بگتی کی انڈیا اور امریکہ سے پاکستان کے خلاف مدد کی اپیل

مہوش علی

لائبریرین
یہ مطالبات اس وقت کے ہیں‌جب نواب بگٹی زندہ تھے ۔ اب حالات بدل گئے ہیں۔
حالات کے بدلنے سے آپ کی کیا مراد ہے؟ کیا یہ مطالبان نواب صاحب کی زندگی میں کم تھے اور اب ان کے مرنے کے بعد زیادہ ہو گئے ہیں یا پھر اس کا الٹ ہوا ہے؟

اور کمیٹیوں کی جہاں تک بات ہے تو ایک کمیٹی کے سربراہ مشاہد حسین ۔ انتخابات کے بعد جب حکومت سازی ہورہی تھی کوئٹہ آئے تھے ۔ انہوں‌نے پریس کانفرنس میں‌کہا کہ کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد میں اسٹیبلشمنٹ رکاوٹ بن رہی تھی ۔
یہ تو مطالبان کے سامنے آنے کے بعد ہی پتا چلے گا کہ اسٹیبلشمنٹ صحیح ہے یا مطالبات۔ بہرحال، میں نے اس موضوع پر حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ صرف یہ گذارش ہے کہ ان 32 نکات کا لنک فراہم کر دیں اگر آپ کے پاس ہیں۔

پہلے آپ یہ ساری باتیں چھوڑیئے ۔ میں صرف جاننا چاہتا ہوں‌کہ بلوچستان سے باہر کے لوگوں‌کو یہاں‌کے مسائل کے بارے میں‌کتنا علم ہے ۔
میں آپ کے سوالات کا جواب بھی دیتی اور خود بھی آپ سے سوالات کرتی، مگر میں اس موضوع سے الگ ہونے کا فیصلہ کر چکی ہوں۔ معذرت۔
 

محسن حجازی

محفلین
اصل میں کوئی مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔ یہ اس وقت ہوش میں آئیں گے جب پانی سر سے گزر چکا ہوگا۔ بلوچوں سے زیادہ امریکہ اور بھارت اس سنہری موقعے کی طاق میں بیٹھے ہیں۔
 

ملائکہ

محفلین
اصل میں کوئی مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔ یہ اس وقت ہوش میں آئیں گے جب پانی سر سے گزر چکا ہوگا۔ بلوچوں سے زیادہ امریکہ اور بھارت اس سنہری موقعے کی طاق میں بیٹھے ہیں۔

لینا بھی نہیں ہے ان لوگوں نے ایک حصہ تو گنوا دیا ہے پاکستان کا اب دوسرے حصوں کے پیچھے پڑے ہیں:sad2:
 
مسلح مزاحمت کا راستہ

ویسے تو بلوچ اور طالبان شدت پسندوں کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا لیکن دونوں میں ایک بات مشترک ضرور ہے کہ دونوں نے اپنےمطالبات منوانے کے لیے ریاست سے مسلح مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔

جہاں طالبان بندوق کے زور پر مالاکنڈ ڈویزن میں شریعت کے نفاذ کے لیے حکومت کو جھکانے میں کامیاب ہوئے وہاں بلوچ اپنے صوبے کے وسائل کا کنٹرول حاصل کرنے اور صوبائی خود مختاری کے حصول میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔

صوفی محمد کی تنظیم تحریک شریعت محمدی کی مسلح مزاحمت کے نتیجے میں بینظیر بھٹو، میاں نواز شریف، پرویز مشرف اور آصف علی زرداری سے چار مرتبہ شرعی ضابطوں کے نفاذ میں کامیاب رہے لیکن بلوچ ایک بار بھی کامیاب نہ ہو پائے۔

بلوچ قومپرست پاکستان کے ساتھ اپنے ’جبری‘ الحاق کے باوجود بھی ملک کے اندر رہتے ہوئے آئین پاکستان کے تحت اپنے صوبے کے وسائل پر اپنے حقِ مالکیت تسلیم کرانے اور خودمختاری دینے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔

لیکن مالا کنڈ کے اسلامی شدت پسند جو داڑھی نہ رکھنے اور شلوار ٹخنوں سے اوپر نہ پہننے والوں کو سزائیں دیتے رہے ہیں اور حجاموں اور فلموں کی کیسٹوں کی دوکانوں کو بموں سے اڑاتے رہے وہ ’ماورائے آئین‘ شرعی عدالتی نظام کے نفاذ میں کامیاب بھی ہوئے۔
حکمرانوں کے ایسے دوہرے رویوں کی وجہ سے ہی اب بلوچ خودمختاری سے آگے یعنی پاکستان سے علیحدگی اور آزاد بلوچستان کی مانگ کرنا شروع ہو چکے ہیں۔ بلوچستان کی نیشنل پارٹی کے رہنماء ڈاکٹر اسحاق بلوچ کے مطابق ان جیسے پارلیمانی سیاست کرنے والے لوگوں کے لیے حالات مشکل ہوتے جا رہے ہیں۔

پہلے کی نسبت پاکستان کے میڈیا میں بلوچوں کی آواز کی گونج آج کل زیادہ سنائی دے رہی ہے اور بلوچستان میں ہونے والے مظاہروں، جلسے جلوسوں کی کوریج بھی بہت زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان اور بالخصوص پنجاب کو گالی دے رہے ہیں۔ براہمداغ بگٹی اور ان کے ہم خیال بلوچستان کی آزادی کے لیے اقوام متحدہ، امریکہ اور بھارت سے امداد کی اپیلیں کر رہے ہیں۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اسلامی شدت پسندوں کو یہ کامیابی اور بلوچ شدت پسندوں کو ناکامی ایسی سیاسی قوتوں سے ملی ہے جو پاکستان میں سیکولر اور جمہوری شناحت رکھتی ہیں اور بظاہر بزورِ بندوق اسلام کا نفاذ چاہنے والوں کے نظریاتی مخالف اور صوبائی خود مختاری کی بات کرنے والے بلوچوں کے ہم خیال بھی ہیں۔
سابق صدر پرویز مشرف کو ’مُلا ملٹری اتحاد‘ کا طعنہ دینے والی پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی فوجی آمر سے بھی آگے چل پڑی ہیں۔ مالاکنڈ میں شرعی نظام کے نفاذ سے امن کی بحالی کا معاملہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے لیکن جو نظام وہاں نافذ کیا گیا ہے اُسے پاکستان کے انسانی حقوق کے کارکن، سول سوسائٹی اور بعض قانونی ماہرین ’ماورائے آئین‘ قرار دے رہے ہیں۔

کچھ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ نے مالاکنڈ میں شرعی ریگولیشن کے نفاذ پر جو اعتراضات کیے ہیں انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ فاروق ستار کے بقول کہ حکومت نے طالبان شدت پسندوں کا بندوق کے زور پر مطالبہ تسلیم کرکے پاکستان میں انتہائی غلط روایت ڈالی ہے کہ اگر کل کوئی اور گروہ کسی دوسرے علاقے میں ایسا کرے تو اُسے تقویت ملے گی۔

پیپلز پارٹی ہو یا عوامی نیشنل پارٹی وہ شرعی ضابطوں کے نفاذ کی کڑوی گولی نگلنے کی وجہ مالاکنڈ کے سولہ لاکھ لوگوں کو امن کی فراہمی بتاتے ہیں۔ لیکن اس بارے میں بعض مبصرین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا ریاست کی قوت چند سو شدت پسندوں سے کم ہے یا پھر یہ شدت پسندوں ’سٹریٹجک ‘حثیت ان قومی اداروں کے راہ میں حائل ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو
 

arifkarim

معطل
بہتر ہے تمام صوبے الگ الگ ہو جائیں اور اگر اس پر خوش نہیں ہیں تو ڈسٹرکٹس بھی اپنی خود مختار حکومتیں قائم کر لیں۔
شہر سے لیکر گلی تک ہر کوئی اپنی سیاست کر رہا ہے۔ ایسے میں ایک ملک کانام استعمال کرنے کا کیا فائدہ؟
 

زونی

محفلین
بہتر ہے تمام صوبے الگ الگ ہو جائیں اور اگر اس پر خوش نہیں ہیں تو ڈسٹرکٹس بھی اپنی خود مختار حکومتیں قائم کر لیں۔
شہر سے لیکر گلی تک ہر کوئی اپنی سیاست کر رہا ہے۔ ایسے میں ایک ملک کانام استعمال کرنے کا کیا فائدہ؟




آج کا بہترین لطیفہ !


:rollingonthefloor:
 

زونی

محفلین
بہتر ہے تمام صوبے الگ الگ ہو جائیں اور اگر اس پر خوش نہیں ہیں تو ڈسٹرکٹس بھی اپنی خود مختار حکومتیں قائم کر لیں۔
شہر سے لیکر گلی تک ہر کوئی اپنی سیاست کر رہا ہے۔ ایسے میں ایک ملک کانام استعمال کرنے کا کیا فائدہ؟






اگر شہر سے گلی تک ہر کوئی اپنی سیاست چمکا رہا ھے تو ڈسٹرکٹس خود مختار ہو کر کونسا تیر مار لیں گے :rolleyes:
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اصل میں کوئی مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔ یہ اس وقت ہوش میں آئیں گے جب پانی سر سے گزر چکا ہوگا۔ بلوچوں سے زیادہ امریکہ اور بھارت اس سنہری موقعے کی طاق میں بیٹھے ہیں۔


سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم اور امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے ممبر کی حیثيت سے ميں اس پوزيشن ميں نہيں ہوں کہ بھارتی حکومت کی کسی پاليسی يا عمل کی وضاحت، حمايت يا توجيہہ پيش کروں۔

ميں پاکستانی ميڈيا پر اس مسلسل بحث اور الزامات کے نہ ختم ہونے والے سلسلے سے بخوبی واقف ہوں جس کی بنياد يہ مقبول مفروضہ ہے کہ بھارت امريکہ کے ساتھ مل کر افغانستان ميں اپنے درجنوں قونصل خانوں کے ذريعے پاکستان ميں شورش برپا کر رہا ہے۔

اس ضمن ميں پاکستانی ميڈيا پر سياسی اور فوجی قائدين کی جانب سے وہ جذباتی دلائل بھی سنے ہيں جو يہ دعوی کرتے ہیں کہ افغان سرحد کے قريب سو سے زائد قونصل خانے موجود ہيں۔ کوئ بھی شخص جسے سفارتی اداروں ميں کام کرنے کا تجربہ ہے، وہ آپ پر يہ واضح کر دے گا کہ کسی بھی ملک ميں کونسل خانے کے قيام کے لیے اس ملک کی جانب سے سرکاری اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس طرح کے معاہدوں ميں عام طور پر دونوں ملکوں ميں مساوی بنيادوں پر دفاتر کا قيام عمل ميں لايا جاتا ہے۔

ميں يہاں پر افغانستان ميں بھارتی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کی لسٹ کا لنک دے رہا ہوں۔ آپ ديکھ سکتے ہيں کہ افغانستان ميں بھارت کا ايک سفارت خانہ کابل ميں ہے جبکہ 4 مختلف قونصل خانے ہيرات، جلال آباد، قندھار اور مزار شريف ميں ہيں۔

http://www.embassiesabroad.com/embassies-in/Afghanistan

دلچسپ بات يہ ہے کہ افغانستان ميں پاکستان کا بھی ايک سفارت خانہ اور 4 قونصل خانے انھی علاقوں میں موجود ہيں۔

اس کے علاوہ اس ويب سائٹ پر آپ افغانستان ميں بھارتی سفارت خانوں کے ايڈريس اور ان کے نمايندوں سے رابطے کی تفصيلات بھی ديکھ سکتے ہيں۔

http://mea.gov.in/

امريکہ پاکستان کو ايک آزاد اور خود مختار ملک کی حيثيت سے احترام کی نگاہ سے ديکھتا ہے اور اس ضمن ميں ايسی کسی کاروائ کی حمايت نہيں کی جائے گی جس سے پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں۔ حقیقت يہ ہے کہ امريکہ ايک بڑی بھاری قيمت ادا کر کے اس بات کو يقينی بنا رہا ہے کہ پاکستان اقتصادی اور دفاعی اعتبار سے مستحکم ہو سکے اور اس ضمن ميں امريکہ نے جاپان ميں ہونے والی ڈونر کانفرنس کے انعقاد ميں کليدی کردار ادا کيا ہے جس کے تحت پاکستان کو کئ بلين ڈالرز کی امداد ملے گی۔

اگر پاکستان يہ سمجھتا ہے کہ بھارت ايسی تنظيموں کی پشت پناہی کر رہا ہے جو رياست کے وجود کے لیے خطرہ ہيں اور اس ضمن ميں ٹھوس ثبوت بھی فراہم کر سکتا ہے تو اس کے ليے اقوام متحدہ کا فورم موجود ہے جہاں پر يہ ايشو اٹھايا جا سکتا ہے۔ بھارت نے ممبئ کے واقعات کے بعد يہی کيا تھا اور اس کے نتيجے میں حکومت پاکستان نے کچھ تنظيموں کے خلاف اقدامات بھی کيے تھے۔

آج کل ميڈيا پر يہ بہت آسان ہے کہ کچھ افراد بلند وبانگ دعوے کريں اور پھر الزامات لگا کر کوئ ثبوت نہ پيش کريں۔ اس طريقہ کار سے محض نفرت سے بھرپور جذبے اور ايک غلط عوامی تاثر کو فروغ ملتا ہے جس کی نہ کوئ حقي‍قت ہوتی ہے اور نہ اس سے کسی مسلئے کا حل نکلتا ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

باسم

محفلین
اس سائٹ میں تو لکھا ہے کہ
The information below may not be completely accurate. If you know of any errors or omissions or have any additional information, click on the "send edits" link found next to an embassy/consulate name.​
یقیناً ۱۰۰ سفارت خانوں کی بات مبالغہ ہوگی مگر بات ضرورت سے زائد سفارت خانوں کی ہے اور اس پر تحفظات ہوسکتے ہیں
 

مہوش علی

لائبریرین
شکریہ فواد۔
میں قوم کو یہی سمجھاتی ہوں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور یہ پلٹ کر اپنے ہی گلے پڑ جاتا ہے۔ مگر میری قوم والے اس نصیحت پر مجھ سے اتنا ناراض ہوتے ہیں کہ فورا پاکستان کا غدار اور غیر ملکی طاقتوں کا ایجنٹ قرار دینے لگتے ہیں۔
اور پروپیگنڈہ کرنا بھی ہے تو بھی اس کے لیے عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ پروپیگنڈہ کرنا بھی ہے تو انسان کم از کم اس حد میں‌رہ کر تو کرے کہ پکڑا نہ جائے۔
بھارت کے اتنے سفارت خانے کھلوا کر خامخواہ ہی پروپیگندا کیا گیا ہے ورنہ انڈیں را کی تٰخریبی کاروائیاں ثابت کرنے کے لیے ان قونصل خانوں کی ضرورت نہ تھی بلکہ ہر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ لوگ خفیہ رہ کر اپنی کاروائیاں جاری رکھتے ہیں۔
 

خرم

محفلین
جو انہیں اُکسا رہے ہیں اور ان کی حمایت کر رہے ہیں ان ہی کو بُلانا ہے مدد کے لئے بھیا۔
 

جوش

محفلین
امريکہ پاکستان کو ايک آزاد اور خود مختار ملک کی حيثيت سے احترام کی نگاہ سے ديکھتا ہے اور اس ضمن ميں ايسی کسی کاروائ کی حمايت نہيں کی جائے گی جس سے پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں۔ حقیقت يہ ہے کہ امريکہ ايک بڑی بھاری قيمت ادا کر کے اس بات کو يقينی بنا رہا ہے کہ پاکستان اقتصادی اور دفاعی اعتبار سے مستحکم ہو سکے اور اس ضمن ميں امريکہ نے جاپان ميں ہونے والی ڈونر کانفرنس کے انعقاد ميں کليدی کردار ادا کيا ہے جس کے تحت پاکستان کو کئ بلين ڈالرز کی امداد ملے گی۔

[

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
 
Top