معاشرے کا سب سے نازک تر ین اور حساس ترین طبقہ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور ان میں بھی اہم ترین بچیاں ہیں۔ نو مولود سے شباب تک اور شادی سے بڑھاپے تک کا سفر کوئی معمولی نہیں ہوتا ۔ہمارے ہاں ایک نہیں سب معاملات ہی الٹ ہیں ۔ بچیوں کی درست تعلیم وتربیت کوئی کرتا ہی نہیں اور پھر مور ودِ الزام ٹھہراتے ہیں زمانے کو ، چھوٹے بچے تو ایک صاف شفاف صفحے کی طرح بالکل کورے ہوتے ہیں ۔ آپ اس صفحے پر یعنی ان کے ذہن پر کچھ بھی لکھ سکتے ہیں۔
جیسے غوث اعظم سرکار رحمۃاللہ علیہ کے نانا نے اپنے داماد سے کہا تھا کہ میری بیٹی اندھی ، لو لی لنگڑی اور گونگی ہے ۔ دراصل شیخ سید عبدالقادر جیلانی رحمۃاللہ علیہ کی والدہ کی تربیت ایسے ماحول اور ایسے انداز سے کی گئی تھی کہ ان کی والدہ محترمہ نے اپنی شادی ( نکاح ) سے پہلے نہ تو کسی نامحرم کو دیکھا ، نہ کہیں چل کر غیر محرم کے گھر گئیں اور نہ ہی کبھی حتیٰ کہ پردے کے پیچھے بھی کسی سے بات کی ، وہ پندرہ سپاروں کی حافظہ بھی تھیں اور ان سپاروں کو اکثر زبانی پڑھتی رہتی تھیں ۔ اگر بیٹیوں کی ایسی اسلامی تعلیم و تربیت کی ہوئی ہو تو پھر بیٹا بھی غوث الثقلین ہی بنتا ہے ۔ کسی نے کہا تھا کہ تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو میں تمہیں پڑھی لکھی قوم دوں گا ۔ ایک دانا کا قول ہے کہ ایک مر د کی تعلیم و تربیت صرف ایک فرد کی تعلیم ہے جبکہ ایک لڑکی کی تعلیم و تربیت ایک پورے کنبے کی تعلیم و تربیت کا بند وبست ہے ۔ علامہ اقبال بھی بچیوں کی اچھی تعلیم و تربیت کے قائل تھے لیکن وہ مغربی تعلیم اور مغربی تعلیمی نظام کو زہر ہلاہل سمجھتے تھے ۔ حتیٰ کہ مو صوف تو نوجوانوں کے لیے بھی اس تعلیم کو زہر قاتل ہی گردانتے تھے ۔ بچیاں تو بہت دور کی بات ہے ۔ اسی مغربی نظامِ تعلیم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے فرمایا
؂ گلہ تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا اَلہ الا اللہ
اس لفظِ مدرسہ سے مُراد دین کی تعلیم دینے والا مدرسہ ہر گز نہ تھا ۔ اقبال کے طرز تفکر کو یہ زیب نہیں دیتا ۔ اس سے ان کی مراد مغربی باطل نظام تعلیم تھا۔ کیونکہ اس دور میں اس تعلیم کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔آج بھی بچیوں کی تعلیم و تربیت کا معاملہ انتہائی مخدوش ہے ۔ ہم ان ننھی منھی کو نپلو ں کو آغاز بچپن میں انگریزی نظام تعلیم کو سونپ دیتے ہیں اور پندرہ ، سو لہ سال کی کافرانہ طرز کی تعلیم و تربیت کے بعد ہمارے سامنے ہماری اپنی بیٹی اندر سے انگریزی ذہن بنا کر ہمارے سامنے کھڑی ہوتی ہے اور ہم ہی کو پاگل ، جاہل ، جنگلی ، وحشی ، دقیانوسی اور قدامت پسند کہتی ہے ۔ ورنہ خو د کشی اور دوسرے اخلاق باختہ راستے اس کی تباہ کاری پر آخری ضرب کار ی ہوتی ہے ۔ یہاں بات ہوتی ہے خواتین کو دیئے گئے اسلام کے حقوق کی ۔ لیکن عملی طور پر کہیں بھی ان کو وراثت میں سے حصہ نہیں دیا جاتا اور ان کی کمائی کو کہیں بھی ان کی ذاتی ملکیت قرار نہیں دیا جاتا ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے ہم دو غلے ہیں ، منافق ہیں ،غدار ہیں اور جو کچھ جھیل رہے ہیں اسی کے سزا وار ہیں ۔جیسا کہ ڈاکٹر نے فرمایا۔
؂ اقبالؔ بڑا اُپد یشک ہے ، من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا ، کر دار کا غازی بن نہ سکا
ہم نے اسلام کی حقیقی تعلیمات کو چھوڑ کر غیروں کی تقلید کو اپنا لیا اور اپنی ہی بوئی ہوئی فصل کاٹ رہے ہیں ۔ ہر ایک بچی کو اگر زمانہ طفولیت ہی سے وہ پیار اور شفقت نصیب ہو جو نبی کریم ﷺ نے اپنی بیٹیوں کو دی اور ان کے ذہن کی زرخیز سر زمین پر اسلامی تعلیمات کا پودا کاشت کیا جائے اور ان کے حقوق کو پورا کرنے کا عملی مظاہرہ کیا جائے ان کی تعلیم و تربیت اسلامی انداز میں کی جائے ۔ ان کی نیک گھروں میں شادیاں کی جائیں تو کیا وجہ ہے کہ آنے والوں زمانوں میں محمد بن قاسم اور محمود غز نوی کے پیرو کاروں کی قطاریں نہ لگ جائیں ۔
ہمارے ہاں بچی پیدا بعد میں ہوتی ہے ۔ ماتم پہلے شروع ہو جاتا ہے ۔حالا نکہ اللہ کے سب سے اعلیٰ وارفع نبی ﷺنے اُسے اللہ کی رحمت قرار دیا ۔ ہم کہاں کے مسلمان ہیں جو اپنے نبی کی بات کو ماننا گوارا نہیں کرتے ۔ ویسے بہت بڑے عاش رسول ﷺ بنتے ہیں ۔پھر بچی کو گھر میں بیٹوں کے بعد ثانوی حیثیت دی جاتی ہے ۔ جیسے وہ کوئی گھٹیا مخلوق ہو پھر اس کی تعلیم و تربیت میں لڑکوں کی نسبت حددرجہ تک غفلت برتی جاتی ہے ۔حالا نکہ نبی کریم روف رحیم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص دو بچیوں کی ( ایک روایت میں چار بچیوں کی ) اچھی پرورش کرے اور ان کو اچھی جگہ نکاح دے تو وہ قیامت کے دن یوں میرے ساتھ ہو گا جیسے میری یہ دو انگلیاں ایک دوسرے کے قریب ہیں ۔ آج ہم بڑا واو یلا کرتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو وہ حقوق صدیاں پہلے عطا کر دیئے تھے جو مغرب نے آج تک بھی نہیں دیئے اور مغربی انسانی حقوق کی ظالم تنظیمیں فضول میں ہی شور مچاتی رہتی ہیں ۔ دراصل اس دور کے عرب معاشرے میں وہ قانون فوراَ لا گو بھی ہو گیا تھا اور اس پر عمل بھی ہوا۔ہمارے پاکستانی اور ہندو ستانی خطے میں انگریزی سام راج سے لے کر اب تک بیٹی اور بہن کو وراثت کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے ۔میں آئین کی بات نہیں کر رہا عمل کی بات کر رہا ہوں ۔ آ ئین میں نجانے کیا لکھا ہو گا۔ بہر حال یہاں عمل نام کی کوئی چیزنہیں ہے اور پھر آج ثقافتی یلغار کا دور ہے ۔ ہم نے اپنے بچوں کو گھر میں ٹی وی اور کمپیوٹر تو لا کر دے دئیے ۔ لیکن ان کو ان کا درست استعمال نہیں بتایا اور نہ ہی عملی مظاہر ہ کر کے ان کو اچھے چینلز اوراچھی ویب سائٹس کا عادی بنایا۔ سارا دن ہندو ستانی کافرانہ تہذیب و کلچر اور مور تیوں کا پو جا جانا دیکھنے والے بچوں سے اسلام پسندی کی توقع رکھنا عبث ہے ۔
ان کو ہندو ستانی رسم و رواج اور ان کی شادی بیا ہ کے طریقے ، ہولی اور دیوالی کی تو مکمل سو جھ بو جھ ہے مگر افسوس اسلامی نظامِ حیات کا کچھ پتہ ہی نہیں ۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات تھا اور ہم نے اُسے صرف چند عبادات کا مجموعہ سمجھ لیا ۔اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری مغربی افکار کے حامل اساتذہ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خود بری الذمہ ہو گئے ۔ اورمعاشرہ ناسور بنتا جارہا ہے ۔ ہمیں صرف دھن دولت اکٹھی کرنے کی پڑی ہوئی ہے اور آسمانوں پر ہماری تباہی کے تذکرے ہورہے ہیں۔ ہم خوابِ فر گوش سے کب جاگیں گے اور اپنے آپ کو کب پہچانیں گے ۔ وہ وقت کب دوبارہ آئے گا جب اقوام عالم ہمیں ہمارے اعلیٰ کردار سے جانیں گی اور ہم ان کے آئیڈیل بن جائیں گے ۔
 

نایاب

لائبریرین
بلاشک اک اچھی تحریر
" مسلم معاشرے میں بچیوں کی اعلی تعلیم " کے بارے جب بھی بات کی ہے ۔ کچھ ایسے ہی سوال و خدشات سامنے رکھتے بچیوں کی تعلیم کی مخالفت کی جاتی ہے کہ
ہم ان ننھی منھی کو نپلو ں کو آغاز بچپن میں انگریزی نظام تعلیم کو سونپ دیتے ہیں اور پندرہ ، سو لہ سال کی کافرانہ طرز کی تعلیم و تربیت کے بعد ہمارے سامنے ہماری اپنی بیٹی اندر سے انگریزی ذہن بنا کر ہمارے سامنے کھڑی ہوتی ہے اور ہم ہی کو پاگل ، جاہل ، جنگلی ، وحشی ، دقیانوسی اور قدامت پسند کہتی ہے ۔ ورنہ خو د کشی اور دوسرے اخلاق باختہ راستے اس کی تباہ کاری پر آخری ضرب کار ی ہوتی ہے ۔

کیا ہی بہتر ہو کہ یہ بھی سوچا جائے کہ اک بچی اچھی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آخر کن وجوہات کی بنا پر ہمیں " پاگل جنگلی ۔وحشی ۔ دقیانوسی ۔قدامت پسند " کے القابات سے نوازتے ہمارے " اصولوں " سے ٹکراتے خود کو تباہی کی راہ پر لگاتی ہے ۔ ؟
اگر ان وجوہات کی تلاش کی جائے تو ہمیں اپنی بچی کے ایسے رویئے کی بنیاد خود ہماری خواہشات کے اصولوں پہ کھڑی نظر آئے گی ۔
" ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو " ورنہ بغاوت کر دو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
اچھی تحریر ہے لیکن اس بات کی بھی وضاحت ہوجاتی تو بہت بہتر ہوتا کہ انگریزی نظامِ تعلیم سے آپ کیا مرادلے رہے ہیں؟۔۔میرا خیال تو یہ ہے مسئلہ نظام کا نہیں ہے مسئلہ اقدار کا ہے۔ اگر انگلش میڈیم سکولوں میں بھی اسلامی اقدار کی تعلیم و تربیت دی جائے تو یہ سب سے بہترین انتخاب ہوگا۔ ورنہ یہاں بہت سے دینی مدرسے ایسے بھی ہیں کہ جہاں پڑھایا جانے والا نصاب ہوتا تو بیشک اسلامی کتب پر مبنی ہے،لیکن تربیت کی بنیاد غیر اسلامی اقدار پر استوار ہوتی ہے۔۔دوسری بات یہ کہ کئی سو سال پرانا نصاب پڑھایا جاتا ہے اور عصرِ رواں کی تعلیمی و تخلیقی تحقیقات سے طالبِ علم یکسر بے بہرہ رہ جاتا ہے :)
 

باباجی

محفلین
بہت اچھی تحریر ہے قادری صاحب

انگلش میڈیم کیا ہے
ایک طریقہ تعلیم ہے
اگر ہم لوگ ترقی یافتہ طریقہ تعلیم میں طریقہ اسلامی شامل کردیں
تو بلا شبہ ہم لوگ بہت تیزی سے ترقی کا زینہ طے کر سکتے ہیں
سوال پر سوال کرنا تو بہت آسان ہے
اپنی سوچ کو متوازن رکھنا اور لوگوں کو توازن قائم کرنا سکھانا کافی مشکل ہے
لیکن کوشش سے کیا نہیں کیا جاسکتا
آپ نے سرکار اقبال کا بہت خوبصورت اور بر محل شعر لکھا

گفتار کے تو ہم ٍ سب غازی ہیں بھائی

اللہ ہمیں ہدایت عطا فرمائے
آمین
 
بلاشک اک اچھی تحریر
" مسلم معاشرے میں بچیوں کی اعلی تعلیم " کے بارے جب بھی بات کی ہے ۔ کچھ ایسے ہی سوال و خدشات سامنے رکھتے بچیوں کی تعلیم کی مخالفت کی جاتی ہے کہ
ہم ان ننھی منھی کو نپلو ں کو آغاز بچپن میں انگریزی نظام تعلیم کو سونپ دیتے ہیں اور پندرہ ، سو لہ سال کی کافرانہ طرز کی تعلیم و تربیت کے بعد ہمارے سامنے ہماری اپنی بیٹی اندر سے انگریزی ذہن بنا کر ہمارے سامنے کھڑی ہوتی ہے اور ہم ہی کو پاگل ، جاہل ، جنگلی ، وحشی ، دقیانوسی اور قدامت پسند کہتی ہے ۔ ورنہ خو د کشی اور دوسرے اخلاق باختہ راستے اس کی تباہ کاری پر آخری ضرب کار ی ہوتی ہے ۔

کیا ہی بہتر ہو کہ یہ بھی سوچا جائے کہ اک بچی اچھی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آخر کن وجوہات کی بنا پر ہمیں " پاگل جنگلی ۔وحشی ۔ دقیانوسی ۔قدامت پسند " کے القابات سے نوازتے ہمارے " اصولوں " سے ٹکراتے خود کو تباہی کی راہ پر لگاتی ہے ۔ ؟
اگر ان وجوہات کی تلاش کی جائے تو ہمیں اپنی بچی کے ایسے رویئے کی بنیاد خود ہماری خواہشات کے اصولوں پہ کھڑی نظر آئے گی ۔
" ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو " ورنہ بغاوت کر دو ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
اچھی تحریر ہے لیکن اس بات کی بھی وضاحت ہوجاتی تو بہت بہتر ہوتا کہ انگریزی نظامِ تعلیم سے آپ کیا مرادلے رہے ہیں؟۔۔میرا خیال تو یہ ہے مسئلہ نظام کا نہیں ہے مسئلہ اقدار کا ہے۔ اگر انگلش میڈیم سکولوں میں بھی اسلامی اقدار کی تعلیم و تربیت دی جائے تو یہ سب سے بہترین انتخاب ہوگا۔ ورنہ یہاں بہت سے دینی مدرسے ایسے بھی ہیں کہ جہاں پڑھایا جانے والا نصاب ہوتا تو بیشک اسلامی کتب پر مبنی ہے،لیکن تربیت کی بنیاد غیر اسلامی اقدار پر استوار ہوتی ہے۔۔دوسری بات یہ کہ کئی سو سال پرانا نصاب پڑھایا جاتا ہے اور عصرِ رواں کی تعلیمی و تخلیقی تحقیقات سے طالبِ علم یکسر بے بہرہ رہ جاتا ہے :)
بہت اچھی تحریر ہے قادری صاحب

انگلش میڈیم کیا ہے
ایک طریقہ تعلیم ہے
اگر ہم لوگ ترقی یافتہ طریقہ تعلیم میں طریقہ اسلامی شامل کردیں
تو بلا شبہ ہم لوگ بہت تیزی سے ترقی کا زینہ طے کر سکتے ہیں
سوال پر سوال کرنا تو بہت آسان ہے
اپنی سوچ کو متوازن رکھنا اور لوگوں کو توازن قائم کرنا سکھانا کافی مشکل ہے
لیکن کوشش سے کیا نہیں کیا جاسکتا
آپ نے سرکار اقبال کا بہت خوبصورت اور بر محل شعر لکھا

گفتار کے تو ہم ٍ سب غازی ہیں بھائی

اللہ ہمیں ہدایت عطا فرمائے
آمین
جب بھی میں تعلیم پر لکھتا ہوں تو ایک محدود تاثر جاتا ہے۔ حالانکہ میں نے زیادہ لکھا ہی تعلم و تربیت پر
مثلا میری مندرجہ ذیل تحریر میں۔ جو کہ عرصہ پہلے کی ہے۔ دیکھا جائے کیا دکھ بیان ہوا ہے۔

تعلیمی رہنمائی کا فقدان
ہمارے معاشرے میں تعلیمی رہنمائی کی کمی طلبامیں شدت کے ساتھ پائی جاتی ہے لیکن انہیں بھی اس حقیقت کاادراک کم ازکم ماسٹرلیول کی تعلیم کے بعدہوتاہے اورجوطلباء وطالبات ماسٹرزتک پہنچ ہی نہیں پاتے وہ یکسرہی نابلدر ہتے ہیں۔آج سے ایک عرصہ پہلے تک ہائی سکول میں فارسی اورعربی کی تعلیم دی جاتی تھی۔فارسی کو تو کب کا سکول سے دیس نکالا دے دیاگیا۔البتہ عربی ابھی تک نصاب میں موجود ہے۔لیکن اس کوپڑھانے والا ہی کوئی موجود نہیں۔کیونکہ عربی اساتذہ کی سرکاری سکولوں میں خاطرخواہ تقرری ہی نہیں کی جاتی اورپرائیوٹ،انگلش میڈیم اداروں کواس کی ضرورت ہی نہیں۔ کیونکہ ان کامقصدہی اس قوم کومغربی استعماری رنگ میں ڈھالنا ہے۔باقی رہے چھوٹے پرائیوٹ ادارے،تووہ عربی ٹیچرکیوں مقرر کریں وہ اپنے ہی سکول میں بذاتِ خودپیپرلے کربچوں کو پاس کردیتے ہیں چاہے بچے کوپڑھنالکھنابھی آتا ہو یا نہ آتاہو،اُن کی بلاسے۔ ماسوائے چنددینی اداروں کے دیگرتمام دینی مدارس میں ابھی تک انگریزی زبان سکھانے کا رجحان ترقی نہیں پاسکا۔ وہ ادارے طلباء کو عربی،فارسی،صرف ونحو، منطق اوراسماء الرجال،علم تفسیر ، تفسیر، علم حدیث،حدیث اوردیگرمروّجہ علوم میں توطاق بنادیتے ہیں ۔ لیکن طالب علم انگریزی زبان اوردوسرے جدیدعلوم جیساکہ سائنس وٹیکنالوجی اورجدیدمعاشیات وغیرہ کے علوم سے محروم رہ جاتے ہیں۔یعنی آپ جس قسم کے ادارے سے فیض یافتہ ہوں گے صرف اسی نوعیت کاکام کرسکیں گے۔علوم شرقیہ کی اعلیٰ تعلیم کی اسنادعصری علوم کی درسگاہوں اوردفاترمیں ناقابل قبول قرارپائی جاتی ہیں۔ جبکہ صرف عصری علوم سے فارغ التحصیل لوگ علماء کوصرف علوم دینیہ ونماز،رو زے کاذمہ دار سمجھ کرخودکوبری الذمہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔باہمی یگانگت وہم آہنگی اورمشترکہ نظامِ تعلیم ایک اہم ضرورت وقت ہے اورآنے والی نئی نسل کو پورا پورا حق حاصل ہے کہ اُن کی تعلیم وتربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کی جائے اورنئی پودکوسائنس وٹیکنالوجی میں ماہربناکرمُلک خداداد کے قدرتی وسائل کودرست اندازمیں بروئے کار لایاجائے اور امت مسلمہ کی فلاح کابیڑا اسی خطہ ارضی سے اُٹھایاجائے۔کیونکہ یہ ملک توخالصتاًاسلام کے نام پرقائم کیاگیاتھاحالانکہ قومی لحاظ سے یہ ایک ملک نہ تھالیکن فکری سطح پردین اسلام کے نام پراس پاک سرزمیں کوہندوستانی مسلمانوں کا مسکن کہا گیا اور پاکستان کا نام دیا گیا۔اگریہ ملک بھی اسلام کی نشاۃثانیہ کرنے میں ناکام رہتاہے توپھردوسرے ممالک جومحض قومیت کی بناء بناپرقائم ہیں اُن سے اس قسم کی توقع رکھنا ہی عبث (فضول) ہے۔ہمارے طلباء کو یہ علم نہیں ہوتاکہ میٹرک میں سائنس پڑھنے کے بعدہم کن کن شعبہ جات میں تعلیم حاصل کرسکتے ہیں اورمیٹرک میں آرٹس پڑھنے کے بعدکون کون سے علم سے استفادہ حاصل کیاجاسکتاہے۔سکو ل کے طلباء سمجھتے ہیں کہ دینی مدارس میں علماء بچوں کوصرف دورکعت کاامام بننے کی تعلیم دیتے ہیں اوردینی مدارس کے بچے یہ سمجھتے ہیں کہ سکول میں محض مغربیت کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔دونوں فریق اپنی اپنی جگہ احساس برتری اوربالمقابل علوم سے ناآشناہونے کی بناء پراحساس کمتری کا شکار پائے جاتے ہیں۔دینی مدارس کے طلباء کوابتدائی تین چارسالوں میں جتنی گرائمر پڑھا دی جاتی ہے۔ کالجزمیں غالباً ایم۔اے تک بھی نہیں سکھائی جاتی۔علوم مغربیہ کے والدادہ حضرات صرف شک کرسکنے کی حد تک علم حاصل کرپاتے ہیں۔ اوردینی مدارس کے فارغ التحصیل طلباء اپنے مؤقف کوحرف آخرقراردینے میں مُصردکھائی دیتے ہیں۔فنی وتکنیکی علوم حاصل کرنے والے طلباء کوکوئی اورہی مخلوق سمجھاجاتاہے۔حالانکہ ہمارے ہاں اس علم کی کمی کی وجہ سے ملکی وسائل سے پوراپورافائدہ حاصل نہیں کیاجارہا۔ماہرین علوم، علماء کرام اورارباب بست وکشادکوچاہئے کہ وہ تعلیم کے معاملے کوانتہائی سنجیدگی سے لیتے ہوئے مل جل کرمتوازن نظامِ تعلیم ترتیب دیں اور ملکی سطح پراُس کو یکساں رائج کر کے اُمت مسلمہ کی آبیاری درست خطوط پر فرمائیں اوربیسوں اقسام کے تعلیم نظاموں کوختم کرواکرتمام افراد کوایک جیسی تعلیم دلوانے کااہتمام کریں تاکہ ہرقسم کی شدت پسندی احساس کمتری اوربنیادی علوم کی محرومی سے بچا جاسکے اور اس ملک وقوم کوترقی کی راہوں پرگامزن کیاجاسکے ۔ کیونکہ اقبال نے کہاہے:۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
اورمزیدکہاکہ:۔
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
 
اب بچوں اور بچیوں کو علم سکھانا یا تعلیم دلانا میرے نزدیک باطل نہیں، لیکن فرنگی تہذیب کی اتباع میں باطل نظریات اور روشن خیالی کے نام پر بے راہ روی کو فروغ دینے والا نظامِ تعلیم باطل ہے۔ نظامِ تعلیم ایک چیز ہے۔ تعلیم دوسری چیز ہے۔ علم ایک اور چیز ہے۔ سب باتوں کو گڈ مڈ کر کے مجھے تعلیم دشمن نہ سمجھا جائے۔
 
مندرجہ بالا تحریر ”تعلیمی رہنمائی کا فقدان“ میں عربی و فارسی کا ماتم ہے۔ دینی جامعات میں انگریزی اور سائنسی علوم کی کمی کا ماتم ہے۔ علوم شرقیہ کی اسناد کا ماتم۔ رہنمائی کی کمی کا بیان۔ واقفیت کے فقدان کی تڑپ۔ ٹیکنیکل ایجوکیشن
فنی وتکنیکی علوم حاصل کرنے والے طلباء کوکوئی اورہی مخلوق سمجھاجاتاہے۔حالانکہ ہمارے ہاں اس علم کی کمی کی وجہ سے ملکی وسائل سے پوراپورافائدہ حاصل نہیں کیاجارہا
اس بحث کا مطلب میرے نزدیک نظام کی خامی ہے۔ نہ کی تعلیم کی دشمنی۔ شعور اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
۔ ہم ان ننھی منھی کو نپلو ں کو آغاز بچپن میں انگریزی نظام تعلیم کو سونپ دیتے ہیں اور پندرہ ، سو لہ سال کی کافرانہ طرز کی تعلیم و تربیت کے بعد ہمارے سامنے ہماری اپنی بیٹی اندر سے انگریزی ذہن بنا کر ہمارے سامنے کھڑی ہوتی ہے اور ہم ہی کو پاگل ، جاہل ، جنگلی ، وحشی ، دقیانوسی اور قدامت پسند کہتی ہے ۔
یہاں میں بھی آپ سے غیر متفق ہوں لالہ ۔ کیونکہ اس وقت میرا میجر سبجیکٹ ہی انگریزی ہے ، ان کا کلچر ، تہذیب و ثقافت ، ان کے رویے، رہن سہن میں یہ سب پڑھتی ہوں ۔ میرے کورس میں صرف ایک ہی مسلم رائٹر شامل ہے ۔
دیکھیں انگریزی بُری نہیں ہے ، نا انگریزی سیکھنا بُرا ہے ، ہمیں ہر دنیا کا ہر علم سیکھنا چاہئے ، لیکن اپنی اقدار و روایات ، اپنا مذہب ، احکامات قرآن ، احکامات رسول کو مقدم رکھنا چاہئے ۔
اب میں امیریکی ، اور برٹش کی زبان پڑھ رہی ہوں اور ان کی تہذیب و ثقافت کا مطالعہ کر رہی ہوں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ میں ان چیزوں کو خود پر طاری کرکے اپنے والدین یا گھر والوں کے ساتھ بُرا سلوک روا رکھوں ۔
کیا انگلش سیکھ کر ، پڑھ کر میں اسلام کے اصولوں و ضوابط پر عمل پیرا نہیں ہو سکتی ؟ بالکل ہو سکتی ہوں ، اگر میرے والدین نے میری تربیت اچھی کی ہے تو ۔
اور میں اس بات سے بھی انکارنہیں کرتی کہ لڑکیاں ایسا نہیں کرتیں ہوں گی ، بلاشبہ کرتی ہیں ۔
والدین اپنے بچوں کو سکولوں مدرسوں میں بھیج کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ لو جی ان کی تربیت ہو جائے گی ، اور خود پیسہ کمانے والی مشین بن جاتے ہیں۔ جبکہ بچے کی پہلی درس گاہ ہی ماں کی گود ہے ۔ اور ماں کی گود سے وہ جو کچھ سیکھتا ہے اسے دنیا کا کوئی ادارہ نہیں سکھا سکتا ، کوئی ٹیچر ماں کی جگہ نہیں لے سکتا۔
اس لئے میرے خیال کے مطابق والدین کو اپنے بچوں کی تربیت ( خواہ وہ بیٹا ہو یا بیٹی) ہی ایسی کرنی چاہئے کہ وہ علوم ضرور سیکھیں لیکن ان کو خود پر حاوی و طاری نا کریں ۔
 
یہاں میں بھی آپ سے غیر متفق ہوں لالہ ۔ کیونکہ اس وقت میرا میجر سبجیکٹ ہی انگریزی ہے ، ان کا کلچر ، تہذیب و ثقافت ، ان کے رویے، رہن سہن میں یہ سب پڑھتی ہوں ۔ میرے کورس میں صرف ایک ہی مسلم رائٹر شامل ہے ۔
دیکھیں انگریزی بُری نہیں ہے ، نا انگریزی سیکھنا بُرا ہے ، ہمیں ہر دنیا کا ہر علم سیکھنا چاہئے ، لیکن اپنی اقدار و روایات ، اپنا مذہب ، احکامات قرآن ، احکامات رسول کو مقدم رکھنا چاہئے ۔
اب میں امیریکی ، اور برٹش کی زبان پڑھ رہی ہوں اور ان کی تہذیب و ثقافت کا مطالعہ کر رہی ہوں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ میں ان چیزوں کو خود پر طاری کرکے اپنے والدین یا گھر والوں کے ساتھ بُرا سلوک روا رکھوں ۔
کیا انگلش سیکھ کر ، پڑھ کر میں اسلام کے اصولوں و ضوابط پر عمل پیرا نہیں ہو سکتی ؟ بالکل ہو سکتی ہوں ، اگر میرے والدین نے میری تربیت اچھی کی ہے تو ۔
اور میں اس بات سے بھی انکارنہیں کرتی کہ لڑکیاں ایسا نہیں کرتیں ہوں گی ، بلاشبہ کرتی ہیں ۔
والدین اپنے بچوں کو سکولوں مدرسوں میں بھیج کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ لو جی ان کی تربیت ہو جائے گی ، اور خود پیسہ کمانے والی مشین بن جاتے ہیں۔ جبکہ بچے کی پہلی درس گاہ ہی ماں کی گود ہے ۔ اور ماں کی گود سے وہ جو کچھ سیکھتا ہے اسے دنیا کا کوئی ادارہ نہیں سکھا سکتا ، کوئی ٹیچر ماں کی جگہ نہیں لے سکتا۔
اس لئے میرے خیال کے مطابق والدین کو اپنے بچوں کی تربیت ( خواہ وہ بیٹا ہو یا بیٹی) ہی ایسی کرنی چاہئے کہ وہ علوم ضرور سیکھیں لیکن ان کو خود پر حاوی و طاری نا کریں ۔
جی آپ اوپر سے میری دوسری تحریر اور ایک دو چھوٹے چھوٹے جملوں کو دوبارہ دیکھ لیں۔ میری رائے بالکل وہی ہے جو آپ کی ہے۔ از راہ کرم دوبارہ دیکھ لیں، سارا دھاگہ۔
 
بہت عمدہ خیالات ہیں
سو فیصد عبدالرزاق قادری سے متفق ہوں
جی آپی میرے شروع کردہ اکثر دھاگے، یعنی میری سوچ کا اصل محور ہی تعلیم و تربیت اسلامی ہے۔ ہاں کچھ دھاگے جو میری اپنی تحریریں نہیں ان میں دوسروں کی فکرہے وہ کالم نگار پر منحصر ہے۔ یا وہ کسی اور موضوع کے بارے میں ہیں۔
آپ نے ”معاشرے میں خواص و عوام کا کردار“ بھی پڑھی تھی۔ اس میں بھی میں نے تعلیم و تربیت ہی کو حل کہا ہے۔ میری جتنی عمر ہے، سوچ ہے، یا مشاہدہ ہے اس کی بناء پر ہی لکھتا ہوں۔ آپ لوگوں کی حوصلہ افزائی سے محسوس ہونے لگتا ہے کہ میں اچھا لکھتا ہوں گا۔ آپ کا شکریہ۔
 
یہاں میں بھی آپ سے غیر متفق ہوں لالہ ۔ کیونکہ اس وقت میرا میجر سبجیکٹ ہی انگریزی ہے ، ان کا کلچر ، تہذیب و ثقافت ، ان کے رویے، رہن سہن میں یہ سب پڑھتی ہوں ۔ میرے کورس میں صرف ایک ہی مسلم رائٹر شامل ہے ۔
دیکھیں انگریزی بُری نہیں ہے ، نا انگریزی سیکھنا بُرا ہے ، ہمیں ہر دنیا کا ہر علم سیکھنا چاہئے ، لیکن اپنی اقدار و روایات ، اپنا مذہب ، احکامات قرآن ، احکامات رسول کو مقدم رکھنا چاہئے ۔
نشر مکرر
اب بچوں اور بچیوں کو علم سکھانا یا تعلیم دلانا میرے نزدیک باطل نہیں، لیکن فرنگی تہذیب کی اتباع میں باطل نظریات اور روشن خیالی کے نام پر بے راہ روی کو فروغ دینے والا نظامِ تعلیم باطل ہے۔ نظامِ تعلیم ایک چیز ہے۔ تعلیم دوسری چیز ہے۔ علم ایک اور چیز ہے۔ سب باتوں کو گڈ مڈ کر کے مجھے تعلیم دشمن نہ سمجھا جائے۔​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جزاک اللہ۔ ہمارے ہاں اصل تعلیم تو ہے ہی نہیں ہے۔ تعلیم کو ڈگری تک محدود کر دیا گیا ہے حالانکہ تعلیم وہی ہے جو عمل سے نظر آئے۔ لڑکیوں کی نسبت لڑکیوں کی تربیت زیادہ اچھی کرنی چاہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فرائض ادا کرنی کی توفیق عطا فرمائے آمین
 

ساجد

محفلین
عبدالرزاق قادری بھائی ، آپ ایک مراسلے میں کافی لوگوں کو ٹیگ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کو اس کا طریقہ معلوم نہیں تو میں بتا دیتا ہوں۔
سب سے پہلے @ لکھیں گے پھر بغیر Space کے رُکن کا نام لکھیں گے۔ ( کروم براؤزر استعمال کر رہے ہیں تو نام مکمل ہونے سے پہلے ہی اراکین کی ایک قطار سکرین پر نمودار ہو جائے گی ۔ مطلوبہ رکن کا نام دیکھ کر اس کے اوتار پر ماؤس کلک کر دیں۔ بس کام مکمل)۔
مزید کسی رکن کو ٹیگ کرنے کے لئے پہلے ٹیگ شدہ رکن کے ٹیگ سے Space دے کر نئے رکن کے لئے بالا کے طریقے سے ٹیگنگ جاری رکھی جا سکتی ہے۔
ٹیگنگ کے بعد مراسلہ ارسال کرنے کے بعد اسے مدون بھی کیا جا سکتا ہے یعنی ٹیگنگ کئے گئے اراکین کے ناموں کو حذف بھی کر دیں تو ٹیگنگ ختم نہیں ہوتی ۔ آپ کا مراسلہ ارسال ہوتے ہی متعلقہ رکن کو ٹیگ ہو جاتا ہے جو اس کے ”اطلاعات“ کے زمرے میں سرخ نشان میں ظاہر ہو جاتا ہے۔
بہتر ہو گا کہ اپنے کالم والے مراسلے میں ہی ٹیگنگ کیا کریں تا کہ تبصروں کا تسلسل نہ ٹوٹے۔
---------------------------------------------------
ابھی دیکھئے کہ میں نے آپ کے ٹیگنگ والے پیغامات مٹا دئیے ہیں لیکن اراکین اس ٹیگنگ کو اپنی اطلاعات میں بدستور دیکھ سکتے ہیں۔
 
عبدالرزاق قادری بھائی ، آپ ایک مراسلے میں کافی لوگوں کو ٹیگ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کو اس کا طریقہ معلوم نہیں تو میں بتا دیتا ہوں۔
سب سے پہلے @ لکھیں گے پھر بغیر Space کے رُکن کا نام لکھیں گے۔ ( کروم براؤزر استعمال کر رہے ہیں تو نام مکمل ہونے سے پہلے ہی اراکین کی ایک قطار سکرین پر نمودار ہو جائے گی ۔ مطلوبہ رکن کا نام دیکھ کر اس کے اوتار پر ماؤس کلک کر دیں۔ بس کام مکمل)۔
مزید کسی رکن کو ٹیگ کرنے کے لئے پہلے ٹیگ شدہ رکن کے ٹیگ سے Space دے کر نئے رکن کے لئے بالا کے طریقے سے ٹیگنگ جاری رکھی جا سکتی ہے۔
ٹیگنگ کے بعد مراسلہ ارسال کرنے کے بعد اسے مدون بھی کیا جا سکتا ہے یعنی ٹیگنگ کئے گئے اراکین کے ناموں کو حذف بھی کر دیں تو ٹیگنگ ختم نہیں ہوتی ۔ آپ کا مراسلہ ارسال ہوتے ہی متعلقہ رکن کو ٹیگ ہو جاتا ہے جو اس کے ”اطلاعات“ کے زمرے میں سرخ نشان میں ظاہر ہو جاتا ہے۔
بہتر ہو گا کہ اپنے کالم والے مراسلے میں ہی ٹیگنگ کیا کریں تا کہ تبصروں کا تسلسل نہ ٹوٹے۔
---------------------------------------------------
ابھی دیکھئے کہ میں نے آپ کے ٹیگنگ والے پیغامات مٹا دئیے ہیں لیکن اراکین اس ٹیگنگ کو اپنی اطلاعات میں بدستور دیکھ سکتے ہیں۔
دھنیا واد سر!
 

باباجی

محفلین
یہاں میں بھی آپ سے غیر متفق ہوں لالہ ۔ کیونکہ اس وقت میرا میجر سبجیکٹ ہی انگریزی ہے ، ان کا کلچر ، تہذیب و ثقافت ، ان کے رویے، رہن سہن میں یہ سب پڑھتی ہوں ۔ میرے کورس میں صرف ایک ہی مسلم رائٹر شامل ہے ۔
دیکھیں انگریزی بُری نہیں ہے ، نا انگریزی سیکھنا بُرا ہے ، ہمیں ہر دنیا کا ہر علم سیکھنا چاہئے ، لیکن اپنی اقدار و روایات ، اپنا مذہب ، احکامات قرآن ، احکامات رسول کو مقدم رکھنا چاہئے ۔
اب میں امیریکی ، اور برٹش کی زبان پڑھ رہی ہوں اور ان کی تہذیب و ثقافت کا مطالعہ کر رہی ہوں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ میں ان چیزوں کو خود پر طاری کرکے اپنے والدین یا گھر والوں کے ساتھ بُرا سلوک روا رکھوں ۔
کیا انگلش سیکھ کر ، پڑھ کر میں اسلام کے اصولوں و ضوابط پر عمل پیرا نہیں ہو سکتی ؟ بالکل ہو سکتی ہوں ، اگر میرے والدین نے میری تربیت اچھی کی ہے تو ۔
اور میں اس بات سے بھی انکارنہیں کرتی کہ لڑکیاں ایسا نہیں کرتیں ہوں گی ، بلاشبہ کرتی ہیں ۔
والدین اپنے بچوں کو سکولوں مدرسوں میں بھیج کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ لو جی ان کی تربیت ہو جائے گی ، اور خود پیسہ کمانے والی مشین بن جاتے ہیں۔ جبکہ بچے کی پہلی درس گاہ ہی ماں کی گود ہے ۔ اور ماں کی گود سے وہ جو کچھ سیکھتا ہے اسے دنیا کا کوئی ادارہ نہیں سکھا سکتا ، کوئی ٹیچر ماں کی جگہ نہیں لے سکتا۔
اس لئے میرے خیال کے مطابق والدین کو اپنے بچوں کی تربیت ( خواہ وہ بیٹا ہو یا بیٹی) ہی ایسی کرنی چاہئے کہ وہ علوم ضرور سیکھیں لیکن ان کو خود پر حاوی و طاری نا کریں ۔
آپ نے بہت اچھی بات کی
لیکن شروع میں آپ کو تھوڑی سی غلط فہمی ہوگئی
بات انگریزی کی نہیں
نظامِ تعلیم کی ہے

تعلیم حاصل کرنے کا تو حکم ہے
معاشرت اور ثقافت کو جاننا بھی ٹھیک ہے
بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایسا بندہ جس کی تعلیم واجبی سی ہو مگر اسے
انگریزی بولنی آتی ہو اسے پڑھا لکھا تصور کیا جاتا ہے
اور جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو اور اسے انگریزی بولنی نہ آتی ہو وہ ان پڑھ کہلاتا ہے

اگر یہ واقعی ٹھیک ہوتا تو آج کی سب سے مضبوط اکانومی چائنہ کی بات کرتے ہیں
جہاں کمپیوٹر چائنیز لینگویج میں ہے
وہ لوگ اشد ضرورت کے تحت ہی انگلش بولتے ہیں
حالانکہ وہ بہت اچھی انگلش بولتے ہیں
 
Top