خورشیداحمدخورشید
محفلین
سلمان میرا بھتیجا ہے۔ دوسری جماعت میں پڑھتا ہے۔ میرے ساتھ اس کی بڑی دوستی ہے۔ اکثر وہ سکول سے جب کوئی نئی بات سیکھ کر آتا ہے تو گھر آکر سب سے پہلے تمتمائے چہرے اور چمکتی آنکھوں سے اس یقین سے مجھےبتاتا ہے کہ اس کے بتانے سے پہلے مجھے یہ بات معلوم نہیں تھی۔
ایک دن میں نے غور کیا کہ یہ عادت تو اکثر بڑی عمر کے لوگوں میں بھی ہوتی ہے۔ وہ بھی کوئی بات جو ان کے علم میں نئی ہوتی ہے اس یقین اور جذبے کے ساتھ دوسروں کو بتاتے ہیں کہ دوسرے یہ بات نہیں جانتے۔ بلکہ بعض لوگ تو ہر بات اس یقین کے ساتھ کرتے ہیں کہ دوسرے کم عقل یا جاہل ہیں۔ اس کا مظاہرہ اس وقت دیکھا جاسکتا ہے جب کوئی بحث مباحثہ ہورہا ہو۔ ﷽بحث یا مباحثہ کا اصل مقصد تو کسی بھی موضوع کو مختلف زاویوں سے جانچنا ہوتا ہے۔لیکن شرکائے بحث اسے ہار جیت کامیدان بنا لیتے ہیں اور دوسری طرف کے موقف کو جانچے بغیر صرف اپنے موقف کو سچا ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
شاید بچپن کی عادت انسان کے لاشعور میں اس قدر پختہ ہو چکی ہوتی کہ وہ ہر بحث میں سیکھنے کی بجائے سکھانے پر زیادہ زور لگاتا ہے کیونکہ اس سے اسے برتری کا احساس ہوتا ہے۔ اس طرح وہ جسمانی طور پر بڑا ہونے کے باوجود ذہنی طور پر بچہ ہی رہتاہے۔
لیکن کچھ لوگ ذہنی طور پر بھی بڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو یہ سمجھ جاتے ہیں کہ جو ہم نہیں جانتے وہ لامحدود ہے اور لامحدود کے مقابلے میں ہم جتنا بھی جان لیں وہ نہ ہونے کے برابر ہی ہوگا۔
نوٹ:- صاحبِ تحریر کو بھی بچوں میں ہی شمار کیا جائے۔
ایک دن میں نے غور کیا کہ یہ عادت تو اکثر بڑی عمر کے لوگوں میں بھی ہوتی ہے۔ وہ بھی کوئی بات جو ان کے علم میں نئی ہوتی ہے اس یقین اور جذبے کے ساتھ دوسروں کو بتاتے ہیں کہ دوسرے یہ بات نہیں جانتے۔ بلکہ بعض لوگ تو ہر بات اس یقین کے ساتھ کرتے ہیں کہ دوسرے کم عقل یا جاہل ہیں۔ اس کا مظاہرہ اس وقت دیکھا جاسکتا ہے جب کوئی بحث مباحثہ ہورہا ہو۔ ﷽بحث یا مباحثہ کا اصل مقصد تو کسی بھی موضوع کو مختلف زاویوں سے جانچنا ہوتا ہے۔لیکن شرکائے بحث اسے ہار جیت کامیدان بنا لیتے ہیں اور دوسری طرف کے موقف کو جانچے بغیر صرف اپنے موقف کو سچا ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
شاید بچپن کی عادت انسان کے لاشعور میں اس قدر پختہ ہو چکی ہوتی کہ وہ ہر بحث میں سیکھنے کی بجائے سکھانے پر زیادہ زور لگاتا ہے کیونکہ اس سے اسے برتری کا احساس ہوتا ہے۔ اس طرح وہ جسمانی طور پر بڑا ہونے کے باوجود ذہنی طور پر بچہ ہی رہتاہے۔
لیکن کچھ لوگ ذہنی طور پر بھی بڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو یہ سمجھ جاتے ہیں کہ جو ہم نہیں جانتے وہ لامحدود ہے اور لامحدود کے مقابلے میں ہم جتنا بھی جان لیں وہ نہ ہونے کے برابر ہی ہوگا۔
نوٹ:- صاحبِ تحریر کو بھی بچوں میں ہی شمار کیا جائے۔