حمیرا عدنان
محفلین
ہاں مجھے یاد ہے
بچپن کا وہ دسمبر
ٹھٹھرتی ڈھلتی شاموں میں
آنگن کی دیوار سے سرکتی دھوپ
جلتے ہوئے کوئلے کی مہک
اور میرے پھٹے ہوئے گالوں پر
لکیریں بناتے
وہ جمے ہوئے آنسو...
آسمان پر جمتی، وہ بادلوں کی دھند دیکھ کر
امی کا دروازے میں کھڑے ہو کر پکارنا
اور ہم سب کا مٹی بھر کنچے سنبھال کر
اپنے اپنے گھروں کو بھاگنا...
رات بھر چپ چپ کر
آسمان کو دیکھ
برف دیکھنے کی دعا کرنا
اور صبح پھوٹتے ہی
صحن میں گرتی برف کے ستارے چننا
اور برف گراتے آسماں کو دیکھ دیکھ
خود کو بھی برف کے گالوں کے ساتھ
اڑتے ہوئے محسوس کرنا
پھر تم آ گیئں...
اور بچپن کا دسمبر بیت گیا
تب پہروں اس سرکتی دھوپ تلے
اور ان ٹھٹھرتی شاموں میں
میں تمہاری ایک جھلک دیکھنے کے لئے
آسماں سے گرتی برف کی چاندنی
اپنے وجود پر سجاتا رہا اور
زمین پر بچھی اس سفید چادر پر
میرے قدموں کا ہر نشان
تمہارے گھر کی دہلیز تک ہی جاتا رہا
پھر وو دسمبر بھی بیت گیا
اور دیکھو...
میں اب بھی گلی کے اسی نکڑ پر کھڑا ہوں
ٹھٹھرتی ڈھلتی شام بھی ہے
پر سنہری دھوپ نہیں سرکتی
وقت جیسے تھم سا گیا ہے
برف کے ستارے میرے بالوں میں
چاندنی بکھیر تو رہے ہیں
پر انھیں بھگو نہیں پاتے
یہ کیسی برفیلی شام ہے
جس کی سردی میرے آنسو جما نہیں پا رہی
جلتے کوئلوں کا دھواں
آنکھ تو جلاتا ہے
پر اس میں وہ مہک نہیں ہے
اور دیکھو میرے گھر کا دروازہ...
پٹ کھولے کھڑا تو ہے لیکن
امی کی ڈانٹ نجانے کہاں کھو گی ہے؟
تمہارے گھر کی طرف جاتے سبھی راستے
اس قدر سنسان کیوں پڑے ہیں؟
اس برفیلی شام میں
اور
میرے بچپن کے دسمبر میں
کتنا فرق ہے
(ہاشم ندیم خان )
بچپن کا وہ دسمبر
ٹھٹھرتی ڈھلتی شاموں میں
آنگن کی دیوار سے سرکتی دھوپ
جلتے ہوئے کوئلے کی مہک
اور میرے پھٹے ہوئے گالوں پر
لکیریں بناتے
وہ جمے ہوئے آنسو...
آسمان پر جمتی، وہ بادلوں کی دھند دیکھ کر
امی کا دروازے میں کھڑے ہو کر پکارنا
اور ہم سب کا مٹی بھر کنچے سنبھال کر
اپنے اپنے گھروں کو بھاگنا...
رات بھر چپ چپ کر
آسمان کو دیکھ
برف دیکھنے کی دعا کرنا
اور صبح پھوٹتے ہی
صحن میں گرتی برف کے ستارے چننا
اور برف گراتے آسماں کو دیکھ دیکھ
خود کو بھی برف کے گالوں کے ساتھ
اڑتے ہوئے محسوس کرنا
پھر تم آ گیئں...
اور بچپن کا دسمبر بیت گیا
تب پہروں اس سرکتی دھوپ تلے
اور ان ٹھٹھرتی شاموں میں
میں تمہاری ایک جھلک دیکھنے کے لئے
آسماں سے گرتی برف کی چاندنی
اپنے وجود پر سجاتا رہا اور
زمین پر بچھی اس سفید چادر پر
میرے قدموں کا ہر نشان
تمہارے گھر کی دہلیز تک ہی جاتا رہا
پھر وو دسمبر بھی بیت گیا
اور دیکھو...
میں اب بھی گلی کے اسی نکڑ پر کھڑا ہوں
ٹھٹھرتی ڈھلتی شام بھی ہے
پر سنہری دھوپ نہیں سرکتی
وقت جیسے تھم سا گیا ہے
برف کے ستارے میرے بالوں میں
چاندنی بکھیر تو رہے ہیں
پر انھیں بھگو نہیں پاتے
یہ کیسی برفیلی شام ہے
جس کی سردی میرے آنسو جما نہیں پا رہی
جلتے کوئلوں کا دھواں
آنکھ تو جلاتا ہے
پر اس میں وہ مہک نہیں ہے
اور دیکھو میرے گھر کا دروازہ...
پٹ کھولے کھڑا تو ہے لیکن
امی کی ڈانٹ نجانے کہاں کھو گی ہے؟
تمہارے گھر کی طرف جاتے سبھی راستے
اس قدر سنسان کیوں پڑے ہیں؟
اس برفیلی شام میں
اور
میرے بچپن کے دسمبر میں
کتنا فرق ہے
(ہاشم ندیم خان )