1908ء میں لیوٹ نے کچھ اتنا اس وقت کہا جب اس نے اپنے کام کی پیش رفت کی ابتدائی رپورٹ شایع کی۔ ان اعداد و شمار کو لکھنے میں مزید چار برس لگ گئے۔ تاہم جب یہ 1912ء میں سمجھ لیا گیا تو اس نے کہکشاں کے پیمانے کے فاصلے کو قائم کرنے کے لئے حقیقی امید دلائی اور یہ سب میجیلانی بادلوں کی رہین منت تھی۔
اس وقت لیوٹ نے میجیلانی بادلوں ( اکثر وہ ایس ایم سی بھی کہلاتا ہے جس کی وجہ صاف ظاہر ہے) میں سے چھوٹے بادل میں پچیس قیقاؤسیوں کی شناخت کی۔ یہ بہت واضح طور پر تابانی اور دورانیے کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتے ہیں، جو بمشکل بذات خود ملکی وے کے تمام متغیر دکھاتے تھے۔ اس کی وجہ سمجھنا آسان ہے۔ ملکی وے کہکشاں میں ستارے ہم سے مختلف فاصلوں پر منتشر ہیں۔ کچھ قریب ہیں، دوسرے دس یا سینکڑوں گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ دور ہیں۔ ایک ستارہ جو دوسرے ستارے سے دو گنا زیادہ روشن اور دو گنا زیادہ دور ہے حقیقت میں دونوں میں سے زیادہ دھندلا لگتا ہے - نظر آنے والی روشنی کا انحصار اصل درخشندگی کو فاصلے کے مربع سے تقسیم کرنے پر ہوتا ہے۔ لہٰذا جیسا کہ اب یہ بات جان لی گئی ہے کہ دورانیے اور تابانی کی نسبت ہماری اپنی کہکشاں کے اندر چھپ جاتی ہے۔
تاہم چیزیں چھوٹے میجیلانی بادل کے لئے الگ طرح سے ہیں۔ بادل ہم سے اس قدر دور ہے کہ اس میں موجود تمام ستارے زمین سے لگ بھگ ایک جیسے ہی فاصلے پر لگتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی دوسرے سے تھوڑا اور قریب ہو سکتا ہے تاہم ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں سمجھا جاتا کہ وہ دوسروں سے دوگنے فاصلے پر موجود ہو۔ فاصلے میں اختلاف کا پیمانہ بادل کے اوسط فاصلے سے بہت ہی کم ہے بعینہ ایسے جیسے کہ انگلستان کے ایک چھوٹے سے قصبے میں یہ کتاب لکھ رہا ہوں ، نیویارک میں رہنے والا ہر کوئی اس کا فاصلہ ایک ہی جیسے سمجھے گا۔ مجھ سے سب سے نزدیک قصبہ ایک میل دور ہے، اور قصبے کی دور دراز جگہ قریبی جگہ سے دو گنا زیادہ دور ہے۔ ایک میل کا فاصلہ اس وقت کافی اہمیت رکھتا ہے جب میں قصبے کے ایک حصّے سے دوسری طرف کا سفر کروں۔ تاہم تمام عملی مقاصد کے لئے میں ٹائم اسکوائر اور اسٹیچو آف لبرٹی سے ایک جتنا ہی دو ہوں۔ چند میل کے فاصلے کو اگر شمالی بحراوقیانُوس کی چوڑائی سے ملایا جائے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
لہٰذا ایسا تھا کہ لیوٹ قیقاؤسی کی تابانی اور دورانیے کے درمیان تعلق کو ایس ایم سی میں اپنے پچیس متغیروں کی بدولت جاننے کے قابل ہو گئی تھی۔ مثال کے طور پر اس نے پایا کہ اگر ایک قیقاؤسی کے پاس تین دن کا وقت ہوتا ہے اور دوسرے کے پاس اکتیس دن کا تو وہ ستارہ جس کا دورانیہ لمبا ہوتا ہے وہ کم دورانیے والے ستارے سے چھ گنا زیادہ روشن ہوگا۔ فرض کریں کہ جو اصول اس نے میجیلانی بادل کے قیقاؤسیوں میں پایا تھا اگر تمام قیقاؤسیوں کے لئے درست ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملکی وے کہکشاں میں موجود قیقاؤسیوں کا استعمال کرکے ملکی وے میں ستاروں اور ستاروں کے جھرمٹوں کا نسبتی فاصلے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تاہم کوئی بھی ایک بھی قیقاؤسی کی حقیقی اصل تابانی کو نہیں جانتا تھا لہٰذا فاصلے کا پیمانے کا توازن درست نہیں تھا۔ فلکیات دانوں کے ہاتھ اب کہکشاں کو ناپنے کی چھڑی لگ گئی تھی، تاہم وہ اس چھڑی کی لمبائی کو نہیں جانتے تھے؛ وہ یہ تو بتا سکتے تھے کہ ایک ستارہ یا ستاروں کے جھرمٹ دوسرے سے دوگنا زیادہ دور تھے، تاہم وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ میلوں میں یا کلومیٹروں میں فاصلہ ناپ رہے ہیں۔ لہٰذا وہ اب بھی نہیں جانتے تھے کہ آیا میجیلانی بادلوں کے نظام ملکی وے کے اندر تھے یا وہ بہت دور کے اجسام یعنی کہ خود اپنے آپ میں کہکشاں ہیں۔
سچائی کو ابھر کر سامنے آنے میں صرف ایک ہی برس لگا۔ ایجنار ہرٹزپرنگ جو ایک ڈنمارکی فلکیات دان اور طبیعیات تھے (اور جو 1867ء میں پیدا ہوئے اور 1967ء میں اپنی موت تک تحقیق میں سرگرم رہے تھے)، انہوں نے سب سے پہلے دو قریبی قیقاؤسیوں کے درمیان فاصلے کو شماریاتی اختلاف زاویہ کی ایک مختلف قسم کا استعمال کرتے ہوئے ناپا۔ اپنی تمام تر کمیوں کے ساتھ اس تیکنیک نے ان کو ایک یا دو قیقاؤسیوں کے اصل فاصلے کے بارے میں اشارہ دیا۔ فاصلے کے ساتھ ان کی نظر آنے والی تابانی کا موازنہ کرکے وہ آسانی کے ساتھ ہر صورت میں اصل تابانی کا حساب لگا سکتا تھا۔ اس سے کسی بھی دوسرے قیقاؤسی کا اصل فاصلے کا حساب لگانے کے لئے یہ ایک سادہ قدم تھا جس میں اس کے دورانیے کا حساب لگا کر اشارہ مل جاتا تھا کہ اس کو ان چند کے مقابلے کتنا مدھم یا روشن حقیقت میں ہونا چاہئے جن کے فاصلے اور مطلق تابانی کی پیمائش کی جاچکی تھی۔ ہرٹزپرنگ نے نتیجہ نکالا کہ ایس ایم سی 30,000 ہزار نوری برس (لگ بھگ 10,000 ہزار فلکی فرسخ) دور ہے، اس کا اتنا دور ہونے کی کسی کو بھی توقع نہیں تھی۔ تاہم ان پیمائشوں نے کائنات کے حقیقی حجم کے بارے میں فوراً ہی آنکھیں نہیں کھولیں، اس کی دو وجوہات تھیں۔ پہلی کیونکہ اس نے اس حقیقت کو شامل حال نہیں کیا تھا کہ خلاء میں موجود دھول دور دراز کے ستاروں کی کچھ روشنی کو روک لیتی ہے اور ان کو اصل سے کہیں زیادہ مدھم کر دیتی ہے، ہرٹزپرنگ کا حساب تھوڑا سے غلط تھا - سب سے بہترین جدید حسابات سے بڑے میجیلانی بادل کا فاصلہ مزید 170,000 نوری برس کا متاثر کرنے والا یا 52,000 فلکی فرسخ کا معلوم ہوا جبکہ چھوٹے میجیلانی بادل کا فاصلہ 63,000 فلکی فرسخ (63 کلو فلکی فرسخ) ہے۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ فلکیات دان اگلے چند برس تک اپنی نئی حیرت انگیز پیمائش کی چھڑی کے ساتھ ملکی وے کا حجم ناپ کر پریشان ہونے میں بہت زیادہ مصروف تھے کہ ملکی وے سے آگے کیا ہے۔ میجیلانی بادلوں سے آگے اصل کائنات میں جانے کے لئے تخیل میں نئی چھلانگ لگانے کے لئے نئی نسل کی دوربینوں کی ضرورت تھی۔ اس سے پہلے کہ ہم یہ دو قدم اٹھاتے یہ عین درست بات ہے کہ ان فلکیات دانوں کی عظیم کامیابی کا اعتراف کیا جائے جنہوں نے ہماری اپنی کہکشاں کا نقشہ ان تیکنیک کا استعمال کرکے بنایا تھا جس نے بعد میں خلاء کی گہرائی میں کی جانے والی تفتیش کی بنیاد رکھی۔
دو آدمی جو مل کر بڑی حد تک کائنات کے پیمانے کی تفہیم کے لئے اگلے قدم کے ذمہ دار تھے وہ بالکل ہی مختلف جگہوں سے آئے تھے۔ جارج ایلری ہیل جو بیسویں صدی کے دوربین بنانے والے - بلکہ اگر ہم گلیلیو، ہرشل یا روسے کے وقت سے فنیات میں ہونے والی پیش رفت کو بھی مد نظر رکھ لیں تو شاید اب تک کے عظیم تر کاریگر - اور ایک صاحب حیثیت انسان تھے، ایک بالا بر بنانے والے کے فرزند۔ وہ 1868ء میں شکاگو میں پیدا ہوئے اور ان کی تعلیم روایتی طریقوں سے ہوتے ہوئے ایم آئی ٹی تک گئی اور پھر وہ 1892ء میں شکاگو یونیورسٹی میں فلکیات کے پروفیسر تعینات ہوئے۔ ہیل کی فلکیات سے رغبت بچپن میں اس وقت بڑھی جب انہوں نے جانا کہ سورج سے آنے والی روشنی کو طیف بینی کے ذریعہ تجزیہ کرکے اپنے قریبی ستارے کے اجزائے ترکیبی کو معلوم کیا جا سکتا ہے۔ بیس برس کی عمر میں وہ نئے قسم کے طیف بینی کے آلات بنا رہے تھے جن سے سورج کی روشنی کا مزید بہتر تجزیہ کیا جا سکتا تھا؛ ڈارون کی کتاب 'انواع کا ماخذ' کے شایع ہونے کے دس برس بعد پیدا ہوا اس فلکیات دان کا یہ زندگی کا خواب تھا کہ سائنس ایک دن ستاروں کے ماخذ اور ارتقاء اور حیات کے ماخذ اور ارتقاء کو ایک ہی عظیم ہلے میں بیان کرنے کے شاید قابل ہو جائے۔ آج یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا خواب پورا ہو گیا - اور کتاب لکھنے کی وجہ یہ ہی ہے۔ اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ ہیل کے ولولے اور دوربین بنانے والی کاریگری، سرمایہ فراہم کرنے والے اور رصدگاہ کے نگران کی وجہ سے ہم اس کے خواب کو پورا کرنے کے انتہائی قریب ہیں۔
ہیل کا مستقبل جو نئی نسل کی دوربینوں اور رصدگاہوں کو بنانے کے پیچھے تھا اس کی شروعات اتفاق سے اس وقت ہوئی جب اس نے سنا کہ سدرن کیلی فورنیا یونیورسٹی نے 40 انچ کی انعطافی دوربین کے عدسے کو بنانے کی فرمائش جاری کی ہے تاہم وہ اس کی ادائیگی کے قابل نہیں تھی۔ دوربینوں کی قدر ان کے اہم بڑھا کر دکھانے والے عدسے یا آئینوں کے قطر کی مدد سے جانی جاتی ہے، اور اس وقت 1890 کی دہائی میں سب سے بڑی انعطافی دوربین (یعنی کہ وہ جس میں اہم عدسے کو آئینے کے بجائے استعمال کیا جا رہا تھا) وہ کیلی فورنیا میں واقع سان جوز کے قریب ماؤنٹ ہملٹن کی لک رصدگاہ کا 36 انچ کا تھا۔ یہ فلکیاتی عدسوں کو صحت کے ساتھ بنانے کی آخری عملی حد کے قریب تھا کیونکہ اس سے بڑے اپنے خود کے وزن سے مڑ کر خراب ہو جاتے تھے۔ آج کی سب سے بڑی دوربینیں تمام کی تمام انعکاسی ہیں جو عدسوں کو نہیں بلکہ بڑے مکافی نما آئینوں کا استعمال کرکے ارتکاز کے ذریعہ ستاروں کی روشنی کو جمع کرتی ہیں۔ آئینے کے استعمال کا فائدہ عدسوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے کیونکہ اس سے کوئی روشنی نہیں گزرتی لہٰذا آئینے کے پیچھے اس کو پکڑنے کے لئے سہارا بھی دیا جا سکتا ہے۔1890ء کی دہائی کے آغاز میں یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ دوربینوں کو بنانے کے لئے اگلے قدم میں بڑے آئینوں کی ضرورت ہوگی؛ تاہم ہیل کی دلچسپی ان بنے بنائے عدسوں کو حاصل کرنے کے امکان سے تھی جو پیرس کی ورکشاپ میں رکھے ہوئے تھے جہاں انھیں بنایا جاتا تھا اور بعد میں ان کو لک سے بھی زیادہ بڑی دوربین بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ ایک صاحب ثروت آدمی کے بیٹے کی حیثیت سے اس کے پاس منصوبے میں لگانے کے لئے درکار سرمائے کو حاصل کرنے کے لئے درست رابطے موجود تھے، اور اس نے شکاگو کی صاحب حیثیت خاندانوں سے بات چیت بھی کر لی تھی، بالآخر درکار سرمائے کا وعدہ چارلس یرکس سے حاصل کرلیا جو ایک ٹرالی کار والا بڑا آدمی تھا۔ جو رقم درکار تھی وہ 349,000 ڈالر تھی جس کو یرکس نے کنجوسی کے ساتھ ٹکڑوں میں اگلے چند برسوں میں اس وقت فراہم کی جب تک ہیل نے اپنی مہم جاری رکھی۔ تاہم پیسا آگیا اور دوربین بن گئی اور شکاگو یونیورسٹی میں یرکس رصدگاہ کا اہم مرکزی حصّہ بنی جہاں 1897ء میں ہیل اس کا ]پہلا سربراہ انتیس برس کی عمر میں بنا۔ 40 انچ (لگ بھگ ایک میٹر) یرکس دوربین اب بھی دنیا کی سب سے بڑی انعکاسی دوربین ہے۔
ہیل کے پاس اب اگلا بڑا قدم اٹھانے کا وقت تھا۔ اس کی ولیم بے، وسکونسن میں واقع رصدگاہ میں بڑا انعکاسی بھی کافی اچھا تھا تاہم یہ کچھ بڑا اور بہتر اور زیادہ موزوں جگہ پر چاہتا تھا۔ زمین سے ستاروں کو دیکھنے کی سب سے اچھی جگہ اونچے پہاڑ پر ہوتی ہے جو ہمارے سیارے کے نچلی کرۂ فضائی میں دھول اور بادلوں سے صاف اور شہروں کی روشنیوں سے دور ہو۔ جلد ہی ہیل کیلی فورنیا میں واقع ماؤنٹ ولسن میں ایک چھوڑی ہوئی جھونپڑی میں خیمہ زن اس وقت ہوا جب وہ ایک چھوٹی دوربین سے آسمان کے منظر کی جانچ کر رہا تھا۔ دوبارہ واپس آکر اس نے واشنگٹن کے کارنیگی انسٹیٹیوشن سے ماؤنٹ ولسن میں ایک نئی رصدگاہ بنانے کے لئے مدد کو جمع کرنا شروع کیا جو ابتدائی طور پر 60 انچ (1.5 میٹر) پھیلی ہوئی انعکاسی دوربین کے ساتھ اور ہیل بطور سربراہ کے کام کرتی۔ آئینہ بذات خود ہیل کے باپ کی طرف سے ایک تحفہ تھا جو 1908ء میں استعمال ہونا شروع ہوا اور یہی وہ اہم آلہ تھا جو اس آدمی نے استعمال کیا جس نے ہماری ملکی وے کہکشاں کا سچا پیمانہ قائم کیا۔
ہارلو شیپلی کا پس منظر زمینداری تھی اور وہ مسوری میں 1885ء میں پیدا ہوا تھا۔ اس نے بطور بچہ بہت ہی تھوڑی سی تعلیم حاصل کی تھی، اور سولہ برس کی عمر میں کینساس اخبار میں بطور کرائم رپورٹر کے کام کر رہا تھا ۔تاہم شیپلی کو اندازہ ہو گیا کہ رسمی تعلیم اس کے پیشے میں مددگار ثابت ہوگی اور کارتھیج پریسبیٹیرین کالجیٹ میں دو برس گزارنے کے بعد وہ مسوری یونیورسٹی چلا گیا تاکہ صحافت کے کورس میں داخلہ لے سکے۔1907ء میں یہاں پہنچنے کے بعد اس کو معلوم ہوا کہ کورس اگلے ایک برس تک شروع نہیں ہوگا، اس سے اسے لگا کہ اس نے پہلے ہی تعلیم کو حاصل کرنے میں کافی وقت ضائع کر دیا ہے لہٰذا اس نے کچھ بھی پڑھنے کا فیصلہ کیا - کچھ بھی - بجائے کہ آوارہ گردی کرتا۔ اپنی زندگی کے آخر میں (شیپلی کی موت صرف 1972ء میں ہو گئی تھی) وہ ہمیشہ کہتا تھا کہ اس نے فلکیات اس لئے چنی کہ اس کی شروعات انگریزی حرف تہجی کے A سے ہوتی ہے لہٰذا دستیاب کورسز کی فہرست میں اس کی آنکھ نے اس کو سب سے پہلے دیکھا تھا۔ چار برسوں کے بعد شیپلی ایسے ہی چنے ہوئی مخصوص بی اے اور ایم اے کے ساتھ نمودار ہوا، اور پرنسٹن گیا جہاں ہینری نورس رسل نے اس کو ثنائی ستاروں کی تحقیق کا کام سونپا۔ اگلے تین برسوں تک شیپلی کا زیادہ تر کام گرہن لگتے ثنائی ستاروں سے متعلق تھا، اس نے ہمیشہ کے لئے یہ بات طے کردی کہ تمام قیقاؤسی ستارے ثنائی ستارے نہیں ہوتے بلکہ وہ نابض ستارے بھی ہو سکتے ہیں۔ اور 1914ء میں اس بات کے سات برس بعد جب مسوری یونیورسٹی میں اس کو صحافت کا کورس نہیں ملا تھا، شیپلی پرنسٹن سے پی ایچ ڈی کی سند لے کر اور نئی نسل کے روشن ترین فلکیات دانوں میں سے ایک بن کر ابھرا۔ اس کا صلہ اس کو ماؤنٹ ولسن کی نئی رصدگاہ میں ماہانہ 135 ڈالر کی نوکری کی صورت میں ملا، اس سے کہیں زیادہ اہم بات یہ تھی کہ اس کے پاس اب دنیا کی سب سے بڑی نئی 60 انچ والی دوربین تک رسائی تھی۔
یہ بات اس کے ایک برس بعد کی ہے جب ہرٹزپرنگ نے قیقاؤسیوں کو دور کے اشارے کے طور پر استعمال کرنے کی پہلی کوشش کی تھی، اور قیقاؤسی خود شیپلی کی پی ایچ ڈی کا حصّہ تھے اگرچہ ان کا حصّہ کافی کم تھا۔ دنیا کی بہترین دوربین تک اپنی مرضی سے استعمال کرنے کی رسائی کے بعد شیپلی نے قیقاؤسیوں کی مدد سے ملکی وے کا نقشہ بنایا۔ جس طریقے کا استعمال اس نے کیا اس سے ہماری کہکشاں کی ایک اور خاصیت سامنے آئی، ایک ایسی چیز جو اس سے بالکل الگ تھی جس سے ہمارا ابھی تک واسطہ پڑا تھا۔ یہ عالمگیری جھرمٹ تھے، ستاروں کی کروی جماعت جس میں سے ہر ایک میں دسیوں ہزار سے لے کر چند کروڑ تک مختلف ستارے آپس میں بندھے ہوئے تھے جو کسی عام دوربین سے دیکھنے پر خوبصورت نگینے کی طرف چمکتے تھے۔ یہ عالمگیر جھرمٹ زیادہ تر آسمان کے ایک حصّے میں موجود تھے اور وہ خود سے کرہ کی شکل میں منظم لگتے تھے۔ لیکن کیا یہ کوئی چھوٹا قریبی کرہ تھا یا بڑا دور کا کرہ تھا؟ خوش قسمتی سے عالمگیر جھرمٹوں میں اکثر عام متغیر بھی موجود تھے - جن میں سے اکثر تو صرف ایک ہی جھرمٹ میں پائے گئے تھے۔ لہٰذا شیپلی نے نئی پیمائش کی چھڑی اور نئی دوربین کا استعمال کرکے ان میں سے کچھ جھرمٹوں کا ٹھیک فاصلہ معلوم کرلیا۔ جب اس نے یہ کام کیا تو اس کو معلوم ہوا کہ ہر جھرمٹ میں سے روشن ترین ستارے ہمیشہ سے لگ بھگ ایک ہی خلقی تابانی کے ہوتے ہیں جس طرح سے دوسرے جھرمٹوں میں روشن ترین ستارے۔ قیقاؤسی پیمائشی چھڑی کی مدد سے اس نے ملکی وے کی نئی پیمائش کی - ان عالمگیر جھرمٹوں میں جن میں کوئی قیقاؤسی نہ بھی دیکھا جاسکے اس کے فاصلے کا تخمینہ ان کے روشن ترین ستاروں کو دیکھ کر یہ فرض کرکے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی روشنی دوسرے جھرمٹوں میں موجود ستاروں کے جیسی ہی ہوگی، اور ان کا فاصلہ ان دیوہیکل ستاروں کی ظاہری تابانی (یا دھندلے پن) سے لگایا جا سکتا ہے۔
خاکہ 3.4 ہارلو شیپلی نے معلوم کیا کہ عالمگیر جھرمٹوں کی تقسیم جس کو یہاں دائروں میں ظاہر کیا ہے بتاتی ہے کہ سورج اور ہمارا نظام شمسی ملکی وے کے مرکز سے بہت دور موجود ہے۔
اس سب کا نتیجہ ہماری کہکشاں کا ایک نیا نقشہ تھا۔ عالمگیر جھرمٹوں کو ہم اپنے سے بہت دور ملکی وے کے قلب میں مجمع النجوم برج قوس کی مرکزی سمت کی طرف ایک نقطہ میں ایک وسیع کرہ کو بھرتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ صرف ایک معقول نتیجہ یہ تھا کہ اس کروی نظام کا مرکز اصل میں ملکی وے کہکشاں کا مرکز ہے اور سورج اور نظام شمسی نجمی مضافات سے کافی دور لگ بھگ ستاروں کے مرغولہ نما نظام کے کونے کے دو تہائی حصّے میں واقع ہے۔ شیپلی کے نتائج ایک مقالہ کے سلسلے کی صورت میں 1918ء اور 1919ء میں کئی مہینوں کے عرصے کے دوران شایع ہوئے۔ پوری ملکی وے نظام کا اصل اندازہ جو اس نے لگایا وہ لگ بھگ تین گنا زیادہ بڑا تھا کیونکہ اس نے دور موجود عالمگیر جھرمٹوں کی روشنی پر دھندلاتی دھول کے اثر کا نہیں لیا (ایک جھرمٹ جس کی روشنی دھول سے کم ہو مدھم لگے گااور یوں شیپلی نے اس کی دوری کا اندازہ اصل دوری سے کہیں زیادہ لگایا تھا۔)
تاہم اس کی اہم نتائج درست تھے۔ ہم اب حساب لگا سکتے ہیں کہ ملکی وے 100,000 نوری برس (30 کلو فلکی فرسخ) پر پھیلی ہوئی ایک چپٹی قرص ہے بعینہ جس طرح رائٹ اور کانٹ نے تصور کیا تھا۔ قرص کے مرکز سے اس کے کناروں تک کا فاصلہ 50,000 ہزار نوری برس جبکہ سورج لگ بھگ 30,000 نوری برس (10 کلو فلکی فرسخ) مرکز سے دور ہے۔ ہم اپنی کہکشاں کے کافی دور پچھواڑے میں رہتے ہیں۔ تاہم ہماری کہکشاں کی حیثیت کائناتی چیزوں کے نظام میں کیا ہے؟ لیوٹ، ہرٹزپرنگ اور شیپلی نے مل کر اندازہ لگانے کے لئے اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کیں کہ 'ہم آسمان فلک میں کس قدر لاکھوں نوری برس دور' تک دیکھ سکتے ہیں۔ اب یہ دوری مزید کس قدر بڑھ سکتی ہے؟
اس وقت شیپلی لڑکھڑایا اور غلط موڑ لے لیا۔ یہ مکمل طور پر اس کی غلطی نہیں تھی - اس کی پوری کائنات کے تصوراتی نمونے کو بنانے کی کوشش کا انحصار دوسروں کے مشاہدات اور توضیحات پر تھا۔ تاہم اس غلطی نے اس کے مستقبل کو ایک الگ راستے پر گامزن کر دیا، اگرچہ اس نے اپنی ہم عصروں کے درمیان کافی شہرت و عزت کمائی تھی تاہم اس نے ہمیشہ 1914ء سے لے کر 1920ء کے اپنے ماؤنٹ ولسن کے دور کو اپنے پیشے کے عروج کے طور پر دیکھا۔
شیپلی کے ملکی وے کے اضافی حجم کے تخمینے کی وجہ سے ایسا لگا کہ جیسے میجیلانی بادل خود سے کوئی الگ کہکشاں نہیں بلکہ ملکی وے کا ہی حصّہ ہیں۔ اور اگر بادل کوئی حقیقی کہکشاں نہیں تھے تو شیپلی کے لئے اس کا نتیجہ یہ تھا کہ دوسرے سحابئے جیسا کہ مجمع النجوم اینڈرومیڈا کا عظیم مرغولہ نما لازمی طور پر ہماری اپنی کہکشاں کا کوئی صغیر سیارچہ ہوگا۔ اس تصویر کے مطابق ملکی وے لازمی طور پر کائنات تھی اور اس کی وسعت کو پہلے ہی دیکھ لیا گیا تھا۔ تاہم دوسرے ایسے فلکیات دان بھی تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ سحابیہ لازمی طور پر الگ کہکشاں ہوتے ہیں اور شیپلی کا ملکی وے کے حجم کا تخمینہ لازمی طور پر بہت بڑا ہوگا اگرچہ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ آیا کیوں یہ اتنا بڑا ہے۔ اس کا متبادل خیال سب سے زیادہ شور مچاتے ہوئے ہربر کرٹس نے پیش کیا جو لک رصدگاہ کے ایک ماہر فلکیات تھے۔
کرٹس ایک دوسرے محقق تھے جو فلکیات کی جانب عجیب راستے سے آئے تھے۔ 1872ء میں مشی گن میں واقع مسکیگن میں پیدا ہوئے، انہوں نے کلاسکس کا مطالعہ کیا اور 22 برس کی عمر میں کیلی فورنیا میں واقع ناپا کالج میں لاطینی زبان کے پروفیسر تعینات ہوئے۔ وہاں ان کو فلکیات سے دلچسپی پیدا ہوئی، اور جب کالج کا انضمام 1897ء میں پیسفک یونیورسٹی کے ساتھ ہو گیا تو وہ فلکیات اور ریاضی کے پروفیسر بن گئے - آج کے دور میں اس کے لئے یہ بہت ہی چونکا دینے والا موڑ ہوگا جو اپنا مستقبل یونیورسٹی میں بنانا چاہتا ہوگا! کافی رصدگاہوں میں مختصر عرصے کی خاصی تحقیقات کرنے کے بعد کرٹس لک میں 1902ء میں گئے جہاں انہوں نے چلی کے جنوبی آسمانوں میں کچھ عرصے مشاہدے میں گزارنے کو چھوڑ کر، 1920ء تک قیام کیا۔ انہوں نے چلی سے 1909ء میں واپس آنے کے بعد اس وقت معلوم مرغولہ نما سحابیوں کی ماہیت کا تعین کرنے کے لئے غور و فکر شروع کیا۔ ان برسوں میں ان سحابیوں کی بہتر تصاویر دستیاب ہونے لگیں تھیں اور یہ تصاویر ہی تھیں جس نے کرٹس کو قائل کیا کہ سحابیہ خود سے ہی کہکشاں ہیں جو پوری قرص کی شان و شوکت اور مرئی مرغولہ نما ساخت کے ساتھ کبھی کنارے پر نظر آتے ہیں اور کبھی سطح کے میدان پر اور کبھی ان کے درمیان نظر آتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ بیرونی کہکشائیں جو ہماری ملکی وے سے بھی دور ہیں لازمی طور پر وسیع فاصلے پر موجود ہوں گی جب ہی وہ ہماری دوربینوں میں چھوٹے بادلوں کی طرح نظر آتی ہیں۔ تاہم کس طرح سے سحابیہ کے فاصلے کو ناپا جا سکتا ہے؟ اس سوال نے 1920ء تک دو جوابوں کو کھول دیا، اور اس میں سے ایک توضیح بدقسمتی سے ایک ایسے واقعے کی بنیاد پر قائم ہونے والے فہم پر ہوئی جو زمین پر 1885ء میں دیکھا گیا تھا۔ شیپلی کی بدقسمتی کہ وہ غلط گھوڑے پر سوار ہو گیا تھا۔
یہ 20 اگست 1885ء کی بات تھی کہ ارنسٹ ہارٹوگ نے ایک نئے ستارے یا نوا کو دیکھا جوس اینڈرومیڈا سحابیہ میں چمک رہا تھا۔ ستارہ جلد ہی غائب ہونا شروع ہوا تاہم اس سے پہلے اس کے عروج کی شدت کو درج کرلیا گیا تھا۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ کسی انفرادی ستارے کو کسی سحابیہ سے جوڑا گیا تھا، اور اس واقعہ کی ایک توضیح جو ہارٹوگ اور اس کے ہم عصروں نے مشاہدہ کی وہ یہ تھی کہ یہ ملکی وے کے اندر بھنور نما گیس و دھول کے بادلوں میں کسی ستارے کی پیدائش کا منظر تھا۔ ستارہ جو بھی تھا وہ مختصر عرصے کے لئے اس قدر زور سے چمکا تھا کہ جتنا ملا کر باقی سحابیہ اینڈرومیڈا چمک رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کی تابانی کو ناپنے کا موقع 1901ء میں اس وقت آیا جب ایک اور دوسرا ستارہ مجمع النجوم پرسیس کی سمت میں پھٹا۔ یہ نوا اس قدر قریب تھا کہ اس کا فاصلہ اختلاف زاویہ سے سورج سے 100 نوری برس دور لگایا جا سکتا تھا۔ اس وقت فاصلہ ناپنے کے بہتر تخمینا جات میسر نہیں تھے فلکیات دانوں نے اندازہ لگایا کہ اینڈرومیڈا میں پھٹنے والا نوا بھی اسی تابانی کا ہوگا جتنا کہ پرسیس کا نوا، اور یوں اس طرح اس کو ہم سے سولہ گنا زیادہ دور، 1,600 نوری برس دور اس کی ظاہری تابانی کی وجہ سے سمجھا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اینڈرومیڈا لازمی طور پر کافی بڑی ہوگی تاہم اس کو اب بھی ملکی وے کہکشاں ہی میں رکھا گیا۔
یہ وہ بنیادی وجہ تھی جس کو شیپلی اپنے اس دعویٰ کو درست ہونے کے لئے استعمال کرتا تھا کہ ملکی وے ہی کا کائنات پر غلبہ ہے اور مرغولہ نما سحابیہ تو صرف اتفاقات کا نتیجہ ہے۔ کرٹس نے باور کرلیا تھا کہ سحابیہ اپنے آپ میں کہکشاں ہیں اور وہ اس کے ثبوتوں کی تلاش میں لگ گیا۔ فرض کریں کہ 1885ء میں اینڈرومیڈا میں دیکھا گیا ستارہ حقیقت میں اس نوا سے کہیں زیادہ روشن تھا جس کو پرسیس میں 1901ء میں دیکھا گیا۔ اگر اینڈرومیڈا ملکی وے کی طرح پوری کی پوری کہکشاں تھی تو حقیقت میں اس کو مختصر طور پر اتنا روشن ہونا چاہئے تھا جتنی ارب ہا ستاروں کی روشنی ہوتی ہے، یہ ایک ایسی بات تھی جو شیپلی کو بے سروپا لگی تھی۔ اس کو کون الزام دے سکتا ہے - تاہم اب ہم جانتے ہیں کہ بہت ہی کم 'سپرنووا' اس طرح سے روشن ہو کر چمکتے ہیں۔ اور ایک وجہ جو ہم جانتے ہیں کہ کرٹس نے اینڈرومیڈا میں ایک اور نوا کی تلاش شروع کی اور اس کی روشنی کو 1885ء میں ہونے والے واقعہ اور 1901ء میں پرسیس میں ہونے والے نوا کی روشنی سے ملا کر دیکھا۔ یہ حقیقت کہ کرٹس نے اینڈرومیڈا میں کئی نوا تلاش کر لئے تھے (اب تک ایک سو درج کئے جا چکے ہیں) ثابت کرتی ہے کہ یہ لازمی طور پر ستاروں کا مجموعہ ہوگی کیونکہ نوا اس قدر عام نہیں تھے۔ یہ حقیقت کہ یہ تمام نوا اس سے کہیں زیادہ مدھم تھے جو 1885ء میں دیکھے گئے تھے بتاتی ہے کہ یہ وہ درست مظہر تھے جن کا موازنہ پرسیس کے نوا سے کیا جاتا ہے۔ اس نظر ثانی کی وجہ سے اینڈرومیڈا کا پیمانہ سو گنا سے زیادہ بڑھ گیا تھا جس کی وجہ سے وہ ملکی وے کے کونے سے لاکھوں برس دور ہو گئی تھی۔ تو کرٹس اور شیپلی میں سے کون درست تھا؟ اس مسئلے میں اس قدر تجسس پیدا ہوا تھا کہ نیشنل اکیڈمی آف سائنسز نے 1920ء میں دو فلکیات دانوں کے درمیان بحث کا انعقاد واشنگٹن ڈی سی میں کیا۔ اس بحث کی تشہیر دوسروں کے علاوہ آئن سٹائن نے بھی کافی کی۔ عمومی احساس یہ تھا کہ شیپلی ہار گیا ہے - کرٹس کی کائنات کے پیمانے کی تشریح درست تھی۔ یہی وہ شکست تھی جس کی وجہ سے شیپلی نے ماؤنٹ ولسن کو چھوڑ دیا اور ہارورڈ چلا گیا جہاں اس نے ہارورڈ کالج رصدگاہ کی سربراہی سنبھالی جس کی اس کو پہلی مرتبہ اس وقت پیش کش کی گئی تھی جب پکرنگ کی موت ہوئی تھی۔ یہ وہ فیصلہ تھا جس پر وہ لازمی پچھتایا ہوگا، کیونکہ اس کی فلکیات کی دنیا میں کافی خدمات کے باوجود وہ ماؤنٹ ولسن میں ایک نئے آدمی ایڈون ہبل کو آتا ہوا دیکھ رہا تھا جس نے وہاں سے شروع کیا جہاں اس نے چھوڑا تھا۔ ہبل نے قیقاؤسیوں اور عالمگیر جھرمٹوں کا استعمال کرکے فاصلے ناپنے کی شیپلی کی تیکنیک کو بہتر کیا؛ مزید اس کے پاس ایک نئی دوربین تھی جو 60 انچ والی سے بڑی اور بہتر تھی۔
ہبل ہیل کی سخت محنت کے پھل کا فائدہ اٹھانے والوں میں اکیلا ہی تھا۔ اپنی ماؤنٹ ولسن رصدگاہ کی 60 انچ کی دوربین سے غیر مطمئن ہیل نے جان ڈی ہوکر جو لاس انجلیس کا ایک کاروباری شخص تھا کی منت کرکے 100 انچ (2.5 میٹر) پر پھیلے ہوئے اہم آئینہ کی دوربین میں پیسا لگانے پر راضی کیا۔ 'ہو کر' کی یہ دوربین 1918ء میں مکمل ہوئی اور تین عشروں تک دنیا کی سب سے بڑی دوربین بنی رہی۔ ہیل نے خود سے اپنی ان کوششوں کی اس وقت ضائع کر دیا جب اس نے طبی مشورے کی بنیاد پر پچپن برس کی عمر میں ماؤنٹ ولسن رصدگاہ سے استعفا دے دیا۔ فارغ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے گھر پاساڈینا سے قریب ایک چھوٹی سے رصدگاہ بنا رہا تھا اور ایک سورج پر تحقیق کرنے کے لئے ایک نئی قسم کا طیف پیما ایجاد کر رہا تھا۔ اس کے بعد اس نے کوشش کی کہ جنوبی نصف کرہ میں ایک رصدگاہ بنانے کے لئے پیسا اکھٹا کر سکے تاہم وہ ناکامی سے دو چار ہوا اور اس پر دوسرے اعصابی ضعف کا حملہ ہوا۔ تاہم وہ جلد ہی ایک اور دیوہیکل دوربین کے ایک نئے منصوبہ کے ساتھ واپس آگیا، اس کا آئینہ 200 انچ (5 میٹر) پر پھیلا ہوا ہونا تھا۔ راکفیلر فاؤنڈیشن منصوبے پر 60 لاکھ ڈالر لگانے کو تیار ہو گئی جس کو کیلی فورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے زیر اہتمام بنایا جانا تھا۔ ہیل اس جماعت کا صدر نشین تھا جو اس شہکار کو بنانے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی جس کو کیلی فورنیا میں ماؤنٹ پلومر میں بننا تھا۔ منصوبے نے مکمل ہونے میں بیس برس کا عرصہ لیا، دوسری چیزوں کے علاوہ دیر سے مکمل ہونے میں جنگ عظیم دوم کا بھی ہاتھ تھا، ہیل کی موت 1938ء میں اپنے اس شہکار کام کے ختم ہونے سے پہلے ہو گئی۔ ہیل کی دوربین کے طور پر اس نے اپنا کام 1948ء میں شروع کیا؛ 1969ء میں ماؤنٹ ولسن اور ماؤنٹ پلومر میں واقع دونوں رصد گاہوں کا نام بدل کر ہیل رصدگاہ اس شخص کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے رکھا گیا جس نے بیسویں صدی میں امریکی فلکیات کو صف اوّل میں لا کھڑا کر دیا تھا۔ اس وقت تک ایڈون ہبل نے تمام فلکیات دانوں کے لئے کائنات کے پیمانے کو سمجھنے کے لئے ان کی آنکھیں بہت پہلے ہی کھول دی تھیں۔
ہبل شیپلی کی طرح، مسوری میں (1889ء میں) پیدا ہوا تھا۔ وہ مارشفیلڈ کے قصبے سے آیا تھا اور اس کا وہاں کے مقامی وکیل کے سات بیٹوں میں پانچواں نمبر تھا۔ وہ شکاگو کے کالج اور یونیورسٹی گیا جہاں یونیورسٹی میں اس کا کچھ وقت اس دور کا تھا جب ہیل وہاں پروفیسر تھا۔ ہبل ایک زبردست قدرتی کھلاڑی تھا، اس کو عظیم جیک جانسن سے مقابلے کے لئے بطور پیشہ ور باکسر لڑنے کی پیش کش بھی ہوئی تھی۔ اس کے بجائے اس نے رہوڈز کے وظیفے کو چنا اور انگلستان میں آکسفورڈ یونیورسٹی چلا گیا، وہاںاس نے قانون کو پڑھا، یہاں یونیورسٹی کے کھلاڑی کے طور پر نمائندگی کی اور فرانسیسی باکسر اور جارجس کرپنٹیر کے ساتھ شوقیہ مقابلہ نمائشی کھیل میں حصّہ بھی لیا۔ 1913ء میں جب اس کی واپسی ریاست ہائے متحدہ میں ہوئی تو ہبل کینٹکی بار کا ممبر بن گیا تاہم اس نے بطور قانون دان اس وقت سے پہلے چند ماہ ہی کام کیا جب اس نے فیصلہ کیا کہ یہ وہ پیشہ نہیں ہے جس کو وہ چاہتا تھا۔ اس نے فلکیات میں دوبارہ دلچسپی لی جس کو جزوی طور پر ہیل نے اس وقت پیدا کیا تھا جب وہ شکاگو یونیورسٹی میں تھا، ہبل واپس یونیورسٹی آیا، فلکیات پڑھنی شروع کی اور یرکس رصدگاہ میں بطور ماتحت محقق کے کام کرنا شروع کر دیا۔ اس نے اپنی اس تحقیق کو 1917ء میں ختم کیا اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی؛ ہیل نے اس کو ماؤنٹ ولسن میں نوکری کی پیش کش کی، تاہم ہبل نے اس سے پہلے اپنے آپ کو فوج میں بھرتی کروا لیا اور فرانس میں لڑنے کے لئے چلا گیا جہاں پر وہ دائیں ہاتھ میں بم کا خول لگنے سے زخمی ہو گیا۔ لہٰذا یہ 1919ء کی بات تھی جب وہ ماؤنٹ ولسن آیا اسی وقت جب نئی 100 انچ کی دوربین پوری طرح سے اپنے استعمال میں آئی تھی اور شیپلی نے ہارورڈ کے لئے اس کو چھوڑا تھا۔ اس کے لئے وقت اس سے بہتر نہیں ہو سکتا تھا۔ اس وقت 1917ء میں ہی پہلی مرتبہ عکسی تختیوں پر (جارج رٹچی کے ذریعہ ماؤنٹ ولسن میں) نوا کی شناخت ہوئی تھی، جس نے کرٹس میں تحریک پیدا کی وہ وہ لک کے عکسی مندرجات میں تلاش کرے اور وہ ثبوت حاصل کرے جو اس کو ماورائے کہکشانی سحابیہ کا پہلا براہ راست فاصلے کی پیمائش دے۔ چار سو برسوں سے ان سحابیوں کی ماہیت کے بارے میں بحث جاری تھی؛ 1924ء میں بحث ختم ہو گئی، اور 100 انچ کی دوربین اور ہبل کے اشتراک نے انسانیت کو کائنات کی ایک نئی تصویر عطا کی جس میں مزید چونکا دینے والی دریافتیں آنے والی تھیں۔
ہبل یقین رکھتا تھا کہ مرغولہ نما سحابئے اصل میں ملکی وے سے بہت دور کہکشائیں ہیں، تاہم وہ جلدی میں اس نقطے کو ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہتا تھا۔ سب سے پہلے اس نے دوسرے سحابیوں کے مسئلے سے نمٹا، وہ جو مرغولہ نما ساخت ظاہر نہیں کرتے تھے اور جو یقینی طور پر ملکی وے نظام کا ہی حصّہ تھے۔ مختلف دوربینوں کا استعمال کرتے ہوئے، جس میں اکثر 60 انچ والی اور کبھی کبھی اس 100 انچ والی دوربین پر جس پر پہلی مرتبہ ہبل کو 1922ء میں کام کرنے کی اجازت ملی، ہبل نے تحقیق کا بڑا حصّہ مکمل کرلیا تھا جو بتاتا تھا کہ یہ گیسی سحابئے (ان میں سے اکثر میں دھول ہوتی تھی) ستاروں کی طرح اپنی روشنی کی وجہ سے نہیں بلکہ یا تو ستاروں سے کی روشنی کو منعکس کرکے سحابئے کے اندر یا اس سے قریب ہونے کی وجہ سے کرتے ہیں یا پھر قریبی ستاروں سے جذب ہونے والی توانائی اتنی ہوتی ہے گیس کو گرم کرکے دمکا دے۔ گیسی سحابیوں اور ہماری کہکشاں کے ستاروں کے درمیان تعلق اس بات کی تصدیق تھی کہ سحابئے اصل میں ہماری ملکی وے نظام کا حصّہ ہیں۔ تاہم مرغولہ نما سحابیوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس کی شاگردی نے کام دکھایا، ہبل نے اب اپنی توجہ مسئلے کے قلب کی طرف موڑ لی۔
1920ء کے عشرے کی ابتداء میں بھی اور 100 انچ کی دوربین کی مدد سے بھی ابھی تک کسی بھی مرغولہ نما سحابیہ کی ایسی تصویر لینا ممکن نہیں ہوتا تھا جو واضح طور پر ان کو میجیلانی بادلوں کی طرح الگ ستاروں پر مشتمل ہوکر دکھائے۔ وہ سب سے بہتر تصویر جو ہبل لے سکا تھا اس کو عدسے کی مدد سے بڑا کرنے کے بعد ایسا لگتا تھا کہ جیسا کہ اگر روشنی درست ہوتی اور ببل کا مزاج رجائیت پسند ہوتا تو اس سے یہ اشارہ ملتا کہ روشنی شاید دانے دار ساخت میں ٹوٹی ہوئی ہے جو مذکورہ سحابئے کے ستاروں کے مجموعہ کو ظاہر کرے گی۔ تاہم یہ اس قسم کا ثبوت نہیں تھا کہ جس پر ہبل جیسا محتاط آدمی اپنی شہرت داؤ پر لگا دیتا۔ اگر مرغولہ نما ساخت کا تعین مختلف ستاروں میں نہیں ہو سکتا تھا تب بھی ہبل اس ستارے کے بادل کی تفتیش کرنے میں جتا رہتا جس کا تعین ہو سکتا تھا چاہئے وہ کوئی دھندلا آسمان میں بے قاعدہ پیوند میجیلانی بادلوں سے کم اہمیت کا ہی کیوں نہ ہوتا۔ اس نے ستاروں کے گروہ جو NGC (نئی کہکشانی فہرست) 6822 کہلاتی تھی، کو لیا اور دو برس اس کی جتنی بہترین تصویریں وہ لے سکتا تھا تصویروں کے سلسلے کو حاصل کرنے میں لگا دیئے۔ ایک رات یہ ممکن ہو سکتا تھا کہ وہ کوئی کارآمد بادل کی تصویر لے سکے؛ دوسرے موقعوں پر ایک نفیس تصویر لینے میں دو مشاہدہ کرتے ہوئے دو مختلف راتیں لگ جاتیں، گھنٹوں صبر سے مشاہدہ کرکے ہبل 100 انچ کی دوربین کو ایک جگہ ٹکا دیتا تھا۔ بلاشبہ دوربین سے دوسرے کام کرنے کی بھی طلب آتی تھی۔ لہٰذا اس وجہ سے ہبل کو 1923ء اور 1924ء کا لگ بھگ پورا عرصہ NGC 6822 کی اچھی پچاس تختیاں لینے میں لگ گیا۔ نتیجہ اس بادل میں دو درجن سے زیادہ قیقاؤسیوں کی شناخت کی صورت میں نکلا اور شیپلی کی تیکنیک کا استعمال کرتے ہوئے ہبل اس قابل ہوا کہ اس چھوٹی بے قاعدہ کہکشاں کا فاصلہ ناپ سکے جو چھوٹے میجیلانی بادل کی نسبت سات گنا زیادہ تھا۔ یہ 1924ء میں ہوا تھا۔
NGC 6822 کے مشاہدہ کرنے کے دوران ایک اور ماورائے کہکشاں قیقاؤسی کی شناخت اینڈرومیڈا سحابئے میں ہوئی جو M31 (میسی کی فہرست میں 31 ویں نمبر پر) کے نام سے بھی جانی جاتی تھی۔ یہ دریافت 1923ء کے موسم خزاں میں اینڈرومیڈا سحابئے کے اندر نوا کو تلاش کرنے کے سروے کے دوران ہوئی تھی، نوا جس کو کرٹس کے سحابئے کی ماہیت سے متعلق خیال کی جانچ کے لئے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ ہبل اپنی کتاب سحابیوں کے دور میں (صفحہ 93) پر یاد کرتا ہے 'پروگرام میں سب سے پہلی اچھی تختی کو 100 انچ کی انعکاس کنندہ سے بنایا گیا تھا جس سے دو عام سے نوا اور ایک دھندلے جسم کی دریافت ہوئی جس کو پہلے ایک اور نوا فرض کرلیا گیا تھا۔ ماؤنٹ ولسن پر نوا کی تلاش میں لمبے سلسلے کی تختیوں کا حوالہ لے کر جو پچھلے مشاہدین نے ترتیب دی تھیں یہ بات قائم ہو گئی تھی کہ دھندلے اجسام متغیر ستارے ہیں اور وہ مسلسل اپنی تغیر کی ماہیت کو دکھا رہے ہیں۔ یہ ایک عام قیقاؤسی تھا جس کا دورانیہ ایک ماہ کا تھا۔۔۔ درکار فاصلہ 90,000 نوری برس کا تھا۔' مختلف وجوہات کی بنا پر اس فاصلے کا تخمینہ اب اوپر کی جانب ترمیم شدہ ہو کر 20 لاکھ نوری برس (670 کلو فلکی فرسخ) ہو گیا ہے۔ تاہم یہ اس دریافت کے مقابلے میں ایک چھوٹی سے بات تھی. بغیر کسی نئے مفروضے کے (کرٹس کے برعکس جس نے صرف یہ قیاس کیا تھا کہ اینڈرومیڈا میں واقع نوا خلقی طور پر ملکی وے کے نوا جیسے ہی تھے) مگر اسی پیمائشی چھڑی کا استعمال کرکے جس سے شیپلی نے ملکی وے کا نقشہ بنایا تھا ہبل اب خارجی کہکشاؤں کا فاصلہ ناپ سکتا تھا۔
فی الوقت شاید یہی نقطہ سب سے اہم ہے۔ اس پیش رفت میں فاصلہ چھلانگ لگا کر 20 لاکھ برس تک پہنچ گیا جو کائنات میں ہمارا اپنی ملکی وے کہکشاں سے سب سے قریب ترین کہکشاں میں رکھا جانے والا پہلا قدم تھا۔ جس کہکشاں میں ہم رہتے ہیں وہ یکایک پوری کی پوری فلکیاتی تصور میں سکڑ کر خلاء کے وسیع تاریک سمندر میں صرف ایک تیرتا ہوا قطرہ بن گئی تھی۔
ملکی وے کہکشاں کی اصل کم حیثیت کو ڈوبنے میں تھوڑا عرصہ لگا۔ سب سے پہلے ایسا لگا کہ جیسے ہماری کہکشاں دوسروں کے مقابلے میں بڑی اور متاثر کن ہے۔1952ء میں ہی قیقاؤسی فاصلے کے پیمانے میں ترمیم کے بعد یہ واضح ہوا کہ دوسری کہکشائیں بھی اتنی ہی بڑی ہیں جتنی کہ ہماری اپنی اور اصل میں وہ اس سے کہیں زیادہ دور ہیں جتنا کہ ہبل نے شروع میں اندازہ لگایا تھا۔ بہتر عکاسی آمیزے کے ساتھ ہبل نے 1923ء میں اس بات کو حل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی تھی کہ اینڈرومیڈا سحابئے کا باہری حصّہ ایک کثیف ستاروں کا جمگھٹا ہے اور اس نے دونوں M31 اور دوسرے اتنے ہی فاصلے پر موجود ایک اور مرغولہ نما M33 میں اگلے چند مہینوں اور برسوں کے دوران مزید قیقاؤسیوں کی شناخت کی۔ 1924ء کے اختتام تک کافی ثبوت اکھٹے ہو چکے تھے جنہوں نے مرغولہ نما سحابیوں کی ماہیت کے بارے میں مسائل کو حل کر دیا تھا اور ہبل نے اس کو امریکن ایسٹرونامیکل سوسائٹی کے اجلاس میں پیش کیا، اگلے پانچ برسوں میں ہبل نے مزید ثبوت اکھٹے کئے اور اس نے ان تمام ثبوتوں کا خلاصہ اس دہائی کے آخری برس پیش کیا۔ اس وقت تک اس نے ان دور دراز سحابیوں - کہکشاؤں - کے فاصلے کا تخمینہ لگانے کی تیکنیک کو بنانا شروع کی جو اتنے زیادہ دور تھے کہ انفرادی ستاروں کی شناخت کی جا سکتی تھی اور قیقاؤسی پیمائشی چھڑی کا استعمال کیا جا سکتا تھا۔
قیقاؤسیوں کو صرف قریبی تیس کہکشاؤں میں ہی 200 انچ والی دوربین کی مدد سے شناخت کیا جا سکتا تھا۔ ہبل کی دوربین اب اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے تو بہتر ہو گئی تھی تاہم اس سے دور دراز کی کہکشاؤں کے فاصلے کو ناپنے کے لئے مزید دوسری تیکنیکوں کی ہمیشہ سے ضرورت رہے گی۔ ہبل نے سب سے پہلے جس قدم کا استعمال کرکے فوق دیوہیکل ستاروں کو بطور فاصلہ رہنما کے استعمال کیا بعینہ ایسے جیسے ان کا استعمال کرکے ہماری اپنی کہکشاں میں عالمگیر جھرمٹوں کے فاصلے کے بارے میں اندازہ لگایا جاتا ہے، یہ شیپلی کی ہی تیکنیک کا استعمال تھا۔ اس سے ہبل قیقاؤسیوں کی نسبت سے چار گنا زیادہ فاصلے پر دیکھنے کے قابل ہوا، اس فاصلے کا اندازہ اس نے تقریباً ایک کروڑ نوری برس کا لگایا۔ عالمگیر جھرمٹ بذات خود بھی استعمال ہو سکتے ہیں اور ان کا کائنات کو ناپنے کی چھڑی کے طور پر استعمال بھی اس مفروضے پر کیا گیا ہے کہ ہر کہکشاں میں موجود روشن ترین جھرمٹوں کی خلقی روشنی ہماری اپنی کہکشاں کے روشن ترین جھرمٹوں جیسی ہی ہوتی ہے، تاہم اس وقت تک فلکیات دان مزید دور دراز کہکشاؤں کے فاصلے کو ناپنے کے لئے پیمائش کے طریقوں میں دستیاب سب سے برے طریقوں کو ترک کرنا شروع ہو گئے تھے۔ مزید آگے بڑھنے کے لئے ہبل کو جرات مندانہ اور لگ بھگ درست مفروضوں کا استعمال کرنا تھا۔ جب اس نے مجمع النجموم سنبلہ کی سمت میں کہکشاؤں کے ایک بڑے جھرمٹ کو دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ وہ سب ایک جیسی ہی روشن ہیں - کم از کم ان میں سب سے روشن کہکشاں مدھم ترین سے دس گنا زیادہ روشن ہے۔ یہ فرض کرتے ہوئے کہ تمام کہکشائیں ایک جیسی ہی روشن ہیں اور ان کی تابانی مدھم ترین کہکشاں سے تین گنا ہے یا روشن ترین کہکشاں کی ایک تہائی، ہبل فاصلے کا اندازہ لگا سکتا تھا اور معقول حد تک یقین رکھ سکتا تھا کہ تخمینہ صحیح جواب کے اندر ایک سے تین کی نسبت کے اندر ہی ہوگا - شاید تین گنا زیادہ بڑا یا تین گنا زیادہ چھوٹا تاہم اس سے زیادہ برا اندازے کا نتیجہ نہیں نکلے گا۔ اس قسم کی تیکنیک کو بعد میں صرف جھرمٹ کی سب سے روشن ترین کہکشاں کو معیاری مان کر اور بہتر بنایا گیا؛ بعد میں معلوم ہوا کہ روشن ترین کہکشائیں تو بہت زیادہ کثرت سے ہیں بعینہ جس طرح فوق دیوہیکل ستارے ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ قریب قریب تھا، تاہم ہبل نے جس تیکنیک کا استعمال کیا یہ اس کو 50 کروڑ نوری برس دور تک لے گئی (یہ ہبل کے اعداد ہیں، جو بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں تاہم یہ آپ کو اس بات کا اندازہ لگانے میں مدد دیں گے کہ وہ کس قدر آگے بڑھ گیا تھا)۔اس فاصلے میں خلاء کا حجم اس قدر تھا کہ اس میں 10 کروڑ کہکشائیں آسکتی تھیں۔ تاہم ان میں سے ہر ایک دور دراز کی پیمائش کا انحصار قیقاؤسی پیمائشی چھڑی کی درستگی پر تھا جس کو شماریاتی اختلاف زاویہ کی تیکنیک (اور اب رنگی مقداری خاکہ کہتے ہیں) کو اپنی کہکشاں کے اندر - حقیقت میں تو سورج کے بالکل آس پاس کے علاقے کو استعمال کرتے ہوئے بنایا تھا۔ پوری کائنات کے فاصلے کے بارے میں جو اطلاعات کا خزانہ ہمارے پاس اب موجود ہوتا نظر آتا ہے ایک طرح سے الٹی مخروطی صورت تھی، جو اوپر اور باہر کی جانب ایک قیقاؤسی میزان سے اس نقطے سے نکلتی ہوئی نظر آ رہی تھی جہاں پر مخروط توازن میں تھا۔ ان 30 عجیب کہکشاؤں کے فاصلے کی پیمائش کئے بغیر جہاں قیقاؤسیوں کو شناخت کیا گیا تھا، کوئی دوسرا ایسا طریقہ موجود نہیں تھا جس سے میزان کو درست کیا جاتا، یہ پیمائش کی چھڑی کم از کم کام چلاؤ تو تھی۔ اگر یہ قیقاؤسی پیمائشی چھڑی ٹھیک طرح سے ناپی نہیں گئی ہوتی اور بعد میں اس پر نظر ثانی بھی ہوئی ہے، تو ہمیں کائنات کے پورے پیمانے کو تبدیل کرنا پڑ جاتا۔ جیسا کہ ہم دیکھیں گے کہ ایسا دہائیوں میں کئی مرتبہ ہوا ہے، خاص طور پر 1950ء کی دہائی کی ابتداء میں۔ تاہم ان میں سے کسی بھی ترمیم نے کائنات کی وہ بنیادی تصویر جو ہبل نے بنائی تھی تبدیل نہیں کی۔
ہبل کی کائنات - ہماری کائنات ارب ہا برسوں تک پھیل گئی تھی۔ کچھ کہکشاؤں کی تصاویر جو ہم آج دیوہیکل دوربینوں جیسے کہ 100 انچ اور 200 انچ والی سے دیکھتے ہیں وہ اس قدر دور ہیں کہ ان سے سفر کرنے والی روشنی جو ہم دیکھتے ہیں وہ زمین سے بننے سے بھی پہلے کی ہے۔ درحقیقت میں کوئی ایسا طریقہ موجود نہیں ہے جس سے انسانی دماغ کائنات کی وسعت کا اندازہ کر سکے۔ بس ہم تو اعداد کو دیکھ سکتے ہیں جو ہمیں بتاتے ہیں کہ ہماری قریبی پڑوسی M33 اور M31 اتنی دور ہیں کہ روشنی کو 20 لاکھ برس یا اس سے بھی زیادہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے کہ وہ وہاں سے چل کر ہماری کہکشاں تک آ سکے اور ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس بات سے ہم چکرا کر رہ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ عظیم تر ماہر تکوینیات البرٹ آئن سٹائن یا اسٹیفن ہاکنگ کے دل میں بھی کارلائل کے ان جملوں کے لئے کچھ رحم موجود ہے: 'میں کائنات کے ادراک کا ڈرامہ نہیں کرتا - یہ اس چیز سے کہیں زیادہ بڑی ہے جس سے میں نمٹ سکتا ہوں۔'
صرف ایک ہی وہ وجہ ہے کہ جس سے فلکیات دان اس قابل ہو سکیں ہیں کہ وہ کائنات کے خواص کو بحیثیت مجموعی کے جان سکیں اور وہ یہ ہے کہ نسبتاً کہکشائیں ستارے کے مقابلے میں ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہیں۔ سب سے بہتر کائنات کے تصوراتی نمونے کو اسپرین کی گولی کا استعمال کرتے ہوئے بنا کر اس کی تصویر بنائی جا سکتی ہے۔ اگر ہمارا سورج اسپرین کی گولی کے حجم کا ہے، تو دوسرا قریبی ستارا جو اسپرین کے ہی حجم کا ہوگا وہ سورج سے 140 کلومیٹر دور ہوگا۔ یہ فاصلہ ستاروں کے درمیان عمومی طور پر پایا جاتا ہے - ایک عام ستارے اور اس کے قریبی دوسرے ستارے کا فاصلہ ستارے کے قطر سے دسیوں کروڑ سے بھی زیادہ ہوتا ہے ( بلاشبہ ثنائی ستاروں اور اسی طرح کے دوسرے ستاروں کو چھوڑ کر جہاں دو یا اس سے زیادہ ستارے ایک دوسرے کے گرد بہت قریب چکر لگا رہے ہوتے ہیں)۔کہکشائیں جیسی کہ ہماری اپنی ملکی وے کہکشاں ہے، ان میں ارب ہا ستارے خلاء کے بہت ہی مناسب حجم پر پھیلے ہوئے ہیں تاہم یہ سب آپس میں کہکشانی مرکز کے گرد چکر لگاتے ہوئے قوّت ثقل کی بدولت ایک ساتھ رہتے ہیں۔ ہم کہکشاؤں کے درمیان موجود خلاء کے بارے میں اپنے پیمانے کو تبدیل کرکے اندازہ لگا سکتے ہیں، اب سورج کے بجائے ملکی وے کہکشاں اسپرین کی گولی جتنی ہے۔ اب اس پیمانے پر قریبی کہکشاں M31 جو ایک اور اسپرین جتنی سمجھ لیں صرف 13 سینٹی میٹر دور ہے۔
یہ تھوڑا سے گمراہ کن ہے، کیونکہ ملکی وے اور M31 ایک چھوٹے کہکشاؤں کے گروہ کی رکن ہیں، جس کو مقامی گروہ کہتے ہیں اور جو قوّت ثقل کی وجہ سے آپس میں ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ اسی طرح کے چھوٹے کہکشاؤں کے قریبی گروہ نقاش گروہ کا بھی فاصلہ اسپرین کے پیمانے پر صرف 60 سینٹی میٹر کا ہے؛ بہرحال اس سے صرف 3 میٹر کے فاصلے پر ہمیں اس تصویر میں سنبلہ جھرمٹ مل جائے گا، جو دو سو کہکشاؤں کا بہت ہی بڑا مجموعہ ہے جو باسکٹ بال کے حجم جتنا پھیلا ہوا ہوگا۔ سنبلہ جھرمٹ ایک کھلے کہکشانی جھرمٹوں کے جھنڈ کے مرکز میں ہے اور اس کا ثقلی طور پر غلبہ ہے؛ اس میں دونوں مقامی گروہ اور نقاش گروہ شامل ہیں اور یہ پورا جھرمٹ مقامی فوق جھرمٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ہم اس تصویر پر آگے بھی جا سکتے ہیں۔ صرف 20 میٹر دور ایک اور دوسرا بڑا جھرمٹ کوما جھرمٹ ہے جس میں ہزاروں کہکشائیں شامل ہیں۔ مزید آگے جائیں اس سے بھی بڑے جھرمٹ ہیں جو 20 میٹر پر پھیلے ہوئے ہیں۔ طاقتور ریڈیائی امواج خارج کرنے والی کہکشاں دجاجہ الف 45 میٹر کے فاصلے پر ہے؛ رات کے آسمان میں روشن ترین کوزار 30273 ہے جو صرف 30 میٹر دور ہے۔ اور پوری قابل مشاہدہ کائنات صرف ایک کلومیٹر پھیلے ہوئے اس کرہ میں موجود ہو سکتی ہے جس کا پیمانہ ہم نے اپنی کہکشاں کو ایک اسپرین کی گولی جتنا رکھ کر بنایا ہے۔
اس سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑنے والا کہ کہکشاؤں کے درمیان آپ کون سا پیمانے رکھ کر فاصلے کو ناپنا پسند کریں گے۔ سنبلہ جھرمٹ تک کا فاصلہ صرف چھ سو گنا ہماری کہکشاں کے قطر جتنا ہے، M31 ہم سے صرف تقریباً پچیس ملکی وے کے قطر جتنی دور ہے۔ اگر کہکشائیں ایک دوسرے سے کہکشاؤں کے اندر ستاروں کی نسبت سے اس قدر دور ہیں تو ہماری اگلے قریبی کہکشانی پڑوسی کا فاصلہ سو گنا زیادہ اس دور دراز جسم سے ہوگا جو ہم نے اصلی کائنات میں کبھی دیکھا ہوگا۔ واضح طور پر ماورائے کہکشانی خلاء کہکشاؤں سے اس سے کہیں زیادہ لبریز ہے جتنا کہکشانی خلاء ستاروں سے ہیں۔ اور اس سے ماہرین کونیات اس قابل ہوتے ہیں کہ پوری کائنات میں مرئی مادّے کی تقسیم کے طریقہ کار کی ایک بڑی تصویر کو حاصل کر سکیں، اور یہ معلوم کر سکیں کہ کس طرح سے یہ تقسیم کائنات کے ارتقاء کے ساتھ تبدیل ہوئی ہے۔
فلکیات دان کوشش کرتے ہیں کہ کائنات کو سمجھ سکیں یا اتنا جتنا وہ اس کے بارے میں جانتے ہیں۔ ہبل نے جدید کونیات کی بنیاد رکھی۔ نہ صرف اس نے کائنات کے پیمانے کو قائم کیا، بلکہ اس نے اہم کہکشانی اقسام کو بیان کرکے ان کی صف بندی بھی کی - ان میں سے 75 فیصد کو مرغولہ نما دیکھا جا سکتا ہے، باقی میں سے زیادہ تر سگار یا امریکی فٹ بال کی طرح بیضوی صورت کی ہیں اور صرف چند ایک ہی بے قاعدہ صورت کی دکھائی دیتی ہیں ( شاید ان میں سے زیادہ تر اس قدر دور اور مدھم ہیں کہ اتنے فاصلے پر سے ٹھیک طرح سے مرئی نہیں ہوتیں)۔اور اس نے خلاء میں کہکشاؤں کی تقسیم کا بھی تجزیہ کیا اور دیکھا کہ تقسیم بحیثیت مجموعی یکساں ہے۔ اگرچہ کہکشائیں جھرمٹوں میں ہوتی ہیں، جھرمٹ خود سے آسمان میں بے ترتیب پھیلے ہوئے ہیں، اور آسمان کے کسی ایک حصّے میں کہکشاں، کہکشانی جھرمٹ کو دیکھنے کا اتفاق کسی بھی دوسرے حصّے میں ان کے دیکھے جانے کے اتفاق جیسا ہی ہے بشرطیکہ ملکی وے میں موجود مخفی دھول کے اثر کو نکال دیں۔ اپنے آپ میں یہ ایک اور اہم دریافت تھی جو بتاتی تھی کہ کائنات کے حتمی ساختی نمونے کی دریافت ہو چکی ہے؛ اس کی اہمیت دور حاضر میں تھوڑی سی کم اس لئے ہوئی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ کہکشانی جھرمٹوں کے جھرمٹ کی ایک اور پرت ہو سکتی ہے۔ یہ اب بھی بنیادی اہمیت کی بات ہے کہ کائنات تمام سمتوں میں ایک ہی جیسی ہے، یعنی کہ کائنات میں کہیں کوئی خاص جگہ نہیں ہے۔ تاہم یہ بنیادی اہم مشاہدہ بھی اس دریافت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے جس کا بم ہبل نے 1929ء میں گرایا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک مرتبہ جب ہم مقامی گروہ سے پرے کائنات میں دیکھتے ہیں تو یہ تمام کروڑوں کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہٹ رہی ہیں، ایک دوسرے سے ایک ایسی رفتار سے دور بھاگ رہی ہیں جو روشنی کی رفتار کا کافی حصّہ ہے۔ پوری کائنات پھیلتی ہوئی لگ رہی تھی؛ یہ وہ دریافت تھی کہ جس نے واضح طور پر اس حقیقت کی جانب اشارہ کیا کہ لازمی طور پر پوری کائنات کی وقت میں کوئی ابتداء ہوگی۔ ایسی کوئی بھی حد نظر نہیں آتی جس سے دور فلکیات دان رات کے آسمان میں دیکھ سکیں؛ تاہم کائنات کے پھیلاؤ کا مطلب یہ تھا کہ اس بات کی تو حد موجود تھی کہ کائنات ماضی میں کب سے پھیلنی شروع ہوئی۔ یہ کائناتی پھیلاؤ کی دریافت ہی تھی جس نے 1929ء میں ہی فلکیات دانوں کو عظیم دھماکے کے راستے پر مضبوطی سے کھڑا کر دیا۔
سائنس ہمیشہ ایک منظم انداز میں ترقی نہیں کرتی۔ ہو سکتا ہے کہ آج ہونے والی دریافت کو برسوں، یا دہائیوں تک اپنی اہمیت جتانے اور اپنی جگہ بنانے میں لگ سکتے ہیں، جبکہ کل کسی ہونے والے مشاہدے کی واضح اور فوری اہمیت قائم ہو سکتی ہے۔ مختلف تحقیق کے میدانوں میں پیش رفت کئی نسلوں تک ایک دوسرے سے الگ رہ کر ہو سکتی ہے، تاوقتیکہ کوئی رابطہ قائم کرنے والا عوامل بتائے کہ یہ ایک ہی چیز کے دو رخ ہیں یا پوری کی پوری ایک ہی چیز ہے۔ وہ دو عظیم خطوط جن پر ہبل تحقیق کر رہا تھا اور جو ایک دوسرے سے کافی قریب تھے ان میں ایسا بالکل نہیں تھا۔ یہ اس لمحے سے ہی واضح ہو گیا تھا جب کہکشاؤں کی بڑی سمتی رفتار دریافت ہوئی تھی کہ یہ سمتی رفتار کائنات کی ماہیت کے بارے میں کچھ اہم بات بتا رہی ہے، بعینہ ایسے ہی جیسے ہبل کے دھندلے اور دور دراز کہکشاؤں کی تعداد اور تقسیم کے سروے بتا رہے تھے۔ تاہم دونوں محاذوں پر پیش رفت کبھی ہوتی کبھی رکتی، اور تحقیق کو کسی تاریخی جگہ پہنچنے کے لئے ابھی صرف ایک ہے راہ پر گامزن رہنا تھا، اور پھر واپس پلٹ کر دوسری اہم بات کو دیکھنا تھا۔
وہ کام جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کائنات کہکشانی جھرمٹوں سے ہر جگہ یکساں طور پر بھری ہوئی ہے، جہاں تک دوربین دیکھ سکتی ہے وہاں تک ہر سمت میں ایک ہی جیسی ہے، 1930ء کے عشرے اور اس کے بعد بھی جاری رہا اور حقیقت تو یہ ہے کہ آج تک جاری ہے۔ ہبل کی ایک اصلی خواہش جو اس کے رفقائے کار کئی مرتبہ بتا چکے ہیں وہ رات کے آسمان کے حصّے کی تصویر 100 انچ کی دوربین کا استعمال کر کے لینی تھا جس میں حتمی تصویر میں اتنی ہی مرئی کہکشائیں موجود ہوتی جتنے کہ پیش منظر میں ہماری ملکی وے کے ستارے ہوتے۔ اس خواہش کو 8 مارچ 1934ء کو پورا کر لیا گیا جس میں اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ کائنات میں کہکشاؤں کی اسی طرح بہتات ہے کہ جیسے ملکی وے میں ستاروں کی۔ یہ تاریخ ہمیں ایک موزوں سنگ میل فراہم کرتی ہے، وہ لمحہ جس کائنات کی وسعت اور کہکشاؤں کی ماہیت بطور کہ بنیادی مرئی بنیادی اینٹوں کے بغیر کسی شک و شبے کے قائم ہو گئی۔ اس طرح کی تختی پر عکس شدہ کہکشاؤں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے ہبل نے اندازہ لگایا کہ 10 کروڑ کہکشائیں اہم تصویر میں ہیں ؛ 200 انچ اور دوسری بڑی دوربینیں جو اب دستیاب ہیں ان کی مدد سے فلکیات دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ اب سو ارب کہکشاؤں کی تصویر لی جا سکتی ہے بشرطیکہ ہمارے پاس وقت اور پورے آسمان کا تفصیل کے ساتھ سروے کرنے کا میلان ہو۔ حقیقت میں یہ لگ بھگ وہی تعداد ہے جتنی تعداد ملکی وے میں ستاروں کی ہے۔ تاہم اس سے پانچ برس پہلے اور لگ بھگ آدھی دہائی سے قبل جب اس نے یہ اہم تصویر 1934ء میں لی تھی، ہبل نے اس دریافت کا بتایا کہ تمام کہکشائیں سوائے ہمارے پڑوسی کہکشاؤں کے کائنات کے پھیلنے کے ساتھ نا صرف ہم سے دور جا رہی ہیں بلکہ یہ کام وہ ایک طبیعیات کے سادے قانون کی رو سے کر رہی ہیں۔ اور یہ صرف سترہ برس قبل کی بات تھی کہ جب 1912ء میں میں پہلی مرتبہ ان کی سمتی رفتار کی پیمائش کی گئی جو اس وقت 'سحابیہ' کہلاتے تھے۔
زہیر صاحب کبھی نیچے زمین پر بھی آجایا کریں .....
۔...برا مت مانئے گا
. . . . ماشاء الله بڑی معلوماتی پوسٹس ہیں ...میں کچھ پوچھا تھا کسی زمانے میں آپ سے ..یاد ہے ؟
دور درز کہکشاؤں کے سرخ طیف کی کہانی کی اصل شروعات انیسویں صدی کے بوسٹن کے ممتاز صاحب ثروت خاندان کے چشم و چراغ پرسیول لویل کی سیارہ مریخ میں لینے والی دلچسپی سے ہوتی ہے۔ لویل 1855ء میں پیدا ہوا، اور ہارورڈ یونیورسٹی سے ریاضی کی تعلیم حاصل کی جہاں سے اس نے 1876ء میں سند حاصل کی۔ یہ ایک برس پہلے کی بات ہے جب اطالوی فلکیات دان گیووانی شیاپرلی نے مریخ کی نہروں کے اپنے پہلے مفصل مشاہدات پیش کئے۔ کنالی کا ٹھیک ترجمہ نہریں ہیں، مریخ پر اپنی طویل تحقیق کے دوران شیاپرلی نے یہ بات کافی واضح کر دی کہ اس نے اس اصطلاح اور سمندروں اور براعظموں کی اصطلاح کو خالص بیانیہ معنی میں استعمال کیا تاکہ مریخ کے خدوخال کی شناخت کر سکے، اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں تھا کہ اس بات کا دعویٰ کرے کہ یہ خدوخال زمین کے سمندروں، براعظموں اور نہروں (نہروں کو تو چھوڑ ہی دیں ) کے برابر ہیں۔ تاہم تھوڑی سے کنالی کے ترجمے کی غلطی سے اور تھوڑی سے خود سے سوچنے کی وجہ سے شیاپرلی کی رپورٹس نے فرانس، برطانیہ اور شمالی امریکہ میں ایسے دلچسپی کی لہر دوڑا دی جو دہائیوں تک جاری رہی، جس میں عام لوگوں کو تو چھوڑ ہی دیں کئی سنجیدہ فلکیات دان بھی اس بات کے قائل ہو گئے تھے کہ مریخ پر کوئی ذہین مخلوق تھی، اور مریخی قطبی ٹوپیوں سے استوائی علاقے میں پانی لانے کے لئے نہریں کھودنے میں مصروف ہیں۔ شیاپرلی کے مشاہدات کی غلط تشریح کرتے ہوئے مجھے لگتا ہے کہ مشہور ریڈیو پر نشر ہونے والے اورسن ویلس کا ایچ جی ویلز کا جہانوں کی لڑائی کا نسخہ جس کو خود 1890ء میں اس وقت لکھا گیا تھا جب شیاپرلی نے مریخ میں دلچسپی کو اپنے عروج پر پہنچا دیا تھا، اس کا نتیجہ تھا۔ 1938ء میں اس ریڈیو ڈرامے کو ایک حقائق پر مبنی خبروں کی شکل میں پیش کیا جس میں مریخ کے حملہ آوروں کا نیو جرسی پر حملے کو بیان کیا گیا تھا، اس سے ہزاروں سامعین میں افراتفری مچ گئی تھی جنہوں نے اس بات کا احساس ہی نہیں کیا کہ وہ کہانی کو سن رہے ہیں۔
تاہم یہ مستقبل میں اگلی نصف صدی ہی تھی جب شیاپرلی کی دریافت چھانٹی اور غلط ترجمہ ہوئی صورت کی شکل میں ریاست ہائے متحدہ میں 1870ء کی دہائی میں پہنچا اور جہاں اس نے نوجوان پرسیول لویل کی توجہ حاصل کر لی۔ وہ بیج جو بویا گیا تھا اس کے با رآور ہونے میں کافی لمبا وقت تھا۔ لویل نے سند حاصل کرنے کے بعد ایک برس سفر میں گزار دیا، پھر دس برس جاپان اور مشرقی بعید میں اپنے دس برسوں کا سب سے شاندار دور گزارنے سے پہلے چھ برس تک اپنے والد کے کپاس کے کاروبار میں گزارے۔ 1893ء میں اس کے یو ایس واپس جانے کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ فلکیات بطور خاص سیاروں کی تحقیق کو سنجیدگی کے ساتھ کرے۔ وسائل کے ساتھ وہ اس قابل تھا کہ ایریزونا میں فلیگ اسٹاف میں صاف ہوا میں سطح سمندر سے 2,000 میٹر اوپر اور شہروں سے بہت دور اپنی خود کی رصدگاہ کو بنا سکے۔ پندرہ برس تک اس نے مریخ کا مطالعہ 24 انچ کی انعطافی دوربین کی مدد سے کی جس میں اس نے نا صرف نہروں کی خبر دی بلکہ نخلستان اور مشتاق دنیا میں واضح سبزہ روئیدگی کا بھی بتایا۔ اس دریافت میں اس کے تخیل کا کافی دخل تھا، تاہم دوسرے فلکیات دانوں نے بھی اسی طرح کی غلطیاں کیں - یہاں تک کہ زمین کی سب سے بہترین دوربین سے بھی مریخ کی انتہائی بری تصویر نظر آتی تھی کیونکہ تفصیل زمین کے کرۂ فضائی کی وجہ سے دھندلا جاتی ہیں۔ ایک بڑی دوربین صرف دھندلاہٹ کو بڑھا دیتی۔ لویل مریخ پر زندگی کے بارے میں غلط تھا تاہم اس نے یقینی طور پر امریکی نسل میں فلکیات سے متعلق دلچسپی کو جذباتیت کی حد تک بڑھاوا دیا۔ اس نے یہ بھی پیش گوئی کہ کہ نیپچون کے مدار کے باہر ایک نواں سیارہ بھی لازمی طور پر موجود ہو گا جو اپنی موجودگی دوسرے سیاروں کے مدار میں بیکلی پھیلا کر ظاہر کرے گا۔ اس کے مرنے کے چودہ برس بعد 1930ء میں پلوٹو بعینہ اسی جگہ دریافت ہوا جہاں اس نے اندازہ لگایا تھا۔ یہ ایک عارضی چیز تھی؛ کیونکہ آج فلکیات دان سمجھتے ہیں کہ پلوٹو اس قدر چھوٹا ہے کہ وہ بیرونی سیاروں کے مدار پر اپنا اثر ڈال سکتا، اور ہو سکتا ہے کہ ایک دسواں سیارہ بھی موجود ہو گا جو اس قسم کی ڈگمگاہٹ کا ذمہ دار ہو گا۔ اس کے باوجود لویل کے کئی اور حقیقی کارنامے تھے سائنسی سماج نے اس کے شوقیہ کام میں فلکیات کے سنجیدہ کام کے طور پر کافی سراہا ۔ 1902ء میں تو لویل ایم آئی ٹی میں وقتی فلکیات کا پروفیسر تعینات ہوا، اس مقام پر اس نے اپنی باقی پوری زندگی گزار دی جہاں اس نے انسٹیٹیوٹ میں کئی لیکچروں کے سلسلے دیئے۔ تاہم شاید لویل کی سب سے عظیم فلکیات پر احسن ایک نوجوان مشاہد ویسٹو سلائیفر کو نوکری پر رکھنا اور اس کو مرغولہ نما سحابیوں کے طیف لینے اور ان کی روشنی میں ہونے والے ڈوپلر منتقلی کو دیکھنے کے لئے کام پر لگانا تھا۔ لویل کی تحریک اس کا سیاروں میں دلچسپی تھی - وہ اپنے دور کے کئی فلکیات دانوں کی طرح سمجھتا تھا کہ سحابیہ شاید سیاروی نظام ہیں جو بننے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ تاہم سروے کی تحریک سے نہیں بلکہ نتائج سے فرق پڑتا ہے۔
سلائیفر کئی طرح سے لویل کا برعکس تھا۔ جہاں لویل جلد باز بروں شغف نتائج پر چھلانگ لگا کر پہنچنے والا تھا وہاں سلائیفر بہت ہی خاموش اور ضابطے سے کام کرنے والا، جفا کش اور اپنی دریافت کا کبھی بھی اس وقت اعلان نہ کرنے والا تھا تاوقتیکہ اس کو یقین نہیں ہو جاتا۔ ان دونوں کی خصائص میں فرق اس قدر زیادہ عیاں تھا کہ ایسا لگتا تھا کہ لویل اپنی خامیوں اور خوبیوں کو جانتا تھا اور اس سے جان بوجھ کر سلائیفر کو اپنی ٹیم میں لویل رصدگاہ میں رکھا کہ لویل اپنے اضطرار کو مناسب طور سے توازن میں رکھ سکے۔
سلائیفر 1738ء میں ہینوور میں پیدا ہوا۔ اس نے انڈیانا یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، اور 1901ء میں سند لی اور فوراً ہی بذات خود لویل نے اس کو لویل رصدگاہ میں کام کرنے کی دعوت دی۔ وہ اپنی پیشہ وارانہ زندگی کے باقی عرصے یہاں رہا، اس دوران اس نے 1903ء میں ایم اے اور 1909ء میں پی ایچ ڈی کی دونوں سندیں انڈیانا یونیورسٹی سے حاصل کیں اور 1916ء میں لویل کی موت کے بعد قائم مقام ڈائریکٹر اور 1926ء میں لویل رصدگاہ کا ڈائریکٹر بن گیا۔ یہ سلائیفر ہی تھا جس نے وہ تلاش شروع کی جس نے 1930ء میں پلوٹو کی دریافت کی راہ دکھائی، اور اگرچہ وہ 1952ء میں سبکدوش ہو گیا تھا تاہم وہ 1969ء تک زندہ رہا، اس دور سے جب فلکیات دان سمجھتے تھے کہ ملکی وے ہی پوری کائنات ریڈیائی کہکشاؤں، کوزار اور پس منظر کی خرد امواج کی دریافت تک جس کو عظیم دھماکے کی بذات خود گونج سمجھا جاتا تھا۔ وہ نظریہ جو پس منظر کی اشعاع کے وجود کے بارے میں پیش گوئی کرتا ہے وہ اس بڑی پیمائش کی تحقیق کی بدولت لگایا گیا جس کی شروعات سلائیفر نے 1912ء میں اینڈرومیڈا سحابیہ سے آنے والی روشنی میں ڈوپلر منتقلی کی اپنی پیمائش سے کی تھی، جس کو ہم اب جانتے ہیں کہ وہ ملکی وے کی سب سے قریبی بڑی کہکشاں ہے۔
یاد رہے کہ ڈوپلر منتقلی حرکت کرتے ہوئے جسم سے آتی ہوئی روشنی کے طیف میں دیکھے جانے والے روشن یا تاریک خطوط ہوتے ہیں۔ اگر کوئی جسم ہماری طرف حرکت کرتا ہے تو بصری طیف میں منتقلی نیلے حصّے کی طرف ہوتی ہے اور اس کو نیلی منتقلی کہتے ہیں۔ اگر جسم ہم سے دور کی طرف جا رہا ہے تو اس کو سرخ منتقلی کہیں گے۔ اور منتقلی کا حجم جب ساکن جسم سے آنے والی روشنی کے طیف کے خطوط کے مقام سے موازنہ کیا جائے گا تو اس سے اس رفتار کی براہ راست پیمائش ملے گی جس سے جسم ہماری طرف یا ہم سے دور جاتا ہے یعنی ڈوپلر سمتی رفتار۔
سحابیہ کے لئے ڈوپلر سمتی رفتار کی پہلی پیمائش میں اس تکنیکی کامیابی کی طرف اشارہ لائق سزاوار ہے۔ 24 انچ دوربین اس دور کا سب سے بہترین آلہ تھا۔ لیکن یہ دن ہیل کی دوربین کی ٹیکنالوجی میں پیش رفت میں عظیم چھلانگ لگانے سے پہلے کا تھا۔ دستیاب بہترین ٹیکنالوجی - بہترین طیف پیما اور بہترین عکسی تختیوں - کا استعمال کر کے سلائیفر کو اب ابھی ایک تصویر لینے کے لئے بیس، تیس، یا چالیس گھنٹے ( لازمی سی بات ہے کہ یہ کئی راتوں پر پھیلا ہوا عمل ہوتا تھا) تک کا وقت لگتا تھا تاکہ وہ ایک طیف حاصل کر سکے جس سے ڈوپلر منتقلی کی پیمائش کی جا سکتی ہو۔ یاد رہے کہ ایک غیر گرم دوربینی گنبد میں یہ سب کام کرنے کے دوران مرطوب ہوا اتصالی رو پیدا کر دیتی تھی جس سے دوربین میں یا طیف نگار کی ریخ میں تصویر دھندلی ہو جاتی تھی، بلند عرض البلد میں ٹھنڈی ہوا میں کام کر کے اور واقعی دوربین میں نظر آنے والی تصویر پر نظریں جما کر اس بات کا یقین کرنا ہوتا تھا کہ سحابیہ میدان کے مرکز کے مقام پر درست طرح سے عکس بند ہو رہا ہے۔ جب وہ تصویر لے لیتا تھا تو سلائیفر کے مسائل کافی حد تک دور ہو جاتے تھے۔ ستارے کی روشنی دوربین سے لی جانے والی تصویر میں ایک نقطہ پر مرتکز ہوتی ہے، اور جب یہ روشنی کا نقطہ طیف پیما سے پھیلتا ہے، تو پھیلی ہوئی تصویر اس وقت بھی اتنی روشن ہوتی ہے کہ خطوط اور ان کا سرکاؤ اگر کوئی ہو تو اس کی شناخت ہو سکے اور نسبتاً آسانی کے ساتھ پیمائش ہو جائے۔ دوسری طرف سحابیہ - ایک کہکشاں – کی دھندلی تصویر آغاز کرنے کے لئے کافی وسیع ہوتی ہے، اور پہلے ہی سے دھندلی تصویر کی طیف بینی کے پھیلنے سے یہ ہنوز دھندلی ہی ہوتی ہے، جس کے طیف میں خطوط کو ڈھونڈنا اور ان کی شناخت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اگر پھیلی ہوئی تصویر کافی بڑی ہوتی ہے ، تو خطوط اتنے دھندلے ہوتے ہیں کہ ان کو نہیں دیکھا جا سکتا؛ اگر تصویر اتنی روشن ہو کہ خطوط نظر آ جائیں، تو امکان یہ ہے کہ یہ اس قدر چھوٹے ہوں گے کہ ان خطوط میں منتقلی کی پیمائش نہیں ہو سکے گی۔ ڈوپلر پیمائش کی تیکنیک کی کامیابی کا انحصار اہم طور پر اس رنگ ریز عکاسی تختیوں کی کارکردگی یا رفتار پر ہوتا ہے جو اس کو درج کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ ان تمام مشکلات کے باوجود 1912ء میں سلائیفر نے اینڈرومیڈا سحابیہ، M31 کے چار طیفی خاکے حاصل کر لے جو تمام کے تمام واضح طور پر اس ڈوپلر منتقلی کے برابر بتا رہے تھے جس کی سمتی رفتار 300 کلومیٹر فی سیکنڈ تھی۔ اینڈرومیڈا سے آنے والی روشنی میں نیلی منتقلی بتاتی ہے کہ نا صرف سحابیہ ہماری طرف آ رہا ہے بلکہ اس کی سمتی رفتار اس وقت کے پیمائش کردہ کسی بھی فلکیاتی جسم - ستارے، سیارے - سے بہت زیادہ ہے۔
ایک مرتبہ یہ پیش رفت حاصل ہو گئی تو دوسرے سحابیوں کی ڈوپلر سمتی رفتاروں کو بھی جلد ہی ناپ لیا گیا تاہم ان کی پیمائش میں کوئی جلد بازی نہیں کی گئی۔ بڑی عرق ریزی کے ساتھ اپنے آلات کو آخری استعداد تک استعمال کرنے کے بعد سلائیفر نے سحابیوں کے ڈوپلر کی منتقلی کی پیمائش کو 1914ء تک تیرا سحابیوں تک پہنچا دیا۔ اب ایک نمونہ ابھر کر سامنے آنا شروع ہو گیا۔ ان تیرہ میں سے صرف دو نے نیلی منتقلی کو ظاہر کیا؛ باقی دوسرے گیارہ سرخ منتقلی والے تھے جس سے اشارہ ملتا تھا کہ جن سحابیوں پر تحقیق ہو رہی تھی وہ سب ہم سے سینکڑوں کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے دور بھاگ رہے تھے۔ یہ اب بھی ایک اتفاق ہو سکتا تھا کہ سلائیفر کے پیمائش کردہ پہلے طیف میں نظر آنے والی سرخ منتقلی کی کوئی اہمیت ہو سکتی تھی۔ بائیں ہمہ آپ اس بات کی امید کر سکتے ہیں کہ ایک بے عیب سکے کو جب متواتر اچھالا جائے گا تو چت یا پٹ ایک ہی جتنی دفعہ آئیں گے ؛ تیرہ مرتبہ اچھالنے پر صرف دو مرتبہ چت آئے ایسا ہونا کافی حیران کن ہو گا۔ تاہم جیسے جیسے اور سرخ منتقلی کی پیمائش کی گئی نمونہ ویسا ہی رہا۔ 1925ء تک سلائیفر نے اکتالیس سحابیوں کے ڈوپلر منتقلی کی پیمائش کر لی تھی، اور دوسرے فلکیات دانوں نے اس فہرست میں مزید چار کا اضافہ کیا تھا (سلائیفر کی کامیابی کا کچھ اشارہ - اس نے دوسرے تمام لوگوں کی پیمائش کے مقابلے میں دس گنا زیادہ پیمائش کی تھی)؛ اب یہ پینتالیس میں سے تینتالیس ہو گئے تھے جو سرخ منتقلی دکھا رہے تھے، اور سب سے زیادہ تیز رفتاری جس سے وہ ہم سے دور جا رہے تھے وہ 1,000 ہزار کلومیٹر فی سیکنڈ تھی۔ اب یہ اتفاق سے بڑھ کر لگنا شروع ہو گیا تھا، اگرچہ اس وقت تک فلکیات دانوں کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا کہ سحابیہ اصل میں خود سے بیرونی کہکشائیں ملکی وے سے کہیں دور کی تھیں۔ تاہم وہ اس بارے میں شکوک و شبہات کا شکار تھے۔ آرتھر ایڈنگٹن جو ایک عظیم برطانوی فلکیات دان تھا اور جس نے سائنس کو کافی مقبول بنایا تھا 1923ء میں لکھتا ہے :
کونیات کا ایک سب سے تنگ کرنے والا مسئلہ مرغولہ نما سحابیوں کی عظیم رفتار ہے۔ ان کی شعاعی سمتی رفتار کی اوسط تقریباً 600 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے اور نظام شمسی سے دور جاتے ہوئے سمتی رفتار میں عظیم طاقت ہے۔ عام طور پر فرض کیا جاتا ہے کہ یہ سب سے دور دراز معلوم جسم ہیں (اگرچہ اس نقطہ نظر کے خلاف بھی کچھ لوگ تھے )، اس طرح اگر کہیں بھی ہم اس اثر کو دیکھیں تو یہ دنیا کی عمومی خاصیت کی وجہ سے ہوتا ہے۔
'دنیا' سے بلاشبہ ایڈنگٹن کا مطلب وہ تھا جس کو ہم اب کائنات کہتے ہیں۔ اس نے مزید لکھا:
مثبت سمتی رفتار (دور جانے )کی عظیم مقدار بہت ہی حیران کن ہے ؛ تاہم جنوبی سحابیوں کے مشاہدے کی عدم دستیابی بدقسمتی ہے اور یہ حتمی نتائج اخذ کرنے سے روکتی ہے۔
اگلے چند سالوں کے دوران ڈاپلر پیمائش کے لئے ایک اہم اصلاح اس وقت کی گئی جب یہ تصدیق ہو گئی کہ ملکی وے مجموعی طور پر گھومتی ہے، اور کئی تکنیکوں کے استعمال سے یہ ممکن ہو گیا کہ ملکی وے کے مرکز کے گرد سورج کے مدار میں گھومنے کی رفتار کا اندازہ لگایا جا سکے۔ ایسا لگتا ہے کہ نظام شمسی لگ بھگ 250 کلومیٹر فی سیکنڈ کے ساتھ حرکت کر رہا ہے اور ایسا کم و بیش اینڈرومیڈا کہکشاں کی سمت میں ہی ہو رہا ہے۔ 300 کلومیٹر فی سیکنڈ کی متاثر کن رفتار اصل میں ملکی وے کے گرد ہماری حرکت کی وجہ سے ہے ؛ صرف 50 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار اصل میں بحیثیت مجموعی اینڈرومیڈا سحابئے کے ملکی وے کی طرف آنے کی وجہ سے ہے۔ اگرچہ ناپی ہوئی سرخ منتقلی مزید تیز رفتاری کے نئے اندراج کر رہی تھی تاہم کچھ جانی ہوئی نیلی منتقلی پہلے کے تاثر کے مقابلے میں کہیں زیادہ منکسرالمزاج ہونے کا اشارہ دے رہی تھی۔ ہبل اور اس کے رفیق ملٹن ہماسن کے لئے سیج سج گئی تھی جنہوں نے کائنات کی پہلی جدید تصویر دی تھی۔
1920ء کے وسط میں کچھ فلکیات دانوں کے درمیان بطور خاص جرمن کارل ورٹز کو شک و شبہ تھا کہ سلائیفر نے جو دور جاتی ہوئی بڑی سمتی رفتاروں کی پیمائش کی تھی وہ تفتیش کئے گئے سحابیوں میں سب سے زیادہ دور تھے۔ تاہم اب یہ کوئی شک و شبے کی بات نہیں رہی کیونکہ ہبل سے پہلے کسی کو بھی سحابیوں کے فاصلے کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہیں تھا۔ لہذا، قدرتی طور پرثبوتوں کے دونوں حصّوں - سرخ منتقلی اور فاصلے - کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنا ہبل کی قسمت میں آیا جس سے اس کو سرخ منتقلی فاصلے کی نسبت معلوم ہوئی۔ ملکی وے کے گرد سورج کی سمتی رفتار کا تعین کرنے کے بعد، جزوی طور پر ورٹز کے کام کی وجہ سے، 1927ء میں نمونہ ان چالیس منفرد کہکشاؤں میں بھی صاف صاف دیکھا جا سکتا تھا جن کی سرخ منتقلی کی پیمائش کی گئی تھی، اور اس کی وجہ سے نئے اہم منصوبے کی تحریک ملی جس میں مزید دھندلے اور دور دراز کی کہکشاؤں کی سرخ منتقلی کا تعین کیا جا سکے، ایک ایسا منصوبہ جو ہبل کے رفیق ملٹن ہماسن سے پورا کیا۔
1924ء، میں ورٹز نے دکھایا کہ زمین سے دیکھے جانے والے سحابیہ کا ظاہری قطر اس کے دور جاتی سمتی رفتار سے نسبت رکھتا ہوا لگتا ہے۔ اس کے پاس بیالیس کہکشاؤں کے اعداد و شمار تھے اور اس نے دیکھا کہ جتنی چھوٹی کہکشاں تھی اتنا ہی زیادہ اس کے مائل بہ سرخ منتقل ہونے کا امکان تھا۔ فرض کریں کہ تمام کہکشائیں کم و بیش ایک ہی حجم کی ہیں اس سے فوری طور پر معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹے سحابئے صرف چھوٹے لگتے ہیں کیونکہ وہ بہت دور ہوتے ہیں اور لہٰذا ہم سے عظیم فاصلے پر ہونے کی وجہ سے ان کی عظیم دور جاتی ہوئی رفتار ساتھ ساتھ ہوتی ہے۔ تاہم یہ صرف ظن و تخمین ہی ہے کیونکہ اس وقت سحابیہ کے مطلق فاصلے کی پیمائش کا کوئی براہ راست طریقہ نہیں تھا۔ 1929ء تک معاملہ ایسا ہی رہا۔ سلائیفر نے اپنی توجہ دوسرے مسائل کی طرف کر دی تھی، اور اس وقت تک بھی ملکی وے سے دور صرف چھیالیس کہکشاؤں کی سرخ منتقلی معلوم تھی۔ تاہم اس وقت تک یہ واضح ہو گیا تھا کہ یہ اجسام بذات خود کہکشائیں ہیں، اور لیوٹ اور شیپلی کے رہنما کام کو ہبل نے آگے بڑھا کر ان کے نسبتی فاصلے کے بارے میں اچھا اندازہ دے دیا۔ اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ ہبل پیمانے کی بنیاد غلط تھی وہ اس کے باوجود مکمل درستگی کے ساتھ کہہ سکتا تھا کہ ایک کہکشاں ہم سے دوسری کی نسبت دو گنا فاصلے پر موجود ہے یا ڈیڑھ گنا زیادہ فاصلہ پر موجود ہے یا جو بھی نسبت ہو۔ اور یہ ہی وہ معلومات تھیں جس کی اس کو ضرورت تھی۔ اس کے باوجود یہ حیرانی کی بات ہے کہ ہبل نے (درست) بہت ہی کم معلومات کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کر لیا۔
ہبل کے پاس چھیالیس سرخ منتقلی کے اعداد و شمار تھے جو زیادہ تر سلائیفر سے ملے تھے تاہم ان چھیالیس اجسام میں اس کے پاس صرف اٹھارہ الگ کہکشاؤں اور برج سنبلہ کے فاصلے موجود تھے۔ ان کے موازنے کا ایک واضح طریقہ تو یہ تھا کہ ان انیس اجسام کی سمتی رفتار (سرخ منتقلی) کو فاصلوں کے خلاف ایک گراف پر پلاٹ کیا جائے۔ ہر جسم کی ایک منفرد سمتی رفتار اور منفرد فاصلہ لہٰذا وہ اس طرح کے گراف پر ایک مخصوص جگہ کے تعلق کو ظاہر کر رہا تھا۔
جب تمام انیس نکتے پلاٹ کر لئے گئے تو ہبل نے نتیجے اخذ کیا کہ وہ ایک سیدھے خط پر تھے اس کا مطلب یہ تھا کہ سمتی رفتار لازمی طور پر فاصلے کے راست متناسب تھی - جو کہکشاں ہم سے دو گنا فاصلے پر تھی اسی طرح دوسری کہکشاں قریبی کہکشاں جتنی دور دو گنا تیزی سے بھاگتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ حقیقت میں یہ ایک عمومی بات لگتی ہے جس کو ان چند بکھرے ہوئے نکتوں کی مدد سے بنایا گیا ہے جس کو ہبل نے اس گراف پر پلاٹ کیا تھا (خاکہ 4.1 کو دیکھیں )۔
خاکہ 4.1 الف ایڈون ہبل کے ابتدائی سرخ منتقلی-فاصلے کا پلاٹ ، 1929ء میں صرف 33 اعداد و شمار کے نکتوں اور ان کے درمیان میں ایک رجائیت پسند خط مستقیم کھینچا ہوا ہے۔
ان نکات کے درمیان ایک سیدھے خط کو کھنچنے اور یہ کہنے کے لئے کہ تمام نکات ایک ہی خط پر موجود ہیں آپ کو بہت زیادہ یقین کی ضرورت ہے اور ساتھ میں تخیل کی بھی کمی نہیں ہونی چاہئے ۔ تاہم فلکیات دان اس قسم کی نئی چیزیں پیش کرنے کے ماہر ہوتے ہیں اور جیسا کہ ہم دیکھیں گے کہ یہ اسی طرح کی چیز تھی جس کے تعلق کے بارے میں ہبل کو خفیف سا اشارہ ملا تھا اور وہ اسی کو تلاش کر رہا تھا۔ آج اس تعلق کی بنیادیں لرزاں لگتی ہیں تاہم مزید تحقیق جلد ہی کسی شک و شبے سے بالاتر ہو کر اس کی بنیادی سچائی کو قائم کرنے والی تھی اور آج ہم اس کو ہبل کے قانون کے نام سے جانتے ہیں : سرخ منتقلی فاصلے کی نسبت ہوتی ہے۔ اگر واقعی قانون حقیقت میں آفاقی تھا اور اس مسلسل نسبت کو قیاس کیا جائے (جس کو اب ہبل کا قانون کہتے ہیں ) کہ وہ ٹھیک طرح سے ناپ لیا گیا ہے تو یہ فلکیات دانوں کو کائنات کی پیمائشی چھڑی مہیا کرتی ہے۔ صرف ان کو اتنا کرنا تھا کہ سرخ منتقلی کی پیمائش کرنی تھی اور وہ فاصلہ جان جاتے۔ دریافت کی اہمیت بہت دور تک تھی بہرحال اس سے پہلے کہ ہم اس کے مضمرات کو جانیں ہمیں اس شخص کو خراج تحسین پیش کرنا چاہئے جس نے سرخ منتقلی کو وہاں سے آگے بڑھایا جہاں سے سلائیفر نے اس کو چھوڑ دیا تھا، اور جس نے 'ہبل کے قانون' کی صحت کو ہبل سے کہیں زیادہ قائم کیا۔
ملٹن ہماسن 1891ء میں، ڈاج سینٹر، مینیسوٹا میں پیدا ہوا۔ جب وہ چودہ برس کا تھا تو اس کو موسم گرما میں ہونے والی پڑھائی کے دوران ماؤنٹ ولسن بھیجا گیا، اور اس نے وہاں اتنا مزہ کیا کہ چند دنوں کے اندر واپس کالج جا کر اپنے والدین کو قائل کیا کہ اس کو اسکول سے ایک برس کی رخصت دلوا دیں تاکہ وہ واپس پہاڑوں پر جا سکے۔ اس کے بعد وہ کبھی رسمی تعلیم کی طرف نہیں پلٹا تاہم مختلف گھن چکر راستوں سے ہوتا ہوا وہ اپنی نسل کا ایک نمایاں ترین مشاہداتی فلکیات دان بنا۔ تعلیم کو چھوڑنے کے کے بعد وہ کچھ عرصے کے لئے خچر گاڑی چلانے والا بن گیا جو پہاڑوں کی چوٹی پر جانے والے راستوں کی رہنمائی کرتے اسی دوران ماؤنٹ ولسن رصدگاہ بن رہی تھی۔ وہ پہاڑ اور رصدگاہ دونوں سے سحر انگیز تھا تاہم اس دوران اس کو اتنا وقت بھی مل گیا کہ رصدگاہ کے انجنیئر کی بیٹی سے عشق لڑا کر اس سے 1911ء میں شادی کر سکے۔ ایک شادی شدہ شخص کے طور پر اپنی نئی ذمہ داری کے ساتھ ہماسن نے خچر گیری چھوڑ کر ایک مویشی خانے میں کام کرنے کی کوشش کی جو لا ورن میں اس کے ایک عزیز کا تھا۔ تاہم جب 1917ء میں ماؤنٹ ولسن رصدگاہ میں خلاصی کی نوکری خالی ہوئی تو ہماسن کے سسر نے اس کو وہاں درخواست دینے کا کہا اور اس امید کا اظہار کیا کہ ایک پہاڑوں اور رصدگاہوں سے پیار کرتے ہوئے ابھرتے ہوئے نوجوان آدمی کے لئے غالباً زندگی کے عظیم مقصد کو حاصل کرنے کا یہ پہلا قدم ہو۔ وہ بمشکل ہی تصور کر سکتا تھا بہرحال ایک 26 برس کے خلاصی کے اس قدم کی اہمیت جو یہاں 1917ء میں اہلکاروں میں شامل ہوا اگلے کچھ عشروں تک رہی۔
خلاصی سے جلد ہی ہماسن کی ترقی بطور رات کے مددگار کی ہو گئی، جس کا کم دوربین کی دیکھ بھال کرنا اور مشاہداتی فلکیات دانوں کو ان کے کاموں میں ہاتھ بٹانا تھا؛ کوئی بھی رات کا مددگار لائق ہوتا جلد ہی اس کو اپنے مشاہدے کے لئے کچھ تھوڑا بہت وقت مل جاتا، اور ہماسن نے دوربین کے ساتھ اس قدر مہارت دکھائی کہ 1919ء میں اس کی تقرری بطور نائب فلکیات دان کے ہو گئی اور وہ رصدگاہ کے اکیڈمک اہلکاروں کے اراکین میں بطور جونیئر رکن بن گیا۔ ہیل کو اس تقرری کے لئے کافی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا - کچھ بھی ہو ہماسن ایک خچر بان اور خلاصی تھا اور چودہ برس کی عمر سے اس نے کوئی رسمی تعلیم بھی حاصل نہیں کی تھی، اور انجنیئر کی بیٹی سے شادی بھی ان لوگوں کی آنکھوں میں اس کے خلاف ہی گئی جو اس کی ترقی کو مشکوک اور غلط راہ سے حاصل کرنا سمجھتے تھے۔ تاہم ہیل مردم شناس تھا اور اپنے فیصلے پر اڑ گیا۔ 1954ء تک ہماسن ماتحت فلکیات دان کے عہدے پر رہا جب وہ پورا فلکیات دان ماؤنٹ ولسن اور پلومر رصدگاہوں میں بن گیا؛ 1947ء سے وہ رصدگاہ کا معتمد رہا جس کی ذمہ داری میں عوامی تعلقات اور مختلف تنظیمی فرض شامل تھے۔ اس نے اعزازی سندیں حاصل کیں تاہم وہ عام طور پر حاصل کرنے والی نہیں تھیں ، اور وہ اپنی اکیاسی یوم پیدائش کے چند دن تک 1972ء میں زندہ رہا۔ اس کی انتہائی احتیاط کے ساتھ نازک آلات کو سنبھالنے کا معاملہ اور دوربین کے ساتھ اس کی مہارت کی وجہ سے وہ بنیادی اعداد و شمار حاصل کر سکا جن کے ساتھ ماہرین تکوینیات اس قابل ہوئے کہ اپنا پہلا مفصل کائنات کا تصوراتی نمونہ بنا سکیں، اور بگ بینگ کے نظریے تک جا سکیں۔ اور یہ تمام چیزیں 1928ء میں شروع ہوئیں جب ہبل نے پہلی مرتبہ ہماسن کو مدھم اور دور دراز کی کہکشاؤں کی سرخ منتقلی کو ناپنے کے کام پر لگایا۔
خاکہ 4.1 بی 1931ء تک ہبل کے قیاس اور سائنس کے امتزاج سے کیا جانے والے جرات مند کام کی صحت کی تصدیق ہو چکی تھی۔ ہبل اور ہماسن نے سرخ منتقلی کی تحقیق کو جس قدر کر سکتے تھے کیا اس طرح سے صرف دو برس کے بعد ہی خاکہ 4.1 اے کے اعداد و شمار اس پلاٹ کے الٹے ہاتھ کی طرف کے نچلے کونے کے ڈبے کے اندر گر گئے۔ تاہم سیدھی لکیر اب بھی موجود تھی اور زیادہ قابل بھروسہ لگ رہی تھی۔
ان مشاہدات کے لئے نئے آلات، نئی عکسی تیکنیک اور صبر اور مہارت کے منفرد امتزاج کی ضرورت تھی جس کی بدولت ہماسن گھنٹوں دوربین کے آگے گزارتا، جو کئی راتوں پر مشتمل ہوتے اس دوران وہ ان کی درست رہنمائی کرتا تاکہ وہ ایک ننھی سے صرف آدھ انچ کی عکسی تختی پر دور دراز کی کہکشاں کے طیف کو حاصل کر سکے۔ 1935ء تک اس نے سلائیفر کی فہرست میں 150 سرخ منتقلیوں کو شامل کر دیا جس میں سرخ منتقلی کے دور ہونے کی سمتی رفتار 40,000 کلومیٹر فی سیکنڈ - روشنی کی رفتار کے ایک بٹا آٹھ حصّے سے بھی زیادہ کو ناپا۔ 200 انچ دوربین کی آمد کے ساتھ اس نے اپنی تلاش کو اور گہری خلاء میں وسعت دے دی اور 1950ء کے عشرے کے آخر تک درج ہونے والی رفتار 100,000 کلومیٹر فی سیکنڈ سے بھی زیادہ تھی، روشنی کی رفتار کا ایک تہائی حصّہ، جو کئی ارب برسوں کے فاصلے سے مطابقت رکھتا تھا۔ 1920ء کے اختتام کے بعد سے یہ تیزی سے واضح ہونے لگا تھا کہ کائنات واقعی میں ایک بہت بڑی جگہ ہے، اور کہکشائیں اور جھرمٹ اس کی بنیادی اینٹیں ہیں اور سرخ منتقلی کا ہی زور چلتا ہے۔ کائنات بے قابو ہو کر پھیل رہی تھی۔
تو اس ساری رام کہانی کا کیا مطلب ہوا ؟ اب نظری لوگوں کو کچھ عرصے کے لئے مرکز نگاہ بننے کی باری کے لئے یہ پہلا قدم تھا، جس میں وہ ڈرتے ڈرتے اس بات کا اعتراف کرتے کہ وہ آپ کو یہ بتا سکتے ہیں کہ کائنات اس طرح کی تھی، بشرطیکہ ان میں اپنے نظریات پر کافی ایمان ہوتا کہ وہ گذشتہ چند عشروں سے کیا بتا رہے ہیں۔ یہی وہ کہانی ہے جو اس وقت شناسا بن جائے گی جب ہم بگ بینگ کی تلاش کے پیچھے جائیں گے۔ اکثر جو سمجھا جاتا ہے اس کے برعکس نظری - بلاشبہ کونیاتی نظری - ایسا لگتا ہے کہ ان کو اپنے نظریوں پر کچھ زیادہ یقین نہیں تھا۔ وہ اس پر کوئی بڑی شرط لگانے کو تیار نہیں ہوتے، تاہم اس کو وہ سائنسی جریدوں تک ضرور لے جاتے ہیں جہاں اکثر برسوں تک وہ نظروں میں آنے کے منتظر رہتے ہیں۔ 1930ء سے 1980ء کے عشروں تک نظری متواتر نئی مشاہداتی دریافتوں سے حیران ہوتے رہے جو کسی کی دس یا بیس برس پہلے بد دلی سے کی گئی یا نظر انداز کی گئی پیش گوئی کے عین مطابق تھیں۔ اور ان بد دل نظری ماہر تکوینیات میں سے پہلا کون تھا جو اپنے ہی نظریئے کی بتائی ہوئی بات پر یقین نہیں کر رہا تھا؟ یہ کوئی اور نہیں بلکہ البرٹ آئن سٹائن تھا۔
آئن سٹائن لگ بھگ ایک دیومالائی شخصیت بن گیا ہے، ہماری زمانے کے دور کا دیومالائی کردار۔ وہ ایک اصلی جوہر قابل تھا، سفید بال، تھوڑا سا سنکی تاہم ملنسار بوڑھا آدمی جس نے مشکل سوالات کے دلوں کو بچوں کی معصومیت کے ساتھ ان سامنے موجود سوالات کو اٹھا کر چیر ڈالا تھا جس کو کسی نے بھی نہیں پوچھا تھا۔ اس کا زیادہ تر حصّہ سچ ہے بعینہ ایسے کہ جیسے یہ سچ ہے کہ اسے اسکول میں کچھ زیادہ خاص نہیں سمجھا جاتا تھا، اس نے درسی دنیا میں بطور طالبعلم کوئی خاص تاثر نہیں چھوڑا تھا، اور اس کو ایک پیٹنٹ دفتر میں اس صدی کے ابتدائی برسوں میں بطور تیکنیکی ماہر کے کام کرنا پڑا جہاں اس نے طبیعیات میں تین اہم نئے نظریات اپنے فارغ وقت میں بنائے۔ تاہم ایک طرح سے دقیانوسی تصویر ہمیں اس آدمی کے بارے میں سچ نہیں بتاتی جس نے سائنس کے انقلاب میں اپنا حصّہ شامل کیا۔ 1900ء کی دہائی کی ابتداء میں آئن سٹائن کے سفید بال نہیں تھے نہ ہی وہ کوئی خلیق بوڑھا تھا جو نفیس لباس کے بجائے سہل پسند لباس پہنتا تھا اور اکثر ہفتوں تک جرابیں بھی بدلنے کی زحمت نہیں کرتا تھا۔ اس دور کی تصویر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گہرے بالوں والا وجیہ نوجوان آدمی تھا جو روایتی خوش لباس پہنتا تھا۔ یہ بات اہم ہے کہ آئن سٹائن کے عظیم تر خیالات اس کے جوانی کے خیال تھے۔ انہوں نے نئی معلومات فراہم کی، پہلے سے قائم شدہ تصورات کا تختہ الٹ دیا اور حقیقت میں انقلابی تھے۔ وہ سرگرمی جس نے آئن سٹائن کو سائنسی سماج کی توجہ دلوائی تھی وہ 1905ء میں ہی مکمل ہو گئی تھی، جب وہ صرف چھبیس برس کا تھا، اس کی عظیم الشان کامیابی، عمومی نظریہ اضافیت اس کے صرف دس برس بعد شایع ہوئی۔ ہرچند کہ وہ 1955ء تک زندہ رہا جب وہ ملنسار بوڑھا پروفیسر بن گیا تھا تاہم اس کا عظیم ترین کام اس پہلی جنگ عظیم کے اختتام سے پہلے ہی تک کا رہا۔ سائنس خاص طور پر ریاضی کی سائنس اسی طرح کی ہوتی ہے۔ صرف نوجوان دماغ ہی آگے بڑھ کر نئے تصور لاتے - دریافت کر کے ان کو اپنے گلے لگاتے - ہیں اور اگر نئے تصورات پرانے تصورات سے ڈرامائی طور پر الگ ہوتے ہیں جیسا کہ آئن سٹائن نے بنائے تھے، تو یہ آپ کی باقی ماندہ زندگی یا کئی زندگیاں ان کے مضمرات پر کام کرتے ہوئے لے لیتے ہیں۔
آئن سٹائن نے 1900ء میں سوئس فیڈرل پولی ٹیکنیک سے بغیر کسی امتیاز کے سند حاصل کی۔ اس وقت تک اس کی درسی تعلیم رنگ برنگی ہو چکی تھی - اس نے تین برس کی عمر تک بولنا نہیں شروع کیا تھا، ہرچند کہ اس کے اسکول سے اس کی کارکردگی کی کچھ اچھی اطلاعات تھیں اور کچھ بری تاہم پندرہ برس کی عمر میں اس کو اسکول (میونخ جمنازیم) سے یہ کہہ کر نکال دیا گیا تھا کہ وہ 'موجب تفریق' ہے۔ اسکول سے نکلے جانے کی منصوبہ بندی خود آئن سٹائن نے کی تھی - اس کے والدین پہلے ہی کاروبار کی ناکامی کے بعد جرمنی چھوڑ کر اٹلی میں رہ رہے تھے اور نوجوان البرٹ کو جرمن سماج کی لڑاکا فطرت سے اس قدر کراہیت تھی کہ اس نے اس وقت اپنی شہریت ترک کر دی اور جرمن رہنے کے بجائے پردیسی بن گیا۔ میلان میں اپنے خاندان کے ساتھ ایک برس کی آزادی خوشی سے گزارنے کے بعد 1895ء میں آئن سٹائن نے زیورخ پولی ٹیکنیک میں داخلے کے لئے درخواست دی - اور داخلے کے امتحان میں ناکام ہوا۔ تاہم آراو میں ایک برس سوئس اسکول میں داخلے کے بعد اس نے محفوظ طریقے سے اس باڑ کو پار کیا اور ساڑھے سترہ برس کی عمر میں 1896ء کے موسم خزاں میں پولی میں داخل ہوا۔
آراو کے دوران اسی برس آئن سٹائن نے ان سوالات پر سوچنا شروع کر دیا جنہوں نے دس برس کے بعد اس کو خصوصی نظریہ اضافیت تک پہنچایا۔ البرٹ نے یہ سوچا کہ اس وقت روشنی کی موج کیسی لگی گی جب آپ اس اس رفتار سے سفر کریں کہ اس کو پکڑ سکیں۔ یہاں حقیقت میں اس نے معصومانہ اور بچوں والی سوچ کے ساتھ کائنات کو دیکھا جس نے اس کا طرہ امتیاز بنانا تھا۔ کیا یہ ایک مضحکہ خیز سوال نہیں ہے ؟ ایک تین برس کے بچے کی طرح جو پوچھے، 'گھاس ہری کیوں ہوتی ہے؟' لیکن ذرا رکئے یہ سوال اس سے کہیں زیادہ کے جواب کا مستحق ہے جو اسے سرسری سے دیکھنے میں لگتا ہے۔
یہ اس سے کہیں زیادہ اکتاہٹ والا تھا جن سے آئن سٹائن نے پولی میں امتحانات سے پیچھا چھڑایا تھا - وہ ان چیزوں کا مطالعہ نہیں کرتا تھا جس میں اس کی کوئی دلچسپی نہ ہو۔ بطور طالبعلم اس کی مغروریت معلمین کو پریشان کر دیتی تھی، ان میں سے ایک ہینرچ ویبر تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے چلا کر کہا تھا 'تم ایک چالاک لڑکے ہو! تاہم تم میں ایک مسئلہ ہے۔ تم کسی کو بھی کوئی ایک چیز بتانے نہیں دیتے۔ تم کسی کو بھی کوئی ایک چیز بتانے نہیں دیتے۔ اور اس اجنبیت سے ان لوگوں کو بہت بری طرح گزرنا پڑتا تھا جو اس کی مدد کر سکتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ آئن سٹائن کو کوئی درسی نشت نہیں مل سکی، اور اس کو نجی طور پر اس وقت تک پڑھانا پڑا جب تک 1902ء میں اس کو مشہور زمانہ ملازمت برن میں واقع پیٹنٹ کے دفتر میں نہیں مل گئی اور وہ سوئس شہری نہیں بن گیا۔ یہ ایک سیدھی نوکری تھی، جو اسے آسان لگی اور اس نے اس کو حفاظت کے ساتھ اتنا وقت فراہم کیا کہ وہ تیز رفتار روشنی کی موج کی ماہیت کے بارے میں سوچ سکے۔ تاہم کوئی بھی اس خیال کے بارے میں نہیں سوچ سکتا تھا جو اس ایک عام سے گرم گھر سے تین برس کے اندر نکلنا تھا۔
1905ء میں جرمنی کا جریدہ انالین ڈر فزک کا والیوم نمبر 17 شایع ہوا، اور اب تو سائنس دانوں کے لئے یہ تو نوادرات جیسی حیثیت رکھتا ہے۔ اس جریدے کے ایک والیوم میں، نوجوان آئن سٹائن جو ایک گمنام پیٹنٹ محرر تھا (اس وقت اس کے پاس پی ایچ ڈی کی سند بھی نہیں تھی)، نے تین مقالے شایع کئے جنہوں نے دنیا کی ماہیت کے بارے میں نئی راہ دکھائی۔ ان میں سے ایک نے جوہر کی حقیقت کو قائم کرنے میں مدد دی؛ دوسرے نے اشارہ دیا کہ ہو سکتا ہے کہ روشنی صرف موج ہی نہ ہو بلکہ وہ ذرّات کے سلسلوں کی طرح برتاؤ کرتی ہو۔ ان دونوں مقالات نے کوانٹم طبیعات میں ہونے والی پیش رفت میں اپنی اہمیت کو ثابت کیا، اور یہ ان میں سے دوسرا تھا جو ضیا برقی اثر پر تھا جس پر سترہ برس بعد آئن سٹائن نے نوبل انعام حاصل کیا۔ تاہم یہ تیسرا مقالہ تھا جو سب سے زیادہ مشہور ہوا۔ اس نے تیس صفحات کو بھرا تھا اور اس کا عنوان متاثر کن 'حرکت کرتے ہوئے اجسام کی برقی حرکیات پر' تھا۔ یہ وہ مقالہ تھا جو ہمیں بتاتا ہے کہ نہ تو خلاء اور نہ ہی وقت کوئی مطلق چیز ہے بلکہ اس کو کھینچا یا سکیڑا جا سکتا ہے جس کا انحصار آپ کے دیکھنے پر منحصر ہے ؛ اور یہ کہ حرکت کرتی ہوئے اجسام بھاری ہو جاتے ہیں ؛ اور یہ کہ E = mc 2 جس نے جوہری بم اور نیوکلیائی بجلی گھر کو بنانے کی راہ دکھائی، اس کے علاوہ اس فہم کے ادراک کہ سورج اور ستاروں کو اندر سے کیا چیز گرم رکھتی ہے۔ اگر یہ سب متاثر کن لگتا ہے، یاد رہے کہ 1905ء میں جس چیز کو آئن سٹائن نے اپنے عظیم ترین کام ثابت کرنا تھا اس میں اب بھی مستقبل میں دس برس لگنے تھے۔
1905ء کا مقالہ خصوصی نظریہ اضافیت کی بنیادی اینٹیں آج کی دنیا میں کافی اہم ہیں، تاہم بگ بینگ کی طرف جانے والے راستے کا ایک چھوٹا تماشہ ہے۔ آئن سٹائن کی روشنی کی ماہیت کے اوپر غور و فکر کرنے کی جڑیں انیسویں صدی کے عظیم اسکاٹ لینڈ کے رہائشی جیمز کلارک میکسویل تک جاتی تھیں، جس نے وہ مساوات بنائی تھی جو روشنی کو بطور برقی مقناطیسی موجوں کے ایک مخصوص رفتار سے حرکت کرتا ہوا بیان کرتی ہے جس کو عام طور پر c سے بیان کیا جاتا ہے۔ یہ سوال کہ یہ موجیں اس وقت کیسی دکھائی دیں گی جب آپ ان کے ساتھ مستقل رفتار c کے ساتھ بھاگیں، اس سے روشنی کے برتاؤ اور ہمارے روز مرہ کی عقلی اصول جو ہم دنیا میں رہتے ہوئے روز مرہ زندگی میں سیکھتے ہیں، کے درمیان ایک اہم تضاد کے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔ اگر آپ اس طرح بھاگیں جیسے کہ آئن سٹائن نے تصور کیا ہے تو برقی مقناطیسی موجیں اس وقت بھی قیاس ہے کہ لہروں کی طرح چل رہی ہوں گی، تاہم جہاں تک آپ کے سمجھنے کے لئے ہے تو یہ حرکت نہیں کر رہی ہوں گی جو میکسویل کی مساوات کے خلاف بات ہے۔ دنیا کو اس طرح سے دیکھنے میں ضرور کچھ غلطی ہے۔ میکسویل کی مساوات روزمرہ عقل سے میل نہیں کھاتی کچھ تو دینا ہو گا۔ آئن سٹائن کی ذہانت میکسویل کی مساوات کو بعینہ اسی طرح سے قبول کرنے میں تھی تاہم پہلے سے معلوم شدہ تصورات کو پھینک دینے سے حقیقت کی ایک نئی اور بہتر تشریح سامنے آتی ہے۔
1900ء کے عشرے کی ابتداء میں تجربات نے بتایا کہ روشنی کی رفتار کو کیسے بھی ناپیں اس سے ہمیشہ ایک ہی جواب c آئے گا۔ سائنس کے مورخین اب بھی اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ آیا آئن سٹائن کو اس وقت ان تجربات کا علم تھا یا نہیں، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ روشنی کی کرنوں اور آئینوں کے لطیف انتظام سے یہ ممکن ہے کہ روشنی کی حرکت کرتی ہوئی کرن کو اسی سمت میں ناپ لیا جائے جس سمت میں زمین خلاء میں گزر رہی ہے یا اس سمت کے برخلاف بھی ناپا جا سکتا ہے۔ عقل بتاتی ہے کہ جواب کو کچھ اور ہونا چاہئے۔ اگر میں ایک بس کو 10 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے جاتا ہوا دیکھ رہا ہوں اور اس کو پکڑنے کے لئے ایک وین میں 9 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اس کو پکڑنے کے لئے جاؤں تو بس کی رفتار میرے لئے 1 میل فی گھنٹے کی ہے، اور اگر میں ایک ایسی بس پر سفر کروں جس کی رفتار 30 میل کی ہے اور ایک اور دوسری بس جو اس کے مخالف سمت میں روڈ پر مجھے 30 کلومیٹر کی رفتار سے پاس کرتی ہے تو بس میری نسبت سے 60 میل فی گھنٹے سے حرکت کر رہی ہے۔ تاہم روشنی اس طرح کی نہیں ہوتی۔ خلاء میں زمین کسی سمتی رفتار سے حرکت کر رہی ہے جس کو ہم v کہہ سکتے ہیں۔ وہ روشنی کی کرن جو ہم سے c سمتی رفتار سے آگے نکلے گی اس کی رفتار c - v نہیں ہو گی، اور نہ ہی کوئی روشنی کی کرن جو مخالف سمت سے ہمارے پاس آ رہی ہو اس کی رفتار c+v ہو گی۔ ہماری جو بھی سمتی رفتار ہو اور کسی بھی سمت سے روشنی کی کرن ہماری طرف آئے، جب ہم اس کی رفتار کی ناپیں گے ہمیں ہمیشہ ایک ہی جواب c ملے گا۔
لہٰذا آئن سٹائن نے کہا ہمیں اپنے روز مرہ کے مشاہدات کو رد کرنا ہو گا۔ جب ہم سمتی رفتاروں سے نبٹتے ہیں تو ایک جمع ایک دو نہیں ہوتے۔ اس نے ایک ریاضیاتی ڈھانچہ بنایا جس کے اندر روشنی کی رفتار ہمیشہ سے کسی بھی مشاہد کے لئے ایک جیسی ہو گی جو اس کی پیمائش کو کسی بھی حرکت کرتی ہوئی جگہ سے خط مستقیم میں ایک ہی متوازن رفتار سے آ رہی ہو۔ یہ تمام جگہیں ایک دوسری کی نسبت حرکت کر سکتی ہیں (اور 'اضافیت' کے آنے کی یہ ہی وجہ ہے)، تاہم ان کو گھومنا یا اسرع پذیر نہیں ہونا چاہئے(لہٰذا 'اضافی' کا مطلب یہ ہے کہ نظریہ صرف طبیعات کی مخصوص مسائل سے ہی نبٹتی ہے ) ۔ کوئی بھی اس طرح کی حوالاتی جگہ میں ایک جیسی ہی قوانین طبیعیات دیکھے گا، اور اس جگہ جہاں وہ رہتا ہے اس کو 'ساکن' سمجھے گا۔ اور سب روشنی کی رفتار کو c ہی ناپیں گے۔ کائنات میں کوئی خصوصی حوالاتی جگہ نہیں موجود ہے۔
تفصیلات میں جائے بغیر آئن سٹائن کے حسابات کے نتائج کے کا خلاصہ سادے طور پر کیا جا سکتا ہے۔ دو سمتی رفتاروں کو جمع کرنے کے بہتر قانون v 1 اور v 2 یہ (V = (v 1 + v 2 نہیں بلکہ V = (v 1 + v 2) تقسیم (1+ v 1 v 2 /c 2) کے برابر ہے، جہاں c روشنی کی رفتار ہے۔ کیونکہ c بہت زیادہ بڑی ہے یعنی 300,000 کلومیٹر فی سیکنڈ لہٰذا روز مرہ کی سمتی رفتار جیسے کہ 10 میل فی گھنٹہ یا 30 میل فی گھنٹہ لہٰذا جس عدد کو آپ اس سے تقسیم کریں گے اس کا حاصل لامحالہ طور پر ناقابل شناخت ہو گا اور مجازی طور پر وہ صفر ہی ہو گا۔ تاہم اگر آپ کسی ایک سمتی رفتار کو یا دونوں کو c کے برابر لیں تو عجیب و غریب چیزیں وقوع پذیر ہونے لگتی ہیں۔ آپ کبھی بھی دو سمتی رفتاروں کو لے کر جو روشنی کی رفتار سے کم ہوں جمع کر کے ایک ایسا جواب حاصل نہیں کر سکتے جو روشنی کی رفتار سے بڑا ہو۔
اسی طرح کی مساوات جو ریاضی سے نکلتی ہے ہمیں بتاتی ہے کہ ایک حرکت کرتا ہوا جسم اپنی منتخب کی ہوئی جگہ میں اس وقت بھاری ہوتا جاتا ہے جب اس کی رفتار روشنی کی رفتار کے قریب پہنچنے لگتی ہے اور اسی وقت حرکت کرتا ہوا جسم اپنی حرکت کرنے کی سمت میں سکڑ بھی جاتا ہے۔ ایک حرکت کرتی ہوئی گھڑی اس ساکن حوالاتی جگہ کے مقابلے میں آہستہ چلنے لگتی ہے۔ اور مزید فائدہ دیتے ہوئے دو واقعات تو ایک ساتھ وقوع پذیر ہو رہے ہیں تو ان میں سے ایک حوالاتی جگہ میں صرف ایک ہی معنی ہوتا ہے - ایک مشاہد جو آپ کو مستقل سمتی رفتار سے پاس کرتا ہے اس کی نظر اسی وقت ہونے والے واقعہ یا اس واقعے کو جو اس نے پیچھے چھوڑا ہے کے لئے مختلف ہو گی۔ اور یہ تمام آج کے دور کی انجینئرنگ کا حصّہ ہے۔ وہ مشینیں جو پروٹون یا الیکٹران کو روشنی کی رفتار کے قریب اسراع دیتی ہیں وہ اس وقت کام نہیں کرتیں اگر مساوات دنیا کے کام کرنے کے طریقہ کار کو ٹھیک طرح سے بیان نہ کرتی، اور کیونکہ وہ کام کرتی ہیں لہٰذا وہ طبیعیات دانوں کو براہ راست کمیت میں اضافے، وقتی کشادگی اور دوسرے اثرات جن کی پیش گوئی آئن سٹائن نے کی ہے ان کی پیمائش کو کرنے کے قابل بناتی ہیں۔ خصوصی اضافیت روزمرہ کی دنیا میں زبردست طریقے سے کام کرتی ہے اور نیوٹن کی پرانی میکانیات کے ساتھ اور برقی مقناطیسی مساوات جو میکسویل نے بنائی تھی ان دونوں کے ساتھ کافی اچھا چلتی ہے (اس وقت تک ٹھیک کام کرتی ہے جب تک چیزیں روشنی کی رفتار کے قریب نہیں پہنچ جاتیں )۔ تاہم یہ اب بھی 'خصوصی' اضافیت کا نظریہ ہے۔ یہ قوّت ثقل کے ساتھ ٹھیک طرح سے کام نہیں کرتی، اور قوّت ثقل وہ قوّت ہے جس کا کائنات پر غلبہ ہے۔ لہٰذا یہ بحیثیت مجموعی کائنات کی مکمل تشریح بیان نہیں کرتی۔ ایسا کرنے کے لئے آئن سٹائن کو ایک مزید عمومی نظریے کی ضرورت تھی۔
خصوصی نظریہ اپنے وقت کا بچہ تھی۔ نیوٹن اور میکسویل کے تصورات کے نظریات میں موافقت پیدا کرنے کی واضح طور پر ضرورت تھی اور اگر آئن سٹائن 1905ء میں خصوصی اضافیت کے ساتھ نہیں آتا تو کوئی دوسرا اس کو ایک یا دو برسوں میں تلاش کر لیتا۔ تاہم عمومی نظریہ کچھ خاص تھا۔ آئن سٹائن کے علاوہ کوئی اور خصوصی نظریہ کی محدودیت کی وجہ سے اتنا تنگ نہیں تھا۔ تاہم دس برس کے مزید کام کے بعد (صرف اسی معمے پر کام نہیں کیا؛ آئن سٹائن نے ان دس برسوں میں کوانٹم نظریے کو بنانے میں کافی اہم حصّہ ڈالا تھا) اس نے ایک نظریہ پیش کیا جو کائنات کے حالیہ مشاہدے سے کہیں زیادہ مکمل تھا۔ جب مبصرین نے اس وقت تک سحابیہ کے پیمانے کے فاصلے کا تعین نہیں کیا تھا اور اس بات کو تو چھوڑ دیجئے کہ کہکشائیں ہم سے بہت تیزی سے دور ہو رہی ہیں وہ اس بات کو یقین سے نہیں جانتے تھے کہ یہ سحابیہ اصل میں دوسری کہکشائیں ہیں، آئن سٹائن نے ایک ایسے نظریہ کو پیش کیا جو قدرتی طور پر اور اپنے آپ میں کائنات کو ایسا بیان کرتا ہے جو کافی بڑی، خالی جگہ تھی جس کو پھیلنا تھا۔ اب آئن سٹائن اس مساوات کے ساتھ کائنات کو بیان نہیں کر سکتا تھا۔ اس کی دلچسپی کا بنیادی مقصد کائنات کا نمونہ حاصل کرنا تھا - ایک ریاضیاتی نمونہ - تاکہ وہ جانچ کر سکے کہ عمومی اضافیت حقیقت میں مکمل کائنات سے نبٹ سکتی ہے اور لا محدودیت تک پہنچنے کی صورتحال یا کائنات کے 'کونے ' تک پہنچنے میں مسائل کا شکار نہیں ہوتی - نام نہاد سرحدی شرائط۔ یہ کافی گہرا ریاضیاتی سچ تھا۔ لہٰذا وہ اس بات سے زیادہ پریشان نہیں تھا کہ اس کی سادی مکمل ترین اور قائم بالذات نظریہ جس کو کوئی خاص سرحدی شرائط کی ضرورت نہیں تھی وہ اصل کائنات کو بیان کرتا ہوا نہیں لگتا تھا۔ وہ اس حقیقت کو جاننے میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا کہ نمونہ اصل میں مکمل ہونا چاہئے اور اس میں کوئی خصوصی سرحدی شرائط کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ ایک لحاظ سے اس نے یہ بات قبول نہیں کی کہ نظریہ اس کو کیا بتانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور اپنی زندگی میں ایک مرتبہ اس نے اس اصول کی پاسداری نہیں کہ جو تمام عصبیت کو ایک طرف اٹھا کر رکھ دے۔ اپنے نمونے کو اپنے پیش تصوری کے نمونے میں زیادہ بہتر طور پر اتارنے کے لئے جس میں کائنات ایک ساکن جگہ تھی اس نے مساوات میں تھوڑی سی تبدیلی کی جس سے وہ تھوڑی پیچیدہ ہو گئی تاکہ وہ ایک تھوڑا سا مختلف مکمل نمونہ بنا سکے جس کی کوئی خصوصی سرحدی شرائط نہ ہوں۔
عمومی نظریہ سب سے بڑھ کر قوّت ثقل کا نظریہ تھا۔ تقریباً خصوصی نظریہ اضافیت کے آنے کے نصف اور عمومی نظریہ اضافیت کی مکمل اشاعت کے بعد، آئن سٹائن نے انالین ڈر فزک میں 1911ء میں ایک اور مقالہ شایع کیا جس نے دکھایا کہ کس طرح سے اس کا دماغ قوّت ثقل کے نظریے پر کام کر رہا ہے۔ اس کا عنوان تھا 'روشنی کے انتشار پر قوّت ثقل کا اثر'، ہرچند کہ اس میں نئی ان دیکھی چیزوں کے بجائے آدھا سچ اور قیاسات شامل تھے اس کے باوجود اس نے نئی راہ دکھائی اور وہ معصومانہ سوالات اٹھائے جنہوں نے کائنات کی سچائی کی گہرائی کو ظاہر کیا۔ آئن سٹائن اس جگہ پھنس گیا تھا جہاں قوّت ثقل نا صرف ایک گرتے ہوئے جسم سے بلکہ تمام کی تمام سے بعینہ اسی طرح سے زائل ہو جاتی ہے۔ گلیلیو نے اس جانب اشارہ دیا تھا کہ قطع نظر کہ ان کا وزن کیا ہے وہ تمام اجسام ایک ہی شرح سے گرتے ہیں ؛ نیوٹن نے اس علم کا فائدہ اٹھا کر اپنے قوانین حرکت کو ترتیب دیا۔ نیوٹن کی مشہور تین قوانین میں سے ایک کہتا ہے کہ کسی بھی جسم پر قوت کا اثر اسرع کو پیدا کرنے کے لئے اس کی کمیت کے تناسب سے ہوتا ہے۔ اور قوت ثقل کی جسامت کسی جسم پر بھی اس کی کمیت کے تناسب سے ہوتی ہے۔ لہٰذا کمیت زائل ہو جاتی ہے اور تمام اجسام ایک ہی شرح سے گرتے ہیں۔
آئن سٹائن جب روشنی کی کرن کے پیچھے آدمی کو دوڑتے ہوئے نہیں سوچ رہا تھا، اس وقت لگتا تھا کہ اس نے ایک دوسرے آدمی کے بارے میں کافی سوچا (اور شاید کہ یہ وہی ایک آدمی تھا؟) جو ایک گرتے ہوئے بالا بر میں پھنس گیا تھا جس کی تار ٹوٹ گئی تھی۔ یہ آئن سٹائن کا حیرت کا طریقہ تھا جس میں چیزیں اس وقت برتاؤ کرتی تھیں جب وہ قوت ثقل کے زیر اثر گرتی ہیں۔ گرتے ہوئے بالابر کے اندر ہر چیز ایک ہی شرح سے گرتی ہے اور کوئی اضافی حرکت نہیں ہوتی۔ بالابر کے اندر موجود آدمی تیرے گا، مکمل طور پر بے وزن ہو کر اس قابل ہو گا کہ اپنے آپ کو دیوار سے دیوار یا فرش سے چھت تک بغیر کسی مشکل کے آسانی سے دھکیل سکے۔ بے شک ہم سب نے تصاویر میں خلا نوردوں کو خلائی جہاز کے اندر اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے ؛ وہ اسی وجہ سے ایسا کر سکتے ہیں، وہ تمام کے تمام 'بلا روک ٹوٹ' قوّت ثقل کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ زمین کے گرد مدار ایک منضبط گرنے کی ایک مخصوص قسم ہے۔ تاہم آئن سٹائن کو یہ تمام باتیں تصور کرنی تھیں جو ہم ٹیلی ویژن پر دیکھ چکے ہیں۔ ایک پنسل گرتے ہوئے بالابر میں ہوا کے درمیان بے وزن ہو جاتی ہے ؛ مائع نکلنے سے منع کر دیتا ہے اور گول کرے کی شکل میں نکلتا ہے، علی ہذا القیاس۔ گرتے ہوئے بالابر کے اندر (یا خلائی جہاز میں ) وہ نیوٹن کے ان قوانین کی اطاعت کرتے ہیں جن کو ہم نے اسکول میں پڑھا تھا - وہ ایک خط مستقیم پر مستقل سمتی رفتار سے حرکت کرتے ہیں تاوقتیکہ ان پر کسی قسم کی قوّت نہیں لگائی جائے۔ گرتے ہوئے بالابر کے باہر کی دنیا میں چیزیں قوت ثقل کی وجہ سے مختلف ہوتی ہیں۔ آئن سٹائن کی ذہانت نے وہ اہم نکات دیکھ لئے تھے جنھیں تمام لوگوں نے چھوڑ دیا تھا۔ اگر گرتے ہوئے بالابر کی اسرع درستگی کے ساتھ قوّت ثقل کو زائل کر دے، جیسا کہ وہ کرتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ قوت اور اسرع دونوں ایک دوسرے کے برابر ہیں۔
ایسا کیوں ہے کہ یہ ایک اہم بصیرت ہے؟ فرض کریں کہ بالابر کو اب ایک تصوراتی بڑی طبیعیات کی تجربہ گاہ سے بدل گئی ہے، جس میں کوئی کھڑکی نہیں ہے۔ تجربہ گاہ زمین کی سطح پر رکھی ہوئی ہے، اور اس کے اندر طبیعیات دان یہ پیمائش کر رہے ہیں کہ کس طرح سے چیزیں گرتی ہیں اور قوت ثقل پر کام کر رہے ہیں۔ اب تصور کریں کہ تجربہ گاہ خلاء میں تیر رہی ہے۔ طبیعیات دانوں کو اس بات کو جاننے میں کوئی دقت نہیں ہو گی کہ وہ بلا روک ٹوک جیسی جگہ میں ہیں۔ تاہم اس وقت کیا ہو گا جب تجربہ گاہ کو ایک متواتر قوّت سے دھکا دیا جائے گا، بعینہ اسی طرح مضبوط جیسے کہ زمین کی سطح پر قوّت ثقل ہوتی ہے تاہم یہ اوپری سمت میں ہو گی تجربہ گاہ کی چھت و فرش کی ترتیب میں ؟ تجربہ گاہ میں ہر چیز فرش پر گرے گی بعینہ جس طرح ہوائی جہاز کے مسافر اس کے اڑتے وقت اپنی نشستوں پر بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ دباؤ جلد ہی اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب جہاز ایک مستقل رفتار پکڑ لیتا ہے۔ تاہم ہماری تصوراتی تجربہ گاہ میں نیچے کی قوّت اس وقت تک ثابت قدم رہے گی جب تک تجربہ گاہ اوپر کی طرف اسرع پذیر ہو گی۔ طبیعیات دان یہ تمام تجربہ دہرا سکتے ہیں اور وہی نتائج حاصل کریں گے جو ان کو نیچے ساکن زمین پر تجربہ گاہ میں ملے ہوں گے۔ کوئی بھی ایسا ذریعہ نہیں ہو گا جو ان کو یہ بتائے کہ آیا تجربہ گاہ قوت ثقل کے میدان میں ساکن ہے یا اوپر کی طرف اسراع پذیر ہے۔ قوّت ثقل اور اسراع برابر ہے۔
ان تمام باتوں کا روشنی سے کیا لینا دینا ہے؟ واپس اس تجربہ گاہ میں چلیں جس کو خلاء میں ایک مستقل قوت سے دھکیلا جا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اندر طبیعیات دان فیصلہ کریں کہ کچھ روشنی سے متعلق تجربات کئے جائیں۔ وہ روشنی کی ایک کرن بناتے ہیں تاکہ وہ تجربہ گاہ کے ایک طرف سے شروع ہو کر اس کو پار کرتی ہوئی دوسری طرف نکل جائے۔ اب روشنی لازمی طور پر تجربہ گاہ کو پار کرنے کے لئے ایک مخصوص وقت لے گی، اور اس وقت کے دوران تجربہ گاہ اوپر کی طرف اسراع پذیر ہو رہی ہو گی، لہٰذا دیوار روشنی کی کرن کے پہنچنے سے پہلے تھوڑا سا اوپر ہو چکی ہو گی۔ اصولی طور پر طبیعیات دان اس دیوار کی پیمائش کر سکتے ہیں جہاں پر روشنی گرتی ہے اور یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ان کی تجربہ گاہ اسراع پذیر ہے۔ بلکہ وہ تو روشنی کی کرن کے خم کو ناپ کر بھی اسراع کی پیمائش کر سکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی ایسا طریقہ موجود ہے جو قوّت ثقل کو اسراع سے الگ کر سکے۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے، آئن سٹائن کہتا ہے۔ ہمیں اس تصور کو بحال رکھنا ہو گا کہ قوّت ثقل اور اسراع اس وقت تک ایک دوسرے کے برابر ہیں جب تک اس کے برخلاف ثابت نہ ہو جائے۔ اگر روشنی کی کرن ایک اسراع پذیر حوالاتی جگہ میں خم کھا رہی ہو گی تو اگر نظریہ درست ہے تو یہ قوّت ثقل کی وجہ سے خم کھائی ہو گی اور اسی اور اتنی ہی مقدار سے۔
مساوات کا یہ اصول 1911ء کے مقالے کی درست بصیرت کا دل ہے۔ بدقسمتی سے خم کے حجم کے اثر کا حساب غلط ہے، لیکن اس کو چھوڑ دیں۔ اگلے چار برسوں میں آئن سٹائن نے ان خیالات کو ایک مکمل اور جامع عمومی نظریہ اضافیت کا روپ دیا، اور یہ مکمل نظریہ پیش گوئی کرتا تھا کہ روشنی قوّت ثقل کی وجہ سے خمیدہ ہو سکتی ہے، حقیقت میں خمیدگی کی مقدار کا حساب 1911ء میں لگا لیا گیا۔ روشنی کس طرح سے خمیدہ ہوتی ہے اس کا تصور کرنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ قوت اور خلاء کے بارے میں اپنے پہلے سے موجود تصورات سے جان چھڑائی جائے، اور ان خیالات کو لیا جائے جن کو آئن سٹائن نے پہلے 1915ء میں اور پھر مکمل طور پر 1916ء میں پیش کئے۔ یہ تصورات بتاتے ہیں کہ ہم خالی جگہ کے بارے میں روزمرہ میں کیسا سوچتے ہیں جو لگ بھگ ایک حقیقی جگہ کے ہے، جو چار جہتوں کا تسلسل ہیں (خلاء کے تین اور وقت کا ایک) جس کو مادّی اجسام کی موجودگی میں خم اور بگاڑا جا سکتا ہے۔ یہ خم دار بگاڑ وہ ہیں جو 'قوت' ثقل مہیا کرتے ہیں۔
ایک لمحے کے لئے مکان و زمان کی چوتھی جہت کے بارے میں بھول جائیں، اور دو جہتی لچک دار سطح کے بارے میں سوچیں۔ ایک ربڑ کی چادر کے بارے میں تصور کریں جو ایک جگہ تن کر کھینچی ہوئی ہے جس سے ایک چپٹی سطح بن گئی ہے۔ یہ آئن سٹائن کے خالی خلاء کا 'نمونہ' تھا۔ اب تصور کریں کہ ایک بھاری گیند اس چادر کے درمیان میں موجود ہے۔ یہ جھک جائے گی۔ یہ آئن سٹائن کے خلاء کا 'نمونہ' ہے جو خلاء کو اس جگہ بگاڑتا ہے جہاں بڑے مادّے کا ٹکڑا موجود ہوتا ہے۔ جب آپ کنچوں کو چپٹی ربڑ کی چادر پر لڑھکاتے ہیں تو وہ سیدھی لکیروں کی صورت میں سفر کرتے ہیں۔ تاہم جب چادر ایک گیند کی وجہ سے بگڑتی ہے تو کوئی بھی کنچا جو گیند کے قریب ہو گا وہ دبی ہوئی ربڑ کی چادر کے قریب خم زدہ ہو کر گرے گا۔ آئن سٹائن حقیقت میں کہتا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں 'قوت' ثقل کام کرتی ہے۔ یہاں پر کوئی حقیقی قوت نہیں ہے۔ اجسام وہ راستہ اختیار کرتے ہیں جہاں کم سے کم مزاحمت ہوتی ہے، سیدھی لکیر کے برابر، خلاء یا مکان و زمان کے کے خم زدہ حصّے میں سے۔ جسم کوئی کنچا، کوئی سیارہ یا روشنی کی کرن ہو سکتی ہے۔ اثر ایک ہی ہے۔ جب یہ کسی بڑی کمیت کے گرد حرکت کرتا ہے - ثقلی قوت میدان میں سے پرانی تصویر کے مطابق - تو یہ خم کھاتا ہے۔ عمومی اضافیت صحت کے ساتھ پیش گوئی کرتی ہے کہ روشنی کی کرن اس وقت کس قدر خم کھائے گی جب وہ سورج کے پاس سے گزرے گی۔ ریاضی دقیق ہو سکتی ہے اور تصور جیسا کہ خم دار جگہ عجیب ہو سکتی ہے۔ تاہم آئن سٹائن کا عمومی نظریہ ایک واضح اور قابل جانچ پیش گوئی کرتا ہے۔ 1916ء میں یہ اس وقت ظاہر ہوا جب آئن سٹائن جرمنی میں کام کر رہا تھا۔ برطانوی فلکیات دان آرتھر ایڈنگٹن نے نئے نظریے اور اس کی پیشن گوئی کو ہالینڈ میں اپنے ایک رفیق سے سیکھا۔ اور اس جرمن پیشن گوئی کی تصدیق برطانوی مشاہدے سے 1919ء میں ہوئی، جب دونوں ممالک تیکنیکی طور پر حالت جنگ میں تھے اگرچہ دونوں نے عارضی صلح کر لی تھی تاہم امن کے معاہدے پر ابھی تک دستخط نہیں ہوئے تھے۔ ان وجوہات کی وجہ سے جزوی طور پر اس نے وہ مقبول تخیل حاصل کر لیا جسے طبیعیاتی سائنس میں کسی اور دریافت نے نہیں کیا، اس کا مقابلے صرف اس بھونچال سے کیا جا سکتا ہے جو پچھلی صدی میں ڈارون کے ارتقاء پر تصورات کی اشاعت سے مچا تھا۔
خاکہ 4.2 وہ طریقہ جس میں کسی جسم کی کمیت اپنے قریبی علاقے میں مکان و زمان کو بگاڑتی ہے اس کا مقابلہ ایک ہموار ربڑ کی چادر سے کیا جا سکتا ہے جس میں ایک بھاری گیند کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہو گیا ہو۔