غدیر زھرا
لائبریرین
بڑے ادب سے غرورِ ستمگراں بولا
جب انقلاب کے لہجے میں بے زباں بولا
’’تکوگے یو نہی ہواؤں کا منہ بھلا کب تک ؟‘‘
یہ نا خداؤں سے اک روز بادباں بولا
ابھی سے ہوش اڑے مصلحت پرستوں کے
ابھی میں بزم میں آیا ابھی کہاں بولا
چمن میں سب کی زباں پر تھی میری مظلومی
مرے خلاف جو بولا تو باغباں بولا
’’یہی بہت ہے کہ زندہ تو ہو میاں صاحب !‘‘
زمانہ سن کے مرے غم کی داستاں بولا
تلے ہیں قتل پہ پھولوں میں تولنے والے
اک ایسا بول میں جھوٹوں کے درمیاں بولا
حصارِ جبر میں زندہ بدن جلائے گئے
کسی نے دم نہیں مارا مگر دھواں بولا
اثر ہوا تو یہ تقریر کا کمال نہیں
مرا خلوص مخاطب تھا میں کہاں بولا
’’کہانہ تھا کہ نوازیں گے ہم حفیظؔ تجھے ‘‘
اڑاکے وہ مرے دامن کی دھجیاں بولا
(حفیظ میرٹھی)
جب انقلاب کے لہجے میں بے زباں بولا
’’تکوگے یو نہی ہواؤں کا منہ بھلا کب تک ؟‘‘
یہ نا خداؤں سے اک روز بادباں بولا
ابھی سے ہوش اڑے مصلحت پرستوں کے
ابھی میں بزم میں آیا ابھی کہاں بولا
چمن میں سب کی زباں پر تھی میری مظلومی
مرے خلاف جو بولا تو باغباں بولا
’’یہی بہت ہے کہ زندہ تو ہو میاں صاحب !‘‘
زمانہ سن کے مرے غم کی داستاں بولا
تلے ہیں قتل پہ پھولوں میں تولنے والے
اک ایسا بول میں جھوٹوں کے درمیاں بولا
حصارِ جبر میں زندہ بدن جلائے گئے
کسی نے دم نہیں مارا مگر دھواں بولا
اثر ہوا تو یہ تقریر کا کمال نہیں
مرا خلوص مخاطب تھا میں کہاں بولا
’’کہانہ تھا کہ نوازیں گے ہم حفیظؔ تجھے ‘‘
اڑاکے وہ مرے دامن کی دھجیاں بولا
(حفیظ میرٹھی)