بچوں کے لیے نظمیں کیسے لکھی جائیں؟ نظموں ہی پر کچھ موقوف نہیں ، بچوں کا ادب کیسے لکھا جائے؟ ہمارے نزدیک اس کا ایک نہایت آسان فارمولہ ہے۔آپ آسان پر ضرور چونک اٹھے ہیں۔جی ہاں، بہت آسان ۔ اساتذہ اور معزز محفلین کے بیان کیے گئے تکنیکی بیانات اپنی جگہ پر بالکل درست ہیں لیکن ان سے بھی پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بچوں کے لیے لکھتے وقت خود بچے بن جائیں۔ خود کو ایک بچے کے روپ میں مکمل ڈھال لیں۔ نہ صرف الفاظ و تراکیب کے لحاظ سے بلکہ اس حیرت کو بھی اپنا لیں جو بچوں کے مزاج کا خاصہ ہے۔ بڑوں کے لیے روزمرہ واسطہ پڑنے والی کوئی بات حیرت انگیز نہیں۔ البتہ ناقابلِ یقین قسم کی کسی بھی بات یا واقعے کو تسلیم کرنے سے وہ انکار کردیتے ہیں۔ بچوں کے لیے اس دنیا کی ہر بات نئی اور قابلِ یقین ہے۔ وہ ہر واقعے کو قبول کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
ایمان صاحبہ ایک دن گھر تشریف لائیں تو ان کے بارے سے کچھ فلیش کارڈز نکلے۔ ہم والدین کی زمہ داری بچے کو ان فلیش کارڈز کی مشق کروانا تھی۔ وہ الفاظ یہ تھے؛
نرم۔ بلی۔ پسند۔ لال۔گلابی۔کالا۔ میری۔ میں۔ ہوں ۔ ہرا۔ نیلا۔ پیلا۔
پہلے تو کچھ دیر مشق کرواتے رہے۔ پھر ہم نے انہیں بغیر کیس ترتیب کے الماری کے شیشے پر چپکادیا۔
اب ہمارے اندر کا شاعر جاگا اور ہم نے مندرجہ ذیل نظم ایک خاص دھن میں بنائی اور گانے لگے۔ کچھ ہی دیر میں ایمان بھی ہمارے ساتھ یہ نظم اسی جوش و خروش سے گارہی تھیں۔ نظم پیشِ خدمت ہے؛
نرم پسند میری
میں ہوں بلی
لال کالا ہرا،
نیلا پیلا گلابی
لال کالا ہرا،
نیلا پیلا گلابی
نیلا پیلا گلابی
پیلا گلابی
کتنا اچھا گانا پپا نے بنایا
ہم دونوں نے بنایا
ہم سب نے بنایا
ہے۔
یہ بے معنی نظم ہمارے بچوں، بھتیجوں بھجیجیوں سب کو آج بھی یاد ہے اور کبھی کبھی جب ہم مل بیٹھتے ہیں، یا کبھی پکنک وغیرہ پر موقع ملتا ہے تو اسی جوش سے ایک مرتبہ یہ گیت ضرور گاتے ہیں۔
بچوں کی جتنی نظمیں ہم نے محفل میں پیش کی ہیں ، پہلے اپنے بیوی بچوں کو ان گنت مرتبہ لہک لہک کر سناچکے ہیں۔
مزید کیا کہیں!!!
کاش ہم بچہ ہی رہتے
عبیداللہ علیم
فلسفی بولے
زمیں کے ہاتھ میں اک شاخ ہے زیتون کی
بجھ گئی تو بجھ گئی اور کھِل اٹھی تو کھِل اٹھی
ہم ہی مر جائیں گے اک دن وقت تو مرتا نہیں
کاش ہم بچہ ہی رہتے
اور کبھی نہ ٹوٹنے والے کھلونے کھیلتے
بچوں کے لیے نظمیں کیسے لکھی جائیں؟ نظموں ہی پر کچھ موقوف نہیں ، بچوں کا ادب کیسے لکھا جائے؟ ہمارے نزدیک اس کا ایک نہایت آسان فارمولہ ہے۔آپ آسان پر ضرور چونک اٹھے ہیں۔جی ہاں، بہت آسان ۔ اساتذہ اور معزز محفلین کے بیان کیے گئے تکنیکی بیانات اپنی جگہ پر بالکل درست ہیں لیکن ان سے بھی پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بچوں کے لیے لکھتے وقت خود بچے بن جائیں۔ خود کو ایک بچے کے روپ میں مکمل ڈھال لیں۔ نہ صرف الفاظ و تراکیب کے لحاظ سے بلکہ اس حیرت کو بھی اپنا لیں جو بچوں کے مزاج کا خاصہ ہے۔ بڑوں کے لیے روزمرہ واسطہ پڑنے والی کوئی بات حیرت انگیز نہیں۔ البتہ ناقابلِ یقین قسم کی کسی بھی بات یا واقعے کو تسلیم کرنے سے وہ انکار کردیتے ہیں۔ بچوں کے لیے اس دنیا کی ہر بات نئی اور قابلِ یقین ہے۔ وہ ہر واقعے کو قبول کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
ایمان صاحبہ ایک دن گھر تشریف لائیں تو ان کے بارے سے کچھ فلیش کارڈز نکلے۔ ہم والدین کی زمہ داری بچے کو ان فلیش کارڈز کی مشق کروانا تھی۔ وہ الفاظ یہ تھے؛
نرم۔ بلی۔ پسند۔ لال۔گلابی۔کالا۔ میری۔ میں۔ ہوں ۔ ہرا۔ نیلا۔ پیلا۔
پہلے تو کچھ دیر مشق کرواتے رہے۔ پھر ہم نے انہیں بغیر کیس ترتیب کے الماری کے شیشے پر چپکادیا۔
اب ہمارے اندر کا شاعر جاگا اور ہم نے مندرجہ ذیل نظم ایک خاص دھن میں بنائی اور گانے لگے۔ کچھ ہی دیر میں ایمان بھی ہمارے ساتھ یہ نظم اسی جوش و خروش سے گارہی تھیں۔ نظم پیشِ خدمت ہے؛
نرم پسند میری
میں ہوں بلی
لال کالا ہرا،
نیلا پیلا گلابی
لال کالا ہرا،
نیلا پیلا گلابی
نیلا پیلا گلابی
پیلا گلابی
کتنا اچھا گانا پپا نے بنایا
ہم دونوں نے بنایا
ہم سب نے بنایا
ہے۔
یہ بے معنی نظم ہمارے بچوں، بھتیجوں بھجیجیوں سب کو آج بھی یاد ہے اور کبھی کبھی جب ہم مل بیٹھتے ہیں، یا کبھی پکنک وغیرہ پر موقع ملتا ہے تو اسی جوش سے ایک مرتبہ یہ گیت ضرور گاتے ہیں۔
بچوں کی جتنی نظمیں ہم نے محفل میں پیش کی ہیں ، پہلے اپنے بیوی بچوں کو ان گنت مرتبہ لہک لہک کر سناچکے ہیں۔
مزید کیا کہیں!!!
اچھا موضوع ہے۔
بعض اوقات آپ کو وقت پڑنے پہ اپنی کچھ خفیہ صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔
اپنے بیٹے کو لوریاں سنانی شروع کیں تو کئی لوریاں/نظمیں خود گڑھیں۔
کئی گانے اپنے بچوں کے لیے گاتی رہی بلکہ اب بھی کبھی کبھی گانے لگ جاتی ہوں۔۔۔
کافی کہانیاں بھی خود سے انھیں سنایا کرتی تھی۔۔۔
یہ کیا؟
آپ غمناک کیوں ہوئے احمد بھائی؟
غمناک اسی لئے کہ آپ چھتری لے کر آ گئی ہیں اور بارش کے کوئی آثار نہیں ہیں۔