بڑے بے آبرو ہوکر” تری سپلائی ہم کھولیں“.

ساجد

محفلین
بڑے بے آبرو ہوکر” تری سپلائی ہم کھولیں“...جرگہ…سلیم صافی
”ہم نے ابھی تک یہ بھی واضح نہیں کیا کہ ہم نے امریکہ کی مزاحمت کرنی ہے یا کہ پھر پورے پورے نیٹو کی۔ اگر تو حملہ دانستہ ہوا ہے تو یقینا یہ امریکہ ہی نے کیا ہوگا اور اس میں نیٹو کے دیگر اتحادی شریک نہیں ہوں گے لیکن ہم نیٹو کا نام لے کر پوری مغربی دنیا کو اپنا دشمن بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہم اگر واقعی سنجیدہ ہیں اور ماضی کی طرح اپنے امیج کی بہتری کیلئے امریکہ کے ساتھ دشمنی کا ڈرامہ نہیں رچارہے ہیں تو پھر امریکہ کے مقابلے کیلئے صرف چین اور ایران کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو ساتھ لینا ہوگا۔ یورپ امریکی کیمپ میں ضرور ہے لیکن پاکستان اور افغانستان سے متعلق ہر معاملے میں اس کا ہمنوا ہر گز نہیں ۔ اسی طرح برطانیہ کی بھی پاکستان سے متعلق سوچ مختلف ہے۔ نیٹو میں تو ترکی جیسا ملک بھی شامل ہے تو کیا اب ہم اس کو بھی دشمن بنانا چاہتے ہیں ؟۔ اسی لئے امریکہ کو سنگل آوٹ کرکے یورپ اور نیٹو میں شامل دیگر ممالک کو بھی اپنے ساتھ ملا لینا چاہئے ۔ تماشہ یہ ہے کہ شرارت امریکہ نے کی ہے لیکن ہمارے سینیٹر رضاربانی نے برطانیہ کا دورہ منسوخ کیا ۔ اسی طرح بون کانفرنس کا میزبان جرمنی اور افغانستان ہیں لیکن ہم نے امریکہ کے سامنے احتجاج کی غرض سے وہاں کا بھی بائیکاٹ کردیا۔ بہرحال جو ہونا تھا سو ہوچکا لیکن اگر امریکہ کے سامنے ڈٹ جانے کے دعوے ماضی کی طرح ڈرامہ بازی نہیں اور سچ مچ ایسا کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو پھر نہ صرف ملک کے اندر سول اور سیاسی قیادت کو مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے ہم آہنگی پیدا کرلینی چاہئے بلکہ روس‘ چین‘ ایران ‘ وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ساتھ نیٹو میں شامل دیگر مغربی ممالک کے اندر بھی بھرپور لابنگ ہونی چاہئے ۔ اسی طرح ہندوستان کے ساتھ بھی معاملات بہتر بنانے ہوں گے ورنہ تو وہ والی صورت حال بن جائے گی جس سے جنرل پرویز مشرف نائن الیون کے بعد پاکستانیوں کو ڈراتے تھے۔“
یہ گزارشات کی تھیں 3 دسمبر 2011 ء کو شائع ہونے والے ”جرگہ“ میں۔ جبکہ گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران تسلسل کے ساتھ یہی عرض کرتا رہا کہ اپنی قوت اور حیثیت دیکھ کر امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں سے پنگا لیا جائے لیکن اس موقف پر جہاں ان لوگوں‘ جو ماضی میں امریکہ کی خوب خدمت گذاری کرچکے ہیں‘ کی طرف سے گالیاں پڑتی رہیں ‘ وہاں دوسری طرف اس عرصہ میں حکومتی ترجمان بھی ہمیں امریکہ کی زیادتیوں کے ساتھ ساتھ اپنی قومی غیرت و حمیت اور بارگیننگ پاور کے قصے سناتے رہے ۔ اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قیادت کے مابین ایک مقابلہ گرم ہوگیا تھا اور ایک دوسرے سے بڑھ کر بہادر اور امریکہ مخالف ہونے کاتاثردیا جارہا تھا۔ مذہب فروش سیاسی رہنما اور اسلام آباد‘ کراچی اور لاہور کے ائرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر قوم کے سامنے ”بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق“ کا ورد کرنے والے اینکرز اور کالم نگار کیا کم تھے کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی کے رہنما بھی عوام کو گمراہ کرنے کے لئے دفاع پاکستان کونسل کے رہنماؤں جیسی گفتگو کرنے لگے تھے اور اب جب امریکہ مخالف جذبات عروج پر پہنچ گئے تو حسب سابق ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حکومت نے باجماعت امریکہ کی قدم بوسی شروع کردی اور لامحالہ اب پہلے سے بھی زیادہ سخت ردعمل سامنے آئے گا جس میں پھر امریکہ مخالف غریب پاکستانیوں کے اسکول تباہ ہوں گے ‘ اور غریبوں ہی کے جسموں کے پرخچے بم دھماکوں میں اڑتے رہیں گے ۔ امریکہ سے جوخیرات ملے گی ‘ وہ حسب سابق پاکستانی بڑوں کے اللے تللوں یا ان کے لئے بلٹ پروف گاڑیوں کی خریداری یا پھر ان کے بچوں کے بیرون ملک عیاشیوں پر خرچ ہوگی ۔لیکن یہ پہلی بار نہیں ہوا ۔ پچھلے تین سالوں میں یہ ڈرامہ بازی ہمیں کئی بار دیکھنے کو ملی ۔ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے بعد جب اسی طرح کا ڈرامہ رچایا گیا تو اپنا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ دونوں فریق (امریکہ اور پاکستان) حسب سابق پرانی تنخواہ پر کام کرتے رہیں گے۔ 2/مئی اور مائیک مولن کے بیانات کے بعد کی جذباتی فضا جیسے مواقع پر بھی یہی جواب دیتا رہا ۔ سلالہ حادثہ کے بعد جب ایک بار پھر ڈرامہ بازی کا آغاز ہوا تو اپنا یہی جواب ہوتا تھا کہ کچھ بھی نہیں ہوگا ‘ جلد یا بدیر پرانی تنخواہ پر دوبارہ کام کا آغاز ہوگا۔ لیکن افسوس کہ اس بار میرا اندازہ غلط ثابت ہواکیونکہ اب کی بار سابقہ سے بھی کم تنخواہ پر کام کا آغاز ہونے جارہا ہے ۔ بون کانفرنس جیسے کئی اہم مواقع بھی ضائع کئے۔ افغانستان کے مستقبل کے تعین کیلئے کئی اہم مواقع پر کردار سے بھی اپنے آپ کو محروم رکھا‘ امریکی اور مغربی میڈیا سے اپنے آپ کو گالیاں بھی خوب پڑوائیں‘ ان ممالک میں اینٹی پاکستانزم کومزید بڑھاوا دینے کا ذریعہ بھی بنیں ‘ کئی عالمی فورمز اور مالیاتی اداروں سے اپنے معاملات بھی متاثر کروائے اور اب ایسا بھی نہیں کہ نوکری پرانی شرائط پر خود بخود بحال ہوگئی بلکہ ہم منتیں کرکے نوکری بحال کرارہے ہیں ۔ نہ ڈرون حملے بند ہوں گے اور نہ امریکہ اس سطح پر معافی مانگے گا‘ جس طرح کہ ہم توقع کررہے تھے لیکن نیٹو سپلائی بحال ہوجائے گی ۔گویا بڑے بے آبرو ہوکر ہم نیٹو سپلائی بحال کرنے جارہے ہیں۔
ہمارے ساتھ ایسا ہر بار کیوں ہوتا ہے ؟ جواب اس سوال کا یہ ہے کہ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے کہ جس میں خارجہ پالیسی اور نیشنل سیکورٹی کے ایشوز کی بنیاد پر داخلی سیاست چمکائی جاتی ہے ۔ ان ایشوز سے متعلق پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) جیسی جماعتوں کا موقف میرٹ یا اصول پر مبنی ہوتا ہے اور نہ جماعت اسلامی ‘ جے یو آئی‘ تحریک انصاف اور دفاع پاکستان کونسل جیسی جماعتوں کا ۔ ریٹائرڈ جرنیل صاحبان بڑھکیں مارتے وقت میرٹ اور حقیقت پسندی سے کام لیتے ہیں اور نہ اینکرز اور تجزیہ نگار۔ خوف‘ لالچ ‘ شخصی و گروہی مفاد یا پاپولرز کی بنیاد پر ہر کوئی رائے بناتا اور اس کا اظہار کرتا ہے ۔ اسی طرح ملکی اسٹیبلشمنٹ بھی ان ایشوز کی بنیاد پر ملک کے اندر ادارہ جاتی مفادات کی جنگ لڑتی رہتی ہے ۔ اب کی بار بھی معاملہ زیادہ اس لئے خراب ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ اور سول حکومت ایک دوسرے کے ساتھ ان ایشوز کی بنیاد پر باہمی سیاست کرتی رہیں ‘ جس کا نتیجہ اس رسوائی کی صورت میں نکلا ۔ بہر حال جو ہوا سو ہوا ‘ اس سے سبق لے کر اب مستقبل کے لئے ان ڈراموں کا خاتمہ کرنا چاہئے۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو چاہئے کہ وہ ان ایشوز پر ایک دوسرے کے ساتھ حساب برابر کرنے کا یہ گندہ کھیل ختم کردیں۔ بڑے شہروں کے فائیوسٹار ہوٹلوں میں امریکہ کے خلاف جہاد کے اعلانات کرنے والوں کو چاہئیے کہ اب وہ مزید قوم کے جذبات سے کھیلنا چھوڑ دیں ۔ ان کی حالت یہ ہے کہ پاکستان کے اندر تو قیادت تبدیل نہیں کراسکتے طرف امریکہ سے لڑنے چلے ہیں ۔ وہ خود تو نادیدہ قوتوں کی سرپرستی کے بغیر ہل نہیں سکتے‘ لیکن چیلنج کرنے چلے ہیں امریکہ کو ۔ حالانکہ جن نادیدہ قوتوں کے اشارے کے بغیر یہ لوگ نہیں ہل سکتے خود وہی قوتیں امریکی مرضی کے بغیر ہل نہیں سکتیں۔یہ لوگ ہمیں افغانستان اور طالبان کی مثالیں دے کر امریکہ سے دودوہاتھ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ زرداری اور گیلانی تو کیا خود یہ لوگ بھی ملامحمد عمر جیسے نہیں ہیں۔ افغانی امریکہ سے ٹکر لے سکتے ہیں کیونکہ ان کے ہاں اسٹاک ایکسچینجز ہیں اور نہ وہ ہمارے مذہبی لیڈروں اور ریٹائرڈ جرنیلوں کی طرح پرتعیش زندگی کے عادی ہیں ۔ان کا لیڈر ملا محمد عمر ہے ‘ جو خود بھی پوری زندگی یورپ اور امریکہ تو کیا کبھی سعودی عرب بھی نہیں گیا ۔ ہمارے لیڈران کے بچے امریکہ اور یورپ میں رہتے ہیں اور نقالی کرنے لگے ہیں ملامحمد عمر کی۔ یہ پاکستان ہے اس لئے اپنی حیثیت اور صلاحیت کے مطابق کلام کرنا چاہئے۔
 

مغزل

محفلین
خوب اقتباس ہے ساجد بھائی، کلّی طور پر اختلاف ممکن نہیں سو جزوی اختلاف کا حق تو ہمارا ہے ناں۔۔۔
 
Top