لیکن پھر ترجمہ سے کیا غلط فہمی ہو سکتی ہے۔ میں سمجھا کہ چِین سے کوئی صاحب کبھی سندھ آئے ہوں گے۔ اور یہاں اردو غزلوں سے متاثر ہو کر چینی میں بھی غزلیں کہی ہوں گی، جن کا ترجمہ کیا گیا ہے۔
عبید صاحب کتاب سے ذرا سا اقتباس پہلے ہی ڈال دینا چاہئے تھا، چلیں دیر آید درست آید
بھائی چین رائے لُنڈ سامی
1850- 1743
( شکارپور سندھ )
سندھی شاعری کی زندہ روایت میں بھائی چین لُنڈ سامی اپنے ویدانتی طرز اسلوب نگارِش کی بنا پر ایک جداگانہ شخصیت کے حامل ہیں کہ اُن کے بغیر سندھی شعری روایت
کی تکمیل ممکن نہیں ہے. وہ شکارپور کے ایک ایسے ہندو گھرانے میں پیدا جو لُند قوم سے تعلق رکھتا تھا .تمام تر عیش و آرام اور آسائشیں میّسر ہونے پر بھی، وہ بچپن سے
ہی ویدانت کی طرف مائل تھے، اُن کی اِس رحجان اور شخصیت کی تکمیل میں اُن کے استاد سنت سوامی مینگھراج کا بہت گہرا ہاتھ رہا. وہ اپنے استاد سے اس قدر، بوجہ
عقیدت و فن متاثر تھے کہ اپنا تخلص بھی، اُن کی نسبت سے سامی اختیار کیا.
بھائی چن رائے سامی 97 برس کی عمر پائی وہ 1850 میں سورگ باش ہوئے
شاہ عبداللطیف بھٹائی نے پینسٹھ کی عمر پائی تھی جبکہ سچل نے ٩٠ سال کی عمر میں وفات پائی تھی
سامی نے کلہوڑہ دور کے آخری چند سال، تالپورعہد اور سندھ پر انگریزوں کا راج و حال دیکھا تھا اور سندھی سماج اور معاشرے کی اُتھل پَتھل
اور شکست و ریخت کا مشاہدہ کیا تھا
عام آدمی کی زندگی میں جو آزردگی شامل ہوگئی تھی اُسے شاہ لطیف نے محاکاتی شاعری سے، سچل نے اپنے باغی للکار سے اور
سامی نے اپنے مَدُھرتا سے دُور کرنا چاہا تھا، چنانچہ شاہ لطیف، سچل اورچین رائے سامی سندھی مزاج کے آئینہ دار اور سندھی روح کی پُکار ہیں
تینوں سندھی سماج کے بحرانی دَور کے پیداوار ہیں اور سندھی سماج کے نئے جنم کے نقیب ہیں.
یہ فطری و روحانی اعتبار سے ایسے مفکر شاعر اور فنکارجنھوں نے اپنی پوری زندگی دوسروں کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کردی
بے شک سامی کے سلوک سندھ کی دکھی ہوئی روح پر فرحت افزا مرہم ہے،سامی کے سلوک سندھی شاعری کی روایت میں ویدانتی سکون اور مدھرتا کی پھوار ہیں
سید مظہر جمیل کے "جدید سندھی ادب" سے اقتباس