طارق شاہ

محفلین

ماں کا خواب

علامہ اقبال
(ماخو ذ)
بچوں کے لیے

میں سوئی جو اِک شب تو دیکھا یہ خواب
بڑھا اور جس سے مِرا اِضطراب

یہ دیکھا، کہ میں جا رہی ہوں کہیں
اندھیرا ہے اور راہ مِلتی نہیں

لرزتا تھا ڈر سے مِرا بال بال
قدم کا تھا دہشت سے اُٹھنا محال

جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھی
تو دیکھا قطار ایک لڑکوں کی تھی

زمرد سی پوشاک پہنے ہوئے
دِیے سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے

وہ چپ چاپ تھے آگے پیچھے رَواں
خُدا جانے، جانا تھا اُن کو کہاں

اِسی سوچ میں تھی کہ، میرا پسر
مجھے اُس جماعت میں آیا نظر

وہ پیچھے تھا اور تیز چلتا نہ تھا
دِیا اُس کے ہاتھوں میں جلتا نہ تھا

کہا میں نے پہچان کر ، میری جاں!
مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں

جُدائی میں رہتی ہُوں میں بے قرار
پروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار

نہ پروا ہماری ذرا تم نے کی
گئے چھوڑ ، اچھی وفا تم نے کی

جو بچے نے دیکھا مِرا پیچ و تاب
دِیا اُس نے منہ پھیر کر یُوں جواب

رُلاتی ہے تُجھ کو جُدائی مِری
نہیں اِس میں کچُھ بھی بَھلائی مِری

یہ کہہ کر وہ کچُھ دیر تک چپ رہا
دِیا پھر دِکھا کر یہ کہنے لگا

سمجھتی ہے تُو، ہو گیا کیا اِسے؟
تِرے آنسوؤں نے بُجھایا اِسے

علامہ اقبال
 

رباب واسطی

محفلین
بچوں کے لیئے نہیں، ہم بڑوں کے لیئے پیغام ہے
جس کا وقت آگیا اسے اس دنیا سے جانا ہے، کسی عزیز کا گذر جانا اس کے لواحقین کے لیئے واقعی سانحہ ہوتا ہے، جس پہ گذرتی ہے صرف وہی جانتا ہے کہ کسی کا اس دنیا سے چلے جانے کا کتنا دکھ ہوتا ہے، انسان جذباتی ہے ایسے موقعوں پر رونا آہی جاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب جانے والے کے لیئے صرف رونا ہی جاری رکھا جائے بلکہ اس کے ایصالِ ثواب کے لیئے نیک اعمال کیئے جائیں تاکہ اس کے ہاتھ کا دیا روشن رہے
 
Top