بھارت میں نئے مسلم مخالف شہریت کے قانون کے بعد فسادات پھوٹ پڑے

جاسم محمد

محفلین

بھارت میں مسلم مخالف قانون کیخلاف احتجاج کرنیوالے مظاہرین پر فائرنگ، 2 افراد ہلاک
ویب ڈیسک 4 گھنٹے پہلے
1970161-firingatcaaprotestorinindia-1580299856-144-640x480.jpg

گولیاں لگنے سے تین مظاہرین زخمی بھی ہوئے، فوٹو : فائل

کلکتہ: بھارتی ریاست مغربی بنگال میں متنازع قانون کیخلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 2 افراد ہلاک اور 3 زخمی ہوگئے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست مغربی بنگال میں مودی سرکار کی جانب سے منظور کیے گئے شہریت ترمیم قانون کیخلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے تاہم مغربی بنگال کی اسمبلی کی جانب سے متنازع قانون کیخلاف قرارداد کی منظوری کے بعد مظاہروں میں تیزی آگئی ہے۔

مغربی بنگال کے ضلع مرشد آباد میں نامعلوم مسلح افراد نے مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں دو افراد ہلاک ہوگئے جب کہ 3 زخمی ہیں۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو قریبی اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔ واقعے کے بعد علاقے میں کشیدگی پھیل گئی اور پولیس کی بھاری نفری کو تعینات کرنا پڑا۔

گزشتہ ماہ مودی سرکار نے ایک بل منظور کیا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت آنے والے ہندو، جین، سکھ اور عیسائی تارکین وطنوں کو تو شہریت دینے کی بات کی گئی ہے لیکن مسلمانوں کو محروم رکھا گیا ہے جس پر بھارت بھر میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
نئی دہلی: شہریت بل کے خلاف مظاہرے، پولیس کانسٹیبل ہلاک
آخری بار اپڈیٹ کیا گیا فروری 24, 2020
  • سہیل انجم
59A30261-1D71-46C5-A74C-03B64E808808_w1023_r1_s.jpg

شہریت بل کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ گزشتہ سال دسمبر سے جاری ہے۔
نئی دہلی —
بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں متنازع شہریت بل کے خلاف پرتشدد مظاہروں میں ایک پولیس کانسٹیبل کی ہلاکت جب کہ ایک ڈی سی پی رینک کے پولیس افسر زخمی ہو گئے ہیں۔

یہ پرتشدد واقعات ایسے وقت میں ہوئے جب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ دو روزہ دورے پر پیر کو احمد آباد پہنچے ہیں۔

نئی دہلی کے شمال مشرقی علاقے جعفرآباد میں پیر کو اچانک ہنگامے پھوٹ پڑے۔ جب متنازع شہریت بل کے مخالف اور حامی آمنے سامنے آ گئے۔ اس دوران مظاہرین نے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا۔

ہنگامہ آرائی کے دوران ایک پولیس کانسٹیبل ہلاک ہو گیا جب کہ ایک ڈی ایس پی بھی زخمی ہوا۔ حکام کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران پرتشدد مظاہروں کا یہ دوسرا واقعہ تھا۔

نئی دہلی کے علاقے مسلم اکثریتی علاقے جعفرآباد، موج پور اور چاند باغ مظاہروں کی زد میں رہے۔ دونوں گروپوں نے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا۔ اس دوران دکانوں، مکانات اور گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا گیا۔ پورا علاقہ میدان جنگ کا منظر پیش کرتا رہا۔

اتوار کے روز بھی جعفرآباد میں تصادم ہوا تھا۔ وہاں میٹرو اسٹیشن کے نیچے کم از کم ایک ہزار مسلم خواتین نے شہریت بل کے خلاف دھرنا دے دیا۔ جس کے بعد بعد حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک رہنما کپل مشرا کم از کم پانچ سو ہندوؤں کے ساتھ وہاں پہنچ گئے۔

ان افراد نے 'جے شری رام' اور شہریت بل کی حمایت میں نعرے لگائے۔ اس موقع پر بھی دونوں گروپوں میں ٹکراؤ ہوا۔ پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور شیلنگ کی۔

کپل مشرا نے پولیس کی موجودگی میں دھمکی دی کہ اگر تین روز کے اندر یہ راستہ نہیں کھلا تو پھر وہ لوگ کسی کی نہیں سنیں گے اور جو سمجھ میں آئے گا کریں گے۔ ان کی اس دھمکی کی وجہ سے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی۔

8E09C9AB-F7B0-46E1-8F00-9C0015C6F6B6_w650_r1_s.jpg

نئی دہلی کے مسلم اکثریتی علاقے مظاہروں کا گڑھ ہیں۔
نیوز چینلز اور سوشل میڈیا میں ایسی ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں جن میں دونوں گروپوں کو پتھر اور ڈیوائڈر سے کنکریٹ کے ٹکڑے توڑتے اور ایک دوسرے پر پتھراو کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

ایک ویڈیو میں لوگوں کو جے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے بھی سنا جا سکتا ہے۔

دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجری وال نے ان واقعات کو پریشان کن قرار دیا ہے۔ اُنہوں نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ دارالحکومت میں امن و امان بحال کیا جائے۔

یاد رہے کہ دہلی پولیس دہلی حکومت کے بجائے مرکزی وزیر داخلہ کے ماتحت آتی ہے۔

نئی دہلی کے لیفٹننٹ گورنر نے دہلی پولیس کو ہدایت دی ہے کہ وہ امن و امان بحال کرے۔

بھارت میں گزشتہ سال دسمبر سے متنازع شہریت بل کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ جس میں درجنوں افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔

یہ احتجاج اُس وقت شروع ہوا جب 12 دسمبر کو بھارتی پارلیمان نے شہریت ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کیا تھا۔ بل کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانسان سے مذہب کی بنیاد پر جبر کا شکار ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی، جین اور بدھ مت سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھارتی شہریت دینے کی منظوری دی گئی تھی۔ لیکن مسلمانوں کو اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔

بھارت کی حزب اختلاف کی جماعتوں نے مذکورہ بل کو مسترد کرتے ہوئے اسے بھارت کے سیکولر تشخص کے خلاف قرار دیا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
دو مذہبی انتہا پسندوں کی ملاقات

دلی میں مسلم کش فسادات میں 13 افراد جاں بحق، ہندو انتہا پسندوں کا مسجد پر حملہ
ویب ڈیسک 2 گھنٹے پہلے
2000783-indiariots-1582610528-556-640x480.jpg

بھارتی پولیس کی سرپرستی میں بی جے پی رہنماؤں اور انتہا پسند ہندوؤں کے مسلمانوں پر حملے

نئی دہلی: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے کے موقع پر بھارتی پولیس اور انتہا پسند ہندوؤں کے مسلمانوں پر بدترین تشدد کے نتیجے میں 13 افراد جاں بحق ہوگئے۔

بھارتی گجرات کے قصاب مودی نے مرکزی علاقوں میں بھی آگ لگادی۔ پولیس کی سرپرستی میں بی جے پی کے رہنماؤں اور انتہا پسند ہندوؤں نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہلی میں متنازع شہریت قانون کے خلاف پرامن دھرنے پر بیٹھے مظاہرین پر دھاوا بول دیا جس کے نتیجے میں خوفناک فسادات پھوٹ پڑے۔

دہلی میں جگہ جگہ اور گلی گلی ہنگامے چھڑ گئے۔ لوگوں کو روک روک کر ان کا مذہب پوچھا جانے لگا۔ بھارتی پولیس کی سرپرستی میں مسلمان مظاہرین پر بدترین تشدد کیا گیا۔

انتہا پسند ہندوؤں نے دہلی کے علاقے اشوک نگر کی مسجد پر حملہ کردیا اس دوران چند انتہا پسند مسجد کے مینار پر چڑھ گئے اورانہوں نے وہاں بھارتی جھنڈے کے ساتھ ہندوؤں کے مذہبی رنگ والا پرچم لہرادیا۔

ہنگاموں میں 13 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے جبکہ سیکڑوں دکانیں اور املاک نذرآتش کردی گئیں۔

ان واقعات کی درجنوں ویڈیوز سوشل میڈیا پر سامنے آئیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بھارتی پولیس کے سامنے چند لاشیں پڑی ہیں جبکہ پولیس اہلکار دم توڑتے مسلم نوجوانوں کو مارتے ہوئے ان سے جے شری رام کے نعرے لگانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

حملہ آور ہندوؤں نے مسلم مخالف متنازع قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے افراد کا شامیانہ اکھاڑ پھینکا اور ببانگ دہل کہا کہ انہیں پولیس کی مدد حاصل ہے۔
 
Top