صرف چھ ماہ بعد
جاوید چوہدری جمعہ۔ء 16 اگست 2019
بیٹے نے باپ سے پوچھا ’’دشمن پوری زندگی آپ کے سامنے پھرتا رہا لیکن آپ غیرت کھانے کے بجائے اطمینان سے حقہ پیتے رہے‘ آپ نے آخر کیا کیا‘‘ باپ حوالات کے باہر زمین پر بیٹھ گیا‘ پنجاب کے تمام تھانوں میں حوالات ہیں۔
لواحقین ملاقات کے لیے آتے ہیں تو یہ حوالات کی سلاخوں کے باہر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ملزم اندر سلاخیں تھام کر ان کے ساتھ گفتگو کر لیتے ہیں‘ یہ ایک دو دن کا بندوبست ہوتا ہے‘ پولیس بالآخر ملزم کو عدالت میں پیش کر دیتی ہے اور جج صاحب انھیں ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیتے ہیں یا پھر جیل بھجوا دیتے ہیں اور یوں ملاقاتوں کا یہ عمل بدل جاتا ہے‘ دیہاتی باپ کا دیہاتی بیٹا ابھی تھانے میں بند تھا‘ اس پر اقدام قتل کا پرچہ درج ہو چکا تھا‘ اس نے اپنے پشتینی دشمن پر حملہ کیا تھا‘ دشمن کو گولی لگی تھی لیکن وہ بچ گیا۔
پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا اور وہ اب حوالات میں بند تھا‘ باپ بیٹے سے ملاقات کے لیے تھانے آیا اور سلاخیں پکڑ کر حوالات کے سامنے کھڑا ہو گیا‘ بیٹا اتھرا تھا‘ اس نے رکھائی سے کہا ’’دشمن پوری زندگی آپ کے سامنے پھرتا رہا اور آپ غیرت کھانے کے بجائے اطمینان سے حقہ پیتے رہے‘ آپ نے آخر کیا کیا‘‘ بیٹے کے الفاظ باپ کے دل پر لگے اور وہ حوالات کے باہر زمین پر بیٹھ گیا‘ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
مجھے یہ آنسو اس وقت آصف علی زرداری‘ میاں نواز شریف‘ جنرل پرویز مشرف اور شوکت عزیز کی آنکھوں میں بھی نظر آ رہے ہیں اور آج اگر جنرل ضیاء الحق زندہ ہوتے تو یہ بھی اپنی آنکھیں صاف کر رہے ہوتے‘ باپ نے کہا ’’ بیٹا میں بیس سال کا تھا تو مجھے یہ دشمنی ورثے میں ملی‘ میں نے چالیس سال یہ دشمنی نبھائی لیکن ان چالیس برسوں میں ایک بار بھی حوالات آیا اور نہ میرے خاندان کے کسی شخص کو یوں سلاخوں کے باہر زمین پر بیٹھنا پڑا‘ میں اپنے دشمن کے گاؤں میں رہا‘ یہ روز میرے سامنے آتا تھا اور مجھے سلام کر کے چپ چاپ آگے نکل جاتا تھا۔
میں اطمینان سے حقہ پیتا رہتا تھا‘ میرے ڈنگر کھیتوں میں کھلے پھرتے تھے اور تم لوگ روز اکیلے اسکول جاتے تھے‘ کسی میں جرأت نہیں تھی یہ ہمارے جانوروں یا ہمارے ملازموں کا راستہ روک سکے لیکن پھر تم آئے اور پہلے ہی دن حوالات پہنچ گئے‘ میں حوالات کے باہر زمین پر بیٹھنے پر مجبور ہو گیا اور تمہاری ماں‘ بہنیں اور بال بچے گھر میں محصور ہو گئے‘‘ باپ رکا اور آہستہ سے بولا ’’بیٹا دشمن ختم ہو جاتے ہیں لیکن دشمنیاں کبھی ختم نہیں ہوتیں چناں چہ دشمنوں کو مارنا عقل مندی یا بہادری نہیں ہوتی‘ دشمنوں کے وار سے بچنا‘ دشمنوں کے درمیان رہ کر اپنی عزت اور اپنا دبدبہ برقرار رکھنا اور دشمن کو اپنی عزت پر مجبور کر دینا کمال ہوتا ہے اور میں نے یہ کمال کیا تھا‘ میرا دشمن پوری زندگی میرے سامنے پھرتا رہا لیکن میں نے کبھی دشمن کو اپنے گریبان میں ہاتھ نہیں ڈالنے دیا تھا‘ میں نے اسے اپنی عزت کرنے پر مجبور رکھا ‘‘۔
بیٹا نہیں مانا‘ بیٹے جب ناتجربہ کار اور اکھڑ ہوتے ہیں تو یہ نہیں مانا کرتے‘ پنجابی کی ایک کہاوت ہے جو اپنے باپ کی نہیں مانتا اسے پورے زمانے کی ماننا پڑتی ہے‘ وہ جگہ جگہ جھکتا اور منتیں کرتا ہے اور یہ ’’یونیورسل ٹروتھ‘‘ کسی ایک گھر یا خاندان کی بات نہیں‘ یہ پوری دنیا پر لاگو ہوتا ہے‘ مثلاً آپ کشمیر کے ایشو کو لے لیجیے‘ ہم جنرل ضیاء الحق کو آمر‘ جمہوریت دشمن اور جہادی سمجھتے ہیں‘ ہم انھیں موجودہ حالات کی خرابی کا ذمے دار بھی کہتے ہیں‘ یہ سارے جرم اپنی جگہ لیکن ہمیں ماننا ہو گا جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کی بقا کی جنگ افغانستان میں لڑی اور بھارت کو پنجاب میں مصروف رکھا۔
جنرل ضیاء الحق اگر سوویت یونین کو افغانستان میں انگیج نہ کرتے تو یہ افغانستان کو ہڑپ کرنے کے بعد پاکستان کے ساڑھے چھ ہزار کلومیٹر لمبے بارڈر پر بیٹھ جاتا‘ امریکا کو اسے روکنے کے لیے پاکستان میں فوجی اڈے بنانا پڑتے اور یوں پاکستان آج کا افغانستان بن چکا ہوتا‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا بھارت نے پاکستان کو افغانستان میں مصروف دیکھ کر ہمارے اوپر یلغار کے بے شمار منصوبے بنائے تھے لیکن جنرل ضیاء الحق نے بھارتی سرحد پر ایک اضافی فوجی لگائے بغیر انڈیا کو پنجاب کی خالصتان تحریک اور ایٹم بم سے انگیج رکھا‘ راجیو گاندھی کی حکومت تھی۔
بھارت نے پاکستان کی سرحد پرآپریشن براس ٹیک کے نام سے فوجی مشقیں شروع کر دیں‘ جنرل ضیاء الحق نے بھارتی صحافی کلدیپ نیئر کو پاکستان بلوایا اور سید مشاہد حسین کے ذریعے اس کی ملاقات ڈاکٹر عبدالقدیر سے کرا دی‘ ڈاکٹر عبدالقدیر نے کلدیپ نائیر کو بتایا‘ ہم ایٹم بم بنا چکے ہیں اور یہ کسی بھی جارحیت کے ردعمل میں استعمال ہو سکتا ہے‘ کلدیپ نیئر نے یہ انٹرویو 28 جنوری 1987 کو لیا‘ کلدیپ نیئرکے انٹرویو کے بعد جنرل ضیاء الحق اچانک 22 فروری 1987 کو پاکستان اور انڈیا کاٹیسٹ میچ دیکھنے جئے پور پہنچ گئے‘ جئے پور میں ان کی راجیو گاندھی سے ملاقات ہوئی اور جنرل ضیاء الحق نے کھڑے کھڑے راجیو گاندھی کے کان میں سرگوشی کی‘ ہم صرف پندرہ کروڑ مسلمان ہیں‘ آپ ہمیں مار دیں ہم مر جائیں گے لیکن ہمارے مرنے کے باوجود دنیا میں مسلمان اور اسلام دونوں موجود رہیں گے مگر ہم نے آپ پر ایٹم بم داغ دیا تو پھر دنیا میں ہندو مت ختم ہو جائے گا‘ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
راوی بتاتے ہیں راجیو گاندھی کے ماتھے پر پسینہ آ گیا اور بھارت اپنی فوجیں بیرکس میں واپس لے جانے پر مجبور ہو گیا اور جنرل ضیاء الحق نے خالصتان تحریک کے ذریعے بھی اپنی سرحدیں محفوظ رکھیں‘ ہم بینظیر بھٹو کو بھی برا بھلا کہتے رہتے ہیں لیکن آپ ان کا کمال بھی دیکھیے‘ بینظیر بھٹو 1988میں راجیو گاندھی کو پاکستان لے آئی تھیں‘ میاں نواز شریف بھی برے ہیں اور یہ اس وقت جیل میں ہیں لیکن یہ بھی فروری 1999میں بی جے پی جیسی کٹر ہندو تنظیم کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو لاہور لے آئے تھے اور انھیں مینار پاکستان کے نیچے کھڑا کر کے دو قومی نظریہ ماننے پر مجبور کر دیا تھا‘ کارگل کی جنگ بھی کھلی ایٹمی جنگ میں تبدیل ہو سکتی تھی۔
میاں نواز شریف نے صدر بل کلنٹن کو درمیان میں ڈالا اور یہ جنگ ٹل گئی‘ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی دو بار جنگی صورت حال پیدا ہوئی‘ فوجیں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑی ہو گئیں بس ایک گولی چلنے کی دیر تھی اور پورا خطہ جنگ کے دوزخ میں جا گرتا لیکن جنرل پرویز مشرف نے افغان کارڈ استعمال کیا اور امریکا نے انڈین آرمی کو بیرکس میں پہنچا دیا‘ آصف علی زرداری بھی اس وقت نیب کی حراست میں ہیں‘ یہ 2008میں صدر تھے‘ ممبئی اٹیکس ہوئے‘ اجمل قصاب نے 160 لوگ بھی مار دیے اور انڈیا کی اکانومی کا بھرکس بھی نکال دیا‘ بھارت اپنی فوجیں سرحدوں پر لے آیا لیکن زرداری صاحب نے دو لوگوں کو درمیان میں ڈالا اور پوری آگ ٹھنڈی کر دی اور میاں نواز شریف 25 دسمبر 2015 کو نریندر مودی کو پاکستان بھی لے آئے اور بھارت کے ساتھ ’’کمپوزٹ ڈائیلاگ‘‘ بھی شروع کرا دیے۔
یہ تمام لوگ برے ہو سکتے ہیں‘ یہ کرپٹ اور جمہوریت دشمن بھی ہو سکتے ہیں لیکن ان کے دور میں بھارت کو پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک‘ مقبوضہ کشمیر میں مزید فوج داخل کرنے اور آرٹیکل 370 ختم کرنے کی جرأت نہیں ہوئی‘ یہ تمام لوگ بزدل بھی ہوں گے لیکن انڈیا کو ان کی بزدلی کے باوجود مقبوضہ کشمیر پر یلغار کی ہمت نہیں ہوئی‘ یہ پاکستان کو آنکھیں نہیں دکھا سکا‘ یہ لوگ شاید الٹے لٹک جاتے ہوں گے لیکن یہ بھارت کو بھی انگیج رکھتے تھے اور یہ جیسے تیسے امریکا‘ چین اور سعودی عرب کو بھی اپنے ساتھ کھڑا کر لیتے تھے مگر آج کیا ہو رہا ہے؟ پاکستان آج بہادر لوگوں کے ہاتھ میں ہے لیکن قائدین کی تمام تر بہادری کے باوجود بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو بھی لگا دیا۔
ایک لاکھ 80 ہزار فوج بھی بڑھا دی‘ آرٹیکل 370 اور 35 اے بھی اڑا دیا اور یہ اب آزاد کشمیر کی طرف بھی بڑھ رہا ہے‘ کشمیر میں کسی بھی وقت کھلی جنگ شروع ہو سکتی ہے‘ بھارت تیس چالیس لاکھ کشمیریوں کو آزاد کشمیر کی طرف دھکیلنے کا منصوبہ بھی بنا رہا ہے اور کشمیر اب مقبوضہ فلسطین بھی بن رہا ہے مگر ابتلا کی اس گھڑی میں دنیا کا کوئی ملک ہمارے ساتھ کھڑا نہیں ہو رہا‘ امریکا‘ چین‘ روس اور سعودی عرب کسی نے کھل کر ہمارے کندھے کے ساتھ کندھا نہیں جوڑا‘ ہم نے یو این کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلا لیا ہے۔
خدانخواستہ اگر اس اجلاس میں لوگ نہیں آتے یا پھر کوئی مستقل ممبر ویٹو کر دیتا ہے تو پھر ہم اپنا مقدمہ بغیر لڑے ہار جائیں گے‘ کشمیر ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ہم کتنے بہادر ہیں یہ چند ہفتے بعد دنیا دیکھ لے گی لیکن ہم کتنے عقل مند ہیں دنیا یہ روز دیکھ رہی ہے‘ ہمیں آج نہیں تو کل سہی لیکن یہ ماننا ہو گا جنگیں لڑنا کمال نہیں ہوتا‘ جنگوں سے بچنا اور دشمنوں کو حملے سے باز رکھنا کمال ہوتا ہے مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے ہماری بہادر قیادت یہ کمال نہیں کر سکی‘ ہمیں اس نے دنیا میں بھی تنہا کر دیا‘ مقبوضہ کشمیر بھی ضایع کر دیا اور یہ ہمیں اب جنگ تک بھی لے آئی ہے‘ ہم اگر اس حکمت عملی کو بہادری سمجھتے ہیں تو پھر چھ ماہ بعد جی ہاں صرف چھ ماہ بعد پوری قوم مل کر اپنے بہادر قائدین کو سلام پیش کر رہی ہو گی‘ ہمارے وزیراعظم ایک اور ورلڈ کپ لے کرپاکستان تشریف لا رہے ہوں گے‘ آپ بس انتظار کیجیے‘چھ ماہ بعد آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی۔