بھارت سب سے بدعنوان ملکوں میں ایک

بدعنوانی کے خلاف کام کرنے والے عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ دنیا میں کرپشن کی صورتحال مزید خراب ہوتی جارہی ہے اور بھارت کا شمار دنیا کے سب سے بدعنوان ملکوں میں کیا جارہا ہے۔

ادارے نے اینٹی کرپشن دن کے موقع پر ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں دنیا کے چھیاسی ممالک میں نوے ہزار لوگوں سے بات چیت کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ رشوت اب عام ہوتی جارہی ہے۔

مجموعی طور پر ساٹھ فیصد لوگوں کی رائے تھی کہ کرپشن میں اضافہ ہورہا ہے۔

ادارے نے بھارت، افغانستان، عراق اور نائجیریا کو دنیا کے سب سے بدعنوان ممالک کی فہرست میں رکھا ہے جہاں سروے میں حصہ لینے والے آدھے سے زیادہ لوگوں نے تسلیم کیا کہ انھوں نے اپنےکام کرانے کے لیے رشوت کا سہارا لیا ہے۔

چین، روس اور مشرق وسطیٰ میں ایک تہائی لوگوں نے کہا کہ انہیں اپنے کام کرانے کے لیے رشوت دینی پڑتی ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کےمطابق مجموعی طور پر ایک چوتھائی لوگوں نے گزشتہ بارہ مہینوں میں رشوت دی ہے۔ رشوت لینے والوں میں سب سے بڑی تعداد پولیس والوں کی ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کےمطابق مجموعی طور پر ایک چوتھائی لوگوں نے گزشتہ بارہ مہینوں میں رشوت دی ہے رشوت لینے والوں میں سب سے بڑی تعداد پولیس والوں کی ہے۔

جائزے میں حصہ لینے والے زیادہ تر لوگوں نے کہا کہ صورتحال گزشتہ تین برسوں میں مزید خراب ہوئی ہے۔

ادارے سے وابستہ رابن ہوڈس نے کہا کہ یہ بات سب سے زیادہ افسوس ناک ہے کہ رشوت خوری میں پولیس والے سب سے زیادہ ملوث ہیں۔

’یہ تعداد گزشتہ کچھ برسوں میں بڑھی ہے اور دو ہزار چھ کے مقابلے میں دگنی ہوگئی ہے۔ دنیا میں پولیس سے جن لوگوں کا واسطہ پڑا ہے، ان میں سے ایک تہائی لوگوں کو رشوت دینی پڑی ہے۔‘

لیکن اس کے برعکس خوشحال یورپی اور شمالی امریکہ میں چھوٹے موٹے معاملات میں رشوت دینے کے واقعات بہت کم بتائے گئے ہیں۔

اس موقع پر بی بی سی نے بھی ایک سروے کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ بات چیت بدعنوانی کے موضوع پر ہوتی ہے۔


http://www.bbc.co.uk/urdu/india/2010/12/101209_india_corrupt_ka.shtml
 
انڈیا: کرپشن کی ایک جھلک

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے انسداد بدعنوانی کے عالمی دن کے موقع پر اپنی رپورٹ میں انڈیا کو دنیا کے سب سے بدعنوان ممالک کی فہرست میں رکھا ہے۔

اور اگر صرف آج کے ایک اخبار پر نظر ڈالی جائے تو اس کی وجہ آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے۔ اخبارات گھپلوں کی خبروں سے آجکل کچھ اس انداز میں بھرے رہتے ہیں جیسے کوئی خصوصی ضمیمہ نکالا گیا ہو۔

باقی تمام دوسرے اخبارات کی طرح انگریزی روزنامے ہندوستان ٹائمز کی شہ سرخی ہے: ’سپیکٹرم راجا اور ان کے رشتہ داروں پر سی بی آئی کے چھاپے۔۔۔موبائل فون سروسز کے لائسنسوں کے اجراء کے چودہ مہینے بعد تلاشی، کیا بہت دیر نہیں ہوچکی؟ ‘

یہ معاملہ بہت دنوں سے سرخیوں میں ہے۔ ٹیلی کام کے سابق وزیر اے راجہ پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنی پسندیدہ کمپنیوں کو کوڑیوں کے دام لائسنس جاری کر کے سرکاری خزانے کو تقریباً پونے دو لاکھ کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔
فائل فوٹو

بدعنوانی کے حوالے سے اس وقت حکومت پر دباؤ ہے

یہ سن دو ہزار آٹھ میں ہوا تھا، تو کارروائی اب کیوں ہو رہی ہے؟ اس کا جواب سیاسی وابستگیوں کے ساتھ بدلتا رہتا ہے لیکن عام تاثر یہ ہے کہ چونکہ راجا کا تعلق ڈی ایم کے سے ہے، اور یہ جنوبی جماعت حکمراں اتحاد کا ایک اہم حصہ ہے، لہذا۔۔۔

باقی خبریں: مقامی ائر لائنز کا آسمان کو چھوتے ہوئے کرایوں کا معاملہ۔ شہری ہوابازی کے وزیر نے اسی ہفتے کہا تھا کہ فضائی کمپنیاں کرایہ زیادہ رکھنے کے لیے غیر قانونی طور پر مل کرکام کر رہی ہیں۔

کنگز الیون کو آئی پی ایل سے نکالنے پر سٹے آرڈر۔ آئی پی ایل کی اس ٹیم کو کئی سنگین الزامات اور ضابطوں کی خلاف ورزیوں کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے بی سی سی آئی نے اس کی فرینچائز ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

چونکہ صفحہ اول پر جگہ نہیں ہے، لہذا انتہائی حیرت انگیز خبریں اندر کے صفحات پر شائع کی گئیں ہیں۔ ’الہ آباد ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا!‘

(سپریم کورٹ نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران الہ آباد ہائی کورٹ میں مبینہ بدعنوانیوں کے خلاف ریمارکس پاس کرتے ہوئے انگریزی زبان کا لفظ ‘راٹن‘ استعمال کیا تھا یعنی وہاں بہت گڑ بڑ ہے۔ ان کلمات کے خلاف ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔)

اسی خبر کے برابر میں اجناس کے گھپلے کی خبر ہے : ’ پینتیس ہزار کروڑ روپے کا گھپلہ، اتر پردیش کے اکتالیس اضلاع زد میں۔‘ یہ معاملہ غریبوں میں تقسیم کے لیے جاری کیے جانے والے اناج کے بارے میں ہے جو غیر قانونی طور پر کھلے بازار میں بیچ دیا گیا تھا۔ بعض اخبارات کے مطابق گھپلے کی رقم دو لاکھ کروڑ روپے تک ہو سکتی ہے۔

اور اس کے برابر میں چیف ویجیلینس کمشنر پی جے ٹامس کے بارے میں خبر ہے: ’ ٹامس کو سی وی سی نہیں ہونا چاہیے۔‘

معاملہ یہ ہے کہ ٹامس بحیثیت سی وی سی ٹوجی سپیکرٹم گھپلے کی تفتیش کی نگرانی کر رہے ہیں لیکن خود ان کے خلاف بھی بدعنوانی کا مقدمہ قائم ہے۔ اس کے علاوہ جس دوران ٹو جی سپیکٹرم کے سودوں کی جانچ ہو رہی ہے، اس وقت ٹامس ہی ٹیلی کام سیکریٹری تھے۔

سیاست سے ہٹ کر تعلیم کے شعبے کی بات کریں تو آئی آئی ٹی کھڑگپور کے بارے میں خبر ہے کہ : ’ آئی آئی ٹی کے مزید پروفیسر پکڑے گئے۔‘

یہ ادارے دنیا کے بہترین انجینئرنگ انسٹی ٹیوٹس میں شمار ہوتے ہیں لیکن یہاں کچھ اساتذہ غیر قانونی طور پر اپنا ہی الگ فرضی انسٹی ٹیوٹ چلا رہے تھے!

ایک خبر سابق آئی اے ایس افسر نیرا یادو کے بارے میں ہے جنہوں نے بدعنوانی کے الزامات ثابت ہونے کے بعد پہلی رات جیل میں گزاری ہے۔ کچھ سال پہلے انھیں اتر پردیش کے آئی ایس افسران کے ایک ادارے نے خفیہ ووٹنگ کے ذریعہ ریاست کا سب سے کرپٹ افسر منتخب کیا تھا۔ انہیں کل ہی چار سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی ہے۔

بدعنوانی کے بارے میں خبریں اور بھی بہت ہیں لیکن آپکو شاید ان کی وسعت کا اندازہ ہوگیا ہوگا۔ تاہم ایک خبر ان سب سے الگ ہے اور شاید سب سے بہتر طور پر زمینی حقائق کی عکاسی کرتی ہے۔

پچاس لاکھ روپے برآمد، لیکن چوری صرف ایک لاکھ ہوئے تھے!

دلی سرکار میں پانی کے محکمے میں کام کرنے والے ایک کلرک نے پولیس میں رپورٹ درج کرائی تھی کہ اس کے گھر سے ایک لاکھ روپے چوری ہوگئے ہیں۔ اس شخص کی قسمت خراب تھی کہ پولیس نے چور کو پکڑ لیا۔ چور نے بتایا کہ اس نے ایک لاکھ نہیں پچاس لاکھ روپے چرائے تھے۔ اور اب یہ پوری رقم برآمد کر لی گئی ہے!


http://www.bbc.co.uk/urdu/india/2010/12/101209_issue_corruption_sz.shtml
 

ظفری

لائبریرین
ہائے نصیب ۔۔۔ کاش ۔۔۔۔ کسی کے گھر سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کو دیکھنے کے بجائے ہم اپنے گھر کے شعلوں کو بُجھائیں ۔ :confused:
 

شمشاد

لائبریرین
پاکستان میں بدعنوانی کون سی کم ہے۔
اس وقت تو پاکستان میں بدعنوانی کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ اور تو اور مرکزی مذہبی امور کے وزیر نے خود کہا ہے کہ اس دفعہ پاکستانی حاجیوں کے ساتھ پچھلے سال کے مقابلے میں کم بدعنوانی ہوئی ہے۔جبکہ پچھلے سال بھی وہی وزیر تھے۔

میں تو یہی کہوں گا :

تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو​
 
Top