کچھ سوچ کے آیا ہوں، بڑی دیر سے چپ ہوں
در پر ترے بیٹھا ہوں، بڑی دیر سے چپ ہوں
کیا جانئے کیا جی میں ہے، لب پر نہیں آتا
بس ’حرف تمنا ہوں، بڑی دیر سے چپ ہوں ‘
تو اوج فلک، اوجِ ثریا سے بھی اونچا
میں خاک کا ذرہ ہوں بڑی دیر سے چپ ہوں
ہر سمت ترا دست کرم ہے، یہاں میں بھی
دست طلب آسا ہوں بڑی دیر سے چپ ہوں
تو سبع سماوات میں ہے بزم سجائے
میں ٹوٹتا تارہ ہوں بڑی دیر سے چپ ہوں
جلوے ہیں ترے ارض و سماوات میں، اور میں
ٹوٹا ہوا شیشہ ہوں بڑی دیر سے چپ ہوں
مانگوں بھی تو کیا مانگوں، تجھے سب کی خبر ہے
گونگا ہوں نہ بہرا ہوں، بڑی دیر سے چپ ہوں
اتنا سا کوئی چھیڑ دے، بس آگ لگا دوں
گو راکھ کا ذرہ ہوں بڑی دیر سے چپ ہوں
یہ موج ہوا جانے مجھے کب اُڑا لے جائے
بس آخری پتا ہوں، بڑی دیر سے چپ ہوں