ہندوستان کا مودی اور عمران خان کا پاکستان ——– خرم شہزاد
عنوان لکھنے کے بعد گہری سوچ میں ہوں کہ بات کہاں سے شروع کی جائے کہ ایک طرف پاکستان ہے اور دوسری طرف اس کا خود ساختہ ازلی دشمن ہندوستان۔ خود ساختہ اس لیے کہا کیوں کہ ہم پاکستانی اپنی باتوں کی حد تک ہندوستان کو اپنا دشمن خیال تو کرتے ہیں لیکن صرف خیال ہی کرتے ہیں۔ اس سے زیادہ نہ تو ہم کچھ کرتے ہیں اور نہ ہی کچھ کرنے کا موڈ بناتے ہیں۔ مودی جی نے جب اپنی الیکشن مہم میں کشمیر کی جداگانہ حیثیت ختم کرنے کی بات کی تو ہمارے ہاں اسے ایک انتخابی بھڑک ہی تصور کیا گیا، بالکل جیسے اپنے ہاں الیکشن میں ہونے والے وعدوں کے بارے ہم پر امید ہوتے ہیں کہ ان پر عمل تو کسی صورت نہیں ہو سکتا اور نہ کبھی ہو گا۔ لیکن یہ بات بھول گئے کہ الیکشن ہندوستان میں ہو رہے ہیں، پاکستان میں نہیں۔ الیکشن لڑنے والا شخص ایک چائے والے ہوٹل سے اٹھا ہے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دوسری بار وزیر اعظم بننے جا رہا ہے۔ ہماری انہی مس کیلکولیشنز کا نتیجہ تھا کہ جب ہندوستان کے مودی جی نے کشمیر کی جداگانہ حیثیت ختم کی تو ہمارے وارے نیارے ہو گئے۔ سیاست دانوں کو ٹی وی اسکرینیں آباد کرنے کا موقع مل گیا اور وہ سیاست دان بھی بیان دیتے نظر آنے لگے جنہوں نے اپنے الیکشن میں کارنر میٹنگ بڑی مشکل سے منعقد کی تھی۔ اخبار والوں کو پرانے پڑے کالم اور مضامین چھاپنے کا موقع مل گیا اور سوشل میڈیائی مجاہدین کو اپنی کم تعلیم، تربیت کی کمی، جہالت اور جاہلیت دیکھانے کا موقع مل گیا۔ اس ساری صورت حال میں بہت زیادہ فلسفہ جھاڑنے کے بجائے ایک سادہ سا سوال ہے کہ مودی جی کو یہ طاقت اور ہمت کس نے دی کہ جو کام ستر سال میں کوئی بھارتی سرکار نہ کر سکی، مودی جی نے ستر دنوں کے اندر کر دیا۔ آئیے اس سادہ سے سوال کا سادہ سا جواب تلاش کرتے ہیں اور اس جواب کو قبول کرنے کی ہمت اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سادہ سا سوال ہے کہ مودی جی کو یہ طاقت اور ہمت کس نے دی کہ جو کام ستر سال میں کوئی بھارتی سرکار نہ کر سکی، مودی جی نے ستر دنوں کے اندر کر دیا۔
گجرات کے وزیراعلی کو جب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور جمہوریہ کے متوقع وزیر اعظم کے طور پر منتخب کیا گیا تو بہت سے لوگ یہ شرط لگانے کو تیار تھے کہ ایسا کرتے ہوئے بی جے پی نے اپنی سیاسی خود کشی کا انتظام کر لیا ہے لیکن مودی جی نے انہیں نہ صرف غلط ثابت کیابلکہ دنیا کو بھارت اور مودی کا ایک نیا چہرہ دیکھنے کو ملا۔ جہاں ایک طرف پاکستان اور چین کو کسی نہ کسی معاملے میں مصروف رکھا وہیں عالمی راہنماوں سے اپنے تعلقات بڑھانے میں انہیں کسی ہچکچاہٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ امریکی صدر کا دورہ تھا یا روس اور فرانس سے تعلقات کا نیا دور، پورے ہندوستان میں لیٹرینیں بنانے کا منصوبہ ہو، اقوام متحدہ میں خطابات ہوں یا پھر کوئی اور موقع، مودی جی نے ہر جگہ قائدانہ کردار ادا کیا اور اسی سبب انہیں اتنا اعتماد ملا کہ وہ دوسری بار نہ صرف وزیر اعظم کے لیے کھڑے ہوئے بلکہ جیت کر وہ تاریخی کام کئے جو ہندوستان کی حکومتیں ستر سال میں نہ کر سکیں۔ یہ کہانی یہاں مکمل نہیں ہوتی کیونکہ کچھ چیزیں پس پردہ ایسی ہیں جن پر ہم پاکستانی بات نہیں کرتے، سوچتے نہیں، تحقیق نہیں کرتے اور نہ انہیں ماننے کو تیار ہیں۔
ہم نے ہندوستانی جہاز نہ صرف مار گرائے بلکہ پائلٹ بھی گرفتار کر کے واپس کر دیا لیکن اس سے ہندوستانیوں کے مورال پر کتنا اثر پڑا اور کتنے لوگ ان واقعات سے مودی مخالف ہو گئے؟
مودی جی کے اعتماد اور ہمت کی اصل اساس ہندوستان کے عوام ہیں۔ ایک ہزار مسلمانوں کے قاتل مودی کو جب وزیر اعظم کے لیے نامزد کیا گیا تو ہندوستانی عوام صرف ایک ہزار مسلمانوں کی لاشوں کے چورن پر جذباتی نہیں ہوئے بلکہ گجرات کی ترقی بھی ان کے سامنے تھی۔ اپنے پہلے دور حکومت میں ملک بھر میں لیٹرینیں بنانے کے منصوبے سے روزگار بڑھانے اور مختلف صنعتوں کا پہیہ تیز کرنے کا اعزاز بھی مودی جی کے سر جاتا ہے۔ بیرون ملک اپنے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع نہ صرف پیدا کرنا بلکہ انہیں بڑھانا بھی مودی جی کا ایک بڑا کارنامہ تھا جس میں ہندوستان کے ہنرمند اور پڑھے لکھے طبقے نے بھرپور ساتھ دیا اور یوں عربستان سے لے کر یورپ اور امریکہ تک، ہندوستانی نہ صرف اپنی تعداد بڑھاتے چلے گئے بلکہ امور حکومت میں بھی جگہ بناتے چلے گئے۔ دوسرے دور حکومت سے پہلے مودی نے پورے خطے کو جنگ کے بھیانک میدان میں نہ صرف دھکیل دیا تھا بلکہ عالمی امن پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا تھا۔ ابھی نندن کی گرفتاری ہو یا آبدوزکا پاکستانی پانیوں میں گشت، ہر ممکن طرح سے مودی نے پاکستان پر پریشر بنانے کی کوشش کی۔ الیکشن ختم ہوئے تو کشمیر پر ایک ایسا فیصلہ دیا جو مودی ہی دے سکتا تھا۔
اب ایک عام پاکستانی ہندوستان کی سوا ارب سے زائد آبادی کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے سوشل میڈیا کے تجربات سے بتائے کہ کتنے ہندوستانی مودی کے جنگ کے نظریے کے خلاف تھے اور ان کی روزانہ کتنی پوسٹیں آپ نے دیکھیں؟ ہم نے ہندوستانی جہاز نہ صرف مار گرائے بلکہ پائلٹ بھی گرفتار کر کے واپس کر دیا لیکن اس سے ہندوستانیوں کے مورال پر کتنا اثر پڑا اور کتنے لوگ ان واقعات سے مودی مخالف ہو گئے؟ مودی کے دور اقتدار میں کتنے لوگوں نے گجرات کو یاد کرتے ہوئے اس پر لعنت ملامت کی اور گجرات واقعہ کو یاد کیا؟ ہندوستانی فوجیوں کی کھانے پینے سے متعلق شکایات کی وڈیوز سامنے آنے پر حکومت کتنے دباو میں رہی؟ مودی کی بیوی اور والدہ کے بارے چند باتیں جو عام آدمی کو پتہ چلیں وہ بھی الیکشن میں نامزدگی کے دوران پتہ چلیں۔ ۔ ۔ اس سے مودی کے مخالفین نے کتنا فائدہ اٹھایا؟ مودی کی بیوی اور گھر کے بارے الیکشن اور اس کے بعد کتنا کچھ ڈسکس کیا گیا ہے، اگر کسی کو اس بارے علم ہو تو بتائے؟ سچی بات یہ ہے کہ مودی جی کی کامیابیوں پر ہزار سوال ترتیب دئیے جا سکتے ہیں اور ان کے جواب یہی ہیں کہ ہمارے لاکھ قسمیں کھانے کے باوجود ایک عام ہندوستانی نے اپنے وزیر اعظم کو سچا سمجھا۔ کسی ایک نے گجرات کے قتل عام کو یاد کرنے کی کوشش کی تو ایک ہزار نے گجرات کی ترقی پر بات شروع کی۔ کسی کو فوجیوں والی وڈیو پر بات کرنی تھی تو اینکر نے میرا بھارت مہان کہہ کر بات اور پروگرام ہی بدل دیا۔ نہ کسی نے مودی کی بیوی اور باپ دادا کا سراغ لگا کر بتایا کہ چھے سو سال پہلے یہ کس مذہب سے تھے اور کس کے پاس کام کرتے تھے نہ کسی نے کتابیں لکھوا کر ذاتی بدلے لینے کی کوشش کی۔ میڈیا کو مودی اور ہندوستان سے غرض تھی اس لیے خاندان میں کون ہے اور کون نہیں، کہیں زیر بحث نہ آیا۔ ایک عام ہندوستانی پوری طرح سے مودی کے پیچھے کھڑا ہے اور اسی وجہ سے آج ہندوستان کا مودی پوری دنیا میں میرا بھارت مہان کا جاپ کرتا پھر رہا ہے۔ مسلمانوں کے ارض لا الہ میں ہے رام کی آوازیں گونج رہی ہیں اور کوئی اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ رہا۔
اسی ہندوستان کی سرحد کے پار ایک ملک پاکستان بھی ہے جس کے وزیر اعظم کو منتخب ہوتے ہی کوئی الیکٹڈ، کوئی سلیکڈ اور کوئی کچھ کہہ رہا ہے۔ کوئی اس کے بارے سابقہ بیوی کی کتاب ہاتھ میں لیے کھڑا ہے تو کوئی امریکی عدالت کے فیصلے اور بچوں کی تعداد پر سوال اٹھا رہا ہے۔ کسی کو اس کی چپل سے تکلیف ہے تو کوئی غیر ملکی دورے پر اس کی بیوی کے قد کی پیمائش کر رہا ہے۔
اسی ہندوستان کی سرحد کے پار ایک ملک پاکستان بھی ہے جس کے وزیر اعظم کو منتخب ہوتے ہی کوئی الیکٹڈ، کوئی سلیکڈ اور کوئی کچھ کہہ رہا ہے۔ کوئی اس کے بارے سابقہ بیوی کی کتاب ہاتھ میں لیے کھڑا ہے تو کوئی امریکی عدالت کے فیصلے اور بچوں کی تعداد پر سوال اٹھا رہا ہے۔ کسی کو اس کی چپل سے تکلیف ہے تو کوئی غیر ملکی دورے پر اس کی بیوی کے قد کی پیمائش کر رہا ہے۔ کوئی اس کے باپ دادا کے مذہب اور فرقے پر سوال کر رہا ہے تو کوئی اس کی باتوں پر جگتیں کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اس کے وژن سے تو خیر اس کے پورے ملک کو مسئلہ ہے لیکن نہ اس ملک میں ہنر مند مزدور موجود ہے نہ پڑھا لکھا اور سمجھدار مینجر دستیاب ہے۔ یہاںکسی کو خریداری کی رسید پر شناختی کارڈ نمبر لکھنے کی بات پر ہڑتال یاد آ جاتی ہے۔ کوئی پلاسٹک بیگ پر پوسٹیں بنا رہا ہے تو کوئی فوٹو شاپ سے قمیض پر سوراخ بنانے میں مصروف ہے۔ مودی کشمیر پر فیصلہ کرتا ہے تو یہ لوگ اپنے وزیر اعظم کو بکاو، غدار، پیسے لے کر سودا کرنے والا اور نہ جانے کیا کیا کہنے لگ جاتے ہیں۔ اور ایسے میں یہ لوگ سوچتے ہیں کہ دنیا ان کا ساتھ کیوں نہیں دے رہی اور ایک قاتل اور انتہا پسند پوری دنیا سے عزت کیوں کر پا رہا ہے۔ جواب بہت آسان ہے کہ مودی پورے ہندوستان کا وزیر اعظم ہے لیکن عمران خان کو تو کوئی پاکستانی بھی ماننے کو تیار نہیں۔ ۔ ۔ تو دنیا میں پھر کون کس کے ساتھ ہو گا یہ دنیا اپنے لیے بہتر جانتی اور سمجھتی ہے۔ ہماری رائے کی دنیا کو بالکل ضرورت نہیں۔ ۔ ۔ اور اگر حالات ایسے ہی رہے تو شائد کچھ عرصے بعد دنیا کو ہماری بھی ضرورت نہ رہے۔