گاڑیوں کی حفاظتی معیار کی جانچ پڑتال کرنے والے ایک برطانوی ادارے کے مطابق بھارت میں پانچ مقبول ترین چھوٹی گاڑیوں میں حفاظتی نقائص سامنے آئے ہیں۔
گلوبل این سی اے پی نے بھارت میں تیار ہونے والی دنیا کی سب سے سستی ترین کار ٹاٹا نینو کے علاوہ فورڈ، فوکس ویگن، سوزوکی اور ہنڈائی کی تیار کردہ چھوٹی گاڑیوں کے حفاظتی معیار کےٹیسٹ کیے۔
ادارے کے نتائج کے مطابق ان گاڑیوں کے حادثات کے نتیجے میں ہلاکتیں اور شدید چوٹیں آ سکتی ہیں۔
جن پانچ گاڑیوں کے ماڈلز کی جانچ پڑتال کی گئی ہے وہ گذشتہ سال بھارت میں فروخت ہونے والی مجموعی گاڑیوں کا 20 فیصد بنتے ہیں۔
نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ گاڑیوں میں حفاظتی خصوصیات کو شامل نہیں کیا جاتا تاکہ صارفین کے لیے سستی گاڑیاں تیار کی جا سکیں۔اس وقت بھارت میں فروخت ہونے والی ان گاڑیوں کی قیمت آٹھ ہزار ڈالر سے کم ہے۔
این سی اے پی گوبل کے موجودہ اور انٹرنیشنل موٹوسپورٹ کے سابق سربراہ میکس موسلی کے مطابق ’حفاظتی معیار قابل تشویش ہیں اور یہ یورپ اور مشرقی امریکہ میں موجود حفاظتی معیار سے 20 سال پیچھے ہیں۔‘
بھارت میں فروخت ہونے والی ان گاڑیوں کے ایک جیسے ماڈل بہتر حفاظتی خصوصیات کے ساتھ امریکہ میں یورپ میں فروخت ہو رہی ہیں
گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیوں کا اصرار ہے کہ وہ حفاظتی معیار کو نمایاں ترجیح دیتی ہیں اور این سی اے پی کی جانچ پڑتال کے بعد حفاظتی خصوصیات کا دوبارہ جائزہ لیں گے۔
ایئر بیگس کے بغیر گاڑیاں
این سی اے پی نے سوزوکی ماروتی کی آلٹو 800، ٹاٹا نینو، فورڈ فیگو، ہنڈائی اور i10 فوکس ویگن پولو کے حفاظتی معیار سے متعلق ٹیسٹ کیے۔
بھارت میں تیار کی جانے والی ان پانچوں گاڑیوں میں ایئر بیگ نہیں نصب کیے جاتے ہیں جبکہ یورپ اور شمالی امریکہ میں فروخت ہونے والے انہی ماڈلز میں حفاظتی خصوصیات ان گاڑیوں میں فراہم نہیں کی جاتیں۔
موسلی کے مطابق ’گاڑیوں کے ناقص ڈھانچے اور ایئر بیگس نہ ہونے کی وجہ سے بھارتی صارفین کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ صارفین کا یہ جاننے کا حق ہے کہ ان کی گاڑیاں کتنی محفوظ ہیں اور وہ توقع کرتے ہیں کہ ان کی گاڑیوں میں بھی وہ حفاظتی خصوصیات موجود ہوں جو کہ دنیا کے دیگر ممالک میں صارفین کو دستیاب ہیں۔‘
"
گاڑیوں کے ناقص ڈھانچے اور ایئر بیگس نہ ہونے کی وجہ سے بھارتی صارفین کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ صارفین کا یہ جاننے کا حق ہے کہ ان کی گاڑیاں کتنی محفوظ ہیں اور وہ توقع کرتے ہیں کہ ان کی گاڑیوں میں بھی وہ حفاظتی خصوحیات موجود ہوں جو کہ دنیا کے دیگر ممالک میں صارفین کو دستیاب ہیں"
موسلی
جانچ پڑتال کے نتائج کے بعد فوکس ویگن نے ایئربیگ کے بغیر پولو ماڈل کو مارکیٹ سے واپس لے لیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق فوکس ویگن کا کہنا ہے کہ آئندہ ماہ یکم فروری سے ایئر بیگ اور اینٹی لاک بریکس کی خصوصیات پولو ماڈل میں دستیاب ہوں گی جبکہ لاگت میں اضافے کے تحت گاڑی کی قمیت میں2.7 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔
فورڈ کے ایک ترجمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری گاڑیوں کے ڈیزائن میں حفاظتی معیار کو اولین ترجیح حاصل ہے۔ ہماری گاڑیوں میں یکساں طور پر حفاظتی معیار کو قائم یا اس سے زیادہ رکھا جاتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ہم بھارتی حکام، جی این سی اے پی اور دیگر متعلقہ فریقین کے ساتھ مل کر حفاظتی معیار کے جائزے میں پیش رفت کی نگرانی کر رہے ہیں۔
ان گاڑیوں کی اوسط قمیت 8 ہزار ڈالر سے کم ہے
خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق ٹاٹا کا کہنا ہے کہ وہ ٹاٹا کے ڈھانچے میں بہتری کے لیے اقدامات کر رہے ہیں اور اس میں پہلے ہی پاور سٹیئرنگ اور دیگر خصوصیات کو شامل کر چکے ہیں۔
بھارت کے متوسط طبقے میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس وجہ سے گاڑیوں کی فروخت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس کے ساتھ لوگ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ انھیں اچھی قیمت پر گاڑی دستیاب ہو۔
واضح رہے کہ دنیا میں سڑک کے سب سے زیادہ حادثات بھارت میں پیش آتے ہیں اور اس میں سڑکوں کی خراب حالت، خراب ڈرائیونگ اور غیر محفوظ گاڑیاں سبب ہیں۔
بھارت میں ہر سال ہزاروں افراد سڑک کے حادثات میں مارے جاتے ہیں اور ہر سال ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2012 میں ایک لاکھ 40 ہزار افراد سڑک کے حادثات میں ہلاک ہوئے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/2014/01/140131_indian_cars_fail_crash_test_zz.shtml
گلوبل این سی اے پی نے بھارت میں تیار ہونے والی دنیا کی سب سے سستی ترین کار ٹاٹا نینو کے علاوہ فورڈ، فوکس ویگن، سوزوکی اور ہنڈائی کی تیار کردہ چھوٹی گاڑیوں کے حفاظتی معیار کےٹیسٹ کیے۔
ادارے کے نتائج کے مطابق ان گاڑیوں کے حادثات کے نتیجے میں ہلاکتیں اور شدید چوٹیں آ سکتی ہیں۔
جن پانچ گاڑیوں کے ماڈلز کی جانچ پڑتال کی گئی ہے وہ گذشتہ سال بھارت میں فروخت ہونے والی مجموعی گاڑیوں کا 20 فیصد بنتے ہیں۔
نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ گاڑیوں میں حفاظتی خصوصیات کو شامل نہیں کیا جاتا تاکہ صارفین کے لیے سستی گاڑیاں تیار کی جا سکیں۔اس وقت بھارت میں فروخت ہونے والی ان گاڑیوں کی قیمت آٹھ ہزار ڈالر سے کم ہے۔
این سی اے پی گوبل کے موجودہ اور انٹرنیشنل موٹوسپورٹ کے سابق سربراہ میکس موسلی کے مطابق ’حفاظتی معیار قابل تشویش ہیں اور یہ یورپ اور مشرقی امریکہ میں موجود حفاظتی معیار سے 20 سال پیچھے ہیں۔‘
بھارت میں فروخت ہونے والی ان گاڑیوں کے ایک جیسے ماڈل بہتر حفاظتی خصوصیات کے ساتھ امریکہ میں یورپ میں فروخت ہو رہی ہیں
گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیوں کا اصرار ہے کہ وہ حفاظتی معیار کو نمایاں ترجیح دیتی ہیں اور این سی اے پی کی جانچ پڑتال کے بعد حفاظتی خصوصیات کا دوبارہ جائزہ لیں گے۔
ایئر بیگس کے بغیر گاڑیاں
این سی اے پی نے سوزوکی ماروتی کی آلٹو 800، ٹاٹا نینو، فورڈ فیگو، ہنڈائی اور i10 فوکس ویگن پولو کے حفاظتی معیار سے متعلق ٹیسٹ کیے۔
بھارت میں تیار کی جانے والی ان پانچوں گاڑیوں میں ایئر بیگ نہیں نصب کیے جاتے ہیں جبکہ یورپ اور شمالی امریکہ میں فروخت ہونے والے انہی ماڈلز میں حفاظتی خصوصیات ان گاڑیوں میں فراہم نہیں کی جاتیں۔
موسلی کے مطابق ’گاڑیوں کے ناقص ڈھانچے اور ایئر بیگس نہ ہونے کی وجہ سے بھارتی صارفین کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ صارفین کا یہ جاننے کا حق ہے کہ ان کی گاڑیاں کتنی محفوظ ہیں اور وہ توقع کرتے ہیں کہ ان کی گاڑیوں میں بھی وہ حفاظتی خصوصیات موجود ہوں جو کہ دنیا کے دیگر ممالک میں صارفین کو دستیاب ہیں۔‘
"
گاڑیوں کے ناقص ڈھانچے اور ایئر بیگس نہ ہونے کی وجہ سے بھارتی صارفین کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ صارفین کا یہ جاننے کا حق ہے کہ ان کی گاڑیاں کتنی محفوظ ہیں اور وہ توقع کرتے ہیں کہ ان کی گاڑیوں میں بھی وہ حفاظتی خصوحیات موجود ہوں جو کہ دنیا کے دیگر ممالک میں صارفین کو دستیاب ہیں"
موسلی
جانچ پڑتال کے نتائج کے بعد فوکس ویگن نے ایئربیگ کے بغیر پولو ماڈل کو مارکیٹ سے واپس لے لیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق فوکس ویگن کا کہنا ہے کہ آئندہ ماہ یکم فروری سے ایئر بیگ اور اینٹی لاک بریکس کی خصوصیات پولو ماڈل میں دستیاب ہوں گی جبکہ لاگت میں اضافے کے تحت گاڑی کی قمیت میں2.7 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔
فورڈ کے ایک ترجمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری گاڑیوں کے ڈیزائن میں حفاظتی معیار کو اولین ترجیح حاصل ہے۔ ہماری گاڑیوں میں یکساں طور پر حفاظتی معیار کو قائم یا اس سے زیادہ رکھا جاتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ہم بھارتی حکام، جی این سی اے پی اور دیگر متعلقہ فریقین کے ساتھ مل کر حفاظتی معیار کے جائزے میں پیش رفت کی نگرانی کر رہے ہیں۔
ان گاڑیوں کی اوسط قمیت 8 ہزار ڈالر سے کم ہے
خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق ٹاٹا کا کہنا ہے کہ وہ ٹاٹا کے ڈھانچے میں بہتری کے لیے اقدامات کر رہے ہیں اور اس میں پہلے ہی پاور سٹیئرنگ اور دیگر خصوصیات کو شامل کر چکے ہیں۔
بھارت کے متوسط طبقے میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس وجہ سے گاڑیوں کی فروخت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس کے ساتھ لوگ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ انھیں اچھی قیمت پر گاڑی دستیاب ہو۔
واضح رہے کہ دنیا میں سڑک کے سب سے زیادہ حادثات بھارت میں پیش آتے ہیں اور اس میں سڑکوں کی خراب حالت، خراب ڈرائیونگ اور غیر محفوظ گاڑیاں سبب ہیں۔
بھارت میں ہر سال ہزاروں افراد سڑک کے حادثات میں مارے جاتے ہیں اور ہر سال ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2012 میں ایک لاکھ 40 ہزار افراد سڑک کے حادثات میں ہلاک ہوئے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/2014/01/140131_indian_cars_fail_crash_test_zz.shtml