ابو کاشان
محفلین
بھائی جان! یہ تو گھر کے سربراہ کی ذمہ داری ہے نا کہ اس کی رعایا کیا کرتی پھر رہی ہے۔ ہر بندہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو سدھار لے تو معاشرہ خود بخود بہتر ہو جائے گا۔جی بجا فرمایا۔۔۔ دکھ اس بات کا ہے کہ آج کل خوشی بھی مشینی ہو کر رہ گئی ہے، تب عید گاہ جانے والے رستے کو صاف کرتے ہوئے چونے سے خوش آمدید لکھنے کی جو خوشی ہوتی تھی اس کے آگے آج کل کی خوشیاں بہت چھوٹی نظر آتی ہیں۔ نہا دھو کر نئی لیکن سادہ سی شلوار قمیض پہنتے تھے اور امی بالوں کو سرسوں کا تیل لگا کر کنگھی کرتی تھیں اور جائے نماز بغل میں دابے یہ جا رہے ہیں نانا ابا کے ساتھ۔۔
اور آج کل کے زیادہ تر بچوں نے جینز کی انتہائی تنگ پتلون کے ساتھ رنگ برنگی ٹی شرٹس جن پر انگلش میں اوٹ پٹانگ سے جملے لکھے ہوتے ہیں پہن رکھی ہوتی ہیں اور ہاتھوں میں آئی فون پکڑے ہوتے ہیں۔
جسٹن بیبر کے گانے سنتے ہیں اور پِٹ بل کے rap پر تھرکتے ہیں۔۔ بہت سی باتیں اور بھی ہیں لیکن یہ ہوتا ہے اب کی عیدوں میں،،، تو دکھ ہوتا ہے اور احساس ِزیاں بھی کہ ہم نےوقت کے ساتھ کیسی کیسی حسین اور خالص چیزیں کھو دیں۔۔
لیکن حال یہ ہے کہ ایک صاحبہ کو کہا کہ آپ کا بیٹا لڑکیوں کو چھیڑتا ہے تو وہ کہنے لگیں "اس عمر میں نہیں کرے گا تو کب کرے گا۔ لڑکوں کے تو یہی کام ہیں۔" یہ تو حال ہے لوگوں کا۔