مسلح مزاحمت کا راستہ
ویسے تو بلوچ اور طالبان شدت پسندوں کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا لیکن دونوں میں ایک بات مشترک ضرور ہے کہ دونوں نے اپنےمطالبات منوانے کے لیے ریاست سے مسلح مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔
جہاں طالبان بندوق کے زور پر مالاکنڈ ڈویزن میں شریعت کے نفاذ کے لیے حکومت کو جھکانے میں کامیاب ہوئے وہاں بلوچ اپنے صوبے کے وسائل کا کنٹرول حاصل کرنے اور صوبائی خود مختاری کے حصول میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔
صوفی محمد کی تنظیم تحریک شریعت محمدی کی مسلح مزاحمت کے نتیجے میں بینظیر بھٹو، میاں نواز شریف، پرویز مشرف اور آصف علی زرداری سے چار مرتبہ شرعی ضابطوں کے نفاذ میں کامیاب رہے لیکن بلوچ ایک بار بھی کامیاب نہ ہو پائے۔
بلوچ قومپرست پاکستان کے ساتھ اپنے ’جبری‘ الحاق کے باوجود بھی ملک کے اندر رہتے ہوئے آئین پاکستان کے تحت اپنے صوبے کے وسائل پر اپنے حقِ مالکیت تسلیم کرانے اور خودمختاری دینے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
لیکن مالا کنڈ کے اسلامی شدت پسند جو داڑھی نہ رکھنے اور شلوار ٹخنوں سے اوپر نہ پہننے والوں کو سزائیں دیتے رہے ہیں اور حجاموں اور فلموں کی کیسٹوں کی دوکانوں کو بموں سے اڑاتے رہے وہ ’ماورائے آئین‘ شرعی عدالتی نظام کے نفاذ میں کامیاب بھی ہوئے۔
حکمرانوں کے ایسے دوہرے رویوں کی وجہ سے ہی اب بلوچ خودمختاری سے آگے یعنی پاکستان سے علیحدگی اور آزاد بلوچستان کی مانگ کرنا شروع ہو چکے ہیں۔ بلوچستان کی نیشنل پارٹی کے رہنماء ڈاکٹر اسحاق بلوچ کے مطابق ان جیسے پارلیمانی سیاست کرنے والے لوگوں کے لیے حالات مشکل ہوتے جا رہے ہیں۔
پہلے کی نسبت پاکستان کے میڈیا میں بلوچوں کی آواز کی گونج آج کل زیادہ سنائی دے رہی ہے اور بلوچستان میں ہونے والے مظاہروں، جلسے جلوسوں کی کوریج بھی بہت زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان اور بالخصوص پنجاب کو گالی دے رہے ہیں۔ براہمداغ بگٹی اور ان کے ہم خیال بلوچستان کی آزادی کے لیے اقوام متحدہ، امریکہ اور بھارت سے امداد کی اپیلیں کر رہے ہیں۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اسلامی شدت پسندوں کو یہ کامیابی اور بلوچ شدت پسندوں کو ناکامی ایسی سیاسی قوتوں سے ملی ہے جو پاکستان میں سیکولر اور جمہوری شناحت رکھتی ہیں اور بظاہر بزورِ بندوق اسلام کا نفاذ چاہنے والوں کے نظریاتی مخالف اور صوبائی خود مختاری کی بات کرنے والے بلوچوں کے ہم خیال بھی ہیں۔
سابق صدر پرویز مشرف کو ’مُلا ملٹری اتحاد‘ کا طعنہ دینے والی پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی فوجی آمر سے بھی آگے چل پڑی ہیں۔ مالاکنڈ میں شرعی نظام کے نفاذ سے امن کی بحالی کا معاملہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے لیکن جو نظام وہاں نافذ کیا گیا ہے اُسے پاکستان کے انسانی حقوق کے کارکن، سول سوسائٹی اور بعض قانونی ماہرین ’ماورائے آئین‘ قرار دے رہے ہیں۔
کچھ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ نے مالاکنڈ میں شرعی ریگولیشن کے نفاذ پر جو اعتراضات کیے ہیں انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ فاروق ستار کے بقول کہ حکومت نے طالبان شدت پسندوں کا بندوق کے زور پر مطالبہ تسلیم کرکے پاکستان میں انتہائی غلط روایت ڈالی ہے کہ اگر کل کوئی اور گروہ کسی دوسرے علاقے میں ایسا کرے تو اُسے تقویت ملے گی۔
پیپلز پارٹی ہو یا عوامی نیشنل پارٹی وہ شرعی ضابطوں کے نفاذ کی کڑوی گولی نگلنے کی وجہ مالاکنڈ کے سولہ لاکھ لوگوں کو امن کی فراہمی بتاتے ہیں۔ لیکن اس بارے میں بعض مبصرین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا ریاست کی قوت چند سو شدت پسندوں سے کم ہے یا پھر یہ شدت پسندوں ’سٹریٹجک ‘حثیت ان قومی اداروں کے راہ میں حائل ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو