رانا
محفلین
ہر عید پر ایک جملہ کسی نہ کسی سے سننے کو مل جاتا ہے کہ اصل عید تو بچوں کی ہوتی ہے۔ اور اس بات میں کوئی شک بھی نہیں کہ ہم بڑوں کی عید تو بس اب عید کی نماز پڑھ کر آنے اور چند بچوں کو عیدی دینے کے بعد پورا دن یا تو چارپائی توڑتے گزرتی ہے یا پھر کوئی گھر آگیا تو اس سے ملنے میں۔ اس دھاگے میں محفلین اپنی بچپن کی عیدوں کی یادیں شئیر کرنے کی کوشش کریں کہ ان کی عید بچپن میں کیسے اور کن مصروفیات میں گزرتی تھی۔
سب سے پہلے ظاہر ہے دھاگا یا کُنڈی کھولنے کی وجہ سے ہمیں ہی اپنی عید شئیر کرنی پڑے گی۔
بچپن میں سب سے پہلی خوشی تو چاند دیکھنا ہوتی تھی۔ انتیس روزوں کے بعد بڑی خواہش ہوتی تھی کہ بس اب چاند نظر آجائے تو مزہ آئے۔ عید والے دن نئے کپڑے پہن کر ابو کے ساتھ عید کی نماز پرجانے کی خواہش تو چھپائے نہ چھپتی تھی۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ ہم بچپن میں عبادت سے شغف رکھنے والے تھے۔ بلکہ اصل وجہ عید کے بعد ابو سے عید ملنے والوں کی طرف اس امید پر مسکراہٹوں کے پھول نچھاور کرنا کہ شائد اب یہ جیب میں ہاتھ ڈالیں اور ہمیں عیدی مل جائے۔ اور جو ہمیں صرف سر پر پیار کرکے آگے چل دیتا وہ تو ہمیں ولن ہی لگتا تھا۔ خیر گھر آکر ابو سے دس روپے عیدی ملتی تھی اور بڑا رونے دھونے کے بعد بھی بیس کی حد سے تجاوز نہ کرپاتی۔ پھر گلی میں ہمسائیوں کا لڑکا جو پرات میں چھولے لگا کر بیچا کرتا اس سے چھولے لے کر کھاتے۔ روڈ پر جھولے والا آتا اس کو بھی حصہ رسدی دیتے۔ اس وقت واٹر بال کا بھی بڑا رواج تھا وہ بھی لینا ہوتا تھا۔ پھر گلی کے اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ ذرا فاصلے پر مارکیٹ میں جانا اور مختلف چیزوں پر پیسے اڑانا۔ بہت سی چیزیں تو اب یاد ہی نہیں رہیں لیکن بہرحال عموما پہلے دن ہم اپنی اچھی خاصی عیدی خرچ کرڈالتے تھے۔ محلے کی کوئی آنٹی ہمیں عیدی دیتیں تو پہلی کوشش یہ ہوتی تھی کہ امی کو کسی طور پتہ نہ لگنے پائے۔ لیکن امی پھر بھی ہم سے اگلوا ہی لیتی تھیں کہ کہاں سے کتنی عیدی ملی ہے۔ اور پھر وہ تمام عیدی بحق قواعد و ضوابط برائے عیدی ضبط ہوجانا طبعی امر تھا۔ امی کی منطق یہ تھی کہ اب اس میں اتنے ہی پیسے اور ملا کر ان آنٹی کے بچوں کو بھی عیدی دینی ہے۔ اور ہم یہ سوچا کرتے تھے کہ پھر ہمیں تو مفت میں ہی قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے جبکہ اصل میں تو یہ عیدی بڑوں کا کھیل ہے کہ جس نے پہلے دے دی اب ضروری ہے کہ اس کے بچوں کو ڈبل ہوکرواپس ملے۔ جن کو امی پہلے عیدی دے دیتیں ان سے پھر ہمیں واقعی ڈبل ہوکر ملتی لیکن آدھی واپس امی کے پاس چلی جاتی کہ سرمایہ خرچ نہیں کرتے منافع تم رکھ لو۔
بہرحال عید تو ہماری بڑے مزے دار ہوا کرتی تھی لیکن اب اس وقت ہمیں مزید کچھ یاد نہیں آرہا۔ باقی محفلین بھی اپنی عیدوں کی یادیں شئیر کریں کہ شائد ان کی یادوں سے ہماری بھی یادیں تازہ ہوجائیں۔
سب سے پہلے ظاہر ہے دھاگا یا کُنڈی کھولنے کی وجہ سے ہمیں ہی اپنی عید شئیر کرنی پڑے گی۔
بچپن میں سب سے پہلی خوشی تو چاند دیکھنا ہوتی تھی۔ انتیس روزوں کے بعد بڑی خواہش ہوتی تھی کہ بس اب چاند نظر آجائے تو مزہ آئے۔ عید والے دن نئے کپڑے پہن کر ابو کے ساتھ عید کی نماز پرجانے کی خواہش تو چھپائے نہ چھپتی تھی۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ ہم بچپن میں عبادت سے شغف رکھنے والے تھے۔ بلکہ اصل وجہ عید کے بعد ابو سے عید ملنے والوں کی طرف اس امید پر مسکراہٹوں کے پھول نچھاور کرنا کہ شائد اب یہ جیب میں ہاتھ ڈالیں اور ہمیں عیدی مل جائے۔ اور جو ہمیں صرف سر پر پیار کرکے آگے چل دیتا وہ تو ہمیں ولن ہی لگتا تھا۔ خیر گھر آکر ابو سے دس روپے عیدی ملتی تھی اور بڑا رونے دھونے کے بعد بھی بیس کی حد سے تجاوز نہ کرپاتی۔ پھر گلی میں ہمسائیوں کا لڑکا جو پرات میں چھولے لگا کر بیچا کرتا اس سے چھولے لے کر کھاتے۔ روڈ پر جھولے والا آتا اس کو بھی حصہ رسدی دیتے۔ اس وقت واٹر بال کا بھی بڑا رواج تھا وہ بھی لینا ہوتا تھا۔ پھر گلی کے اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ ذرا فاصلے پر مارکیٹ میں جانا اور مختلف چیزوں پر پیسے اڑانا۔ بہت سی چیزیں تو اب یاد ہی نہیں رہیں لیکن بہرحال عموما پہلے دن ہم اپنی اچھی خاصی عیدی خرچ کرڈالتے تھے۔ محلے کی کوئی آنٹی ہمیں عیدی دیتیں تو پہلی کوشش یہ ہوتی تھی کہ امی کو کسی طور پتہ نہ لگنے پائے۔ لیکن امی پھر بھی ہم سے اگلوا ہی لیتی تھیں کہ کہاں سے کتنی عیدی ملی ہے۔ اور پھر وہ تمام عیدی بحق قواعد و ضوابط برائے عیدی ضبط ہوجانا طبعی امر تھا۔ امی کی منطق یہ تھی کہ اب اس میں اتنے ہی پیسے اور ملا کر ان آنٹی کے بچوں کو بھی عیدی دینی ہے۔ اور ہم یہ سوچا کرتے تھے کہ پھر ہمیں تو مفت میں ہی قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے جبکہ اصل میں تو یہ عیدی بڑوں کا کھیل ہے کہ جس نے پہلے دے دی اب ضروری ہے کہ اس کے بچوں کو ڈبل ہوکرواپس ملے۔ جن کو امی پہلے عیدی دے دیتیں ان سے پھر ہمیں واقعی ڈبل ہوکر ملتی لیکن آدھی واپس امی کے پاس چلی جاتی کہ سرمایہ خرچ نہیں کرتے منافع تم رکھ لو۔
بہرحال عید تو ہماری بڑے مزے دار ہوا کرتی تھی لیکن اب اس وقت ہمیں مزید کچھ یاد نہیں آرہا۔ باقی محفلین بھی اپنی عیدوں کی یادیں شئیر کریں کہ شائد ان کی یادوں سے ہماری بھی یادیں تازہ ہوجائیں۔
آخری تدوین: