بگ بینگ کی تلاش - جان گریبین

زہیر عبّاس

محفلین
وقت کا تیر

باب اوّل - 1

وقت کا تیر (The Arrow of Time)


ہماری دنیا کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ دن کے بعد رات آتی۔ رات کا سیاہ آسمان ہمیں بتاتا ہے کہ کائنات بحیثیت مجموعی کے ایک ایسی خنک و خالی جگہ ہے جہاں کچھ دور بکھرے ہوئے گرم اجسام بطور ستارے موجود ہیں۔ دن کی روشنی بتاتی ہے کہ ہم کائنات کے ایک ایسے غیر معمولی حصّے میں رہتے ہیں جو خلاء میں ان بکھرے ستاروں میں سے ایک ستارے کے قریب ہے، یعنی ہمارا سورج، توانائی کا منبع جو زمین اور سے کہیں دور خلاء میں تیرتا رہتا ہے۔ دن و رات کا سادہ مشاہدہ کائنات قدرت کے کچھ سب سے زیادہ بنیادی رازوں اور حیات و کائنات کے درمیان موجود رشتے سے پردہ اٹھاتا ہے۔

اگر کائنات ابد تک وجود رکھتی اور اس میں اتنے ہی تعداد میں ستارے اور کہکشائیں موجود ہوتے جتنی کہ آج موجود ہیں اور بعینہ اسی طرح سے کم و بیش خلاء میں تقسیم ہوتے تو ممکنہ طور پر ان کی صورت ایسی نہ ہوتی جیسی کہ ہم آج مشاہدہ کرتے ہیں۔ ہمیشہ سے موجود اپنی توانائی کو انڈیلتے ہوئے ستارے اپنے درمیان کی جگہ کو روشنی سے بھر دیتے، اور پورا آسمان سورج جیسی جگمگاہٹ سے روشن ہو جاتا۔ یہ حقیقت کہ آسمان رات کو سیاہ ہوتا ہے اس بات کا ثبوت ہے کہ جس میں کائنات ہم رہتے ہیں وہ تغیر پذیر ہے، اور یہ ہمیشہ سے ایسی نہیں ہے جیسی کہ ہمیں آج نظر آتی ہے۔ ستارے اور کہکشائیں ازل سے قائم نہیں ہیں، اصل میں یہ تو حال ہی میں وجود میں آئی ہیں، ان کو تو اتنا وقت بھی نہیں ملا کہ خالی جگہ کو اپنی روشنی سے ہی بھر دیں۔ فلکی طبیعیات دان جو ستاروں کے قلب میں نیوکلیائی تعامل سے پیدا ہونے والی توانائی کی پیدائش کے طریقہ کا مطالعہ کرتے ہیں، وہ بتا سکتے ہیں کہ ایک عام ستارہ اپنی زندگی کے دوران کتنی روشنی خلاء میں پھینک سکتا ہے۔ جوہری ایندھن کی فراہمی محدود ہے، اور وہ توانائی جو ایک ستارہ ہائیڈروجن کو ہیلیئم میں ضم کرکے پیدا کر سکتا ہے لازمی طور پر وہ بھی محدود ہی ہے۔ بلکہ اس وقت جب کہکشاں میں موجود تمام ستارے اپنی حیات زندگی سے گزر چکے ہوں گے اور ٹھنڈے ہوتے ہوئے انگارے بن جائیں گے تو خلاء اور رات کا آسمان بھی تاریک ہو جائے گا۔ اتنی توانائی دستیاب ہی نہیں ہے کہ کہ وہ رات کے آسمان کو روشن کر سکے۔ دن کے بعد آنے والی رات کے انوکھے اور عجیب مشاہدے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ آسمان تاریک ہے، بلکہ اس میں بہت زیادہ روشن ستارے نہیں ہیں۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ کائنات اتنی کم عمر (کونیاتی پیمانے کے لحاظ سے) کے روشن مینار تاریکی میں رکھے؟

یہ پہیلی پوری طاقت کے ساتھ دن کے وقت سورج کی روشنی میں واپس گھر آ جاتی ہے۔ ایک ایسی جگہ جہاں دنیا کی چیزوں کی بنیادی خاصیت یہ ہے کہ وہ حالت توازن میں جانے کو بیتاب رہتی ہیں یہ کائنات میں ایک عدم توازن کو پیش کرتا ہے۔ اگر ایک برف کے مکعب کو گرم کافی کے کپ کے اوپر رکھ دیا جائے، تو مائع ٹھنڈا ہو جائے گا اور برف گرم ہونے کی وجہ سے پگھل جائے گی۔ آخر میں ہمارے پاس صرف نیم گرم مائع بچا رہ جائے گا جس کا درجہ حرارت یکساں حالت توازن میں ہوگا۔ سورج ایک ایسی حالت میں پیدا ہوا ہے جس میں بڑی مقدار کی توانائی بہت ہی کم جگہ گھیرنے والے مادّے میں موجود ہے، یہ بھی اسی کام میں مصروف ہے، اپنی ذخیرہ شدہ توانائی کو کائنات کو گرما نے کے لئے (انتہائی معمولی مقدار میں) دے رہا ہے، اور بالآخر یہ ٹھنڈا ہو کر سرد خلاء کے ساتھ حالت توازن میں آ جائے گا۔ لیکن 'بالآخر'، سورج کی طرح کے ستارے کی عمر کئی سینکڑوں کروڑ ہا (کئی ارب ) برس کی ہوتی ہے، اور اسی عمر کے دوران خلاء میں توانائی کو انڈیلنے کی وجہ سے حیات ہمارے سیارے پر وجود پانے کے قابل ہوئی ہے (اور شاید یہ دوسرے لاتعداد سیاروں پر بھی موجود ہو جو لاتعداد ستاروں کے گرد مدار میں چکر کاٹ رہے ہیں)۔

کیونکہ دن کے بعد رات نمودار ہوتی ہے لہٰذا ہمیں معلوم ہے کہ کائنات میں کافی جگہیں ایسی ہیں جہاں پر حالات توازن میں نہیں ہیں۔ حیات کا انحصار اس طرح کی جگہوں کی موجودگی پر ہی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کائنات بدل رہی ہے، کیونکہ یہ ابد تک اس حالت میں نہیں رہ سکتی جس حالت میں ہم اس کا ابھی مشاہدہ کر رہے ہیں اور آسمان ابھی تک سیاہ ہی ہے۔ ہماری جانی پہچانی کائنات پیدا ہوئی تھی اور اس کا حتمی مقدر موت ہی ہے۔ اور ہم اس سادہ مشاہدے سے جانتے ہیں کہ وقت کی ایک سمت ہے، ایک تیر جو کونیاتی ماضی کے راستے سے نکلتا ہوا کونیاتی مستقبل تک جا رہا ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب اوّل - 2
اعلیٰ قانون

اعلیٰ قانون (The supreme law)​

کائنات کی یہ تمام خصوصیات اس چیز سے بندھی ہوئی ہیں جس کو 1920ء اور 1930ء کی دہائی کے عظیم برطانوی ماہر فلکیات آرتھر ایڈنگٹن قدرت کا اعلیٰ قانون کہتے ہیں۔ اس کو حر حرکیات کے دوسرے قانون کا نام دیا گیا ہے، اور یہ انیسویں صدی کے دوران دریافت ہوا تھا، اس کی دریافت کائنات کا فلکیاتی مشاہدہ کرکے نہیں بلکہ مشین کی کارکردگی کی عملی تفتیش کرکے کی گئی تھی، یہ دریافت صنعتی انقلاب - بھاپ کے انجن کے دوران بہت ہی اہمیت کی حامل تھی۔

یہ اگرچہ عجیب لگتا ہے کہ اس طرح کے مرتبے والا اصول کسی بھی قانون کا 'دوسرا' کیسے ہو سکتا ہے، تاہم حر حرکیات کا پہلا قانون تو سادے طور پر گلا صاف کرنے کے لئے بولا جانے والا جملہ ہے، یعنی کہ حرارت توانائی کی ایک قسم ہے، یہ کام کرتا ہے اور حرارت قابل مبادلہ ہے، تاہم کسی بھی بند نظام میں کل توانائی ہمیشہ ایک جیسی ہی رہے گی - مثال کے طور اگر کافی کا کپ ایک بے عیب حاجز ہو، تو اگرچہ برف گرم ہوگی جبکہ کافی ٹھنڈی، تاہم کپ کے اندر موجود کل توانائی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ یہ چیز بذات خود ہی صنعتی انقلاب کا اہم شعور و فہم تھا، تاہم دوسرا قانون کافی دور تک جاتا ہے۔[1]


خاکہ 1.1 حرارت ہمیشہ فرق کو کم کرنے میں لگی رہتی ہے۔ ایک برف کا مکعب جو گرم مائع کے جگ کے اوپر رکھا جائے گا وہ پگھلے گا اور مائع ٹھنڈا ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم دیکھتے ہوں کہ ٹھنڈے مائع سے اچانک سے برف کا مکعب بن جائے اور باقی مائع گرم ہو جائے۔ یہ حر حرکیات کا دوسرا قانون ہے جو وقت کے تیر سے متعلق ہے۔

دوسرے قانون کو بیان کرنے کے کئی راستے ہو سکتے ہیں، تاہم ان سب کو کائنات کی اس خصوصیت سے نمٹنا ہوگا جس کو پہلے ہی بیان کیا جا چکا ہے۔ سورج کی طرح کا ستارہ خلاء کی خنکی میں حرارت کو انڈیل رہا ہے، گرم مائع پر رکھا ہوا برف کا مکعب پگھلتا ہے۔ ہم نے کبھی ایسا ہوتے ہوئے نہیں دیکھا کہ نیم گرم کافی سے کوئی برف کا مکعب اچانک بن جائے جبکہ باقی موجود مائع گرم ہو جائے، جبکہ دونوں حالتوں (برف کا مکعب + گرم کافی) اور ( نیم گرم کافی) میں توانائی کی ایک جیسی ہی مقدار موجود ہے۔ حرارت ہمیشہ گرم جسم سے ٹھنڈے کی طرف بہتی ہے، ٹھنڈے سے گرم کی طرف نہیں۔ اگرچہ کل توانائی کی مقدار بدلی نہیں ہے، تاہم توانائی کی تقسیم کچھ مخصوص طریقوں سے ناقابل تغیر طور پر ہی بدلی جا سکتی ہے۔ فوٹون (روشنی کے ذرّات) خلاء سے نمودار ہو کر سورج میں نہیں جاتے کہ اس کو گرم کر دیں یا اس کے قلب میں چلنے والے جوہری تعامل کو الٹ دیں۔

اس طرح سے کہنے سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ حر حرکیات کا دوسرا قانون وقت کے تیر کو بھی بیان کرتا ہے، اور یہ وہی تیر ہے جس کو رات کے تاریک آسمان کا مشاہدہ کرکے وقت کے تیر کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ دوسرے قانون کی ایک اور توجیح میں اطلاعات بھی شامل ہے - جب چیزیں بدلتی ہیں تو ان میں بے ترتیبی کی حالت میں چلے جانے کا قدرتی میلان موجود ہوتا ہے۔ نظام (برف کے مکعب + گرم کافی) میں ایک ساخت موجود ہوتی ہے جو نظام میں گم ہو جاتی ہے (نیم گرم کافی)۔ روزمرہ کے لحاظ سے چیزیں فرسودہ ہو جاتی ہیں۔ ہوا اور موسم پتھروں کو ریزہ ریزہ کر دیتا ہے اور متروک گھروں کو پتھروں کے ڈھیر میں تبدیل کر دیتے ہیں؛ کبھی ہم یہ نہیں سوچتے کہ یہ دھول سے صاف ستھری اینٹوں کی دیواروں کو بنائیں گے۔ طبیعیات دان قدرت کی اس خاصیت کو ریاضیاتی طور پر ایک تصور سے بیان کرتے ہیں جو ناکارگی کہلاتا ہے، اس کے بارے میں ہم سب سے بہتر اندازہ یہ کہہ کر لگا سکتے ہیں کہ یہ اطلاع کی پیمائش کا منفی پیمانہ یا پیچیدگی ہو سکتا۔[2] نظام میں ترتیب میں کمی سے ناکارگی میں اضافہ ہوگا۔ دوسرا قانون کہتا ہے کہ ایک بند نظام میں، ناکارگی ہمیشہ بڑھے گی (یا بہت ہوا تو ایک ہی سطح پر رہے گی) جبکہ پیچیدگی ہمیشہ کم ہوگی۔

ناکارگی کا تصور دوسرے قانون کے لئے سب سے بہتر اور صاف تصویر پیش کرنے میں مدد کرتا ہے، تاہم حقیقی طور پر یہ اس کا استعمال ریاضیاتی طبیعیات دان ہی کر سکتے ہیں۔ روڈولف کلاوسیوس جو ایک جرمن طبیعیات دان اور حر حرکیات کے بانیان میں سے ایک تھا، اس نے 1865ء میں پہلے اور دوسرے قانون کا خلاصہ اس طرح پیش کیا: دنیا کی توانائی مستقل ہے؛ دنیا کی ناکارگی بڑھ رہی ہے۔ یکساں طور پر مختصراً روز مرہ بول چال میں استعمال ہونے والا نامعلوم جدید محاورہ ہے: آپ عدم سے کوئی چیز حاصل نہیں کر سکتے؛ بلکہ آپ کسی چیز کو دو برابر حصّوں میں بھی نہیں توڑ سکتے۔ یہ ناکارگی اور دوسرے قانون کی وجہ سے الٹ بات ہے، اس کے بارے میں اس طرح سے سوچا جا سکتا ہے جیسے کہ یہ دنیا میں موجود کارآمد توانائی کی دستیابی کے بارے میں کچھ بتا رہا ہو۔ پیٹر اٹکینز اپنی معرکۃ الآراء کتاب دوسرا قانون میں اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ کیونکہ کل توانائی محفوظ ہے، لہٰذا ہمارے توانائی کے استعمال سے پیدا ہونے والے توانائی کے 'بحران' جیسی کوئی صورتحال مشکل سے ہی وجود رکھتی ہوگی۔ جب ہم تیل و کوئلہ جلا لیں گے تو ہم میں سادہ طور پر ایک (کارآمد) توانائی کو ایک حالت سے دوسری حالت (کم کارآمد، کم مرتکز)میں بدل دیا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم کائنات کی کل ناکارگی کو بڑھا رہے ہوں گے اور توانائی کے معیار کو پراگندہ کر رہے ہوں گے۔ ہم جس چیز کا سامنا کرنے جا رہے ہیں وہ توانائی کا بحران نہیں بلکہ ناکارگی کا بحران ہے۔

ظاہر سی بات ہے کہ حیات بڑھتی ہوئی ناکارگی کی ایک استثناء نظر آتی ہے۔ زندہ جاندار - ایک درخت، ایک جیلی فش، ایک انسان - سادہ کیمیائی عناصر اور مرکبات کھاتے ہیں اور اس کو انتہائی پیچیدہ ساخت میں انتہائی منظم طور پر از سرنو ترتیب دیتے ہیں۔ تاہم وہ ایسا ایسی صورت میں کر سکتے ہیں جب وہ سورج سے آنی والی توانائی کا استعمال کر سکیں۔ ایک جاندار کو تو چھوڑ ہی دیجئے، زمین بھی ایک بند نظام نہیں ہے۔ سورج مسلسل اعلیٰ معیار کی توانائی خلاء میں انڈیل رہا ہے؛ زمین پر موجود حیات اس میں سے کچھ کو حاصل کرتی ہے (کوئلہ اور تیل بھی ذخیرہ شدہ شمسی توانائی کی ایک صورت ہیں، جن کو کروڑ ہا برس پہلے زندہ جانداروں نے حاصل کرکے محفوظ کر دیا تھا)، اور اس کا استعمال کرکے پیچیدہ، کم معیار کی توانائی کائنات کو واپس کر دیتی ہے۔ ایک انسانی زندگی، یا پھول، یا ایک چونٹی جو مقامی ناکارگی کو کم کرتی ہے اس کا ازالہ اس وسیع ناکارگی میں اضافہ سے ہو جاتا ہے جو سورج اس سرگرمی میں پیدا کرتا ہے جس میں توانائی پیدا ہوتی ہے جس پر جانداروں کا انحصار ہوتا ہے۔ نظام شمسی کو اگر ہم بحیثیت مجموعی دیکھیں تو ناکارگی ہمیشہ بڑھے گی۔

پوری کائنات - جس کو توضیح کے لحاظ سے ایک بند نظام ہونا چاہئے - ایک ہی کشتی میں سوار ہے۔ ستاروں کے اندر مرکوز، 'مفید' توانائی پوری خلاء میں انڈیلی جا رہی ہے جہاں پر وہ ہمیشہ نہیں رہے گی۔ قوّت ثقل - جو ستاروں کو کھینچنے میں مصروف ہے اور ان کو وہ توانائی فراہم کرتی ہے جو ان کو اندر سے اس نقطہ تک گرم کرتی ہے جہاں جوہری تعامل شروع ہو جاتا ہے - اور حر حرکیات کے درمیان ایک کشمکش جاری ہے جس میں دونوں توانائی کی تقسیم کو دوسرے قانون کے تحت لانے میں مصروف ہیں۔ جیسا کہ ہم دیکھیں گے ، کائنات کی کہانی اصل میں قوّت ثقل اور حر حرکیات کے درمیان ہونے والی جدوجہد کی کہانی ہے۔ جب پوری کائنات ایک یکساں درجہ حرارت پر آ جائے گی، تو پھر کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، کیونکہ حرارت کا بہاؤ ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں ہوگا۔ تاوقتیکہ اس میں اتنا مادّہ موجود ہو جو اس کو حتمی عظیم چرمراہٹ میں منہدم کر دے، اومیگا نقطہ، ہماری کائنات کا مقدر بنائے گا۔ کائنات میں کسی قسم کی تنظیم باقی نہیں رہے گی، سادہ طور پر ہر جگہ یکساں افراتفری موجود ہوگی جس میں زمین جیسی کسی چیز کو بنانے کا عمل ناممکن ہوگا۔ انیسویں صدی کے اکثر سائنس دان - بلکہ بعد کے بھی کچھ - کائنات کی اس حرارتی موت سے ڈرتے تھے، ایک ایسا خاتمہ جو حر حرکیات کے قوانین میں موجود ہے۔ کوئی بھی مکمل طور پر اس بات کا ادراک نہیں رکھتا کہ کائنات میں دیکھی جانے والی بدیہی تبدیلی بتاتی ہے کہ کائنات کی لازمی طور پر 'گرم پیدائش" ماضی کے کسی محدود وقت میں ہوئی ہوگی، جس کی وجہ سے آج دیکھے جانے والے توازن میں بگاڑ کی صورتحال پیدا ہو گئی ہوگی۔ اور تمام لوگ لازمی طور پر اس بات کو جاننے کے لئے متذبذب ہوتے ہیں کہ "حرارتی موت" جو بھی ہونی تھی اور جس باریکی سے بھی ہونی تھی پہلے ہی ہو چکی ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب اوّل - 3

روشنی اور حر حرکیات

روشنی اور حر حرکیات (Light and thermodynamics)​


بلند درجہ حرارت پر روشنی اور حر حرکیات میں ناکارگی کم ہوتی ہے، اور اس سے آسانی کے ساتھ کوئی بھی کارآمد کام کیا جا سکتا ہے۔ کم درجہ حرارت پر توانائی میں ناکارگی زیادہ ہوتی ہے اور اس سے آسانی سے کام نہیں لیا جا سکتا۔ یہ بات سمجھنے میں سیدھی ہے کیونکہ توانائی کا بہاؤ گرم چیزوں سے ٹھنڈی چیزوں کی جانب ہوتا ہے، اور ٹھنڈی جگہوں کو سورج جیسی سطح ڈھونڈھنے کے مقابلے میں کافی آسان ہے، سورج سے نکلتی ہوئی توانائی راستے میں بہتے ہوئے اپنا کام کرتی ہے۔ مثال کے طور پر برف کے مکعب جیسا کوئی جسم تلاش کرکے اس سے توانائی کو کشید کرکے کام میں لانا ایک مشکل امر ہے۔ زمین پر تو زیادہ گمان یہی ہے کہ حرارت برف کے ٹکڑے کی سمت بہے گی۔ خلاء میں چیزیں کچھ الگ ہوتی ہیں جہاں زمین کی سطح سے کہیں زیادہ ٹھنڈ ہوتی ہے۔ 0 سینٹی گریڈ پر بھی برف کا ٹکرا اپنے اندر کچھ کام کی توانائی رکھ سکتا ہے جس کو کشید کر ان حالات میں کام میں لیا جا سکتا ہے۔ تاہم پھر بھی ایک اس کی ایک حد ہے یعنی کہ مطلق صفر درجہ حرارت، کیلون کے پیمانے پر 0، اس پیمانے کا نام بھی ایک اور حر حرکیات کے بانی کے نام پر رکھا گیا تھا۔ کوئی بھی جسم 0 کیلون درجہ حرارت پر کسی بھی قسم کی حرارت کو نہیں رکھ سکے گا۔

خلاء بذات خود اتنی ٹھنڈی نہیں ہے کہ اس کا درجہ حرارت 0 کیلون ہو۔ ستاروں کے درمیان خلاء میں برقی مقناطیسی اشعاع یا فوٹون کی صورت میں توانائی موجود ہے۔ ان فوٹون کی توانائی کو درجہ حرارت میں بیان کیا جا سکتا ہے - سورج کی روشنی میں توانا، بلند درجہ حرارت کے فوٹون شامل ہوتے ہیں، جبکہ ہمارے جسم سے نکلنے والی حرارت پست توانائی کی صورت ہوتی ہے جو فوٹون سے کہیں زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہے۔ جیسے کہ ہم آگے دیکھیں گے کہ 1960ء میں تجرباتی سائنس کی سب سے عظیم دریافت میں ریڈیائی ماہرین فلکیات نے ایک کمزور ریڈیائی شور کو دیکھا جو خلاء میں ہر سمت سے آ رہا تھا۔ انہوں نے اسے کائناتی پس منظر کی اشعاع کا نام دیا؛ ہماری ریڈیائی دوربینوں سے درج ہونے والا شور فوٹون کے سمندر سے پیدا ہونے والا تھا جس کا درجہ حرارت صرف 3 کیلون تھا جس نے پوری کائنات کو اپنے آپ سے لبریز کیا ہوا تھا۔

جیسا کہ میں باب 6 میں مزید وضاحت کروں گا یہ دریافت وہ اکیلی حقیقت تھی جس نے ماہرین تکوینیات کو قائل کرلیا کہ عظیم دھماکے کا نظریہ اس کائنات کی اچھی توضیح ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں۔ دور دراز کی کہکشاؤں کا مطالعہ پہلے ہی بتا چکا ہے کہ کائنات آج بھی پھیل رہی ہے، جہاں وقت گزرنے کے ساتھ کہکشاؤں کے جھرمٹ ایک دوسرے سے مزید دور ہو رہے ہیں۔ اس عمل کا تصور کرتے ہوئے جب وقت کے دھارے کو لپیٹتے ہیں تو کچھ نظریاتی دلیل دیتے ہیں کہ کائنات کو لازمی طور پر ایک فوق کثیف، فوق گرم حالت یعنی کہ عظیم دھماکے کی گیند کی صورت میں پیدا ہونا چاہئے۔ تاہم اس نظریئے کو قبولیت عام کا درجہ اس وقت تک نہیں ملا جب تک پس منظر کی اشعاع کی دریافت نہیں ہوئی، ان اشعاع کو دریافت ہونے کے فوری بعد ہی عظیم دھماکے کی گیند سے بچ جانے والی کھرچن کہا گیا۔

اب کائنات کی پیدائش کے معیاری تصور میں عظیم دھماکے کے دوران کائنات خود بہت ہی گرم فوٹون سے بھری ہوئی تھی، یہ فوٹون بلند توانا اشعاع کا سمندر تھا۔ جب کائنات نے پھیلنا شروع کیا تو یہ اشعاع ٹھنڈی ہونی شروع ہوئی، بعینہ اسی طرح جیسے کہ گیس کو جب کسی بڑے علاقے میں چھوڑ دیا جاتا ہے تو وہ ٹھنڈی ہو جاتی ہے (یہی وہ بنیادی عمل ہے جو آپ کے فرج کے اندر کام کرکے اس کو ٹھنڈا رکھتا ہے)۔ جب گیس کو دبایا جاتا ہے، تو وہ گرم ہو جاتی ہے - آپ اس عمل کے کام کرنے کو اس وقت محسوس کر سکتے ہیں جب آپ اپنی بائیسکل کے پمپ کو استعمال کرتے ہیں۔ جب گیس پھیلتی ہے تو وہ ٹھنڈی ہوتی ہے۔ اور یہی قاعدہ اس وقت نافذ ہوگا جب 'گیس' حقیقت میں فوٹون کا سمندر ہو۔

اس دوران جب عظیم دھماکا آگ کی گیند کی صورت تھا، تو آسمان پوری کائنات میں جلتی ہوئی روشنی کے ساتھ جگمگا رہا تھا، تاہم پھیلاؤ نے اشعاع کو ٹھنڈا کرکے 3 کیلون درجہ حرارت تک گرا دیا تھا ( یہی پھیلاؤ کا اثر ستاروں کی روشنی کو کمزور کرتا ہے، تاہم یہ اتنا نہیں ہے کہ آسمان کی سیاہی کو بیان کر سکے بشرطیکہ کہ کائنات لامحدود عمر کی ہے۔ کائنات میں موجود عام مادّہ بہت ہی کم مقدار میں ہے جبکہ ستاروں اور کہکشاؤں کے درمیان خلاء کی جگہ بہت ہی زیادہ وسیع ہے۔ کائنات میں فوٹون کی تعداد پوری کائنات میں موجود جوہروں سے کہیں زیادہ ہے، اور کائنات کی زیادہ تر ناکارگی پس منظر کی اشعاع کے ان سرد فوٹون کے اندر ہی موجود ہے۔ کیونکہ یہ فوٹون بہت زیادہ سرد ہیں، لہٰذا ان کی ناکارگی کافی زیادہ ہے، اور آج ستاروں سے نکلنے والی نسبتاً کم تعداد اس ناکارگی کو زیادہ نہیں بڑھائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات کی گرم موت پہلے ہی عظیم دھماکے کی کونیاتی آگ کی گیند سے آج کے رات کے سیاہ آسمان میں بدلنے سے واقع ہو چکی ہے، ہم ایک ایسی کائنات میں رہتے ہیں جو شاید پہلے ہی ناکارگی کی آخری حد کو پہنچ چکی ہے، اور سورج کی صورت میں چھوٹا ناکارگی کا بلبلہ مخصوص بلبلے سے کہیں زیادہ دور ہے۔

کائنات کا پھیلاؤ ہمیں وقت کی سمت بھی دیتا ہے - جو اب بھی اسی سمت کی طرف اشارہ کرتا ہے - گرم ماضی سے ٹھنڈے مستقبل کی طرف۔ تاہم ان تمام باتوں کے برخلاف ایک انتہائی عجیب چیز بھی موجود ہے۔ وقت کی سمت، تبدیلی و انحطاط بحیثیت مجموعی کائنات اور زمین پر نظر آنے والی ہر چیز کا بنیادی خاصہ ہے - اس کو طبیعیات دان پیمانہ کبیر کہتے ہیں۔ تاہم جب ہم بہت ہی صغیر جہاں، جوہری اور ذرّاتی پیمانے پر دیکھتے ہیں (جس کو طبیعیات دان خرد بینی جہاں کہتے ہیں، ہم ان چیزوں کی بات کر رہے ہیں جو اس قدر چھوٹی ہوتی ہیں کہ خردبین سے بھی نظر نہیں آتیں)، تو قوانین طبیعیات میں بنیادی وقت کے عدم تشاکل کا کوئی نشان نہیں دیکھتے ہیں۔ یہ قوانین وقت کے ماضی و مستقبل اور ہر سمت میں اچھی طرح 'کام' کرتے ہیں۔ اس کو کس طرح وقت کے بہنے کی واضح حقیقت کے ساتھ اور چیزوں کی فرسودگی کے ساتھ جہاں صغیر میں موافق بنایا جائے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب اوّل - 4
کبیر و صغیر جہاں

کبیر و صغیر (The large and the small)​


حقیقی زندگی میں چیزیں فرسودہ ہوتی ہیں اور وقت کی ایک سمت ہوتی ہے۔ تاہم نیوٹن اور ان کے بعد کے جانشینوں کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق قدرت میں وقت کو محسوس کرنے کی کوئی جبلی حس موجود نہیں ہے۔ مثال کے طور پر وہ مساوات جو سورج کے گرد مدار میں زمین کی حرکت کو بیان کرتی ہے وہ بھی وقتی تشاکل ہے۔ یہ آگے کی طرف بعینہ ایسے ہی کام کرتی ہیں جیسے کہ پیچھے کی طرف۔ ہم فرض کرتے ہیں کہ ایک خلائی جہاز زمین سے کافی اوپر خلاء میں سورج اور دوسرے سیاروں کی سطح سے کافی دور روانہ ہوتا ہے، اور یہ سورج کے گرد سیاروں کا چکر، اور سیاروں کے گرد چاند کے چکر لگانے کی فلم بناتا ہے، اور یہ تمام اجسام اپنے محور کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اگر ایسی کوئی فلم بنی اور اس کو پروجیکٹر پر الٹا چلایا گیا تب بھی یہ مکمل طور پر قدرتی ہی لگے گی۔ سیارے اور چاند تمام کے تمام اپنے مدار میں الٹی سمت چکر لگا رہے ہوں گے، اور اپنے محور کے گرد وہ الٹا گھوم رہے ہوں گے، قوانین طبیعیات میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اس پر قدغن لگا سکے۔ اس کو کس طرح وقت کی سمت کے تصور کے ساتھ حتمی طور پر فرض کیا جا سکتا ہے؟

شاید یہ بہتر ہے کہ معمے کی طرف اشارہ گھر سے نزدیک کسی چیز کی طرف دیکھ کر کیا جائے۔ ایک ٹینس کے کھلاڑی کے بارے میں سوچیں، جو کھڑا رہ کر ٹینس کی گیند کو زمین پر متواتر اپنے ریکٹ سے اچھال رہا ہے۔ ایک مرتبہ پھر اگر ہم اس کی فلم بنائیں اور اس کو الٹا چلائیں تو یہ عجیب نہیں لگے گی۔ گیند کا اچھلنا الٹا یا وقتی عدم تشاکلی ہے۔ لیکن اب ایک شخص کا تصوّر کریں جو روشنی کا الاؤ جلا رہا ہے۔ وہ شروعات کسی صاف تہ ہوئے اخبار کے ساتھ کر سکتا ہے، جو مختلف صفحات پر مشتمل مڑی ہوئی ایک دوسرے پر رکھی ہوئی ہو سکتے ہیں۔ اس ڈھیر میں لکڑی کے ٹکڑے بھی شامل کئے جا سکتے ہیں، ایک جلتی ہوئی تیلی کو اس کو دکھانا ہے اور اس نے آگ کو پکڑنا ہے۔ اگر اس منظر نامے کو فلم پر درج کیا جائے اور اس کو الٹا چلایا جائے تو کوئی بھی دیکھنے والا شخص فوراً جان لے گا کہ اس میں کچھ گڑ بڑ ہے۔ حقیقی دنیا میں، ہم کبھی ایسا نہیں دیکھتے کہ آگ کے شعلے ہوا سے دھوئیں اور گیس کو لے کر ان کو راکھ سے ملائیں تاکہ مڑے ہوئے کاغذ کے ٹکڑے بن جائیں جس کو بعد میں انسان بہت احتیاط کے ساتھ ہموار کرکے ایک دوسرے کے اوپر چڑھا دیں۔ الاؤ سازی کا یہ عمل ناقابل الٹ ہے، یہ وقت میں ایک عدم تشاکل کو ظاہر کرتا ہے۔ تو پھر ایک اچھلتی ٹینس کی گیند اور اس میں کیا فرق ہے؟



خاکہ 1.2 جس طرح سے ہم جوہروں کو گیس میں ایک دوسرے سے ٹکراتے اور اچھلتے تصور کر سکتے ہیں، جو نیوٹن کے قوانین حرکت کا اتباع کرتے ہیں، اس میں کوئی وقت کی سمت نظر نہیں آتی۔ تصویر دونوں طرح سے ہی معقول دکھائی دیتی ہے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ہم کس سمت سے دیکھ رہے ہیں۔

اچھلتی گیند کے منظر نامے میں ایک اہم چیز یہ ہے کہ ہمیں بڑھتی ہوئی ناکارگی کے ناگزیر اثر کو دیکھنے کے لئے کافی زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ اگر ہم کافی زیادہ انتظار کرتے، تو ٹینس کی گیند سے خراب ہونے سے کہیں پہلے بالآخر ٹینس کا کھلاڑی بوڑھا ہو کر مر جاتا (بلکہ میں نے تو اس مثال میں ٹینس کے کھلاڑی کی حیاتیاتی کھانے اور پینے کی احتیاج کو بھی مد نظر نہیں رکھا )۔ سورج کے گرد مدار میں چکر لگانے والے سیاروں کی مثال بھی حقیقت میں ناقابل الٹ نہیں ہے۔ بہت لمبے عرصے بعد (ارب ہا برس بعد) سیاروں کے مدار مدوجزر کے اثر سے تبدیل ہو جائیں گے۔ مثال کے طور پر زمین کی محوری گردش آہستہ ہو جائے گی جبکہ چاند اپنے مرکزی سیارے سے مزید دور چلا جائے گا۔ کوئی بھی طبیعیات دان جو انتہائی نازک و درست ناپنے والے آلے سے لیس ہو وہ بہت ہی چھوٹی فلم کے ذریعہ بھی ان اثرات کا سراغ لگا سکتا ہے اور وقت کی سمت کا نتیجہ نکال سکتا ہے۔ یہ سمت ہمیشہ جہاں کبیر میں موجود رہتی ہے۔

تاہم جہاں صغیر کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اسکول میں ہم پڑھتے تھے کہ ہماری روزمرہ کی چیزوں کو بنانے والے جوہر اصل میں سخت گیندوں کی طرح ہیں، جو اچھلتی ہوئی ایک دوسرے کو دھکا دیتی ہوئی انتہائی درستگی کے ساتھ نیوٹن کے قوانین کا اتباع کرتی ہیں۔ نہ تو قوانین میکانیات میں اور نہ ہی برقی مقناطیسیت میں کوئی خلقی وقت کی سمت موجود ہے۔ طبیعیات دان اس مظہر قدرت کے بارے میں سوچنے کے لئے یہ تصور کرتے ہیں کہ ایک ڈبے میں گیس بھری ہوئی ہے اور ان حالات کے تحت جوہر واضح طور پر ایک دوسرے پر اچھلتی گیندوں کی طرح کا برتاؤ کرتے ہیں۔ جب دو ایسے کرے جو مختلف سمت میں حرکت کر رہے ہوں اور آپس میں مل کر ایک دوسرے سے ٹکرائیں، تو وہ ایک نئی سمت میں اچھلنے لگتے ہیں، نئی رفتار کے ساتھ از روئے قوانین نیوٹن؛ اور اگر وقت کی سمت الٹ ڈی جائے تو الٹ کر ہونے والے ٹکراؤ بھی نیوٹن کے قوانین ہی کا اتباع کریں گے ۔ یہ کچھ دلچسپ پہیلیوں کو جنم دیتا ہے۔

اس (خیالی تجربے ) کی مدد سے حر حرکیات کے دوسرے قانون کو سمجھانے کے لئے ایک معیاری طریقہ یہ ہے کہ اس کو دو حصوں میں بانٹ لیا جائے۔ فرض کریں کہ ایک حصّے میں گیس بھری ہوئی ہے جبکہ دوسرا خالی ہے (یہ صرف 'خیالی' تجربہ ہے؛ ہمیں اصل میں اس تجربے کو کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا روزمرہ کا تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ اس کے آخر میں کیا ہوگا۔ جب رکاوٹ کو دور کیا جائے گا، تو گیس جس آدھے حصّے میں بھری ہوگی وہاں سے نکل کر پورے ڈبے میں بھر جائے گی۔ نظام کم منظم ہو جائے گا، اس کا درجہ حرارت گر جائے گا اور ناکارگی بڑھ جائے گی۔ ایک مرتبہ جب گیس اس حالت میں ہو جائے گی تو وہ خود سے اپنے آپ کو دوبارہ سے ایسے منظم نہیں کر سکے گی جس میں وہ ایک حصّے میں واپس چلی جائے اور ہم رکاوٹ کو دوبارہ لگا کر اصل صورتحال کو واپس لے آئیں۔ اس میں کم ہوتی ناکارگی ملوث ہوگی۔ پیمانہ کبیر پر ہمیں معلوم ہے کہ رکاوٹ کو ہاتھ میں لئے ڈبے کے اوپر کھڑا رہنا اور اس بات کا انتظار کرنا کہ کوئی ایسا موقع ملے گا جب تمام گیس ایک حصّے میں جمع ہوگی فضول ہے۔


خاکہ 1.3 تاہم ہم جب ایک ڈبے میں موجود گیس کے بہت بڑی تعداد میں جوہروں کا برتاؤ دیکھتے ہیں، تو وقت کی عدم تشاکل کو دیکھنا آسان ہو جاتا ہے۔ جب ڈبے میں سے رکاوٹ کو دور کیا جائے گا، تو گیس نکل کر پورے ڈبے میں پھیل جائے گی۔ ہم آسانی کے ساتھ بتا سکتے ہیں کہ کون سی صورتحال پہلے کی ہے اور کون سی بعد کی، اس کے لئے ہمیں خاکہ پر سرخی یا تیر کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس بات کی توضیح یہ ہے کہ نیوٹن کے قوانین جوہروں کے درمیان ہونے والے تصادموں کی پوری کہانی کو بیان نہیں کرتے۔

تاہم اب چیزوں کو خرد پیمانے پر دیکھیں۔ آدھے ڈبے سے گیس کے جوہر نکلتے ہوئے جس راستے کو اختیار کرتے ہیں - خط پرواز - وہ نیوٹن کے قانون کا اتباع کرتے ہیں، اور اس راستے میں ہونے والے تمام جوہروں کے تصادم اصولی طور پر قابل الٹ ہیں۔ ہم ایک جادو کی چھڑی کا تصور کر سکتے ہیں، جب گیس ڈبے میں یکسانیت کے ساتھ بھر جائے گی اور ہر انفرادی جوہر کی حرکت کو الٹ دیا جائے گا۔ بلاشبہ ان تمام کے خط پرواز سے سراغ لگایا جائے گا جہاں سے وہ آئے تھے، اور ان سب کو واپس آدھے ڈبے میں ڈال دیا جائے گا؟ کیسے ہو سکتا ہے کہ پیمانہ صغیر کے قابل الٹ واقعات کے بے عیب مجموعے اس بات پر متفق ہوں کہ پیمانہ کبیر پر بھی قابل الٹ واقعات کا ظہور ہو جائے؟

اس بات کو سمجھنے کے لئے ایک اور دوسرا راستہ بھی موجود ہے۔ انیسویں صدی میں، فرانسیسی طبیعیات دان ہنری پون کیئر نے دکھایا کہ اس طرح کی مثالی گیس جو ایک ڈبے میں بند ہو، اس دیوار سے جہاں سے جوہر بغیر توانائی کو ضائع کئے ٹکراتے ہیں، لازمی طور پر ہر ممکنہ حالت سے گزرنا ہوگا جو بقائے توانائی کے قانون سے ہم آہنگ ہوگی یعنی کہ حر حرکیات کا پہلا قانون۔ڈبے میں جوہروں کی ہر ترتیب کو جلد یا بدیر وقوع پذیر ہونا ہوگا۔ اگر ہم کافی وقت تک انتظار کریں، تو ڈبے کے اندر اٹکل پچو حرکت کرنے والے جوہر بالآخر ایک جگہ جمع ہو جائیں گے، یا شاید کسی بھی دوسری منظور حالت میں جا سکتے ہیں۔ اگر ہم اس کو دوسرے طریقے سے رکھیں، تو اگر ہم کافی انتظار کریں گے تو پورا نظام لازمی طور پر دوبارہ اس نقطہ پر آ جائے گا جہاں سے اس نے شروع کیا تھا۔

'کافی ہے'، بہرحال یہاں استعمال ہونے والی ایک اہم اصطلاح ہے۔ ایک گیس کا چھوٹا ڈبہ شاید کچھ 10^22 جوہر (یعنی 1 کے بعد 22 صفر) رکھتا ہے، اور وہ وقت جس میں وہ واپس اپنی پرانی حالت میں پہنچ جائیں شاید وہ کائنات کی عمر سے کئی گنا زیادہ ہوگا۔ جیسا کہ آج کل اس کو پون کیئر وقتی چکر کے نام سے جانا جاتا ہے اس میں عام طور پر اتنے صفر موجود ہوتے ہیں جن کی تعداد ان ستاروں سے کہیں زیادہ ہے جو آج کائنات میں موجود تمام معلوم کہکشاؤں میں ہے، یہ عدد اس قدر بڑا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ آپ گنتی سیکنڈ میں کر رہے ہیں یا منٹ میں یا پھر برسوں میں۔ اس کو ایک دوسری طرح سے دیکھیں تو یہ بڑے عدد کسی بھی مخصوص حالت کے اتفاق سے کسی بھی سیکنڈ یا گھنٹے یا برس میں وقوع پذیر ہونے کے لئے عجیب ہوں گے کہ آپ اتفاق سے ڈبے میں موجود گیس کو دیکھیں۔

اس سے ہمیں ایک معیاری 'جواب' اس معمے کا ملتا ہے کہ کس طرح سے ایک جہاں پیمانے صغیر پر قابل الٹ ہوتا ہے وہ پیمانہ کبیر پر ناقابل الٹ ہو جاتا ہے۔ قابل الٹ ہونا بقول روایتوں کے لئے ایک دھوکہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی ناکارگی ایک شماریاتی قانون ہے، اس طرح سے کہ ناکارگی میں کمی اس قدر مخصوص طور پر ممنوع نہیں ہے جتنا کہ اس کا بعید از قیاس ہونا۔ اس تشریح کی رو سے اگر ہم نیم گرم کافی کے گرم کو طویل عرصے تک دیکھیں تو یہ حقیقت میں اچانک سے ایک برف کا ٹکڑا پیدا کر دے گی جبکہ آس پاس کا مائع گرم ہو جائے گا۔ اس طرح کے کسی بھی واقعہ کے رونما ہونے کے لئے درکار وقت اس قدر زیادہ ہے کہ وہ کائنات کی عمر سے کہیں زیادہ ہوتا ہے، لہٰذا عملی طور پر ہم اس امکان کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ بطور قدرت کے مطلق قانون کے بجائے بڑھتی ہوئی ناکارگی کے اس اصول کی تشریح کو حال میں للکارا گیا ہے۔ لیکن اس للکار سے بہت پہلے، امکانی تشریح ہمیں ایک کائنات کے موجودہ معلوم ماخذ کے بارے میں ایک عجیب نظریئے اور وقت کی سمت کے پاس لے گئی تھی - ایک نظریہ جو اتنا شاندار ہے کہ اس کے تجسس کو بیان کرتا ہے، اگرچہ، اس کو اب زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب اوّل - 5
ایک ناممکن الوقوع کائنات

ایک ناممکن الوقوع کائنات (An improbable Universe)​


یہ تصور کہ بشرطیکہ ہم کافی طویل انتظار کریں حر حرکیات کے پہلے قانون کے تحت تمام حالتیں متواتر وقوع پذیر ہوتی ہیں، تاہم اس کی موافقت حر حرکیات کے دوسرے قانون سے کرنا مشکل ہے جو کہتا ہے کہ ناکارگی بڑھے گی اور ایک مخصوص سمت ہوگی جہاں وقت کا تیر جائے گا۔ لڈوگ بولٹز مین 1844ء میں ویانا میں پیدا ہوئے تھے اور وہ حر حرکیات کے تصور کو پیش کرنے والی بانیان میں سے ایک تھے، انہوں نے ان دونوں تصورات میں موافقت پیدا کرنے کا طریقہ ڈھونڈ نکالا تھا۔ تاہم اس کا مطلب تھا کہ 'عقل عامہ' کو وقت کے بہاؤ کو سمجھنے کے لئے ترک کرنا ہوگا، اس کے ساتھ ہی انھوں نے ایک تصور متعارف کروایا کہ کائنات ناقابل تصور طور پر کسی بھی ہماری دیکھی جانے والی چیز سے خاصی وسیع ہے۔[1]

پون کیئر کے کام نے بتایا کہ کوئی بھی بند، متحرک نظام اپنے آپ کو لامحدود طور پر دہرائے گا، اس طرح سے اتنا وقت مل جائے گا جس میں ہر ممکن حالت وقوع پذیر ہو سکے۔ یہ چیز صرف کسی گیس کے ڈبے پر ہی نہیں بلکہ کسی بھی نظام بشمول کائنات اور ہماری ملکی وے کہکشاں پر بھی لاگو ہوگی۔ ایک حقیقی لامحدود کائنات میں جو خلاء میں ہمیشہ پھیل رہی ہو اور جس کا پیمانہ حیات لازوال ہو، تو کوئی بھی ایسی چیز جو قوانین طبیعیات کی رو سے ممنوع نہیں ہے لازمی طور پر کسی جگہ کسی وقت وقوع پذیر ہوگی (یا حقیقت میں لامحدود جگہوں پر اور لامحدود وقت میں دہرائی جائی گی)۔ بولٹزمین کی دلیل تھی کہ پوری قابل مشاہدہ کائنات لازمی طور پر کسی بڑی کائنات کے چھوٹے مقامی علاقے کی نمائندگی کرتی ہے، ایک ایسا حصّہ جس میں بہت ہی نایاب تاہم ناگزیر اتار چڑھاؤ وقوع پذیر ہوتے ہیں بعینہ جیسے ڈبے کے ایک حصّے میں موجود گیس کے جوہر یا کافی کے کپ سے برف کا ٹکڑا بننے کا واقعہ بڑے پیمانے پر وقوع پذیر ہوگا۔

بولٹز مین کے زمانے میں 'کائنات' کا مطلب ہماری ملکی وے کہکشاں تھی۔ بیسویں صدی میں جا کر فلکیات دانوں کو سمجھ میں آیا کہ ہماری کہکشاں جس میں ارب ہا ستارے موجود ہیں وہ وسیع خلاء میں پھیلی ہوئی ارب ہا کہکشاؤں میں سے ایک کہکشاں ہے۔ تاہم اس سے دلیل پر اثر نہیں پڑتا - اس صورتحال میں اس عدد میں مزید کچھ صفر کا اضافہ ہو جائے گا جو پہلے ہی انسانی فہم سے باہر ہے۔



دلیل کچھ یوں کہتی ہے۔ فرض کریں کہ ایک ایسی کائنات موجود ہے وہ وسیع تر اور اتنی بڑی ہے کہ ہم نے اس جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی، تاہم یہ بحیثیت مجموعی حرارتی توازن میں زیادہ سے زیادہ ناکارگی کے ساتھ موجود ہے۔ بولٹز مین کے مطابق:

اس طرح کی کائنات میں جو حرارتی توازن میں ہوگی وہ ایک مردہ کائنات ہوگی، [کائنات] کہکشاں کا ایک نسبتاً چھوٹا علاقہ یہاں یا وہاں موجود ہوگا (جس کو ہم 'جہاں' کہہ سکتے ہیں) یہ علاقے حرارتی توازن سے معنی خیز انداز میں نسبتاً مختصر کھینچے ہوئے 'وقت کے 'عہد' میں انحراف کرتے ہیں۔[2]

اس صورتحال کو موجودہ صورتحال کے مطابق ڈھالنے کے لئے صرف ہمیں ایک لفظ 'کائنات' کو شامل کرنا ہوگا۔ بولٹزمین نے سادے طور پر یہ کہا کہ ہم ایک خلاء کے بلبلے میں رہتے ہیں جہاں پر چھوٹے توازن سے انحراف کئے مقامی علاقے واقع ہیں اور جو اب واپس عظیم کائنات کی طویل عرصے والی قدرتی حالت میں واپس جا رہے ہیں۔ جیسا کہ بولٹزمین نے اشارہ کیا، اس طرح کے کم ناکارگی بلبلے میں موجود وقت کا تیر کم امکانی حالت سے زیادہ امکانی حالت میں جا رہا ہے، یعنی کہ بڑھتی ہوئی ناکارگی کی سمت۔ کوئی وقت کی منفرد سمت ایسی موجود نہیں ہے جو پوری کائنات پر لاگو ہو، اس کے بجائے صرف وقت کی سمت مقامی ہوتی ہے جس کا اطلاق اس علاقے پر ہوتا ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔ وقت کے تیر کی یہ عجیب و غریب توجیح (ظاہر سی بات ہے کہ بولٹزمین نے یہ اصطلاح استعمال نہیں کی تھی کیونکہ یہ اس وقت تک ایجاد ہی نہیں ہوئی تھی) کو ایک خاکے کے ذریعہ بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے (خاکہ 1.4) اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کم ناکارگی کے بلبلے میں ہر جگہ تیر بلند ناکارگی کی حالت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔


خاکہ 1.4 جب وقت کے تیر کو بطور اس سمت کے رہنما کے طور پر لیا جاتا ہے جس میں ناکارگی بڑھتی ہے، تو یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ ہماری معلوم کائنات ناکارگی کے اٹکل پچو اتار چڑھاؤ پیدا کرتی ہے۔ اس صورت میں، جب بھی کوئی شاہد کم ناکارگی کے علاقے میں موجود ہوگا، تو مقامی وقت کا تیر بڑھتی ہوئی ناکارگی کی جانب اشارہ کرے گا۔ شاید ایسا ہے کہ وقت کا تیر عالمگیر طور پر مطلق ہے ہی نہیں؟

اس نقطہ نظر کے لحاظ سے، کائنات غیر معمولی طور پر ناممکن الوقوع اور خلاف قیاس واقعہ ہے، جو لازمی طور پر ایک لامحدود کائنات میں واقع ہوا ہوگا۔ بولٹزمین کی اپنی تحریک اس خیال کو آگے بڑھانے کے لئے اس کے اپنے الفاظوں سے واضح ہو جاتا ہے:

مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس طرح سے چیزوں کو دیکھنا ہی صرف ایک ایسا طریقہ ہے جس سے ہمیں دوسرے قانون کی صحت اور گرم موت ہر انفرادی دنیا کے لئے ابتدائی حالت سے لے کر حتمی حالت کے درمیان پوری کائنات کی یک سمتی تبدیلی کئے بغیر معلوم ہو سکتی ہے۔

تاہم دور حاضر کے ماہرین تکوینیات کائنات کو ایسے ہی دیکھتے ہیں!بلاشبہ بولٹزمین عظیم دھماکے کے نظریئے یا پس منظر کی اشعاع کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا، اور وہ اس دور میں جی رہا تھا جب بغیر کسی حیل و حجت کے کہا جاتا تھا کہ کائنات کا کوئی وقت کا مخصوص ماخذ نہیں ہے نہ ہی اس کا کوئی اختتام ہوگا۔ آج زیادہ تر ماہرین تکوینیات ذرا مختلف سوچتے ہیں، کائنات کی پیدائش کا تصور، اس کی محدود عمر اور موت کو اچھی طرح قبول کرلیا گیا ہے، کم از کم امکان کی حد تک تو ایسا ہی ہے۔ بولٹز مین کی ناممکن الوقوع کائنات تاریخ کا تجسس تھی، کوئی حقیقی دنیا کو اس سے بھی کم حر حرکیات کی نئی تشریح کی مدد سے بیان کر سکتا ہے، جیسا کہ ہم جلد ہی دیکھیں گے۔ تاہم اس کی توضیح کچھ دلچسپ نکات اٹھاتی ہے جس کو ہم اب وقت کا تیر کہتے ہیں، یہ اس قابل ہیں کہ ہم اس کو مزید تفصیل سے دیکھیں اور پوری کتاب کو پڑھتے ہوئے اس کو اپنے دماغ میں رکھیں۔

وقت کے تیر میں جو کسی مخصوص سمت کی جانب اشارہ کر رہا ہو اور مخصوص سمت میں بہتے ہوئے ہمارے موضوعی وقت کے بہاؤ کے فہم میں ایک بنیادی فرق ہے۔ یہ نکتہ بولٹز مین کی دلیل میں شامل ہے تاہم اس کو حال ہی میں زیادہ بہتر طور پرایڈیلیڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے پال ڈیویز نے زیادہ زور و شور سے اٹھایا ہے۔ ڈیویز نے مووی فلم کی مثال کو ہی لیا جیسا کہ ہماری آگ کے الاؤ کو دہکانے والی ہماری تصوراتی مثال تھی۔ وہ بتاتے ہیں (مثال کے طور پر جدید کائنات میں مکان و زمان) کہ اگر ایسی وقت کے عدم تشاکل کی کوئی فلم بنائی جائے اور پھر اس فلم کو کاٹ کر مختلف انفرادی ٹکڑوں میں بانٹ دیا جائے، اور پھر ان کو آپس میں ملا دیا جائے، تب بھی اس بات کا امکان موجود ہے کہ انفرادی تصاویر کا مطالعہ کرکے تفاوت کو ڈھونڈ کر ان کو ٹھیک ترتیب میں رکھ دیا جائے۔ جبلی عدم تشاکل کو ظاہر کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ فلم کو چلایا جائے، یا وقت کو بہایا جائے۔ وقت کا بہاؤ ایک نفسیاتی مظہر ہے جو اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب ہم وقت کو عدم تشاکل کائنات سے تعامل کراتے ہیں۔

سمندر میں تیرتے ہوئے جہاز کے اوپر موجود قطب نما کی سوئی کے ساتھ والی تشبیہ ڈیویز اس بات کو واضح کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ قطب نما کی سوئی ہمیشہ شمالی مقناطیسی قطب کی جانب رہ کر عدم تشاکل کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جہاز ہمیشہ شمال کی طرف تیرے گا۔ جہاز شمال کی طرف بھی تیر سکتا ہے (یا کسی دوسری سمت بھی جا سکتا ہے) تاہم تیر نشان اب بھی شمال کی طرف ہی رہے گا۔ اور اگر ہم چاہیں تو ہم قطب نما کے تیر کو جنوب کی طرف بھی کر سکتے ہیں۔ یہ تب بھی راستہ ڈھونڈنے کے لئے ویسا ہی کارآمد رہے گا، ہرچند کہ خود سے دی ہوئی 'سمت' الٹی ہو گئی ہوگی۔ یہ قدرتی بات ہے کہ ہم اس سمت کو بیان کریں جس جانب وقت کا تیر اشارہ کر رہا ہے یعنی وہ سمت جہاں ہم سمجھتے ہیں کہ وقت بہہ رہا ہے۔ تاہم یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ عدم تشاکل کائنات کی خلقی خاصیت ہے، جبکہ بہاؤ سے متعلق ہمارا فہم ایک ایسا مظہر ہے جس کو کوئی بھی سمجھنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ خاص طور پر اگر وقت پیچھے کی طرف بہے تو عدم تشاکل کو کوئی فرق نہیں پڑے گا اور تمام کے تمام حر حرکیات کے قوانین اس وقت بھی ویسے ہی لاگو ہوں گے۔

یہ بات فلسفیانہ طور پر بات کی کھال نکالنے جیسا لگتا ہے، تاہم آپ اس خیال پر ثابت قدم رہیں بعد میں اس کی اہمیت بہت بڑھنے والی ہے۔ سب سے پہلے حر حرکیات میں ہونے والی نئی پیش رفت کو دیکھیں جس نے روایتی تشریح کو اوندھے منہ گرا دیا ہے، اور پون کیئر اور بولٹز مین کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی ہے، اور بتایا ہے کہ ناقابل الٹ ہونا اصل میں کائنات کی ایک بنیادی خاصیت ہے بشرطیکہ ایک مرتبہ وقت کے تیر کو بیان کر دیا جائے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب اوّل - 6
ناقابل الٹ کائنات

ناقابل الٹ کائنات (The irreversible Universe)​


یہ نیا تصور خاص طور پر ایلیا پریگوجوائن کے تصور سے نکلا ہے جو ماسکو میں 1917ء میں پیدا ہوئے اور 1947ء سے بیلجیئم کی فری یونیورسٹی سے وابستہ رہے، اور حال ہی میں وہ آسٹن میں واقع ٹیکساس یونیورسٹی سے وابستہ ہو گئے ہیں۔ انہوں نے 1977ء میں اپنے کام حر حرکیاتی عدم توازن میں نوبل انعام برائے کیمیا حاصل کیا۔ تاہم ان کے تصورات کی جانچ پڑتال ہونا باقی ہے اس کے بعد ہی ان کو ان درسی کتب کا حصّہ بنایا جائے گا جو حر حرکیات کے طالبعلم آج بھی یونیورسٹی کی سطح پر پڑھتے ہیں۔

پریگو جوائن نے کوانٹم نظریئے سے کچھ بنیادی خیالات لے کر پیمانہ کبیر کی ناقابل الٹ اور پیمانہ صغیر کی قابل الٹ موافقت پر حملہ کیا جو پون کیئر کی متواتر وقت سے سمجھی جا سکتی ہے۔ کوانٹم طبیعیات جس کو بیسویں صدی کے پہلے حصّے میں بنایا گیا تھا، وہ جوہروں اور چھوٹے ذرّات کے برتاؤ کے بارے میں اپنی پیش رو سے بہتر تفہیم فراہم کرتی ہے۔ یہ صرف کوانٹم طبیعیات کی ہی مدد ہے جس کی بدولت جدید سائنس دان اس قابل ہوئے ہیں کہ جوہروں کے کام کرنے کے طریقے اور ذرّات اور برقی مقناطیسی میدان کے درمیان ہونے والے تعاملات کو سمجھ سکیں۔ ہمیں یہاں پر زیادہ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے[1]، تاہم دو کوانٹم طبیعیات کی خصوصیات ایسی ہیں جو کائنات کے حر حرکیات سے متعلق ہیں۔

سب سے پہلا اہم نقطہ کوانٹم طبیعیات کی مساوات، کلاسیکی طبیعیات کی طرح، وقتی تشاکلی ہیں۔ کوانٹم طبیعیات میں کوئی وقت کا تیر جبلی طور پر موجود نہیں ہے، اور رد عمل اور تعاملات مساوات کے مطابق 'آگے' اور 'پیچھے' آسانی کے ساتھ ہو سکتے ہیں۔ اس سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم اسی جگہ پہنچ گئے ہیں جہاں بولٹزمین آکر نیوٹنی میکانیات کے قابل الٹ اور اصل دنیا کی فرسودگی کے درمیان پھنس گیا تھا۔ تاہم نئی طبیعیات کی دوسری اہم خاصیت ہمیں مخصوص کھونٹے سے دور کر دیتی ہے۔

ورنر ہائیزنبرگ، ایک جرمن سائنس دان تھا جس نے کوانٹم نظریئے کو بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، اس نے دریافت کیا کہ مساوات ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم کسی بھی ذرّے کی دونوں مقام اور رفتار ایک وقت میں معلوم کر سکیں۔ اصولی طور پر ہم یہ بات نہیں جان سکتے کہ کوئی ذرّہ کہاں ہے اور وہ کہاں جا رہا ہے۔ ہم کسی بھی خاصیت کا تعین خود سے اتنا درست کر سکتے ہیں جتنا کہ ہم چاہیں، تاہم بصورت معکوس ہم جتنی درستگی کے ساتھ اس کا مقام معلوم کریں گے اتنا ہی کم ہم اس کی رفتار کے بارے میں معلوم کر سکیں گے۔ یہی اصول اتفاقی طور پر دوسرے ان جوڑوں پر بھی لاگو ہوتا ہے جس کو 'مزدوج متغیر' کہتے ہیں، تاہم ہمیں ابھی اس کے بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

جب پہلی مرتبہ ہائیزنبرگ نے اپنا اصول عدم یقین بیان کیا تو کافی لوگوں نے سمجھا کہ شاید یہ انسانی مشاہدے کی عملی حدود کے بارے میں بات کر رہا ہے، اور یہ سمجھے کہ شاید الیکٹران کسی ایک مخصوص مقام پر ہو سکتا ہے اور ایک مخصوص سمتی رفتار و معیار حرکت کے ساتھ حرکت کر سکتا ہے تاہم یہ دونوں کو ایک ساتھ ناپنے کی ہماری قابلیت سے ہمیشہ ہی دور رہے گا۔ درحقیقت آج بھی بہت سارے لوگ ایسا ہی سوچتے ہیں کہ کوانٹم عدم یقینیت شاید اسی کو کہتے ہیں۔ لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔ ہائیزنبرگ کی دریافت کی اہم بات حقیقت میں یہ ہے - حقیقت میں یہ کئی طرح سے کوانٹم کی بھی خاصیت ہے - کہ وہ ہستی جس کو ہم الیکٹران کہتے ہیں وہ ایک ساتھ دو چیزیں مخصوص مقام و مخصوص رفتار نہیں رکھ سکتی جبلی طور پر ایک عدم یقینیت موجود ہے جس کو کائنات کو ملا کر رکھنے سے نمٹنا ہے، تاہم اس کا انسانی تجرباتی طبیعیات دانوں کی قابلیت یا کسی اور چیز سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

یہ عقل عامہ نہیں ہے، لیکن یہ ایسا کیوں ہے؟ ہماری عقل کی بنیاد روزمرہ کی ان چیزوں پر منحصر ہوتی ہے جو انسانی پیمانے کی ہوتی ہیں اور اس پیمانے پر عدم یقین کا اثر اس قدر معمولی ہوتا ہے کہ نظر ہی نہیں آتا۔ ہمارے پاس کوئی ایسی بنیاد نہیں ہے جو یہ بتا سکے کہ 'عقل' جوہروں اور الیکٹرانوں کے پیمانے پر کیسی ہوگی، بس ہم تو ان نظریات کے بھروسے مدد حاصل کرتے ہیں جو اندازہ لگاتی ہیں کہ اس طرح کے ذرّات کا مجموعہ کس طرح سے مخصوص حالات میں جواب دے گا۔ وہ نظریہ جو سب سے بہترین ، سب سے زیادہ درست اور سب سے زیادہ یکساں درست اندازہ لگا سکتا ہے وہ کوانٹم کا نظریہ ہے بشمول اصول عدم یقین کے۔ بے شک یہ تو کوانٹم عجوبے کی ایک جھلک ہی ہے، کوانٹم نظریئے کی سب سے بہتر تشریح کے لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوئی بھی اساسی 'حقیقت' موجود نہیں ہے جو جہان کبیر کو مل کر بنا سکے۔ صرف ایک ہی حقیقت اس واقعہ میں موجود ہوتی ہے جس کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں ڈائل پر سوئی اس وقت حرکت کرتی ہے جب ایک برقی بہاؤ بہتا ہے اور گیگر کاؤنٹر اس وقت کلک کرتا ہے جب بار دار ذرّہ اس کے سراغ رساں سے گزرتا ہے علیٰ ہذا القیاس۔ کوئی بھی چیز اس وقت تک حقیقت نہیں بنتی جب تک اس کا مشاہدہ نہ کیا جائے، کوانٹم طبیعیات دان کہتے ہیں، اور اس بات کو تصور کرنے کی کوشش کرنا فضول ہی ہے کہ جوہر اور الیکٹران اس وقت کیا کرتے ہیں جب ان کا مشاہدہ نہیں کیا جاتا۔

یہ تمام خیالات پریگو جوائن کے حر حرکیات کے نسخے میں شامل ہو گئے۔ جس حقیقت کا ہم وقت کے تیر اور عدم تشاکل کا مشاہدہ کرتے ہیں وہ جہان کبیر ہے۔ ایسا کیوں ہے وہ سوال کرتا ہے، کیا ہم اس بات کا تصور کریں کہ یہ دنیا کسی طرح سے ان گنت ننھے ذرّات سے مل کر بنی ہے جو درستگی کے ساتھ قابل الٹ وقتی تشاکلی برتاؤ کے قوانین کا اتباع کرتے ہیں؟ پریگوجوائن کے لئے اجمالی طور پر حاصل کردہ حر حرکیات کا دوسرا قانون بنیادی سچائی ہے، ایک درست قانون جو ہمیشہ لاگو ہوتا ہے، شماریاتی اصول کی طرح نہیں جو اکثر کم یا زیادہ پر لگتا ہے۔ یہ بظاہر ایک دوسرے پر اچھلتے چھوٹے کروں کا وقتی تشاکلی برتاؤ ہے جس کو اس نے حقیقت سے قریب تر سمجھ لیا ہے۔ 'ناقابل الٹ' وہ کہتا ہے یا تو تمام سطحوں پر درست ہوگا یا پھر کسی پر بھی نہیں۔ یہ معجزاتی طور پر ایک سطح سے دوسری سطح پر جاتے ہوئے نمودار نہیں ہو جاتا۔ (بے ترتیبی سے ترتیب، صفحہ 285۔)

ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وہ کہاں لے جانا چاہ رہا ہے، اور ایک بند نظام کی مثال کو دیکھ کر ہم کوانٹم طبیعیات سے حر حرکیات کا براہ راست تعلق بھی دیکھ سکتے ہیں، یہ وہ قسم ہے جو پون کیئر کہتا ہے کہ اس کو اپنی اصل کی طرف لوٹنا ہوگا بشرطیکہ کافی طویل وقت موجود ہو۔ ہم ایک مرتبہ پھر گیس سے بھرے ڈبے سے شروع کرتے ہیں، تاہم اس مرتبہ ہم اس کو تھوڑا سے پیچیدہ کر دیں گے، وہ اس طرح کہ ڈبے میں ہم ایک ہموار ڈھلوان مادّے کی پہاڑی بنا دیں گے جو مکمل طور پر تشاکل رکھتی ہوگی جو اوپر اٹھ کر چوٹی پر گول ہوگی۔ ذرا تصور کریں کہ پہاڑی کے اوپر ایک مکمل گول گیند انتہائی نفاست کے ساتھ رکھی ہے، ڈبہ ویسے ہی بند ہے تاکہ اس کو باقی کائنات سے حر حرکیاتی طور پر الگ رکھ سکے۔ گیند کا کیا ہوگا؟ ظاہر سے بات ہے کہ وہ پہاڑی کی چوٹی سے نیچے گر لڑک جائے گی۔ تاہم یہ کس طرف گرے گی؟ گیند جو سمت لے گی اور ڈبے میں موجود مادّے کی بعد کی تاریخ ان سب کا انحصار گیس کے جوہروں کی چھوٹی جمع ہوتی ٹکروں پر ہوگا۔ گیند پر بہت چھوٹا دباؤ اس کو اتفاق سے ایک طرف دھکیل رہا ہوگا اور یہ گر کر لڑک جائے گی۔

پون کیئر کے مطابق بالآخر گیند اپنی شروعاتی جگہ پر واپس پلٹ آئی گی۔ جب گیند پہاڑی سے لڑک جائے گی تو حتمی طور پر قوّت ثقل سے گرنے والی گیند سے پیدا ہونے والی یہ اپنی توانائی گیس کو دے گی اگر ہم کافی طویل عرصے (کائنات کی عمر سے کئی گنا زیادہ) انتظار کریں تو یہ ہوگا کہ گیس کے زیادہ تر جوہر گیند سے ٹکرائیں گے اور اسی سمت میں حرکت کریں گے اور اس کو تھوڑا سا دھکا اتنی ہی توانائی کے ساتھ جتنی کہ اس نے پہلے گیس کو دی تھی دے کر اس کو واپس لڑکا کر پہاڑی کے اوپرلے جائیں گے جبکہ گیس ٹھنڈی ہو جائے گی۔ ایسی بھی صورتحال ہوگی جب گیند غلط دھکا لے کر دوسری سمت میں چلی جائے یا کوئی بہت طاقتور دھکا مل جائے یا دھکا اتنا کمزور ہو کہ وہ واپس پہاڑی کی چوٹی پر پہنچ جائے۔ تاہم ایک مناسب طویل وقفے کے بعد ایک موقع ایسا آئے گا جب دھکا بعینہ اس قابل ہوگا کہ گیند کو واپس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا دے اور اس کو وہیں توازن میں رہنے دے۔ نظام پیش گوئی کے مطابق اپنی اصل حالت میں واپس آگیا ہوگا۔ یا ایسا ہی ہے؟

اگر ابھی گیند سے ٹکرانے والے گیس کے جوہر کے طریقوں میں تھوڑا سے بھی فرق اس ٹکر سے ہوگا جس وہ پہلی مرتبہ اس وقت ٹکرائے تھے جب یہ پہاڑ کی چوٹی پر تھی، تو وہ ایک مختلف سمت میں لڑک جائے گی اور ڈبے کے اندر کی چھوٹی دنیا کا مستقبل بالکل ہی الگ ہوگا۔ اور جوہر کے گیند سے ٹکرانے کے طریقوں میں چھوٹے اختلافات ضرور موجود ہوں گے کیونکہ کوانٹم اصول عدم یقین اس بات کو ناممکن بناتی ہے کہ جوہروں کے لئے کوئی درست حالات کا تعین کیا جا سکے۔ یہاں تک کہ اس سادہ سی صورت میں بھی ہم تصور کر سکتے ہیں کہ گیند بہت ہی درستگی کے ساتھ توازن میں ہوگی کیونکہ حالات میں آپ کی پسند کی چھوٹی سی بھی تبدیلی مستقبل کے برتاؤ کو بدل دے گی۔ حقیقی کائنات اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے، اور پیچیدہ نظاموں میں بہت سارے ایسے ذرّات موجود ہیں جن کے بارے میں اندازہ ہے کہ وہ بہت ہی زیادہ غیر پائیدار ہوتے ہیں، لہٰذا ابتدائی حالات میں تھوڑی سی بھی تبدیلی نظام کے مستقبل میں ہیبت ناک تغیر پیدا کر سکتی ہے۔

یا اگر آپ چاہیں چیزوں کے بارے میں ڈبے میں حرکت کرتے ہوئے گیس کے جوہروں کی اصل قابل الٹ حد کے بارے میں سوچیں۔ جب ہم ایک ایسے نظام کے بارے میں سوچتے ہیں جہاں ڈبے کے آدھے حصّے میں گیس پھیل کر پورے ڈبے کو بھر دیتی ہے، تو یہ کہنا آسان ہوتا ہے 'ہر جوہر کے بارے میں تصور کریں کہ وہ ایک ساتھ الٹ رہا ہے'۔ یہ تصور کچھ پول ٹیبل کی یاد دلاتا ہے جہاں حرکت کرتی ہوئی گیندیں اچانک ہی اپنے خط پرواز بدل کر واپس اصل جگہوں پر آ جاتی ہیں۔ اصل میں ہم یہ تجربہ نہیں کر سکتے تاہم ہم اس کا تصور کر سکتے ہیں۔ لیکن ذرا سوچیں کہ اس سادہ جملے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر جوہر کے مقام کا تعین درستگی کے ساتھ کیا گے ہوں اور ساتھ ہی میں اس کی سمتی رفتار کو بھی درستگی کے ساتھ معلوم کیا گیا ہو، اور پھر ان کو اس وقت الٹا دیا گیا ہو جب جوہر اسی درست مقام پر موجود ہوں۔ لیکن کوانٹم طبیعیات ہمیں بتاتا ہے کہ یہ ناممکن ہے! کسی بھی جوہر میں یہ دو خصائل (درست مقام اور درست سمتی رفتار)بیک وقت نہیں ہو سکتے۔ فطرت کے قوانین، جتنا اچھا ان کو آج تک سمجھا گیا ہے، اس بات کو اصولی طور پر ناممکن بناتے ہیں کہ گیس میں موجود ہر جوہر کی سمت الٹ جائے، ایسا صرف ان عملی مشکلات کی وجہ سے نہیں ہے جو انسانوں کی قابلیت میں رکاوٹ ہیں۔ کوئی ایسا طاقتور جادو موجود نہیں ہے جو اس کام کو کر سکے۔ لہٰذا ایک مرتبہ پھر ہمارا واسطہ ایک ایسے نظام سے پڑا جو قابل الٹ تو لگتا ہے تاہم درحقیقت وہ بھی ناقابل الٹ ہے۔

یہ بہت ہی سادہ پریگو جوائن کے حر حرکیات کی از سر نو تشریح کے ایک زاویہ کی توضیح ہے۔ تاہم اس کے پیغام کا خلاصہ بہت ہی سادہ اور اہم ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ہم کتنا ہی لمبا عرصہ بیٹھ کر نیم گرم کافی کے کپ کا مشاہدہ کریں، یہ کبھی بھی برف کے ٹکڑے کو بنا کر خود سے گرم نہیں ہوگا، قطع نظر اس بات سے کہ ہم کتنا لمبا عرصہ بیٹھ کر گیس کے ڈبے کو دیکھیں، یہ کبھی بھی ڈبے کے آدھے حصے میں جمع نہیں ہوگا اور ہم کبھی اسے اسی کم ناکارگی کی حالت میں نہیں دیکھ سکیں گے۔ حر حرکیات کا دوسرا قانون کائنات کا مطلق حکمران ہے۔

یہ تصورات کافی مشکل ہیں اور ان کو کوانٹم نظریئے کے تصور سے میل کھا کر جذب کرنا کوئی آسان نہیں ہے یعنی کہ قدرت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہے۔ پریگو جوائن کے لئے حقیقت صرف اس ناقابل الٹ عمل میں ہے جو دنیا میں جاری ہے - ہونے میں نہیں بلکہ بننے میں جیسا کہ وہ کہتا ہے۔ کیا پریگو جوائن کا حر حرکیات کا نسخہ روایتی معیاری نسخے سے بہتر ہے؟ فی الوقت یہ تو ذاتی پسند و ناپسند کی بات ہے کہ آپ کسے چاہتے ہیں؛ تاہم پریگو جوائن کے پاس اپنے حق میں ایک بہت طاقتور دلیل موجود ہے، یہ اتنی ہے کہ میں تو اس کی طرف اس وقت تک ہوں جب تک وہ غلط ثابت نہیں ہو جاتا - کسی نے بھی ابھی تک حر حرکیات کے دوسرے قانون سے انحراف ہوتا ہوا نہیں دیکھا، اور تاوقتیکہ کہ ایسا ہو، بہتر لگتا ہے کہ اسے ایسے ہی قبول کیا جائے جیسا کہ یہ ہے، یعنی قدرت کا ایک ایسا قانون جو توڑا نہ جا سکے۔

کائنات کی بحیثیت مجموعی کہانی اتنی ہو گئی ہے جتنی ہمیں بحث کرنے کے لئے درکار ہے۔ ہم ایک بڑھتے ہوئے ناکارگی کے علاقے میں رہتے ہیں، ایک پھیلتا ہوا تاریک خلاء کا بلبلہ جس میں کچھ روشن روشنیاں، ستارے اور کہکشائیں موجود ہیں۔ وقت ایسے بہتا ہے جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں، عظیم دھماکے سے آگے کی طرف بڑھتا ہوا اومیگا پائنٹ تک کائنات کی موت تک جاتا ہوا۔ جیسا کہ معلوم ہوا ہے کہ کائنات کا حتمی مقدر کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس میں کتنا مادّہ موجود ہے، نا صرف ان روشن ستاروں میں بلکہ ستاروں اور کہکشاؤں کے درمیان تاریکی میں بھی۔ تاہم اس کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ کس طرح کائنات اپنی دور حاضر کی شکل میں آئی - اور فی الوقت کونیاتی نظریات میں سب سے بہتر حقیقت میں بولٹز مین کے وجدان میں شاندار پون کیئر کا چکر ہے۔ مستقبل کو جاننے کے لئے ماضی کو سمجھنا ہوگا۔ جس کائنات میں ہم رہتے ہیں اس کی ہئیت سمجھنے کے لئے اور اس کے ممکنہ مقدر میں جھانکنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ یہ کہاں سے آئی ہے اور یہ کس طرح سے ایسے بن گئی ہے جس کو ہم آج دیکھتے ہیں۔ اور ہماری اس فہم کا آغاز کائنات کی سحابیوں کی سلطنت کا مشاہدہ کرکے شروع ہوتا ہے ۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب دوم - 1

سحابیوں کی مملکت


ہم جس کائنات میں رہتے ہیں یہ بہت ہی بڑی اور لگ بھگ خالی ہے۔ ہمارے سورج کی طرح روشن ستارے ایک گروہ میں رہتے ہیں جس کو کہکشاں کہتے ہیں اس میں ایک کھرب (دس لاکھ دس لاکھ) ستارے تک موجود ہو سکتے ہیں۔ ستارے آپس میں ایک دوسرے سے کس قدر دور ہیں اس کے بارے میں کچھ معلومات تو رات کے تاریک آسمان کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے، جب اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اس روشنی کا ہر نقطہ جو ہم دیکھتے ہیں وہ ایک ستارہ ہے، اور ان میں سے ہر ستارہ لگ بھگ اتنا ہی روشن ہے جتنا کہ ہمارا اپنا سورج۔ جب ہم تاریک ترین رات میں جس میں چاند بھی نہ ہو شہر کی روشنیوں سے دور آسمان کو دیکھتے ہیں تو اس وقت بھی ہم ننگی آنکھ سے دو ہزار سے زیادہ ستاروں کو نہیں دیکھ سکتے۔ روشنی کی وہ مدھم پٹی جس کو ہم ملکی وے کہتے ہیں یہ خلاء میں ہمارے جزیرے کے باقی نشان ہیں، کروڑوں ستاروں کی روشنی مل کر بھی اس قدر مدھم اور دور ہے کہ ان کو الگ سے بغیر دوربین کی مدد سے نہیں دیکھا جا سکتا۔

ان تمام باتوں کے باوجود ستاروں کی ملکی وے کہکشاں بھی بذات خود خلاء میں ایک جزیرے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے، کائناتی منظر میں اس کی حیثیت فقط ایک نقطے جیسی ہے۔ جس طرح سے ہماری کہکشاں میں کھربوں ستارے موجود ہیں، اسی طرح سے خلاء میں دوسری کروڑوں کہکشائیں، پوری کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں، اور یہ ایک دوسرے سے ملکی وے کے حجم کی نسبت سینکڑوں یا ہزار ہا گنا زیادہ فاصلے پر ہیں۔

قدرت اور پوری کائنات کے ارتقاء کا مشاہدہ کرنے والے ایک عالم تکوینیات کے لئے ایک کہکشاں کی اہمیت کچھ خاص زیادہ نہیں ہوتی۔ ایک انسان کے لئے جو ایک ایسے چھوٹے سیارے پر رہتا ہے جو ایک معمولی ستارے کے گرد اوسط قسم کی کہکشاں میں دور افتادہ علاقے میں چکر لگا رہا ہے، ایک کہکشاں - ہماری ملکی وے - ہی وہ سب سے بڑی چیز ہے جس کے بارے میں ہم اپنے علم سے ادراک حاصل کر سکتے ہیں، اور بڑی چیزوں میں نظر آنے والی چیز میں میں سے یہ ایک ہے۔

کائنات کے بارے میں سب سے بہترین اور جدید فہم بتاتا ہے کہ یہ بگ بینگ کی تخلیق میں آگ میں آج سے کچھ پندرہ ارب برس پہلے پیدا ہوئی ہے۔ ماہرین تکوینیات اب بیان کر سکتے ہیں کہ کس طرح سے کائنات فوق گرم، فوق کثیف آگ کی گیند سے ایک دوسرے سے وسیع خلاء کے فاصلوں والی جزیرہ نما کہکشاؤں کے ساتھ اس حالت میں وجود میں آئی جس حالت میں ہم اسے آج دیکھتے ہیں۔ وہ کم از کم بتا سکتے ہیں کہ بگ بینگ خود سے کیسے اور کیوں واقع ہوا اور اس کے لئے وہ اسٹیفن ہاکنگ جیسے محققین کے شکر گزار ہیں۔ اور وہ کم از کم کائنات کے حتمی مقدر کے خاکے کے بارے میں ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں۔

پوری کائنات اور ہر وہ چیز جو موجود ہے اور جس کا ہمیں علم ہے اس کے ماخذ اور مقدر کے بارے میں ہماری تفہیم حاصل کرنا ہی اس کتاب کا موضوع بحث ہے۔ تاہم یہ تفہیم اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی تھی جب تک اس بات کی دریافت نہ ہوتی کہ ہماری ملکی وے دسیوں لاکھوں کہکشاؤں میں سے صرف ایک عام سی کہکشاں ہے۔ ہماری کائنات کے ماخذ کے بارے میں تفہیم کی سائنسی تلاش - بگ بینگ کی تلاش- حقیقت میں اس وقت شروع ہوئی جب ہماری ملکی وے سے دور کہکشائیں پہلی مرتبہ واضح طور پر ہماری کہکشاں کے ستاروں کے مجموعہ کے مقابلے میں دریافت ہوئیں۔ اور یہ پائیدار شناخت صرف 1920ءکی دہائی میں ہی ہوئی۔

علم کائنات اصل میں بیسویں صدی کی ہی سائنس ہے۔ تاہم بیسویں صدی کی تمام سائنس کی طرح اس کی جڑیں قدرتی فلسفیوں اور پرانے مابعد طبیعیات دانوں کی پیشن گوئیوں تک جاتی ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب دوم - 2
سحابیہ ایک حقیقی نظریہ - حصّہ اوّل




قدیم یونانیوں اور رومیوں کے لئے زمین کائنات کا مرکز اور اس کا سب سے اہم جز دونوں ہی تھی۔ ہرچند کہ یونانی فلسفیوں کے پاس چاند کے فاصلے کے بارے میں ٹھوس علم تھا، تاہم یہ صرف سترویں صدی میں دوربین کی ایجاد کے بعد ہی ممکن ہوا تھا کہ کوئی بھی ستارے کی دوری کو ٹھیک طرح سے سمجھنا شروع کر سکے۔ گیلیلیو فلکیات کے مشاہدے کے لئے دوربین کا استعمال کرنے والا پہلا شخص تھا، اور وہ یہ دریافت کر کے حیران تھا کہ دوربین کی بڑا کرنے کی طاقت کی مدد کے باوجود بھی ستارے سورج یا سیاروں کے کرہ کی طرح روشنی کے فقط نقطوں کی طرح ظاہر ہو رہے تھے۔ اس کا یہی مطلب ہو سکتا تھا کہ وہ سورج اور سیاروں سے بہت ہی دور تھے۔ اس نے دوربین کی مدد سے کثیر ستاروں کو دیکھا جو ننگی انسانی آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے تھے، اور اس کی دوربین نے ملکی وے کو بذات خود انفرادی ستاروں کے مجموعہ سے مل کر بنتا ہوا دیکھا۔ اسی وقت جب سترویں صدی کی ابتداء میں گیلیلیو کائنات کے مشاہدے کے لئے ایک نئی کھڑکی کھول رہا تھا، جوہانس کیپلر ہمارے اپنے پچھواڑے یعنی نظام شمسی کی نظریاتی تفہیم کے لئے بنیاد ڈال رہا تھا۔ اس کی اس دریافت نے جس میں سورج کے گرد مدار میں سیارے ایک مرتبہ چکر مکمل کرنے میں کتنا وقت لیتے ہیں اور سورج سے سیارے کے اوسط فاصلے کی نسبت نے 1670ءمیں زمین سے سورج کے فاصلے کے بارے میں معقول حد تک درست اندازہ لگانے میں مدد دی، اب ہم جانتے ہیں کہ یہ فاصلہ 15 کروڑ کلومیٹر کا ہے۔ کیپلر کے مشاہدے نے نیوٹن کی قوّت ثقل کے مطالعے کی بنیادوں میں سے ایک کو فراہم کیا۔

فلکیات دانوں کو دونوں کے مشاہدات اور نظریات کو بہتر کرنے میں مزید 150 برس لگ گئے اور 1830ء کی دہائی میں پہلی مرتبہ چند ستاروں کے فاصلے کے بارے میں درست اندازہ قائم کیا۔ اس طرح اور بیسویں صدی کے میں لگائے گئے اندازے دور دراز کہکشاؤں تک کے فاصلے کی پیمائش کرنے کے لئے سیڑھی کا پہلا قدم بنے۔ تاہم اس سے پہلے جب سیاروں کا صحیح فاصلہ معلوم تھا تو سترویں صدی کی انقلابی دریافتوں نے کائنات کی ایک نئی تصویر دے دی تھی، یہ تصویر پرانے زمین کے گرد شیشے کے گولے کی تصویر کے مقابلے میں وسیع عظیم پیمانے کی تھی اور یہ زحل کے مدار سے تھوڑی سا اور آگے چلی گئی تھی۔ اٹھارویں صدی میں، چند فلسفیوں نے ان نئی دریافتوں کو تصویر کی صورت میں دیکھنا شروع کیا، ملکی وے کا ایک خیالی نمونہ بنایا اور کائنات میں اس کے مقام کا تعین کیا۔ یہ نمونہ حیرت انگیز طور پر جدید سوچ کے قریب تر ہے، اور اس نے فلسفیوں اور فلکیات دانوں کے درمیان دو صدیوں تک باقی رہنے والے دور میں بحث کو باقی رکھا۔

کائنات کے نئے نظریئے - پہلے جدید کائناتی نظرئیے - کا سہرا انگلستان کے رائٹ ڈرہم کو جاتا ہے۔ رائٹ ایک انگریز فلسفی تھے جو 1711ء میں پیدا ہوئے، وہ اپنے دور کے دوسرے فلسفیوں کی طرح مختلف نوع کے موضوع میں دلچسپی لیتے تھے جس میں فلکیات بھی شامل تھی۔ وہ ایک بڑھئی کے بیٹے تھے، اور فلکیات میں ان کی دلچسپی کا سبب بچپن کے ایک استاد تھے۔ تاہم ان کی رسمی تعلیم بولنے میں زبردست لکنت کی وجہ سے کم ہو گئی تھی، اور کچھ عرصے وہ بے لگام رہا، اس نے یہ بات ہمیں اپنے جریدہ کے ذریعہ بتائی ، 'کھیل کا کافی نشہ ہو گیا تھا'۔ تیرہ برس کی عمر میں وہ گھنٹے اور گھڑی سازی میں مبتدی بن گیا جہاں اس نے چار برس کام کیا تاہم وہ اپنی والدہ کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے اپنا فالتو وقت فلکیات کے مطالعہ میں گزارتا، تاہم اس کا والد اس کے سخت خلاف تھا، اور وہ ہر وہ حربہ استعمال کرتا جس سے اس کو اس مطالعہ سے روک سکے، یہاں تک کہ نوجوان تھامس کی کتابوں کو بھی اس نے آگ لگا دی۔ اپنے عہد شباب کے ہنگامہ خیز برسوں کے دوران رائٹ نے ملاح کی زندگی گزارنے کی بھی کوشش کی، تاہم اس زندگی کو اپنے پہلے سفر کے دوران زبردست طوفان کا سامنا کرنے کی وجہ سے چھوڑ دیا، اس کے بعد وہ سندرلینڈ میں اس کی تعیناتی بطور ریاضی کے معلم کی ہوئی ، جہاں اس کو پادری کی بیٹی سے تعلقات قائم کرنے کے الزام کا سامنا کرنا پڑا، پھر اس نے جہاز رانوں کو سمندری راستوں کے متعلق پڑھانا شروع کیا، اور پھر 1730ء میں اس نے (ابتداء میں ایک بد دیانت پبلشر کے ہاتھوں مصیبت اٹھانے اور جنتری بنانے کی ناکام کوشش کے بعد) کامیابی اور خوش اقبالی کو سمیٹنا شروع کیا۔ زبان کی لکنت اگر چہ اب موجود بھی تھی تاہم نوجوان آدمی کی خود اعتمادی اور اعتماد بالنفس کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ وہ شاندار گھر (یا کوئی بہتر) کو خریدنے کی نیت سے دیکھ سکتا تھا، فطری فلسفے، ریاضی یا بحری سفر کی نجی بیٹھک لگا سکتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ کامیاب کتابیں اور اعلانات شایع کروا سکتا تھا۔ 1742ء تک اس کی شہرت اس طرح کی ہو گئی تھی کہ رائٹ کو سینٹ پیٹرزبرگ میں واقع امپیریل اکیڈمی میں بحری سفر کے راستوں کا پروفیسر بننے کے لئے 300 پاؤنڈ سالانہ تنخواہ پر مدعو کیا گیا؛ اس نے اس نوکری کو اس وقت رد کر دیا جب انہوں نے اس کی تنخواہ کو 500 پاؤنڈ تک بڑھانے سے انکار کیا۔ لہٰذا وہ کامیاب، تعلیم یافتہ (اگرچہ زیادہ تر خود ہی سے پڑھا تھا) اور اپنے دور کا معقول حد تک جانے جانا والا فلسفی تھا، تھامس رائٹ نے 1750ء میں اپنے کام کو بعنوان اصلی نظریہ یا کائنات کا نیا مفروضہ کے نام سے شایع کیا۔ یہی وہ کام ہے جس کی وجہ سے وہ آج جانا جاتا ہے، سائنس کی تاریخ میں اس کی کتاب کا وہ مقام اور اہمیت ہے جس کی وجہ سے یہ کتاب 1971ء میں دوبارہ فیکس کی صورت میں شایع ہوئی۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب دوم - 3
سحابیہ ایک حقیقی نظریہ - حصّہ دوم



سترہویں صدی کی ابتداء میں، گیلیلیو کی انقلابی دریافتوں کے ایک سو سال بعد، یہ بات وسیع پیمانے پر فلسفیوں میں تسلیم کی جانے لگی کہ ستارے لازمی طور پر دور دراز کے اجسام ہیں جو اس وجہ سے (چاند کی طرح) نہیں چمکتے کہ سورج کی روشنی کو منعکس کریں بلکہ سورج کی طرح اپنی روشنی سے چمکتے ہیں۔ کیونکہ دوربینوں سے یہ نہیں دیکھا جا سکتا کہ ستارے قرص کی طرح سے ہیں لہٰذا حقیقت بات یہ ہے کہ وہ لازمی طور پر بہت ہی زیادہ دور ہوں گے۔ رائٹ کے ہم عصروں میں اگرچہ تمام نے تو نہیں تاہم اکثریت نے یہ دلیل دی کہ کیونکہ وہ روشن ترین جسم جس کو ہم جانتے ہیں وہ سورج ہے، لہٰذا اسی مناسبت سے سب سے بہتر خیال جو ہم ستاروں کے بارے میں لگا سکتے ہیں وہ یہ کہ یہ مقابلتاً روشن جسم ہیں اور ہم سے مناسب دور فاصلے پر موجود ہیں۔ کچھ نے اندازہ لگایا کہ بظاہر آسمان پر ستاروں کے نمونے کا اٹکل پچو ہونا ہماری وجہ سے ہے یہ ایک ایسے نظام کے اندر پیوستہ ہیں جس کا نمونہ اور ساخت صرف باہر ہی سے دیکھی جا سکتی ہے - جس طرح سے جنگل کی صورت ہوتی ہے جو اس شخص سے چھپی ہوتی ہے جو اس کے اندر موجود ہوتا ہے، اور جو درختوں کی تقسیم کو اٹکل پچو ہر سمت میں دیکھتا ہے۔

ابتدائی کام میں، مائیکل ہوسکن ایک اصلی نظرئیے کے 1971ء کے نسخے کے تعارف میں بیان کرتے ہیں، رائٹ نے کائنات (جیسا کہ اب ہم اس کو کہتے ہیں ) کو ایک کرے یا ستاروں سے بھری گیند جیسا سمجھا، اور سمجھایا کہ کس طرح سے ان ستاروں میں سے کسی ایک کے گرد چکر لگاتی ہوئی زمین پر بیٹھا ہوا شاہد قریبی ستاروں کو روشن اور صاف دیکھے گا، جبکہ دوسرے اتنے دور اور مدھم ہوں گے کہ دوربین کے بغیر نظر نہیں آئیں گے، اس کے باوجود کچھ فاصلے پر موجود ستارے اتنے مدھم ہوں گے کہ وہ آسمان کا چکر لگاتے ہوئے روشنی کی پٹی سی لگیں گے۔ یہ تفصیل ملکی وے پر لاگو ہونا شروع ہو گئی، بجز اس کے کہ رائٹ نے اگرچہ پہلے تو نہیں تاہم بعد میں اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ اگر ہمارے ارد گرد تمام اطراف میں ستاروں کی برابر تقسیم ہوتی تب پورے آسمان کو اس طرح چمکنا ہوتا جس طرح سے ملکی وے کی پٹی چمکتی ہے۔ 1750ء تک، ایک اصلی نظرئیے میں رائٹ نے یہ وجہ تلاش کر لی تھی کہ آیا کیوں ملکی وے آسمان پر ایک پٹی کی طرح لگتی ہے۔ ہمیں تصور کرنا ہو گا، وہ کہتا ہے، ' تمام ستارے ایک ہی سمت میں حرکت کر رہے ہیں، اور ایک سطح سے زیادہ انحراف نہیں کر رہے، بعینہ جیسے مہر آفتاب حرکت میں سیارے شمسی جسم کے گرد کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، ہمارا سورج ایک چپٹی قرص کا ایک ستارہ ہے جو ستاروں کی ایک عظیم بھیڑ ہے یہ کوئی خلاء کا کروی جسم نہیں ہے۔ جب ہم قرص کے ساتھ اس مرکز کے طرف دیکھتے ہیں جہاں تمام ستارے چکر لگاتے ہیں، تو وہاں ہم ستاروں کی بہتات کو دیکھتے ہیں جو مل کر وہ روشنی کی پٹی بناتے ہیں جس کو ہم ملکی وے کہتے ہیں۔ تاہم جب ہم اس مہین قرص کے نیچے یا اوپر خلائے بسیط میں دیکھتے ہیں تو ہم صرف چند قریبی ستاروں کو دیکھ سکتے ہیں اور کوئی روشنی کی پٹی نظر نہیں آتی کیونکہ وہاں پر بہت زیادہ ستارے دیکھنے لائق موجود نہیں ہیں۔ حقیقت میں، رائٹ کا ستاروں کے نظام کا تصور کافی حد تک زحل کے حلقوں جیسا تھا، جس میں بجائے ٹھوس قرص کے مرکزی جوف ہے۔ اور ایمانداری کی بات ہے، اس کی ملکی وے کی ماہیت سے متعلق اندازہ لگانے کی وجہ وہ نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ سائنس و فلسفے میں اپنے اہم ترین کام کی وجہ سے جانا جائے، کیونکہ اس کی اصل دلچسپی ان موضوعات میں تھی جو آج بنیادی طور پر مذہب کا علاقہ سمجھے جاتے ہیں۔ بے شک، جو رائٹ کی گہری بصیرت لگتی ہے اس کو ایک طرف کر دیں، کیونکہ اس نے اپنی کتاب کے آخر میں خلاصہ پیش کیا اس نے ہر چیز اٹھا کر پھینک دی۔ ملکی وے کی ظاہری صورت کی تشریح کرنے میں وہ اس جگہ چلا گیا جو خلاء کے اس جزیرے سے باہر موجود ہو سکتی تھی۔ جس کو ہم اب کہکشاں کہتے ہیں رائٹ اس کو کائنات یا تخلیق کہتا تھا، اور اس نے تمام ستاروں کے بارے میں تصور کیا کہ وہ اپنے نظام ہائے سیارگان کے ساتھ موجود ہوں گے، فلکیاتی نظام جس طرح ہمارا نظام شمسی ہے۔ 'جیسا کہ نظر آنے والی تخلیق نظام ہائے سیارگان اور سیاروں کی دنیا سے لبریز فرض کی گئی ہے '، وہ لکھتا ہے، 'بعینہ اسی طرح نہ ختم ہونے والی عظمت معلوم کائنات سے الگ لامحدود تخلیق کی بھری مجلس ہے۔ ' دوسرے الفاظ میں، رائٹ نے خلاء کی عظمت کا تصور اس طرح سے لگایا کہ ہماری ملکی وے کہکشاں سے دور خلاء میں دوسری کہکشائیں بھی موجود ہیں۔ بلکہ اس نے تو یہاں تک تجویز کیا کہ آسمان پر مدھم روشنی کے پیوند، جو سحابیہ کہلاتے ہیں، اور دوربین کی مدد سے نظر آتے ہیں ان کو ستارے نہیں کہا جا سکتا، 'خارجی تخلیقات [کہکشائیں ]، جانی پہچانی کہکشاں کی سرحد کے پاس، اتنے دور ہو سکتی ہیں کہ ہماری دوربینوں کی بھی رسانی اس تک نہ ہو سکے۔ '

ان الفاظ کے ساتھ، رائٹ نے ہماری کہکشانی اور کائنات کی ماہیت سے متعلق سمجھ بوجھ کی ابتداء کی، اور ایک ایسی چنگاری لگائی جو بتدریج شعلے میں بدلتی گئی، ابتداء میں اگرچہ فلسفی ایمانیول کانٹ اور فلکیات دان ولیم ہرشل کے کام نے بھی اس آگ کو جلانے میں مدد دی۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب دوم - 4​
ایک سحابی مفروضہ




کانٹ فلسفی کی حیثیت سے زیادہ بہتر طور پر جانا جاتا ہے، وہ اول درجے کا فلسفی تھا، جس کی تعلیمات کا اثر پچھلے دو سو برس سے تمام فلسفیانہ سوچ پر ہے، لیکن اس کے باوجود، یہ حیرت انگیز بات ہے کہ اس کا نام انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں بمشکل فلکیات میں دلچسپی لینے والوں کے اندراج میں موجود ہے۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کانٹ کے ابتدائی کام کا ذکر 'قدرت کی عمومی تاریخ اور افلاک کا نظریہ' جو 1755ء میں شائع ہوئی تھی اس میں اس کا نام ہے ہی نہیں۔ رائٹ کے کام' ایک اصلی نظریہ 'سے بہت ہی زیادہ متاثر، جو اس کی اپنے افلاک کے نظریئے سے پانچ برس پہلے آئی تھی، کانٹ نے کائنات کی ماہیت کے بارے میں اندازے پیش کئے جو رائٹ کے تصور سے کہیں زیادہ واضح اور بیسویں صدی کے مشاہدات پر مبنی لگ بھگ کائنات کی حالیہ تصویر سے دور اندیشانہ طور پر مماثلت رکھتے ہیں۔ کانٹ نے کبھی تجربات یا مشاہدات نہیں کئے تھے، اور برسوں تک وقتاً فوقتاً اس کا تمسخر 'آرام کرسی پر بیٹھا ہوا سائنس دان' کہہ کر اڑایا جاتا تھا، یعنی ایسا سائنس دان جو بیٹھ کر دوسروں کی دریافتوں پر اندازے لگاتا ہے۔ اس کی طرح کی صرف چند ایک ہی سائنس دان تھے - جیسا کہ آئن سٹائن جو کسی عملی مہارت کے بجائے صرف اپنی دماغی طاقت پر بھروسہ کرتا تھا۔

کانٹ اس وقت مشرقی پرشیا میں واقع کونیگزبرگ (اب جمہوریہ روس میں واقع کلیننگرڈ) میں 1724ء میں پیدا ہوا۔ اس کا خاندانی نام اسکاچی ترک وطن کرنے والوں سے آیا جو کانٹ کہلاتے تھے، اس کے دادا جو وہاں بس گئے تھے انھوں نے اس کا نام جرمنی کے لوگوں کی طرز پر کر دیا؛ ایمانیول کانٹ کے والد کاٹھی بنانے والے تھے، اور یہ خود غریب خاندان کے گیارہ بہن بھائیوں کے کنبے میں چوتھے نمبر پر تھا، یہ ان بچوں میں سب سے بڑا تھا جو بلوغت کی حد تک پہنچے تھے۔ اس کے والدین دین دار لوتھری تھے، اور یہ ان کے پادری ہونے کا ہی اثر تھا کہ نوجوان ایمانیول نے اپنا پہلا قدم رسمی تعلیم کے لئے اٹھایا۔ حقیقت میں وہ کونیگزبرگ یونیورسٹی میں بطور نظریاتی طالبعلم کے داخل ہوا؛ تاہم ریاضی اور طبیعیات کے مضامین نے اس کی توجہ حاصل کر لی اور ان ہی پر اس نے اپنی زیادہ توجہ مرکوز رکھی۔ اس کے بعد اس نے تعلیمی طرز معاش اختیار کیا، تاہم جب اس کے والد کا انتقال 1746ء میں ہوا تب ایمانیول کو یونیورسٹی کو خیر آباد کہنا پڑا اور اس کے بعد وہ بطور نجی معلم پڑھانے لگا - یہ کسی بھی طرح سے غیر موافقت معاش نہیں تھا، کیونکہ اگلے نو برسوں کے دوران اس کے تین آجر معاشرے میں اثر و رسوخ رکھنے والے خاندان تھے جنہوں نے اس کو نئی طرز زندگی اور حلقہ احباب سے متعارف کروایا۔ یہ اس دور کے دوران ہوا جب کانٹ نے اپنی زندگی کا طویل ترین سفر کیا، یعنی اس نے اپنے قصبے ارنسڈورف سے ساٹھ میل کا سفر کیا۔

1755ء میں کانٹ بالآخر یونیورسٹی میں بطور لیکچرار کے نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ باوجود اس کے کہ اس کو دوسری یونیورسٹیوں میں اچھے مقام کی پیش کش ہوئی، اس نے اپنی پوری زندگی کونیگزبرگ میں ہی گزار دی، 1770ء میں وہ منطق اور مابعد طبیعیات کا پروفیسر بنا اور اس مقام پر وہ ستائیس برس تک براجمان رہا۔ اس کا انتقال 1804ء میں ہوا۔ تاہم وہ کام جس کے لئے اسے ہمیشہ عالم تکوینیات یاد رکھیں گے وہ اس وقت مکمل ہوا جب وہ ایک معمولی نجی معلم تھا، اور اس کا یہ کام اس برس شایع ہوا تھا جب اس نے یونیورسٹی میں پہلی مرتبہ رسمی طور پر نوکری کو قبول کیا تھا۔

رائٹ کی کتاب ایک اصل نظریئے نے کبھی بھی مقبولیت کا مزہ نہیں چکھا تھا اور جلد ہی وہ نایاب ہو گئی تھی۔ کانٹ نے ، جہاں تک ہم جانتے ہیں، کبھی اس کتاب کا خود سے مطالعہ نہیں کیا، تاہم وہ رائٹ کے خیالات سے کتاب پر ہونے والے لمبے تبصروں کے ذریعہ آگاہ ہوا، جو ہیمبرگ جریدے میں 1751ء میں شایع ہوئے تھے۔ کانٹ نے جو مسرت کے ساتھ تبصرے پڑھے تھے ان میں رائٹ کے وہ اقوال بھی شامل تھے جو نہ صرف درست تھے بلکہ رائٹ کی اپنی کتاب کے مقابلے میں زیادہ واضح تھے، کیونکہ اس میں صرف رائٹ کے خیالات کا مرکزی خیال شامل تھا، جس میں ملکی وے کو ستاروں کا مجموعہ بتایا گیا تھا 'تمام کے تمام ایک ہی سمت میں حرکت کر رہے ہیں، اور ایک سطح سے بہت زیادہ انحراف نہیں کر رہے۔ ' کانٹ نے اس موضوع گفتگو کی اپنی کتاب میں تفصیلی وضاحت کی، اور رائٹ کی نسبت بہت زیادہ قوی دلائل روشنی کے دھندلے پیوندوں، سحابیہ، کی ماہیت کے بارے میں دیئے، جن کو دوربینوں کی مدد سے تو دیکھا جا سکتا ہے تاہم انھیں واضح طور پر انفرادی ستاروں کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ ایڈون ہبل نے جو بیسویں صدی کا ممتاز عالم تکوینیات تھا اپنی کتاب سحابیہ کی بادشاہت میں افلاک کے نظریئے کے ایک اہم حصّے کا اچھا ترجمہ کچھ یوں کیا:
اب میں نظام کے دوسرے حصّے کی طرف آتا ہوں، اور کیونکہ یہ تخلیق کے منصوبے سے متعلق با وقار تصور پیش کرتا ہے، لہٰذا یہ مجھے سب سے زیادہ دلفریب لگتا ہے۔ خیالات کا وہ سلسلہ جو ہمیں یہاں تک لے جاتا ہے بہت ہی سادہ اور قدرتی ہے۔ وہ درج ذیل ہیں : ایک عام سطح پر ستاروں کے مجموعے کے نظام کے بارے میں فرض کریں، تاہم وہ ہم سے اس قدر دور ہو کہ ہم اپنی دوربینوں سے بھی اس میں انفرادی ستاروں کی شناخت نہ کر سکیں۔ ۔ ۔ اس طرح کی نجمی دنیا اس دیکھنے والے کو جو بہت ہی عظیم فاصلے سے دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے ایسی لگے گی جیسے کہ منور چھوٹا نقطہ جو چھوٹے سے زاویے کے سامنے ہو؛ اس کی صورت کروی ہو گی، بشرطیکہ اس کی سطح خط نظر کے عمودی ہو، اور اس کی صورت بیضوی اس وقت ہو گی جب وہ ترچھی ہو۔ روشنی کا دھندلا ہونا، اس کی صورت اور اس کا قابل قدر قطر واضح طور پر اس طرح کے مظہر کو اس کے گرد موجود الگ ستاروں سے مختلف دکھائے گا۔​

ہمیں اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم اس طرح کے مظہر سے ملنے کے لئے فلکیات دانوں کے دور کے مشاہدات کو دیکھیں۔ ان کو کئی ماہرین فلکیات دیکھ چکے ہیں جو ان کی عجیب و غریب وضع کو دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔ (2008ء)۔

ہبل کانٹ کی دلیل سے خوش تھا کیونکہ اس کی بنیاد اس چیز پر تھی جس کو آج ہم یکسانیت کا قانون کہتے ہیں، یا تھوڑا طنزیہ طور پر، خاکی اوسط کا اصول بھی کہتے ہیں۔ یہ بتاتا ہے کہ ہم کائنات کے عام سے نوعی حصّے میں رہتے ہیں، اور کائنات کو کوئی بھی دوسرا نوعی حصّہ بالکل ہماری بستی جیسا ہی دکھائی دے گا۔ ہم ایک عام سی کہکشاں میں رہتے ہیں، کانٹ ایک طرح سے کہتا ہے، اور دھندلے سحابیہ جو فلکیات دانوں کو دکھائی دیتے ہیں یہ کوئی نیا مظہر نہیں ہیں بلکہ ہماری طرح کی عام کہکشائیں ہیں۔ کوئی بھی جو ان کہکشاؤں کے کسی بھی ستارے کے گرد چکر لگانے والے سیارے پر رہتا ہو گا وہ ہماری ملکی وے کہکشاں کو روشنی کے ایک دھندلے پیوند سے زیادہ نہیں دیکھ سکے گا جو بمشکل اس کی دوربین سے نظر آئے گی۔ اور جیسا کہ تصور کو واضح طور پر پہلی مرتبہ پیش کر دینا ہی کافی نہیں تھا، کانٹ کو عمومی طور پر 'جزیرہ نما کائنات' کی اصطلاح ایجاد کرنے کا سہرا دیا جاتا ہے، جس کی مدد سے وہ کہکشاؤں کو خلاء کی عظیم خالی جگہ میں پھیلا ہوا بیان کرتا تھا۔

کانٹ اور رائٹ (جن کا کام کانٹ کی تحریر کے حوالے کی صورت میں دو سو برسوں تک سب سے بہترین رہا) نے ناموری حاصل کی، تاہم یہ بات واضح طور پر اس جانب اشارہ کر رہی تھی کہ اب کسی اور کا وقت آنے والا ہے۔ جوہان لیمبرٹ جو ایک سوئس نژاد جرمن بحرالعُلُوم شخص تھا اور جس نے دوسری چیزوں کے علاوہ پہلی مرتبہ با مشقت ریاضیاتی ثبوت بھی مہیا کیا تھا کہ پائی، دائرے کے محیط کی اس کے قطر سے نسبت، غیر ناطق عدد ہے، یہ کائنات کی اسکیم سے الگ پیش کیا جانے والا کام تھا جو خود مختار طور پر آیا اور 1761ء میں شائع ہوا۔ حقیقت میں اس خط کے مطابق جو اس نے کانٹ کو لکھا تھا ( اور ہمارے پاس کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ ہم اس پر شک کریں ) لیمبرٹ نے پہلی مرتبہ ان خطوط پر 1749ء میں سوچا۔ اس نے اپنا مقالہ جب لکھ لیا تبھی اسے رائٹ اور کانٹ کے کام کا معلوم ہوا۔ 1760ء سے لے کر بعد تک، جزیرہ نما کائنات کا تصور ماہرین فلکیات میں عام تھا، اگرچہ عمومی طور پر اس کو تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ آرام داہ کرسی پر بیٹھے ہوئے سائنس دانوں نے اپنے وہ خیالات پیش کر دیئے تھے جہاں تک وہ کائنات کے دستیاب محدود مشاہدات کے بل بوتے پر سوچ سکتے تھے، اور اب یہ مشاہدہ کرنے والوں کا وقت تھا جو ایک مرتبہ پھر فلکیاتی سیج کا مرکز نگاہ بننے جا رہے تھے۔ بیسویں صدی سے پہلے تک مشاہدات اس قابل نہیں تھے کہ خود سے 'سحابیہ ہی کہکشاں ہیں' کے مفروضے کی حتمی جانچ کو کر سکیں، اور پھر بڑھتے ہوئے سیلاب میں آرام داہ کرسی پر بیٹھے ہوئے نظری سائنس دانوں کے پاس نئی اطلاعات کی لہر آ گئی جس کو وہ ہضم کر کے نئی تصورات کو پیش کرنے کی کوشش کرنے لگے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب دوم - 5
کائنات کا مشاہدہ - حصّہ اوّل


اٹھارویں صدی کے چند شاہد سحابیہ میں خود سے دلچسپی لے رہے تھے، تاہم کئی دوسروں کی دلچسپی کا محور دم دار تارے تھے۔ دم دار ستاروں کی سائنسی اہمیت کو اگر چھوڑ دیں تب بھی ان کی دریافت نے کئی ماہرین فلکیات کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا، اور نئے دم دار ستارے روایتی طور پر اپنے دریافت کنندہ کے نام پر رکھے جانے لگے (اور اب بھی ایسے ہی ہوتا ہے )۔ ایڈمنڈ ہیلے جس کا نام شاید ہمیشہ کے لئے دم دار تاروں کے ساتھ جڑا رہے گا، اس کی وفات 1742ء میں ہی ہو گئی تھی جس کی وجہ سے اس کا وہ دعویٰ نہیں جانچا جا سکا تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ 1456ء، 1531ء، 1607ء، اور 1682ء میں دیکھا جانے والا دم دار تارہ اصل میں ایک ہی تارہ ہے جو نظام شمسی کے اندرونی حصّے میں ظاہر ہوتا ہے، اور اس نے پیش گوئی کی کہ اس کی واپسی دوبارہ 1758ء میں ہو گی۔ جب وہ اپنے جدول کے مطابق نمودار ہوا، ہیلے کا تاریخ میں مقام پکا ہو گیا تھا، اس کے ساتھ ہی اٹھارویں صدی کے دوسرے نصف حصّے میں فلکیات دانوں کی دم دار ستاروں کو ڈھونڈنے کی چاہت میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ تاہم دم دار تاروں کی ایک بری چیز یہ ہے کہ جب ان کی اوّلین شناخت کی جاتی ہے تو یہ دوربین سے دیکھنے پر روشنی کے دھندلے پیوند کی طرح نظر آتے ہیں، بعینہ سحابیہ کے جسے جس کو دیکھ کر کانٹ بہت زیادہ متحیر ہو گیا تھا۔ کئی فلکیات دان سوچتے تھے کہ ان کی لاٹری لگ گئی ہے، تاہم ان کی امیدوں پر اس وقت اوس پڑ جاتی جب مسلسل راتوں کے مشاہدے کے بعد معلوم ہوتا کہ جو روشنی کا پیوند انھوں نے دریافت کیا ہے وہ سورج سے قریب ہونے پر بھی اپنی بڑھوتری اور روشنی میں اضافے کا کوئی اشارہ نہیں دے رہا، بلکہ وہ ہمیشہ ایک ہی جیسا رہتا ہے۔ ماہرین فلکیات کو تمام معلوم پائیدار سحابیوں کی فہرست درکار تھی تاکہ وہ نئے دم دار تاروں کے چکر میں بیوقوف نہ بن جائیں۔ اور اس قسم کی پہلی مہذب فہرست چارلس میسی نے بنائی، جو ایک فرانسیسی فلکیات دان تھا، اس نے اپنے اس محنت طلب کام کو 1760ء اور 1784ء کے درمیان ترتیب دیا تھا۔ روشن ترین سحابیہ، ستاروں کے جھرمٹوں کے ساتھ دیکھے اور شناخت کئے گئے، اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ میسی ان کو خاص اہمیت دیتا تھا، بلکہ یہ اس کو دم دار ستاروں کے ڈھونڈنے کے کام کے دوران تنگ کرتے تھے لہٰذا اس نے ان کی الگ شناخت کی کہ 'ان کو الگ رکھو، یہ دم دار تارہ نہیں ہے '۔ فہرست نے اپنا مقصد بہت اچھی طرح پورا کیا؛ میسی نے خود سے کم از کم پندرہ دم دار تارے دریافت کئے (کچھ لوگ اکیس تک کا دعویٰ بھی کرتے ہیں )۔ اور جب ایک ماہر فلکیات نمودار ہوا جو خود ہی سے سحابیوں میں دلچسپی لیتا تھا، اور میسی کی فہرست نے اس کو اپنے خود کے مشاہدات کے لئے قابل قدر آغاز فراہم کیا۔

یہ ماہر فلکیات ولیم ہرشل تھا۔

ہرشل 1738ء میں ہین اورین پیدا ہوا تھا۔ اپنے باپ کی طرح وہ ہین اورین گارڈز کے بینڈ باجے میں ایک موسیقار تھا، اور اس نے 1756ء میں بینڈ کے ساتھ انگلستان کا دورہ کیا۔ ایک سال بعد، فرانس کے ساتھ ایک چھوٹی سی جھڑپ ہین اورین پر قبضے کا باعث بنی، اور ہرشل نے انگلستان میں مستقل سکونت اختیار کر لی، جہاں پر وہ موسیقی کے استاد، اداکار اور موسیقار کی حیثیت سے کام کرنے لگا 1766ء تک وہ باتھ میں واقع اوکٹاگون چیپل میں ارگن بجانے والے کی حیثیت سے بھرتی ہو گیا۔ آہستہ آہستہ علم فلکیات میں اس کی دلچسپی، جو شروع میں شوقینی کی حد سے زیادہ کی نہیں تھی، ایک جذبہ بن گیا، اور وہ نا صرف سورج، چاند اور سیاروں کے مشاہدے میں جت گیا جس طرح اس وقت کے زیادہ تر ماہرین فلکیات کرتے تھے، بلکہ وہ جس قدر بعید ترین اور دھندلے اجسام کا مطالعہ کر سکتا تھا اس نے وہ بھی کیا۔ اس شوق نے اس کو مجبور کیا کہ وہ دوربین بنانے کا ماہر بن جائے، اس نے اپنے استعمال میں شیشوں کو چمکایا تاکہ ان کا استعمال ان آلات میں کیا جا سکے جو اس کو وہ دھندلے فلکی اجسام دکھا سکیں جن کو اس سے پہلے کسی نے بھی نہیں دیکھا تھا، اور اس نے ان معلوم اجسام کے متعلق نئی تفصیلات فراہم کیں۔ اس کی بہن کیرولن جو اس کے ساتھ باتھ میں 1722ء میں مل گئی تھی وہ بھی فلکیات کا یہی شوق رکھتی تھی، اور وہ اس کے معاون کے طور پر دونوں جگہ

دوربین کو بنانے اور مشاہدات کرنے میں ہاتھ بٹانے لگی۔ وہ ساتھ مل کر آسمان کا نظم و ترتیب کے ساتھ مشاہدہ کر کے تمام اطراف میں سروے کرتے۔ اور آسمان کی خاک چھاننے کے دوران ایک مرتبہ 1781ء میں ہرشل کی لاٹری نکل آئی۔ جس کو اس نے پہلی مرتبہ دم دار تارہ سمجھا تھا وہ ایک ایسا سیاروی جسم نکل آیا جس کو اس سے پہلے کسی نہیں نہیں دیکھا تھا، قدیمی دور سے پہلی مرتبہ شناخت ہونے والا۔ موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے ہوئے ہرشل نے نئے سیارے کا نام بادشاہ جارج سوم کے نام پر 'جارج کا ستارہ' رکھا؛ آخر میں اس کا نام یورینس رکھا گیا، تاہم بادشاہ کافی خوش ہو چکا تھا اور 1782ء میں ہرشل کی تقرری بطور ادارے کے فلکیات دان ( یہ شاہی فلکیات دان جیسا عہدہ نہیں تھا، اس عہدے پر اس دور میں ریورینڈ نیول مسکلینی براجمان تھا) کی حیثیت سے ہو گئی۔ وہ اسی برس رائل سوسائٹی کا رکن بن گیا، وہ باتھ سے ونڈسور منتقل ہو گیا اور اس کے بعد سلو چلا گیا، اور پھر تینتالیس برس کی عمر میں بادشاہ کی اعانت سے پیشہ وار فلکیات دان بن گیا۔

اس کے بعد سے ہرشل کو بڑی اور بہتر دوربینوں کو بنانے کے لئے پیسے کا انتظام کرنا کوئی بڑی بات نہ رہی، جس کی مدد سے وہ رات کا آسمان چھانتا تھا۔ اس کو میسی کے سحابیوں کی ابتدائی فہرست دی گئی، جس سے اس نے کیرولن کے ساتھ مل کر اپنے سحابیوں کی فہرست کو ترتیب دیا۔ ان کی تلاش کا نتیجہ ایک ایسی فہرست کی صورت میں نکلا جس میں 1802ء میں دو ہزار سے زیادہ سحابیے شامل تھے، اس سے بھی زیادہ بہتر فہرست 1820ء میں شایع ہوئی، اس وقت تک ہرشل اپنی عمر عزیز کی آٹھ دہائیاں دیکھ چکا تھا۔ 1816ء میں اس کو نائٹ کا خطاب ملا۔ ساتھ ساتھ ہرشل نے جزیرہ نما کائنات کا خوب چرچا کیا۔ ہو سکتا کہ کہ اس کو یہ خیال براہ راست رائٹ کی کتاب سے ملا ہو، کیونکہ اس کی رائٹ کی اپنی کتاب کی نقل اب تک موجود ہے، اور اس پر اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا نوٹ بھی درج ہے، جس کو 1781ء کے بعد کسی وقت لکھا گیا تھا۔ 1785ء تک ہرشل اس بات کو مان چکا تھا کہ تمام سحابیے ستاروں پر مشتمل ہیں، جس طرح سے کانٹ نے اندازہ لگایا تھا، اور وہ اور کیرولن اپنی نئی دوربین کو استعمال کر کے اس قابل ہو گئے تھے کہ ان میں سے کئی بادلوں کے حصّوں کو بطور ستارے شناخت کر سکیں۔

اس بات کو بیان کرنے کی کوشش میں کہ آیا کیوں ستارے اس طرح سے جمع ہوتے ہیں، ولیم نے کائنات کے ارتقاء کا نظریہ بنایا جس میں بے ترتیب منتشر ستارے آہستہ آہستہ قوّت ثقل کے زیر اثر ڈھیر ہوتے ہیں۔ یہ پہلی کوشش تھی جس میں کائنات کو بذریعہ تبدیلی کے بیان کرنے کی کوشش کی گئی تھی، اگرچہ اس کا مخصوص خیال جدید جانچ کے قابل نہیں ہے، ہرشل اس لائق ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ہونے والی کائنات کا ارتقاء اور تبدیلی کے تصوراتی جرات مند خیال کا سہرا اس کے سر باندھا جائے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب دوم - 6​
کائنات کا مشاہدہ - حصّہ دوم



بدقسمتی سے ہرشل کا جزیرہ نما کائنات کے مفروضے سے متعلق کافی کام اس کی زندگی میں ہی اس وقت برباد ہو گیا جب اس نے پایا کہ خلاء میں کچھ بادل، کچھ سحابئے اس کی بہترین دوربینوں کے ذریعہ دیکھنے کے بعد بھی ستاروں پر مشتمل نہیں ہیں۔ اس کی وجہ سے اس مخالف نظریئے کا بول بالا ہوا جو کہتا تھا کہ سحابئے اصل میں مادّے کے وہ بادل ہیں جو اپنی روشنی سے تابندہ ہوتے ہیں۔ اس نے دیکھا کہ ان میں سے کچھ سحابیوں کا تعلق انفرادی ستاروں سے ہے، ایک مرکزی ستارے کے گرد روشن سحابیہ موجود ہے، اور اس کی وجہ سے وہ تصور اور راسخ ہو گیا کہ سحابیہ نظام ہائے سیارگان بنانے میں مصروف ہیں، ستارے اور سیارے منہدم ہوتی گیس کے کثیف ہونے سے بنتے ہیں۔ ہرشل کی زبردست عزت کی وجہ سے اس تصور نے ابتدائی انیسویں صدی میں کافی مقبولیت حاصل کی؛ اور کیونکہ یہ نظریہ سحابیوں کے تصور بطور ستاروں کی جزیرہ نما کائنات کا مخالف سمجھا جاتا تھا، یہ نظریہ رو بہ زوال ہو گیا۔ فلکیات دانوں کو یہ سمجھنے میں مزید سو برس لگ گئے کہ اصل میں دو قسم کے سحابئے ہوتے ہیں، ان میں سے ایک قسم ہماری ملکی وے کے نظام کے اندر ہی چمکتی ہے، اور دوسری جزیرہ نما کائناتیں ہیں، دوسری کہکشائیں، جو ملکی وے کہکشاں سے بہت ہی زیادہ دور ہیں۔

بڑی دوربینوں اور نئی فلکیاتی فنیات نے انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں صحیح صورتحال کو واضح کرنا شروع کر دیا۔ ولیم پارسنز ، روسے کا تیسرا نواب، ایک آئرش سیاست دان، انجنیئر اور فلکیات دان بھی تھا جو 1800ء میں پیدا ہوا، جہاں ہرشل نے سحابیوں کے مشاہدہ کو چھوڑا تھا وہاں سے اس کے کام کو آگے بڑھانے کا جوش و جذبہ اس میں تھا۔ کیونکہ ہرشل نے کسی قسم کا ایسا مواد نہیں چھوڑا تھا کہ اس نے اپنی دوربین کو کس طرح سے بنایا تھا، روسے کو اپنے لئے زیادہ تر بڑے آئینوں کو چمکنے اور ٹھیک کرنے کی فنیات کو دوبارہ سے ایجاد کرنا پڑا، تاہم اس کی جدوجہد چار ٹن وزنی دوربین کی صورت میں منتج ہوئی، جس میں اہم آئینہ بہتر انچ پر محیط تھا اور ایک پچاس فٹ سے بھی زیادہ لمبی سرنگ میں رکھا ہوا تھا، اس کو زنجیروں اور چرخیوں کے نظام سے دو ستونوں کے درمیان سہارا دیا ہوا تھا۔ اس شاندار آلے کے ساتھ، جس کا نام 'کارکس ٹاؤن کا عفریت' رکھا گیا، روسے اور اس کے ماتحتوں نے 1848ء تک پچاس سحابیوں کو ستاروں میں شناخت کیا، اور اس نے دیکھا کہ اس میں سے کچھ مرغولہ نما صورت کی خاصیت رکھتے ہیں، جس طرح سے بھنور کو اوپر سے دیکھا جائے۔ ان دریافتوں نے شدت کے ساتھ جزیرہ نما کائناتوں کے تصوّر کو زندہ کر دیا۔ کچھ برسوں کے بعد پہلا ٹھوس ثبوت آیا کہ سحابیہ دو اقسام کے ہوتے ہیں۔

ولیم ہگنز جو ایک برطانوی فلکیات دان تھا اور 1824ء میں پیدا ہوا تھا وہ فلکیات میں طیف بینی کا استعمال کرنے والے اوّلین اشخاص میں سے ایک تھا۔ طیف پیما ایک ایسا آلہ ہے جو جانچ کے لئے روشنی کو اس کے رنگوں کے اجزاء میں الگ کر دیتا ہے، جس طرح قوس و قزح روشنی کو مختلف طول موج میں پھیلا تی ہے۔ جس طرح سے قوس و قزح کے مختلف رنگ، جیسا کہ طیفی خصائص روشن یا تاریک خطوط کے نمونوں کو دکھاتے ہیں، بعینہ اسی طرح طیف میں مخصوص طول موج بیان کرتے ہیں۔ یہ طیفی خطوط مادّے میں مخصوص عناصر کی موجودگی کی وجہ سے اس وقت بنتے ہیں جب روشنی اس سے گزرتی ہے - مثال کے طور پر سڑک پر لگی ہوئی زرد روشنیاں سوڈیم عنصر سے تعلق رکھنے والے بہت ہی روشن جوڑے بناتی ہے۔ کوئی بھی دوسرا عنصر اس طرح کی ملتے جلتے خطوط طیف میں اسی جگہ نہیں پیدا کر سکتے۔ طیف بینی سورج اور ستاروں میں موجود عناصر کی شناخت کا طریقہ دیتی ہے، مختلف سماوی اجسام سے مختلف طیفی خطوط حاصل کر کے ان کی شناخت کی جاتی ہے۔ ہگنز نے 1860ء کے عشرے میں گستاف کرچوف اور رابرٹ بنسن کے کام کے بعد ان خطوط پر تحقیق شروع کی، جنہوں نے سورج کی طیف بینی پر تحقیق 1850ء کی دہائی کے اواخر میں کی تھی۔ ایک کیمیسٹ دوست ڈبلیو اے ملر کے ساتھ مل کر، ہگنز نے دکھایا کہ ستاروں کی روشنی میں ویسے ہی طیفی خطوط ہوتے ہے جیسے کہ سورج کی روشنی میں ہوتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ستارے بحیثیت مجموعی وہی کیمیائی عناصر کا آمیزہ رکھتے ہیں جیسا کہ سورج رکھتا ہے۔

جب ہگنز نے اپنی توجہ سحابیہ پر دی تو اس نے مختلف نمونہ دیکھا۔ کچھ سحابئے جیسا کہ ایک مجمع الکواکب جوزا میں ہے یا وہ جسے اس کی صورت سے سرطان سحابیہ کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک ایسی روشنی سے دمکتا ہے جس کے خطوط کے نمونے اس معیار کے مطابق نہیں تھے۔ اس کے بجائے ان سحابیوں سے نکلنے والی روشنی طیف پیما میں ایسی دکھائی تھی جیسے روشنی گرم گیس کے روشن بادلوں سے نکل رہی ہو۔ صرف بعد میں کی جانے والی اسی طرح کے تحقیق میں معلوم ہوا کہ دوسرے سحابئے بشمول مرغولہ نما کے حقیقت میں ایسی روشنی طیفی خطوط کے ساتھ پیدا کرتے ہیں جس طرح سے سورج کی روشنی میں ہوتے ہیں۔

پہیلی کے ٹکڑے میز پر جمع ہونے شروع ہو گئے تھے، تاہم وہ سب اپنی جگہوں پر نہیں لگے تھے۔ کانٹ کا تصور جو ایک صدی سے زیادہ پرانا تھا بہرحال اب آرام داہ کرسی پر بیٹھے سائنس دانوں کو زیادہ خوش نہیں کر سکتا تھا۔ یہ گیسی سحابیہ واضح طور پر ملکی وے کا حصہ تھے، اور دیگر سحابیہ ستاروں سے بنے تھے وہ بھی ملکی وے کا حصّہ ہو سکتے تھے، چھوٹے ستاروں کے نظام، یا وہ ستارے جو بننے کے عمل سے گزر رہے ہوں، وہ پوری کہکشائیں ہماری اپنی ملکی وے جیسے نہیں ہو سکتے تھے۔ اور سب چھوڑیں یہ بتائیں کہ ملکی وے کس قدر بڑی ہے ؟ انیسویں صدی کے آخر میں، ملکی وے نظام کا پیمانہ خود سے قریب قریب ہی معلوم تھا، جزوی طور پر اندازہ اس طرح لگایا گیا تھا کہ ستارے مدھم نظر آنے کے لئے کس قدر دور ہو سکتے ہیں۔ رائے اس حق میں تھی کہ ملکی وے ہی کائنات تھی، اگرچہ یہ چپٹی، قرص کی صورت والی ساخت جس طرح کانٹ نے تجویز کی تھی ویسی ہی لگتی تھی۔ سورج اور نظام شمسی فلکیات دانوں کے مطابق قرص کے مرکز میں کہیں تھا، اور مرغولہ نما اور بیضوی سحابیوں کو وہ لوگ جو ان کے بارے میں کافی غور و خوض کرتے تھے ملکی وے کا ہی حصّہ سمجھتے تھے۔ ایک سو برس سے کچھ تھوڑے سے زائد عرصے تک فلکیات دان درحقیقت کائنات کا مشاہدہ بحیثیت مجموعی کر رہے تھے اگرچہ وہ اس بارے میں کچھ زیادہ یقین نہیں رکھتے تھے۔ سحابئے جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کائنات کی بنیادی اینٹیں ہوتی ہیں۔ تاہم ان کی حقیقی ماہیت جاننے کے لئے صرف مشاہدہ کرنے سے زیادہ قدم اٹھانا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ حقیقی طور پر اس بات کی اہمیت کو سمجھیں کہ اصل میں وہ کس چیز کا مشاہدہ کر رہے ہیں فلکیات دانوں کو اب کائنات کی پیمائش کرنی تھی، تاکہ ملکی وے اور اس سے آگے فاصلوں کے پیمانے سے نپٹ سکیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب سوم - 1
آسمان کہاں تک ہے؟


ایڈمنڈ ہیلے تاریخ کا وہ پہلا فلکیات دان ہے جس نے اس بات کا احساس کرلیا تھا کہ ستارے حرکت میں ہیں۔ کیونکہ ستارے ایک دوسرے کی نسبت حرکت کرتے ہیں وہ مختلف روشنی والے اجسام نہیں ہو سکتے جو تمام کے تمام زمین کے ارد گرد کسی عظیم اندرونی کرے کی سطح کے اندر سختی سے جڑے ہوں۔ ستاروں کی حرکت کا ثبوت یہ ہے کہ ستارے ہم سے مختلف فاصلوں پرخلاء کی تینوں جہتوں میں پھیلے ہوئے ہیں ۔اٹھارویں صدی کی ابتداء میں جب ہیلے نے یہ دریافت کی، یہ ستاروں کی تصویر کا پہلا براہ راست مشاہداتی ثبوت تھا کہ اس طرح سے ستاروں کی شبیہ، جس کرے کے ساتھ منسلک تھی وہ زحل کے مدار سے تھوڑا سا بڑا تھا (یورینس اس وقت تک دریافت نہیں ہوا تھا) لازمی طور پر غلط ہونی چاہئے تھی۔ اس دریافت نے بعد میں اٹھارویں صدی کے فلسفیوں جیسا کہ رائٹ اور کانٹ کے لئے ملکی وے کی ماہیت کے بارے میں اندازہ لگانے کے لئے راستہ ہموار کیا؛ اس سے کائنات کے حجم کے بارے میں تفہیم کے بارے میں براہ راست لیکن بتدریج رہنمائی ہوئی۔

ہیلے کی کائنات


ہیلے اپنی اس دریافت سے پہلے ہی ایک صاحب عزت مقدم فلکیات دان بن چکا تھا جس کے پاس پر منفعت پیشہ موجود تھا۔ وہ 1656ء میں پیدا ہوا، اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، جہاں اس نے ایک کتاب جوہانس کیپلر کے دریافت کردہ ان قوانین پر لکھی اور شایع کی جو سورج کے گرد سیاروں کے مدار کو بیان کرتے ہیں۔ کیپلر کے قوانین نے آئزک نیوٹن کو قوّت ثقل کے بارے میں اہم اشارے دیئے؛ ہیلے کی کتاب اتنی اثر دار تھی (اس لحاظ سے بری نہیں تھی کہ اس کو ایک سند حاصل کرنے والے نے سند حاصل کرنے سے پہلے لکھا تھا) کہ اس کے مصنف کو جان فلمسٹیڈ کی توجہ دلانے میں کامیاب ہو گئی، جو اس وقت شاہی فلکیات دان تھا (سب سے پہلا اور حقیقت میں 'فلکیاتی مشاہد' کہلاتا تھا)۔یہی وجہ تھی کہ جب ہیلے نے آکسفورڈ کو اپنی تعلیم مکمل کئے بغیر چھوڑا تو فلمسٹیڈ کی دلچسپی نے اس کو فلکیات میں نوکری حاصل کرنے میں مدد دی، جہاں وہ جنوبی بحراوقيانُوس میں واقع جزیرہ سینٹ ہیلینا گیا اور جنوبی نصف کرہ کے آسمان کے ستاروں کے نقشے بنانے میں دو برس لگائے۔ اس کی انگلستان واپسی 1678ء میں ہوئی، اور وہ صرف بائیس برس کی عمر میں رائل سوسائٹی میں فوری منتخب ہو گیا۔ تاہم ہیلے نے تعلیمی مستقبل پر کوئی خاص توجہ نہ دی۔

اگلے تیس برسوں میں اس کی مہم جوئی میں یورپ کا سفر شامل تھا جہاں وہ سائنس دانوں اور فلکیات دانوں سے ملا، کافی عرصہ چیسٹر میں واقع ' منٹ' میں بطور نائب ناظم کے فرائض انجام دیئے، شاہی بحریہ کے جنگی جہازوں کے کمانڈر کا ہاتھ بٹایا، اور کچھ سفارتی مقاصد کو پورا کرنے کے لئے سرکاری حکومت کے نائب کے طور پر ویانا بھی گیا۔ اس دوران اس نے مقناطیسیت، ہوا، مدوجزر کی لہروں کو سمجھنے کے لئے اہم حصّہ ڈالا، اور اس نے نیوٹن کو اس کی کتاب اصول کو مکمل طور پر شایع کرنے کے لئے راغب کیا - بلکہ ہیلے نے تو اس کتاب کو شایع کروانے کے لئے سرمایہ بھی فراہم کیا۔ 1703ء میں وہ آکسفورڈ میں جیومیٹری کا پروفیسر بن گیا (ایک سند حاصل کرنے کے عمل کو چھوڑنے والے کے لئے یہ کوئی بری نوکری نہیں تھی) اور 1720ء میں وہ فلمسٹیڈ کے جانشین کے طور پر شاہی فلکیات دان مقرر ہوا، اور اس عہدے پر وہ اس وقت تک قائم رہا جب تک وہ پچاسی برس کی عمر میں 1742ء میں انتقال نہیں کر گیا۔ اٹھارویں صدی کے شروع کی دو دہائیوں میں ہیلے نے ستاروں کے بارے میں ہمارے جاننے کی تفہیم میں اپنا حصّہ ڈالا۔

ہیلے کی ہمیشہ سے قدیمی فلکیاتی دستاویزات میں دلچسپی رہی تھی اور اس نے کچھ کام یونانی زبان سے بھی ترجمہ کیا تھا۔ 1710ء میں اس نے بطلیموس کی تحریروں کا مطالعہ شروع کیا جو دوسری صدی قبل مسیح میں لکھی گئی تھی اور اس میں ستاروں کے مقام کی ایک فہرست بھی موجود تھی۔ حقیقت میں یہ فہرست بطلیموس سے بھی پرانی ہپارخس کے دور تیسری صدی قبل مسیح کی تھی۔ یہ ستاروں کا پہلا اہم نقشہ تھا جس میں آٹھ سو سے زائد ستاروں کا مقام موجود تھا؛ بطلیموس نے اس کو اچھے دنوں کے لئے محفوظ رکھا تھا، اور اس نے اس میں ستاروں کا مزید اضافہ کیا جس سے ان کی تعداد ایک ہزار سے اوپر ہو گئی۔ فہرست میں شامل زیادہ تر ستاروں کا مقام ہیلے اور اس کے ہم عصروں کے مشاہدات سے مطابقت رکھتے تھے۔ تاہم 1718ء ،میں ہیلے کو احساس ہوا کہ تین ستارے - سگ ستارہ، شعرائے شامی، اور آرکٹورس - اس مقام پر نہیں تھے جہاں پر ہیپارخس اور بطلیموس نے انہیں دیکھا تھا۔ مقامات میں فرق اس قدر زیادہ تھا کہ اس کو قدیمی یونانیوں کی غلطی نہیں کہا جا سکتا تھا؛ اس کے علاوہ یہ سوال بھی تھا کہ آیا کیوں انھوں نے سینکڑوں درست مشاہدات میں سے صرف تین میں غلطی کی ہے؟ مثال کے طور پر لگتا تھا کہ آرکٹورس پورے چاند کی چوڑائی سے دو گنا اس مقام سے دور تھا جو بطلیموس کی دستاویزات میں درج تھا - مقام سے ایک پورے درجہ کا فرق تھا۔ ہیلے نے اخذ کیا کہ آرکٹورس اور دوسرے ستاروں نے صدیوں میں اس مقام سے حرکت کی ہے جہاں یونانیوں نے انہیں درج کیا تھا۔ یہ حرکت اس قدر آہستہ تھی کہ انسانی زندگی کے دوران خالی آنکھ سے اس کا معلوم نہیں ہوگا، تاہم یہ اتنی بڑی ضرور ہے کہ کئی نسلوں کے گزرنے کے بعد اس کو دیکھا جا سکے۔

پہلے تین ستاروں کے لئے ان خصوصی حرکت کے لئے، جیسا کہ اب انہیں کہا جاتا ہے، آسمان میں آٹھ روشن ستاروں کی شناخت کی گئی۔ اس اتفاق کی قدرتی توضیح یہ کی گئی کہ کیونکہ ستارے کافی روشن لگتے ہیں لہٰذا یہ ہم سے دوسرے زیادہ تر ستاروں سے زیادہ قریب ہیں، اس طرح سے ہم ان کی حرکت کو کچھ صدیوں کے دوران اسی وجہ سے دیکھ سکتے ہیں جس طرح سے اونچے آسمان میں مسافر بردار طیارہ آہستہ رینگتا ہوا نظر آتا ہے جبکہ سائیکل پر بیٹھا ہوا چند فٹ دور بچہ تیزی سے جاتا ہوا دکھائی دیتا ہے، لہٰذا آسمان میں قریبی ستارے بظاہر زیادہ حرکت ان ستاروں کے مقابلے میں کرتے نظر آتے ہیں جو زیادہ دور ہوتے ہیں چاہئے وہ سب کم و بیش ایک ہی رفتار سے خلاء میں حرکت کر رہے ہوں۔ ستاروں کی زیادہ تر تعداد اتنی دور ہے کہ ہزار برسوں کے دوران بھی زمین سے وہ کوئی حرکت کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے؛ صرف چند ہی اتنے قریب ہیں کہ ہم انہیں 'مستقل' ستارے کے پیش منظر میں حرکت کرتے ہوئے شناخت کر سکتے ہیں۔

حرکت کا وہ حجم جس کو فلکیات دان اب روز مرہ کے معمول کی طرح ناپتے ہیں اس کو سمجھنے کی کوشش کرنا عرصہ دراز تک ممکنہ طور پر مشکل بنی رہی۔ چاند کا زاویہ آسمان پر لگ بھگ ایک آرک کا نصف درجہ یا 30 منٹ (زیادہ درست 31 منٹ) پر محیط ہوتا ہے۔ بعینہ جس طرح ہر زاویہ 60 منٹ میں تقسیم ہوتا ہے، اسی طرح آرک کا ہر منٹ بھی 60 سیکنڈ میں تقسیم ہوتا ہے۔ سیارہ مشتری ننگی آنکھ سے قابل ادراک قرص کے طور پر شناخت نہیں ہو سکتا، تاہم دوربینی مشاہدات بتاتے ہیں کہ جب وہ زمین سے قریب ترین ہوتا ہے تو وہ زیادہ روشن لگتا ہے اور وہ قوس کے صرف 50 سیکنڈ پر محیط ہوتا ہے۔ وہ ستارہ جس کی سب سے بڑی قابل پیمائش حرکت ہے وہ برنارڈ کا ستارہ کہلاتا ہے، اس کا نام امریکی فلکیات دان ایڈورڈ برنارڈ کے اعزاز میں رکھا گیا جس نے اس کو 1916ء میں دریافت کیا تھا۔ برنارڈ ستارہ واقعی بہت ہی دھندلا تھا کیونکہ اصل میں یہ ایک مدھم چھوٹا ستارہ تھا، یہی وجہ تھی کہ اس کو اس سے پہلے نہیں دیکھا گیا تھا۔ تاہم یہ ہم سے قریب بھی ہے - اتنا قریب ہے کہ یہ آسمان میں 10.3 سیکنڈ آرک فی برس کی زبردست رفتار سے دوڑ رہا ہے۔ یعنی کہ پانچ برسوں میں یہ اس قدر زاویائی فاصلے کے برابر حرکت کرتا ہے جو مشتری کی چوڑائی کے برابر ہوتا ہے۔ اور یہ واقعی منفرد بات ہے – پیمائش کردہ خصوصی حرکت عام طور پر ایک آرک کا ایک سیکنڈ فی برس ہے۔ ان ننھی حرکت خاص کو خلاء میں رفتار میں تبدیل کرنے کے لئے فلکیات دانوں کو کچھ ایسے طریقے ڈھونڈنے تھے جس کی مدد سے وہ ستاروں کے فاصلوں کا اندازہ لگا سکتے؛ تاہم اس سے پہلے انہیں نظام شمسی کے حجم کا درست اندازہ لگانا تھا۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب سوم - 2
زمین سے سورج کا فاصلہ



کائنات کے حجم کا اندازہ لگانے کے لئے پہلا قدم بعینہ وہی تیکنیک تھی جو نقشہ ساز زمین پر مقام اور فاصلوں کے لئے استعمال کرتے ہیں - یعنی کہ پیمائشِ مُثَلثی فلکیات دان عام طور پر اس تیکنیک کے لئے ایک دوسرا نام اختلافِ مرویت یا اختلاف زاویہ کا استعمال کرتے ہیں تاہم یہ ایک ہی چیز ہے اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح سے آپ صرف اپنی انگلیاں دیکھ کر اس کو استعمال کر سکتے ہیں۔

اپنا بازو سیدھا کرکے ہاتھ کی ایک انگلی اٹھائیں اور اپنی ایک آنکھ بند کر لیں۔ اپنی انگلی کا مقام اپنے کمرے کی دیوار پر غور سے دیکھیں۔ اب وہ آنکھ بند کریں جو کھلی ہوئی تھی، اور وہ کھول لیں جو بند تھی۔ ایسا لگے گا کہ جیسے انگلی پس منظر کی دیوار کے لحاظ سے حرکت کر رہی ہے اور تھوڑی سی الگ جگہ پر چلی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی دونوں آنکھیں تھوڑی سی مختلف سمت سے دیکھتی ہیں۔ اب یہی چیز اپنی اس انگلی کی مدد سے کرنے کی کوشش کریں جو آپ کی ناک کے سامنے ہے۔ مقام میں تبدیلی - اختلاف زاویہ - بہت زیادہ واضح ہوگا۔ جسم جس قدر قریب ہوگا اتنا ہی زیادہ اس کا اختلاف زاویہ کا اثر ہوگا، لہٰذا اختلاف زاویہ کو ناپ کر یہ ممکن ہے کہ کسی جسم کا فاصلہ معلوم کیا جا سکے۔ اگر آپ کوئی دور کے جسم کا مشاہدہ دو مختلف چوڑے الگ مقامات سے کر رہے ہیں تو آپ اس اثر کا استعمال کرکے فاصلے کا تعین کر سکتے ہیں۔ یہی تیکنیک کسی پہاڑ یا پھر چاند یا نظام شمسی میں موجود سیاروں کے لئے استعمال ہو سکتی ہے - بشرطیکہ آپ کو دو مقامات کے درمیان کافی واضح دوری ملے جہاں سے آپ مشاہدہ کرکے اپنے مثلث کے لئے کافی بڑی بنیاد بنا سکیں۔ مثال کے طور پر چاند کے فاصلے کو معلوم کرنے کے لئے صرف یہ بات ضروری ہے کہ فلکیات دان دو وسیع الگ رصد گاہوں میں موجود ہوں اور ہر ایک چاند کا مقام اس کے پس منظر کے ستاروں کے مقابلے میں ایک ہی وقت میں ناپیں۔ جب وہ دونوں مشاہدات کے درمیان کا فاصلہ جان لیں (اور لازمی سے بات ہے کہ اس میں زمین کے خم کو بھی شامل کریں) وہ ان مشاہدات کا استعمال کرکے ایک تصوراتی مثلث چاند کے ساتھ اس کے اوپر بنا سکتے ہیں۔ اس کے بعد سادہ جیومیٹری ان کو بتا دے گی کہ مثلث کتنا لمبا ہے - اور چاند زمین سے کتنا دور ہے۔

یہ تیکنیک چاند کے لئے بہت اچھی طرح سے کام اس لئے کرتی ہے کیونکہ وہ ہم سے بہت ہی قریب ہے یعنی صرف 400,000 کلومیٹر دور ہے۔ اختلاف زاویے کا اثر کافی قابل غور ہوتا ہے، ہرچند کہ اس سے بننے والا مثلث کافی لمبا اور پتلا ہوتا ہے تاہم زاویوں کو آسانی کے ساتھ ناپا جا سکتا ہے۔ چیزیں اس وقت تھوڑی اور پیچیدہ ہو جاتی ہیں جب فلکیات دان اسی تیکنیک کا استعمال کرتے ہوئے سیاروں کا فاصلہ ناپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اختلاف زاویہ کا اثر بہت ہی کم ہوتا ہے چاہئے دونوں مشاہدہ کرنے والے لوگ ایک دوسرے سے زمین کے بالکل مخالف ہی کیوں نہ ہوں، اور وہ تصوراتی مثلث جو زمین کے ساتھ اپنی بنیاد کے ساتھ مریخ کے لئے بنایا جائے گا اس کا راس ناقابل تصور حد تک پتلا ہوگا۔ اس کے باوجود صحیح شرائط کے ساتھ مناسب زاویے کی پیمائش کی جا سکتی ہے اور فاصلوں کو بھی معلوم کیا جا سکتا ہے۔


خاکہ 3.1 اختلاف زاویہ - دور دراز جسم کی بظاہر ہونے والی حرکت جو جسم کے مقام میں تبدیلی ہونے سے مشاہدہ کی جاتی ہے - اس کا استعمال نظام شمسی کے اندر فاصلوں کو ناپنے کے لئے کیا جا سکتا ہے۔

سیاروں کے لئے اختلاف زاویہ کی پیمائش فلکیاتی دوربینوں کی ایجاد سے پہلے ممکن نہیں تھی، اور اس کے علاوہ بھی ان کے لئے ضروری تھی کہ کرے کے کونوں تک کا لمبا سفر کیا جائے تاکہ مثلث کے لئے کافی چوڑی بنیاد مل سکے۔ مریخ کی اختلاف زاویہ سے کی جانے والے سب سے پہلی کامیاب پیمائش کو فرانسیسی ٹیم نے 1671ء میں کیا۔ جین ریچر نے ایک ایسی مہم کی سربراہی کی جو فرانسیسی گیانا میں واقع فلفل دراز گئی، جبکہ اطالوی نژاد فرانسیسی گیووانی کیسینی نے پیرس میں مشاہدہ کیا۔ دونوں نے آسمان پر مریخ کے مقام کو پہلے سے طے کے ہوئے وقت کے مطابق درج کیا۔ جب ریچر کی مہم واپس گھر پہنچی تو انہوں نے مندرجات کا تقابل کیا اور مریخ کا فاصلہ اخذ کیا۔ اس اطلاع کے ساتھ لیس ہو کر وہ کیپلر کے قوانین کا استعمال کرکے مریخ کا سورج سے فاصلے کا بھی حساب لگا سکتے تھے اور زمین سے سورج کے فاصلے کا بھی۔ انہوں نے زمین و سورج کا فاصلہ 14,000,000 کلومیٹر (8 کروڑ 70 لاکھ میل کے برابر) صرف ایک کروڑ کلومیٹر جدید دور کی تیکنیک سے لگائے گئے حساب سے کم لگایا ۔تاہم کس طرح سے یہ طریقہ سترویں اور اٹھارویں صدی میں بہتر ہو سکتا تھا؟

سینٹ ہیلینا پر اکیلے شب بیداری کے دوران، ہیلے کے پاس سوچنے کے لئے اور ستاروں کی فہرست سازی کرنے کے لئے بہت وقت تھا۔ اس نے عطارد کا سورج کو عبور کرنے کا مشاہدہ کیا - ایک بہت ہی نایاب واقعہ جب سیارہ سورج کے روشن چہرے کے سامنے سے آہستہ سے چھوٹی کالی قرص کی طرح سے گزرتا ہے۔ اور اس نے اندازہ لگا لیا کہ اس طرح کے عبور نظام شمسی کے نقشے بنانے میں راستہ فراہم کر سکتے ہیں۔ جب عطارد پہلی مرتبہ سورج کی قرص کو چھوتا ہے تو اختلاف زاویہ کے اثر کی وجہ سے اس فوری وقت کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ آپ زمین پر کہاں سے اس عبور کو ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ہیلے کے دور کے فلکیات دان جانتے تھے کہ زہرہ بھی سورج کو 1761ء میں عبور کرے گا - یہ تو عطارد کے عبور سے بھی نایاب واقعہ ہوتا ہے۔ ہیلے نے مفصل مندرج بنائے کہ کس طرح سے دنیا کے مختلف حصّوں میں مشاہدات کے بہترین استعمال کرکے سورج اور زہرہ کا فاصلہ نکالا جا سکتا ہے، اور اس نے اپنے ان مندرجات کو 1761ء میں شایع کیا۔ ہرچند کہ وہ اس عبور کے واقعہ کے وقوع پذیر ہونے سے انیس برس قبل ہی دار فانی سے کوچ کر گیا تھا، اس کا اثر اس ٹھوس کوشش کے لئے عامل تھا جس کی وجہ سے زہرہ کے اختلاف زاویہ کو ناپنے کا موقع ملا تھا۔ 1761ء میں باسٹھ مشاہداتی جگہوں سے اس کا جائزہ لیا جا رہا تھا، اور اسی طرح کی کوشش 1769ء میں دوسرے عبور کے درمیان بھی کی گئی تھی۔ جب تمام اعداد و شمار کا تجزیہ کرلیا گیا تو سورج سے زمین کے فاصلے کا حساب 15 کروڑ 30 لاکھ کلومیٹر نکلا، جدید پیمائش سے یہ فاصلہ 14 کروڑ 96 لاکھ کا ہے۔ آنے والی صدیوں میں پیمائش بہتر ہوتے ہوئے دور حاضر کی قدر کے برابر پہنچ گئی؛ تاہم جہاں تک ایک بڑی تصویر کا تعلق ہے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ اٹھارویں صدی کے اختتام تک فلکیات دان نظام شمسی کے حجم کے بارے میں جان گئے تھے۔ انہوں نے سورج سے فاصلے کو ناپ لیا تھا۔ اور اس نے انہیں ایک عظیم نیا موقع دیا۔ ایک مرتبہ جب وہ زمین سے سورج کا فاصلہ معلوم کر لیتے، تو ان کے پاس ایک نئی بنیاد آ جاتی جس کو وہ پیمائش مثلثی اور اختلاف زاویہ کے لئے استعمال کر سکتے تھے۔ حقیقت میں پیمائش فلکیات کے لئے اس قدر اہم تھی کہ زمین سے سورج کا فاصلہ فلکیاتی اکائی یا AU کہلایا۔ بنیاد ی خط 15,000,000 کلومیٹر طویل کے ساتھ یہ ممکن تھا کہ ستاروں کے فاصلوں کا نقشہ بنایا جا سکے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب سوم - 3​
سورج سے ستاروں کی طرف - حصّہ اوّل




1761ء میں زہرہ کے عبور کے بعد صدی کا تین چوتھائی حصّہ گزر چکا تھا جب فلکیات دانوں نے آخر کار کچھ قریبی ستاروں کا اختلاف زاویہ ناپنے میں کامیابی حاصل کی۔ اصول کافی سادہ تھا۔ کیونکہ زمین کے مدار کا نصف قطر 15 کروڑ کلومیٹر ہے لہٰذا مشاہدات کو چھ ماہ کے عرصے کی دوری میں کیا جاتا، سورج کے مخالف سمت سے بنیادی خط کا اختتام 30 کروڑ کلومیٹر (2 فلکیاتی اکائی) طویل ہے (ستاروں کا فاصلہ ناپنے کے لئے پہلے اندازے کے لئے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بنیادی خط 29 کروڑ کلومیٹر کا ہے یا 31 کروڑ کلومیٹر کا ہے اور جو جواب ہمیں ملے گا وہ لگ بھگ ٹھیک ہی ہوگا)۔ یہ تو سادہ جیومیٹری کا مسئلہ ہے کہ اس بات کا حساب لگایا جائے کہ ستارے بنیادی خط میں مخصوص اختلاف زاویہ کےسرکاؤ کی وجہ سے کتنے فاصلے پر ہوگا۔ حقیقت میں فلکیات دان اس طریقے میں نئے حجم کی لمبائی کو بیان کرنا پسند کرتے ہیں۔ اختلاف زاویہ کے ایک آرک سیکنڈ یا مختصر طور پر فلکیاتی فرسخ (پارسیک) ستارے سے وہ فاصلہ ہے جو بنیادی خط کے مخالف آخری حصّے سے آرک کے ایک سیکنڈ کے سرکاؤ کو دکھاتا ہے جو سورج اور زمین کے فاصلے کے برابر ہے۔ دوسرے الفاظ میں زمین کے مدار کے بنیادی خط کے 30 کروڑ کلومیٹر سے زائد فاصلے پر ایک ستارہ جو ایک فلکیاتی فرسخ (1 PC) دور ہوگا وہ آرک کے دو سیکنڈ کو دکھائے گا۔

ایک فلکی فرسخ 30,000 ارب (ایک ارب میں دس ہزار لاکھ ہوتے ہیں) کلومیٹر سے کچھ زیادہ ہوتا ہے؛ روشنی کو اس ایک فلکی فرسخ کے فاصلے کا سفر کرنے کے لئے 30 کروڑ میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے 3.26 برس کا عرصہ لگے گا۔ یا اس کو دوسری طرح سے دیکھیں، ایک فلکی فرسخ زمین کا سورج سے فاصلے کا 206,265 گنا فلکی اکائی کے اندر ہوتا ہے۔ اصل میں کوئی بھی ستارہ اتنا قریب نہیں ہے کہ اتنے اختلاف زاویہ کے سرکاؤ کو دکھا سکے۔ اور یہی وجہ ہے کہ پہلا نجمی اختلاف زاویہ 1830ء کی دہائی تک نہیں ناپا گیا۔

اگر آپ کوشش کریں گے کہ ستارے کے مقام پر ہونے والی تبدیلی کو ناپ لیں جو آرک کے ایک سیکنڈ سے کم ہو، ظاہر سی بات ہے کہ آپ کو ایک ایسی فہرست کی ضرورت ہوگی جس میں ستاروں کا مقام تقابلی صحت کے ساتھ موجود ہو۔ اٹھارویں صدی کی سب سے بہترین فہرست جس کو فلمسٹیڈ نے ترتیب دیا تھا اور 1725ء میں اس کی بعد وفات شایع ہوئی اس میں ستاروں کے مقام کی درستگی ایک آرک کے دس سیکنڈ کی تھی - یہ اس دور کا ایک زبردست کارنامہ تھا، تاہم یہ اس قدر نہیں تھا کہ اس کام کے لئے اس کو استعمال کیا جا سکے۔ تیسرا شاہی فلکیات دان جو ہیلے کا جانشین تھا وہ جمیز بریڈلی (1693 میں پیدا ہوا) تھا جس نے اس مسئلے پر کافی جان ماری اس نے ایک گاما اژدھے کہلانے والے ستارے کا اختلاف زاویہ ناپنے کی کوشش کی۔ وہ اس میں ناکام رہا تاہم اس دوران اس نے مشاہدے کی تیکنیک کو بہتر کیا، بہتر آلات بنائے، اور فلکیات دانوں کی اپنے مشاہدات کی ماہیت کی نظری تفہیم کو بھی بہتر بنایا۔ بریڈلی نے دیکھا کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے گاما اژدھا سال بھر میں آسمان پر اپنی جگہ تبدیل کرتا ہے، تاہم یہ تبدیلی ایسی نہیں تھی کہ جیسے کہ اختلاف زاویہ سے معلوم ہوتی ہے۔ اس نے دیکھا کہ یہی اثر دوسرے تمام ستاروں پر بھی لاگو ہو رہا ہے، اور بالآخر اسے احساس ہو گیا کہ یہ اثر زمین کی سورج کے گرد حرکت رفتار کی وجہ سے ہے۔ روشنی کی اشعاع جو دور دراز ستارے سے آتے ہوئے زمین کی حرکت کی وجہ سے جھکی ہوئی لگتی ہیں، بعینہ اسی طرح جس طرح سے آسمان سے برستی ہوئی سیدھی بارش آپ کے چہرے سے اس وقت ٹکراتی ہوئی لگتی ہے جب آپ آگے کی طرف چلتے ہیں۔ یہ اثر زمین کے مدار کے مختلف مقامات (سال کے مختلف اوقات میں) پر مختلف ہوتا ہے کیونکہ ہمارا سیارہ مختلف اوقات میں مختلف سمت میں حرکت کرتا ہے۔ کیونکہ روشنی کی رفتار بہت ہی عظیم ہے، لہٰذا اثر چھوٹا ہوتا ہے - تاہم اس کے باوجود اختلاف زاویہ کے مطالعہ میں پیمائش کے لئے جس قسم کی صحت چاہئے ہوتی ہے اس کے لحاظ سے قابل غور ہے۔

بریڈلی نے اس اثر کو 'خلل' کہا، ایک برس میں یہ ستارے کے مقام میں 20 1/2آرک فی سیکنڈ کی تبدیلی پیدا کرتی ہے۔ اگرچہ اٹھارویں صدی میں یہ کوئی خبر نہیں تھی تاہم اس دریافت نے تصدیق کی کہ روشنی کی رفتار محدود ہے اور رفتار کا جو تخمینہ اس نے دیا وہ دور حاضر کے تخمینے کے کافی قریب ہے؛ اس سے زمین کے خلاء میں حرکت کرنے کی بھی تصدیق ہو گئی۔ تاہم جب وہ ستاروں کا مقام ناپ رہا تھا تو بریڈلی کو مزید خلل کا سامنا کرنا پڑا بشمول زمین کی ڈگمگاہٹ کے جس کو اس نے رقص محوری کا نام دیا، جو زمین کی کرے سے تھوڑی سی الگ صورت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ان تمام کاوشوں کا پھل ایک ایسی نئی اہم فہرست کی صورت میں آیا جس میں تین ہزار کے لگ بھگ ستاروں کے مقامات بے مثل صحت کے ساتھ موجود تھے - تاہم یہ صرف دو حصّوں میں 1798ء اور 1805ء میں بریڈلی کے مرنے کے تیس برسوں شایع ہوئی۔



خاکہ 3.2 آسمان سے برستی ہوئی سیدھی بارش آپ کے چہرے سے اس وقت ٹکراتی ہوئی لگتی ہے جب آپ آگے کی طرف چلتے ہیں۔ دور دراز کے تاروں سے آتی ہوئی روشنی کی 'اشعاع' ایسی ہی 'جھکی' ہوتی ہیں جب زمین خلاء میں سے گزرتی ہے۔ اس اثر کو خلل کہتے ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب سوم - 4

سورج سے ستاروں کی طرف - حصّہ دوم



کئی فلکیات دنوں نے بریڈلی کی تیکنیک کا استعمال کیا، جن میں سے ایک ممتاز فریڈرچ باسل تھے جو جرمن میں 1784ء میں پیدا ہوئے، جنہوں نے تیس ہزار ستاروں کے مقامات کی فہرست تیار کی اور وہ ان تین فلکیات دانوں میں سے ایک تھے جنہوں نے خود سے اختلاف زاویہ کے مسئلے کو لگ بھگ اسی دوران 1830ء کی آخری دہائی میں حل کیا۔ ولیم ہرشل ان میں سے ایک تھا جس نے ستاروں کے اختلاف زاویہ - ثوابت جھرمٹ میں - ناپنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا اس نے ایک ترکیب کا استعمال کیا جس میں فہرست میں موجود مطلق درستگی کی ضرورت باقی نہیں رہی، ستاروں کے جوڑے جو آسمان پر ایک دوسرے کے بہت قریب تھے ان کو دیکھ کر اس امید پر کہ اس میں سے کوئی ایک خط نظر سے بہت زیادہ دور ہو جبکہ دوسرا اس قدر قریب ہو کہ اختلاف منظر کے سرکاؤ کو دکھا سکے۔ اگر اس طرح کے جوڑے مل جاتے تو سرکاؤ مطلق معیار کے بجائے دور دراز ستارے کی نسبت سے ناپا جا سکتا تھا۔ تاہم اس کے بجائے ہرشل کو معلوم ہوا کہ اس نے جن دہرے ستاروں کو دیکھا تھا ان میں سے اکثر اصل میں ثنائی ستارے تھے جو خلاء میں ایک دوسرے سے حقیقتاً قریب اور ایک دوسرے کے گرد زمین اور چاند کی طرح چکر لگا رہے تھے۔ یہ ایک اہم دریافت تھی تاہم یہ وہ نہیں تھی جس کی ہرشل کو تلاش تھی۔

پیش رفت اس وقت آئی جب مشاہدات اتنے بہترین ہو گئے کہ وہ ستاروں کے ننھے سرکاؤ کو بھی ناپ سکیں، اور جب نظریات اس قدر اچھے ہو گئے تھے کہ دوسرے تمام عوامل کو الگ کر دیں، جیسا کہ خلل اور رقص محوری، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ستاروں کے مقام موسم کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں۔ کامیابی وقت کی موافقت سے پہلے نہیں ملی؛ تاہم جب وقت موافق تھا کامیابی جلدی میں آئی۔ 1830ءکے سہ جہتی حملے میں باسل نے ستارہ 61 دجاجہ پر تحقیق کرنے کو چنا کیونکہ اس کی بڑی مخصوص حرکت یعنی کہ ایک برس میں 5.2 آرک سیکنڈ تھی، تھامس ہینڈرسن جو اسکاٹ لینڈ کا رہائشی اور 1798ء میں پیدا ہوا اور جنوبی افریقہ میں کام کر رہا تھا اس نے الفا قنطورس کو چنا، جو رات کے آسمان میں تیسرا روشن ستارہ تھا،کافی زیادہ روشن ہونے کی وجہ سے لگتا تھا کہ وہ زمین سے ضرور قریب ہوگا؛ اور فریڈرچ وان ستروی جو 1793ء میں پیدا ہوا، ایک جرمن تھا اور روس میں کام کر رہا تھا اس نے تحقیق کے لئے ویگا (جس کو الفا بربط بھی کہتے ہیں) کو ایک ہی مقصد کے لئے چنا، جو آسمان کا چوتھا سب سے روشن ستارہ ہے۔ باسل وہ پہلا آدمی تھی جس نے اپنے کامیاب نتائج کا اعلان 1838ء کے اواخر میں کیا؛ اصل میں ہینڈرسن نے اپنے اہم مشاہدات کو پہلے مکمل کیا تھا تاہم اپنے کام کا اعلان صرف اس وقت کیا جب وہ جنوری 1839ء میں برطانیہ سے واپس آیا، وان اسٹروی کی پیمائش، کیک پر شکر، 1840ء میں منظر عام پر آئی۔ تینوں اختلاف زاویے جو انہوں نے دریافت کئے تھے حقیقت میں بہت ہی چھوٹے تھے -61 دجاجہ کے لئے 0.3136 آرک سیکنڈ، الفا بربط کے لئے 0.2613 آرک سیکنڈ اورالفا قنطورس کے لئے ایک آرک سیکنڈ (جس کو بعد میں بہتر کرکے 0.76 آرک سیکنڈ کرلیا گیا تھا) پایا۔ الفا قنطورس کا اختلاف زاویہ اب تک کا سب سے بڑا ہے؛ ستارہ (اصل میں تین ستارے ایک دوسرے کے گرد مدار میں چکر لگا رہے ہیں) ہمارے نظام شمسی کا سب سے قریبی ساتھی ہے، 1.3 فلکی فرسخ یا 4.3 نوری برس ہم سے دور ہے۔ الفا بربط، ویگا 8.3 فلکی فرسخ دور اور 61 دجاجہ جو اب ثنائی ستارے کے طور پر جانا جاتا ہے، وہ 3.4 فلکی فرسخ کے فاصلے یا 11 نوری برس دور تھا۔ پہلی مرتبہ فلکیات دانوں کو یہ ٹھیک طرح سے معلوم ہوا کہ ہمارا نظام شمسی تاریک خلاء کی خالی جگہ میں کس قدر الگ تھلگ ہے۔ سب سے قریبی ستارہ سورج سے اس کے سب سے دور دراز سیارے یعنی کہ پلوٹو کے مقابلے میں سات ہزار گنا زیادہ دور ہے۔ اور ایک مرتبہ جب ان کو چند دوسرے ستاروں کا فاصلہ معلوم ہو گیا، فلکیات دان ان کی حقیقی تابانی کو جاننے کے لئے کام کرنے لگے، اور اس طرح سے انہیں دھندلے ستاروں کے فاصلے کے بارے میں خام اندازہ ہوا جو اس قدر دور تھے کہ ان کا اختلاف زاویہ کا سرکاؤ ناقابل پیمائش تھا۔ اس اور دوسری تیکنیک کے ساتھ، انیسویں صدی کے دوسرے حصّے میں فلکیات دانوں نے آخر کار عددی صورت میں ہماری اپنی ملکی وے کے حجم و صورت کو سمجھنا شروع کر دیا۔ تاہم یہ صرف انیسویں صدی ہی تھی جب وہ پہلی مرتبہ اس قابل ہوئے کہ اختلاف زاویہ کی تیکنیک کو بڑی تعداد کے ستاروں پر لاگو کیا اور پھر وہ سحابیہ کے دور حکمرانی کی طرف بڑھے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب سوم - 5​
ہماری کہکشاں کا زینہ - حصّہ اوّل




اختلاف زاویہ کے طریقے کو بہتر ہونے میں مزید ساٹھ برس لگ گئے، اس کی وجہ یہ تھی کہ دوربین کے دوسرے کونے پر انسانی آنکھ کے بجائے عکاسانہ تختیوں (فوٹو گرافک پلیٹس)کا استعمال تب ہی ہونا شروع ہوا تھا اور یہ فلکیاتی معیار بن گیا تھا۔ آنکھ کے مقابلے میں تصویر کے دو اہم فائدے ہوتے ہیں۔ سب سے پہلا کہ یہ ستارے کے مقام کا براہ راست مستقل اندراج فراہم کرتی ہے، جس کا بعد میں فارغ اوقات میں مطالعہ کرکے درست پیمائش کی جا سکتی ہے، اور اس کام کے لئے خرد بین کا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ ستارے کا مقام دوسروں کی نسبت زیادہ درست طریقے سے ناپا جا سکے۔ دوسرے انسانی آنکھ کے برعکس، عکاسانہ تختی یا فلم بہت ہی دھندلے اجسام کو بھی 'دیکھ' سکتی ہے۔ جتنا لمبے عرصے تک آپ تختی کو کھلا چھوڑیں گے، اس پر اتنی ہی زیادہ روشنی پڑے گی، اور دھندلی تصویر بہتر ہوتی جائے گی، انسانی آنکھ کے ساتھ چاہئے آپ جتنا بھی لمبا عرصے خلاء میں گھور لیں آپ کسی بھی چیز کو اس سے کم دھندلا نہیں دیکھیں گے جتنا کہ پہلی مرتبہ دیکھا ہوگا۔ لہٰذا فلکیاتی عکاس نے مزید تحقیق کے لئے ستارے دیئے اور اس بات کو ممکن بنایا کہ ان میں سے ہر ایک کا مقام زیادہ درست طریقے سے ناپا جا سکے۔ 1900ء میں جب تیکنیک کو متعارف کروایا گیا تو صرف ساٹھ ستاروں کا اختلاف زاویہ معلوم کیا گیا۔ نصف صدی بعد 1950ء میں معلوم نجمی فاصلے دس ہزار کے قریب تھے؛ تاہم یہ تمام کے تمام براہ راست اختلاف زاویہ سے ناپے نہیں گئے تھے۔

تینوں تیکنیکوں نے بطور خاص فلکیات دانوں کو سورج کے گرد چھوٹی سے خلاء کی جگہ سے قدم رکھنے کی جگہ دی جس میں اختلاف زاویہ قابل بھروسہ فاصلوں کی رہنمائی - صرف 30 فلکی فرسخ یا 100 نوری برس تک بحیثیت مجموعی کہکشاں تک وسیلہ فراہم کرنے کے لئے کرتا ہے۔ ہرچند کہ تیزی سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ تمام ستاروں کے تابانی ایک جیسی نہیں ہے، ہوگنز کے رہنما کام کی بدولت ستاروں کی طیف بینی کے مطالعہ میں معلوم ہوا کہ ان میں خاندانی شباہت موجود ہے۔ ایک ستارہ جس کے طیفی خطوط میں ایک مخصوص نمونہ موجود ہے اس کی شناخت کی جا سکتی ہے اور اس کے فاصلے کی پیمائش اختلاف زاویہ سے کی جا سکتی ہے اس طرح سے اس کی حقیقی تابانی معلوم کی ہوتی ہے۔ تب جب کوئی اور دور دراز کا ستارہ ایسا ملتا تھا جس کی وہی طیفی قسم ہوتی تھی تو معقول طور پر یہ بات کہی جا سکتی تھی کہ اس کی وہی خلقی تابانی ہوگی۔ یہ دور والا ستارہ لازمی طور پر دھندلا لگتا تھا اور اس کی تابانی (یا دھندلاہٹ) کی پیمائش کرکے دوسرے ان ستاروں سے کی جا سکتی تھی جس کے فاصلے معلوم تھے، اس طرح سے زیادہ دور ستارے کے فاصلے کے بارے میں اندازہ قائم کیا جا سکتا تھا۔

دوسری دو تیکنیکوں کا انحصار جیومیٹریکل ترکیب کے ساتھ طیف بینی پر بھی ہوتا ہے۔ اہم طیف بینی کا عناصر ،جس کو ہم کہکشاؤں کی کہانی کی اہمیت میں اور زیادہ دیکھیں گے، طیف میں وہ مخصوص تیکھے خطوط کے مقام کی تبدیلی ہے جب روشنی کا وہ ماخذ جو طیف کو پیدا کرتا ہماری طرف آ رہا یا ہم سے دور جا رہا ہوتا ہے ۔ سب سے پہلے ایک ایسے جسم کا تصور کریں جو ہم سے دور جار ہا ہے۔ وہ جو کوئی بھی لہر خارج کرے گا - چاہئے وہ ستارے کی صورت میں روشنی کی امواج ہوں، یا زمین پر کسی جسم کی صورت میں صوتی امواج جیسا کہ پولیس کی کار - وہ حرکت کی وجہ سے کھنچتی ہیں۔ کھنچی ہوئی موج کا طول موج بھی لمبا ہو جاتا ہے؛ آواز کی صورت میں، نوٹ گہرا ہو جاتا ہے؛ روشنی کی صورت میں وہ بصری روشنی کے طول موج کو طیف کے سرخ حصّے کی جانب دھکیل دیتی ہے۔ جب موج کا ماخذ ہماری طرف حرکت کرتا ہے تو موجیں کچل جاتی ہیں، ایک ساتھ مل کر بلند پچ کا شور پیدا کرتی ہیں، یا روشنی کو نیلے طیف کے حصّے کی جانب منتقل کر دیتی ہیں۔

یہ دریافت 1842ء میں آسٹریا کے رہائشی کرسچین ڈوپلر نے کی کہ مشاہدہ کی ہوئی آواز کے تعدد ارتعاش کا انحصار شاہد کی نسبت سے ماخذ کی سمتی رفتار پر ہوتا ہے، اس لئے اس کا نام ان کے اعزاز میں رکھا گیا۔ ڈوپلر نے خود سے اس بات کا احساس کرلیا تھا کہ اسی طرح کی تبدیلی حرکت کرتے ہوئے جسم سے آتی ہوئی روشنی میں بھی ہوگی، اور 1848ء میں فرانسیسی طبیعیات دان آرمنڈ فزیو نے پہلی مرتبہ اس سرخ منتقلی یا نیلی منتقلی کے بارے میں واضح توضیح دی۔

اہم بات یہ ہے کہ تبدیلی کی مقدار کا انحصار اس رفتار پر ہے جس سے ستارہ ہماری طرف آ رہا ہے یا ہم سے دور جار ہا ہے۔ کیونکہ جسم کا پورا طیف یا تو کھنچتا ہے یا کچلا جاتا ہے، وہ طول موج جس پر یہ خاصیت والے خطوط جس طرح سوڈیم کے خطوط ہوتے ہیں، سرخ یا نیلے طرف اس مقدار سے منتقل ہوتے ہیں جس کا انحصار اس سمتی رفتار کے منبع پر ہوتا ہے جو سمت نظر کے ساتھ ہوتا ہے۔ لہٰذا ستارے کے طیف میں جہاں شناسا طیفی خطوط ابھرتے ہیں درست مقام کی پیمائش کرکے اور ان کا موازنہ ان طول امواج سے کرکے جو اس روشنی سے ویسے ہی خطوط زمین پر موجود تجربہ گاہ میں کسی مناسب ماخذ سے نکالتی ہیں، فلکیات دان اندازہ لگاتے ہیں کہ آیا ستارے ہمارے طرف یا ہمارے سے دور اور کس شرح سے جا رہا ہے ۔ بلاشبہ یہ آپ کو صرف سمت نظر کے ساتھ صرف حرکت کو بتاتا ہے۔ ایک ستارہ سمت نظر کے ساتھ قاطع سمتی رفتار سے حرکت کر سکتا ہے۔ خلاء میں اس کی اصل حرکت سمت نظر کے کچھ زاویے پر ہوگی، اور اس اصل حرکت کو جیومیٹریکلی مشاہدے سے حاصل کردہ دو سمتی رفتاروں کو جمع کرکے معلوم کیا جا سکتا ہے: قاطع سمتی رفتار یا خاص حرکت اور سمت نظر کے ساتھ سمتی رفتار، جس کا تعین طیف بینی سرخ منتقلی یا نیلی منتقلی سے کیا جا سکتا ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب سوم - 6

ہماری کہکشاں کا زینہ - حصّہ دوم



تو ہم کس طرح سے ان پیمائش کی ہوئی سمتی رفتاروں سے فاصلے کی تشریح کر سکتے ہیں؟ ایک ترکیب تو صرف ستاروں کے جھرمٹوں یعنی وہ جماعت جو خلاء میں ایک ساتھ حرکت کرتی ہے، میں کام کرتی ہے، جو سورج سے بہت زیادہ دور نہیں ہیں۔ ستاروں کی وہ جماعت جو ایک ہی سمت میں حرکت کرتے ہیں اصل میں متوازی خطوط پر ہوتے ہیں، جس طرح سے ریل کی پٹری ہوتی ہے۔ اور جس طرح سے ریل کی پٹری دور جا کر ایک نقطے پر ملتی ہوئی لگتی ہیں لہٰذا اس طرح کی جماعت میں ستاروں کی حرکت، خاص حرکت کی پیمائش کے تعین کے لئے برسوں کے مشاہدات کی ضرورت ہوتی ہے، آسمان پر کسی ایک نقطہ کی طرف ملتی ہوئی لگتی ہے بشرطیکہ جھرمٹ ہم سے کافی قریب ہو۔ اس سے فلکیات دانوں کو اس بات کے بتانے کا بہت فائدہ تھا کہ خلاء کی کس سمت میں - سمت نظر کے کس زاویہ پر - جھرمٹ حرکت کر رہا ہے۔ لہٰذا جب وہ جھرمٹ میں ستاروں کے لئے ڈوپلر منتقلی کی پیمائش کرتے ہیں، تو وہ نہ صرف سمت نظر کے ساتھ سمتی رفتار کی پیمائش کو حاصل کرتے ہیں بلکہ ان کو اس زاویے سے ستارے کی سمت نظر کی طرف حقیقی حرکت بھی اور بحیثیت مجموعی اس سمتی رفتار کا کتنے حصّے کی یہ نمائندگی کرتا ہے، معلوم ہو جاتی ہے۔ وہ حصّہ جو باقی بچ جاتا ہے اسے لازمی طور پر ستارے کی اصل سمتی رفتار کلومیٹر فی سیکنڈ میں سمتی نظر پر ہونا چاہئے۔

اور کیونکہ ہم پہلے ہی سے خاص حرکت کو آسمان میں آرک کے سیکنڈ کی حرکت کی صورت میں جانتے ہیں لہٰذا وہ مارا !ہم ان میں سے ایک تصوراتی مہین مثلث اس بات کو جاننے کے لئے اخذ کر سکتے ہیں کہ اس مخصوص جھرمٹ کو کتنا دور ہونا چاہئے تاکہ وہ فی گھنٹہ رفتار سے اس منتقلی کو فی برس آرک کے سیکنڈ کے پیدا کر سکے۔ یہ بہت ہی پیاری ترکیب ہے، اور اگرچہ یہ صرف ان ستاروں کے جھرمٹ پر ہی کام کرتی ہے جو سورج سے چند دسیوں فلکی فرسخ کے اندر موجود ہوں، اس سے فلکیات دان ان میں سے ایک مخصوص جھرمٹ ہائیڈیز کا فاصلہ ناپنے کے قابل ہو گئے، جس میں بہت ہی مختلف قسم کے ستارے سب کے سب 40 فلکی فرسخ کے فاصلے پر موجود تھے۔ اس کی وجہ سے وہ اس قابل ہوئے کہ مختلف طیفی خطوط کی تابانی کو ٹھیک طرح سے توازن کر سکیں اور اس کے بعد وہ تابانی کی تیکنیک کا استعمال کرتے ہوئے ان ستاروں کے خاندان پر لاگو کر سکیں جو بہت دور ہیں تاکہ وہ آسمان پر قابل پیمائش حرکت کو دکھا سکیں۔


خاکہ 3.3 ڈوپلر اثر کسی شاہد کی طرف آتے ہوئے کسی جسم سے نکلنے والی روشنی کی امواج کو بھینچ دیتا ہے جبکہ دور جاتے ہوئے اس کو کھینچ دیتا ہے۔ حلقے اس سرخی لگے نکات پر مخصوص جسم سے نکلنے والی روشنی کو ظاہر کرتے ہیں۔ ہرچند کہ روشنی ہر سمت میں ایک ہی رفتار سے سفر کرتی ہے، حلقے حرکت کی سمت میں مل کر جمع ہو جاتے ہیں۔

دوسری اہم جیومیٹریکل تیکنیک سننے میں کام کے لائق نہیں لگتی تاہم یہ کام کرتی ہے۔ ستاروں کا بڑا مجموعہ لیں جو ہم سے اتنے قریب ہوں کہ ان کی خاص حرکت کی پیمائش کی جا سکے۔ ہو سکتا ہے کہ زمین پر دیکھنے سے وہ خلاء میں ایک عمومی سمت میں ہی ہوں، یا پھر وہ پورے آسمان پر پھیلے ہوئے ہوں، شاید، اس بنیاد پر کہ ان تمام کے رنگ ایک ہی جیسے ہیں یا ان کے طیف ایک ہی قسم کے ہیں۔ کچھ ایک طرح سے حرکت کر رہے ہوں گے کچھ دوسری طرح سے؛ کچھ دوسروں سے تیز حرکت کر رہے ہوں گے کچھ نسبتاً آہستہ۔ تاہم کہکشاں بحیثیت مجموعی - یقینی طور پر سورج کے گرد علاقے میں - نہ تو خود پر منہدم ہوتی ہوئی نہ ہی باہر کی جانب پھٹتی ہوئی لگے گی۔ ستارے عام طور سے منظم ہیں۔ لہٰذا ان اٹکل پچو حرکتوں میں سب کی اوسط نکالنے پر وہ ایک دوسرے کو لازمی طور پر زائل کرتے ہیں۔ اوسطاً ہم قیاس کرتے ہیں کہ اس بات کا کافی امکان ہے کہ ایک ستارے اس طرف جا رہا ہے جس طرف دوسرا ستارہ۔ لہٰذا اگر ہم اپنی جماعت کے سمت نظر کے ساتھ تمام ستاروں کی سمتی رفتاروں کو جمع کریں اور ڈوپلر سمتی رفتار کا اوسط لیں، تو ہم ایک ہی جماعت کے ستاروں کی اوسط سمتی رفتار کسی بھی دوسری سمت میں قیاس کر سکتے ہیں سمت نظر کے ساتھ سمتی رفتار کو تو بطور خاص ویسا ہی ہونا چاہئے۔ اس طرح سے فرض کرکے، یہ ممکن ہے کہ سمت نظر کے ساتھ فرض کی ہوئی اصل سمتی رفتاروں کو خاص زاویائی خاص حرکت کے ساتھ تقابل کرکے چنے ہوئے ستاروں کی جماعت کے تمام ستاروں کو 'اوسط فاصلہ' دے دیا جائے۔

اس تیکنیک کو 'شماریاتی اختلاف زاویہ' کہتے ہیں، تاہم اگر کسی انفرادی ستارے پر اس کا اطلاق کیا جائے گا تو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، تاہم جتنے زیادہ ستارے آپ کے پاس موجود ہوں گے، اتنی ہی زیادہ قابل بھروسہ اوسط آپ کو حاصل ہوگی، لہٰذا کچھ ستاروں کے فاصلوں کو بیان کرنے کا یہ کوئی بہت زیادہ برا اشارہ نہیں ہوگا - قطعی اس ترکیب کا استعمال کرتے ہوئے یہ ممکن ہے کہ ستاروں کی جماعت بشمول ایک مخصوص قسم قیقاؤسی متغیر کے 'اوسط فاصلے' کے بارے میں اندازہ لگایا جا سکے۔ ان فاصلوں سے ہمیں پوری ملکی وے نظام کو اور اس کے باہر کائنات کو ناپنے کی چھڑی مل جاتی ہے۔ ہمارے کائنات کے پیمانے کا انحصار جیسا کہ میں بیان کرنے جا رہا ہوں ایک یا دو قیقاؤسی کے فاصلوں کو جاننے پر ہے۔ اب دوسری تیکنیکیں بھی موجود ہیں جس کے بارے میں تفصیل نہیں بیان کروں گا، انہوں نے ابتدائی قیقاؤسی ناپنے کے پیمانے کو بہتر کیا ہے۔ اس کا انحصار ستاروں کے رنگ اور ان کے ظاہری تابانی پر ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے اگر آپ ستاروں کی ایسی جماعت کو لیں جو اصل میں طبیعی طور پر جھرمٹ میں متعلق ہوں تو انفرادی ستاروں کا رنگ گراف پر بنایا جا سکتا ہے جس کو رنگین ظاہری روشنی کا خاکہ کہتے ہیں۔

اس طرح کے پلاٹ سے بنے ہوئے خط کے مقام کا انحصار زمین سے دیکھنے پر جھرمٹ کی روشنی پر ہوتا ہے، اور اس مقام کو درست کیا جا سکتا ہے تاکہ تمام ایسے جھرمٹ ایک معیاری خط پر بیٹھ جائیں بشرطیکہ ہر جھرمٹ کے فاصلے کے لئے خیال کیا جائے۔ بالفاظ دیگرے فرض کریں کہ ہر جھرمٹ میں ستارے اسی ایک طبیعیاتی اصول پر کام کرتے ہیں (اور اگر یہ بات درست نہیں ہو تو ہم کو فلکیات پر کام کرنے کی کوشش ہی چھوڑ دینی چاہئے) ہم ہر جھرمٹ کو رنگین ظاہری روشنی خاکے میں اپنے سے دور منفرد فاصلے کو دے کر بیٹھا سکتے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود بھی ہمیں کم از کم ایک جھرمٹ کے فاصلے کو کسی بھی ایک اختلاف زاویہ کی تیکنیک سے جاننا ہوگا تاکہ رنگین ظاہری روشنی کے خاکے میں فاصلے کے پیمانے کو پہلی دفعہ ٹھیک کر سکیں۔

بلاشبہ فلکیات دان دیکھ سکتے ہیں اور اختلاف زاویہ سے بہت زیادہ دور کے اجسام کے بارے میں تفتیش کرکے اس کو ناپ سکتے ہیں۔ تاہم وہ صرف اندازہ کر سکتے ہیں کہ دور درز کے اجسام کتنے دور ہو سکتے ہیں اور صرف وہی ملکی وے کہکشاں کی حقیقی وسعت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ کافی فلکیات دنوں کو ملکی وے نظام سے دور کی کہکشاؤں کے بارے میں تصوّر کافی مضحکہ خیز لگتا ہے۔ اس وقت تک ایک پیمائش کا نیا پیمانہ نکل آیا - ایک ایسا پیمانہ جو خلاء کو کھینچ سکتا ہے تاکہ ان ماورائے کہکشاں سحابیوں میں سے کچھ کی براہ راست پیمائش دے سکے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب سوم - 7
قیقاؤسی پیمائشی پیمانہ - حصّہ اوّل



نظام شمسی سے ملکی وے کہکشاں میں جانے کے لئے پہلے قدم کا انحصار قریبی ستارے کا فاصلہ جاننے میں ہے، لہٰذا ملکی وے سے نکل کر کہکشاں میں جانے کا انحصار بڑی طور پر ماورائے کہکشانی خلاء میں اپنے قریبی پڑوسیوں کے فاصلے کو ڈھونڈنے میں ہے جن میں دو سحابئے میجیلانی بادل کہلاتے ہیں جو جنوبی نصف کرہ کے آسمان میں نظر آتے ہیں۔ ان کا نام ایک کھوجی میجیلان کے نام پر رکھا گیا ہے جب اس نے کرے کے گرد بحر گردی کے رسمی واقعہ نگاری میں ان کو 1521ء میں بیان کیا تھا۔ یہ پہلی یورپ کی تہذیب تھی جو ان ایک چھوٹے اور دوسرے بڑے بادلوں کو جانتی تھی جو ملکی وے کے ایسے ٹکڑے لگتے تھے جو ٹوٹ گئے ہوں۔ سولہویں صدی میں کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ بادل کیا تھے - یا ملکی وے خود اس مسئلہ کے لئے کیا ہو سکتی تھی۔ حقیقت میں تو ان کو فلکیات دانوں نے بری طرح نظر انداز کیا یہاں تک کہ جان ہرشل جو ولیم کا بیٹا تھا اس نے جنوبی نصف کرے کے ستاروں اور سحابیوں کا سروے 1830ء کی دہائی میں کیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں اس میں کوئی شک باقی نہیں رہا تھا کہ یہ بادل ملکی وے کی طرح ستاروں کا مجموعہ تھے۔ تاہم سحابیہ کا نظریہ بطور جزیرہ کائنات ختم ہو چکا تھا اور فلکیات دان عمومی طور پر سمجھتے تھے کہ میجیلانی بادل ملکی وے نظام کا حصّہ تھے یا شاید بہت ہی چھوٹے خودمختار نظام ملکی وے سے تھوڑا سا باہر کے تھے، چھوٹے سیارچے جو اس کے ثقلی پیش بند سے بندھے ہوئے تھے۔ میجیلانی بادلوں کے بارے میں سچائی کا ظہور - اور کائنات کے پیمانے کے بارے میں - کسی اندھے الہام کے ذریعے یا نئے مظاہر کے مشاہدے سے نہیں ہوا بلکہ عرق ریزی اور انتہائی محتاط ہزار ہا ستاروں کی فہرست بنانے اور ان کا جائزہ لینے سے ہوا جس کو ایڈورڈ پکرنگ نے انیسویں صدی کے آخری ربع میں ہارورڈ کالج رصدگاہ میں شروع کیا تھا۔

پکرنگ 1846ء میں بوسٹن، میسا چوسٹس میں پیدا ہوا تھا۔ اس نے طبیعیات کی تعلیم نئے میسا چوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں 1860ء اور 1870ء کی دہائی میں حاصل کی اور 1876ء میں ہارورڈ میں فلکیات کا پروفیسر اور رصدگاہ کا نگران مقرر ہوا۔ اگلی چار دہائیوں کے دوران وہ آسمان کی بنائی جانے والی کافی ساری فہرستوں کا ذمہ دار تھا جس میں سے ہر ایک اپنے پیش رو سے بڑی اور بہتر تھی، اور وہ فلکیات دانوں کی ایک پوری نسل کے لئے مثالی فلکیات دان تھا۔ وقت کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے میں ستاروں کی تابانی اور ان کے محل وقوع کی فہرست بنانے کی اکتا دینے والا کام جس میں اعداد کی لمبی فہرست کو انتہائی احتیاط کے ساتھ صاف ستھرا کالی دوات سے لکھا جاتا تھا وہ کم اجرت والی عورتوں کو دیا جاتا تھا، فطرتاً وقت کے برخلاف پکرنگ نے پہلے عورتوں کو کام کرنے کی اجازت دی اور پھر ان کی حوصلہ افزائی کی جس میں ان میں سے کچھ عورتیں بہتر مقام پر آ گئیں اور اس وقت کی خاص مردانہ علمی دنیا میں انہوں نے پہلا قدم رکھا۔ ان خواتین میں سے ایک ہینریٹا سوان لیوٹ تھیں جن کو جنوبی آسمان کی عکاسی تختیوں میں سے متغیر ستاروں کی شناخت کا کام سونپا گیا تھا، جس کو پکرنگ کے بھائی ولیم نے پیرو میں واقع ایک مشاہداتی جگہ سے حاصل کیا تھا۔

ہینریٹا لیوٹ 1868ء (جولائی کی چار تاریخ کو؛ ایک حقیقی انقلاب کی بیٹی) میں پیدا ہوئیں اور انہوں نے سوسائٹی فار کالجیٹ انسٹرکشن آف وومن سے تعلیم حاصل کی جو بعد میں ریڈکلف کالج بن گیا تھا۔ وہ پکرنگ کے پروگرام میں 1895ء میں بطور تحقیقی ماتحت رضاکار کے شامل ہوئی اور 1902ء میں اس مقام پر مستقل ہو گئیں اور جلد ہی وہ وہاں شعبے کی سربراہ بن گئیں۔ بلاشبہ پکرنگ خوش تھا کہ اس کی ٹیم میں کوئی ایسی صلاحیت، صبر اور لیاقت کے ساتھ موجود تھا جو پیرو سے لائی گئی عکاسی تختیوں سے کچھ کام کی چیز نکالنے کی حس رکھتا تھا، اگرچہ ان دونوں کو 1895ء میں اس بات کا خفیف سا بھی علم نہیں تھا کہ لیوٹ کی تحقیق سے اگلے سترہ برسوں میں کیا چیز نکل کر سامنے آنے والی تھی۔

متغیر ستارے - وہ ستارے جن کی روشنی میں تغیر ہوتا ہے - ظاہر ہے کہ فلکیات دانوں کی دلچسپی کا باعث ہیں۔ زیادہ تر ستارے ایک جیسے لگتے ہیں، کم از کم انسانی زندگی کے عرصے کے دوران تو ایسا ہی ہوتا ہے، اور کوئی بھی چیز جو اس عمومی حالت سے باہر ہوتی ہے لازمی طور پر مرکز نگاہ بن جاتی ہے۔ کچھ متغیر تو حقیقت میں دو ستارے ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے گرد چکر لگاتے ہوئے اپنے ساتھی کو گرہن لگاتے ہیں اور اس کی روشنی کو چھپا دیتے ہیں۔ دوسرے جیسا کہ ہم اب ان کے بارے میں جان گئے ہیں، وہ دھڑکتے ستارے ہوتے ہیں، پہلے پھولتے ہیں اور پھر خود پر سکڑ جاتے ہیں اور یہ چکر باقاعدگی سے دہراتے ہیں جس سے ان کی روشنی کم اور زیادہ ہوتی ہے۔ قیقاؤسی اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ اور کچھ - چند ایک - ستارے بہت ہی متشدد متغیر ہوتے ہیں، اور اپنی عام زندگی خاموشی سے گزارنے کے بعد منہدم ہونے سے پہلے اور نجمی راکھ بن کر ختم ہونے سے پہلے تھوڑے ہی وقت میں باہر کی جانب بلند توانائی کو پھینکتے ہیں، فلکیاتی عکس بندی کا ایک عظیم فائدہ یہ ہے کہ دنوں، مہینوں یا برسوں کے وقفے سے لی گئی تصاویر کا موازنہ کرکے یہ ممکن ہے کہ اس قسم کی تمام سرگرمیوں کی شناخت کر لی جائے۔ یہاں تک کہ آپ اس مظہر کی تفتیش بھی کر سکتے ہیں جس کے اہمیت عکس بندی کے دوران اس وقت بھی نہ معلوم ہو جب تصاویر اتاری جا رہی ہوں۔ اپنے کام کے دوران، لیوٹ نے 2,400 متغیر ستاروں کی (اس کی 1921ء میں موت کے وقت فلکیات کی دنیا میں کل جانے والے اس طرح کے ستاروں کا نصف) اور چار پھٹتے ہوئے ستاروں کی شناخت کی جس کو نووا کہتے ہیں۔ اور یہ اس کی ایک مخصوص قسم کے متغیر ستارے پر تحقیق تھی جس نے اس کو کائنات کے رازوں کے قفل کی کنجی پکڑا دی تھی۔

متغیر ستاروں کا وہ خاندان جس کو قیقاؤسی کہتے ہیں اس کا نام ڈیلٹا قیقاؤس سے پڑا جس کو بطور متغیر ستارے ایک نوجوان انگریز فلکیات دان جان گڈریک نے 1784ء میں شناخت کیا تھا۔ وہ صرف دو برس بعد اکیس برس کی عمر میں انتقال کرگیا۔ قیقاؤسی تابانی میں ایک باقاعدہ تغیر کا نمونے کی خاصیت کو دکھاتے ہیں، تاہم مختلف قیقاؤسیوں میں اس طرح کا تغیر مختلف ہوتا ہے، کسی میں دو دن سے بھی کم ہوتا ہے جبکہ کچھ کا سو دن سے بھی زیادہ کا دورانیہ ہوتا ہے۔ اوسط پانچ دنوں کی ہوتی ہے۔ روشن اور مدھم دونوں کے مخصوص ہونے کی وجہ سے اور کیونکہ وہ اپنے طیف میں بھی خاندانی شبہات دکھاتے ہیں ان کی ایک خاندان کے رکن کی حیثیت سے شناخت کی جا سکتی ہے۔ قیقاؤسیوں کے بارے میں بلاشبہ ایک دلچسپ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ ان کے دورانیے مختلف ہوتے ہیں جب کہ ہر انفرادی ستارہ ایک مستقل میعاد دکھاتا ہے۔ جیسا کہ لیوٹ نے اپنا عرق ریزی سے کیا جانے والا کام جاری رکھا، اور قیقاؤسوں (اور دیگر متغیروں) کو عکسی تختیوں پر شناخت کرتی رہی، اور ان میں سے ہر ایک کی طوالت اور چکر، ان کی اوسط بظاہر روشنی درج کرتی رہی تو اس نے ایک ظاہر ہوتا ہوا نمونہ دیکھا۔ جتنا زیادہ قیقاؤسی روشن ہوگا اتنا ہی آہستہ وہ اپنے تغیر کے چکر سے گزرے گا۔​
 
Top