے جو پاکستانیوں کے لئے اکثر کافی شاکنگ ہوتا ہے۔
 

زیک

مسافر
لیکن جو مسلمان بچے بہت چھوٹی عمر میں ایسے ممالک پہنچ جائیں یا وہیں پیدا ہوں اُن کا معاملہ قدرے مختلف ہو سکتا ہے۔
یہ آپ کا مفروضہ ہے۔ باقاعدہ سروے نہ سہی کتنے ہی محفلین یا خود مغرب میں رہتے ہیں یا ان کے بچے۔ کچھ سے بات ہی کر لی ہوتی کہ وہ اپنے بچوں کی پرورش کیسے کر رہے ہیں۔

میرا مشاہدہ یہ ہے کہ امریکا میں پلے بڑھے مسلمان بچے پاکستان میں پلنے والے بچوں سے بدرجہا بہتر انسان ہیں۔
 
یہ بھی مغربی ممالک کا ہی حوصلہ ہے کہ وہاں جانے یا نہ جانے کے فیصلے پر ہم بحث کر سکتے ہیں، "برادر" اسلامی ممالک تو کسی شودر پاکستانی کو شہریت دینے سے ہی انکاری ہیں. خیر اب تو یورپ، امریکا جانا روز بہ روز مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے. اس ملک میں پھنسے رہنا تو بہرحال بدقسمتی ہے معلوم ہوتا ہے.
 

عرفان سعید

محفلین
لیکن جو مسلمان بچے بہت چھوٹی عمر میں ایسے ممالک پہنچ جائیں یا وہیں پیدا ہوں اُن کا معاملہ قدرے مختلف ہو سکتا ہے۔ اُن کی دین کی اساس ویسی نہیں ہو سکتی جیسا کہ کسی مسلم ملک کے شہری کی ہو سکتی ہے ۔ الا یہ کہ والدین اس کے لئے بہت زیادہ کوششیں کریں۔
ابھی ابھی حسن سے سورۃ الرحمن زبانی سننا شروع کی ہے۔ سارہ ساتھ والے کمرے میں اپنی ماں کو سنا رہی ہے۔ جب سے دونوں نے دو دو بار قرآن ختم کیا ہے، ان کے روز کے معمولات میں زبانی یاد کیا گیا قرآن کا حصہ سنانا شامل ہے۔ زبانی سنانے میں نصف تیسواں پارہ، سورہ یس، سورہ الرحمن، سورہ الملک شامل ہیں۔ پچھلے ساڑھے چھ سال میں شاید ہی کوئی ایسا دن ہو کہ بچے قرآن کی تلاوت نہ کرتے ہوں اور ہم ان سے نہ سنتے ہوں،
یہ سب کچھ مغرب کے ایک ملک میں رہتے ہوئے! :)
 
Top