بڑے بے خود ہیں تیرے شہر سے آئے ہوئے بندے

نوید ناظم

محفلین
بڑے بے خود ہیں تیرے شہر سے آئے ہوئے بندے
بتاؤ اب کہاں جائیں گے گھبرائے ہوئے بندے

ہے جب تک گردشِ خوں رک نہیں سکتا کوئی انساں
وہ دیکھو چل پڑے ہیں پھر سے سستائے ہوئے بندے

ہماری بھی تو عادت ہے کہ ہم نغمے سناتے ہیں
ہمیں اچھا نہیں جانیں گے ہکلائے ہوئے بندے

مِرے سینے میں کچھ یادیں ابھی تک سر اُٹھاتی ہیں
ابھی تک زندہ ہیں کیا دل میں دفنائے ہوئے بندے

یہ کیا جنت میں بے چون و چرا داخل ہوئے ہیں سب
تھے جتنے ہجر کی دنیا میں تڑپائے ہوئے بندے

دل اُس کی بزم میں جانے کا اتنا بھی تردد کیوں
اُسے اچھے نہیں لگتے ہیں ٹھکرائے ہوئے بندے

نوید اِن سے کوئی امید اب باقی نہیں رکھتا
یہ خالی بادلوں کی طرح برسائے ہوئے بندے
 

حسان خان

لائبریرین
یہ کیا جنت میں بے چون و چرا داخل ہوئے ہیں سب
تھے جتنے ہجر کی دنیا میں تڑپائے ہوئے بندے
خوب! یہ بیت مجھ کو پسند آئی۔

پس نوشت: اگر آپ «یہ کیا» کے بعد علامتِ تعجُّب «!» کا اضافہ کر لیں تو بہتر ہو جائے گا۔
 
ہرچند کہ استادِ محترم کا اعتراض اپنی جگہ باقی رہے گا ، اگر ردیف "بندے" کے بجائے 'انساں' کردی جائے تو کیسا؟

بندے پنجابی زبان میں عبد کے بجائے انسان کے لیے استعمال ہوتا ہے!!!
 

نوید ناظم

محفلین
ہرچند کہ استادِ محترم کا اعتراض اپنی جگہ باقی رہے گا ، اگر ردیف "بندے" کے بجائے 'انساں' کردی جائے تو کیسا؟

بندے پنجابی زبان میں عبد کے بجائے انسان کے لیے استعمال ہوتا ہے!!!
جی ٹھیک، جو کمی مجھے محسوس ہو رہی ہے وہ یہ کہ کاش اس کی ردیف " لوگ" ہو سکتی۔
 
Top