بھارت کا مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم، 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان

جاسم محمد

محفلین
بھارت کا مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم، 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان
ویب ڈیسک ایک گھنٹہ پہلے

1768003-modi-1564984557-945-640x480.jpg

بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ راجیہ سبھا میں آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کرنے کا بل پیش کردیا فوٹو:فائل


نئی دہلی: بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کرتے ہوئے ریاست کو 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کردیا۔

مودی سرکار نے صدارتی فرمان جاری کرتے ہوئے بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے کوختم کردیا جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی علاقہ کہلائے گی جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔

مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کو 2 حصوں میں بھی تقسیم کرتے ہوئے وادی جموں و کشمیر کو لداخ سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لداخ کو وفاق کا زیرِ انتظام علاقہ قرار دیا جائے گا اور اس کی بھی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔

بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ راجیہ سبھا میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کرنے کا بل بھی پیش کردیا۔ اجلاس کے دوران بھارتی اپوزیشن نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر شدید احتجاج کیا۔

بھارتی آئین کی اس شق ختم ہونے سے فلسطینیوں کی طرح کشمیری بھی بے وطن ہوجائیں گے، کیونکہ کروڑوں کی تعداد میں غیرمسلم آبادکار کشمیر میں آباد ہوجائیں گے، جو ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قابض ہوجائیں گے۔

کشمیر کی مسلم اکثریتی حیثیت ختم ہونے کا خطرہ

بھارت کے آئین کی دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں کشمیر کو وفاق میں ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے کی اجازت ہے اور متعدد معاملات میں بھارتی وفاقی آئین کا نفاذ جموں کشمیر میں منع ہے۔

آرٹیکل کے تحت مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے سوا بھارت کا کوئی بھی شہری یا ادارہ جائیداد نہیں خرید سکتا جبکہ صنعتی کارخانے اور ڈیم کے لیے اراضی بھی حاصل نہیں کی جاسکتی۔

دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی سے مقبوضہ کشمیر کی آبادیاتی، جغرافیائی اور مذہبی صورتحال یکسر تبدیل ہوجائے گی۔ مقبوضہ کشمیر کی مسلم اکثریتی حیثیت ختم ہوجائے گی اور وہاں غیر مسلموں اور غیر کشمیریوں کو بسایا جائے گا۔
 

فرقان احمد

محفلین
بھارت کا مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم، 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان
ویب ڈیسک ایک گھنٹہ پہلے

1768003-modi-1564984557-945-640x480.jpg

بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ راجیہ سبھا میں آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کرنے کا بل پیش کردیا فوٹو:فائل


نئی دہلی: بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کرتے ہوئے ریاست کو 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کردیا۔

مودی سرکار نے صدارتی فرمان جاری کرتے ہوئے بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے کوختم کردیا جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی علاقہ کہلائے گی جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔

مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کو 2 حصوں میں بھی تقسیم کرتے ہوئے وادی جموں و کشمیر کو لداخ سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لداخ کو وفاق کا زیرِ انتظام علاقہ قرار دیا جائے گا اور اس کی بھی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔

بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ راجیہ سبھا میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کرنے کا بل بھی پیش کردیا۔ اجلاس کے دوران بھارتی اپوزیشن نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر شدید احتجاج کیا۔

بھارتی آئین کی اس شق ختم ہونے سے فلسطینیوں کی طرح کشمیری بھی بے وطن ہوجائیں گے، کیونکہ کروڑوں کی تعداد میں غیرمسلم آبادکار کشمیر میں آباد ہوجائیں گے، جو ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قابض ہوجائیں گے۔

کشمیر کی مسلم اکثریتی حیثیت ختم ہونے کا خطرہ

بھارت کے آئین کی دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں کشمیر کو وفاق میں ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے کی اجازت ہے اور متعدد معاملات میں بھارتی وفاقی آئین کا نفاذ جموں کشمیر میں منع ہے۔

آرٹیکل کے تحت مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے سوا بھارت کا کوئی بھی شہری یا ادارہ جائیداد نہیں خرید سکتا جبکہ صنعتی کارخانے اور ڈیم کے لیے اراضی بھی حاصل نہیں کی جاسکتی۔

دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی سے مقبوضہ کشمیر کی آبادیاتی، جغرافیائی اور مذہبی صورتحال یکسر تبدیل ہوجائے گی۔ مقبوضہ کشمیر کی مسلم اکثریتی حیثیت ختم ہوجائے گی اور وہاں غیر مسلموں اور غیر کشمیریوں کو بسایا جائے گا۔
یہ اطلاعات کافی عرصہ سے گردش میں تھیں۔ اصل معاملہ دیکھنے کا یہ ہے کہ کیا کشمیری اس فیصلے کو تسلیم کر لیں گے؟ ہماری دانست میں، شاید وہ اس وقت زیادہ مزاحمت نہ دکھا پائیں۔ یہ بات تو قریب قریب طے شدہ ہے کہ پاکستان بھی سفارتی و اخلاقی مدد کے علاوہ اس وقت 'کچھ اور کرنے' کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
 
در حقیقت اس وقت پورے ملک میں مسلمان کی صورت حال کافی نازک ہے اور آنے والے دنوں میں مزید حالات خراب ہو سکتے ہیں ابھی ہندوستان کی پارلیمنٹ میں ایک اور بل پاس ہو چکا ہے جس کا نام ہے
The unlawful
Aactivities (prevention) Amendment bill 2019
اس بل کے تحت حکومت کسی بھی شخص کو دہشت گرد قرار دے سکتی ہے بغیر کسی ثبوت کے
یہ تمام وہ آثار ہیں جو مسلمانوں کی نازک صورتحال پر دلیل ہیں اور اس خاص بل کو صرف مسلمانوں کو ہی برباد کرنے کے لیے بنایا گیا ہے
اللہ تبارک و تعلی ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے. آمین
 

فرقان احمد

محفلین
ممکن ہے کہ گرد چھٹے تو کشمیر کے حل کی جانب بھی کچھ پیش رفت ہو اور زیادہ تر امکان یہی ہے کہ کنٹرول لائن کو بین الاقوامی سرحد ماننے پر معاملہ طے کروانے کی کوشش کی جائے۔ جس طرح، پاکستان میں بعض ہارڈ لائنرز کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے کر دیا گیا ہے، اور جس طرح، ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی ہے، اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ اس خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں۔ ہندوستان عالمی دباؤ کے ذریعے پاکستان کو مسلسل بیک فٹ پر دھکیل رہا ہے اور کشمیر میں مرحلہ وار اپنی مرضی و منشاء کے مطابق آئینی و قانونی محاذ کے علاوہ سٹریٹجی کے اعتبار سے بھی پیش رفت میں مصروف ہے۔ یہ یقینی طور پر غیر معمولی پیش رفت ہے اور اس پیش رفت کے سامنے صرف اور صرف کشمیری ہی بند باندھ سکتے ہیں؛ اور کوئی نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ اطلاعات کافی عرصہ سے گردش میں تھیں۔ اصل معاملہ دیکھنے کا یہ ہے کہ کیا کشمیری اس فیصلے کو تسلیم کر لیں گے؟ ہماری دانست میں، شاید وہ اس وقت زیادہ مزاحمت نہ دکھا پائیں۔ یہ بات تو قریب قریب طے شدہ ہے کہ پاکستان بھی سفارتی و اخلاقی مدد کے علاوہ اس وقت 'کچھ اور کرنے' کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
امت مسلمہ کیلئے ایک چلو پانی کہیں سے ملے گا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے۔
1998 میں ایٹمی دھماکوں کے فورا بعد بھارت خود چل کر پاکستان آیا۔ دونوں اطراف بستی کروڑ ہا عوام بے حد خوش تھی کہ اب ایٹمی تنازعہ کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر بھی حل ہو جائے گا۔ کسی کو کیا معلوم تھا کہ اسی دوران پس منظر میں پاک فوج کارگل ایڈونچر کر رہی ہے۔ جب اس خفیہ ایڈونچر کا بھانڈا پھوٹا تو بجائے اسے تسلیم کرنے کے جھوٹ بول دیا گیا کہ کارگل کے محاذ پر فوجی جوان نہیں بلکہ مقامی جہادی لڑ رہے ہیں۔ :atwitsend:
کارگل میں صرف ہمارا جھوٹ ہارا تھا
اس وقت صرف ہمارا جھوٹ ہارا تھا۔ آج 20 سال بعد ہم سارا کشمیر ہار گئے ہیں۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب جرنل چگ گئے کشمیر:cry2:
 

جاسم محمد

محفلین
مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ، مزید 70 ہزار فوجی تعینات کرنے کا فیصلہ
ویب ڈیسک 4 گھنٹے پہلے
1768171-loc-1564990148-103-640x480.jpg

مقبوضہ وادی کو فوجی چھاونی میں تبدیل کرکے ہزاروں اضافی فوجیوں کی تعینات کردیا گیا ہے۔ فوٹو : فائل

سرینگر: مقبوضہ کشمیر میں دفعہ 144 نافذ کرکے غیرمعینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کردیا گیا ہے جب کہ وادی میں مزید 70 ہزار فوجیوں کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

بھارتی حکومت کے ظالمانہ اقدامات نے مقبوضہ کشمیر میں حالات کو انتہائی کشیدہ کردیا ہے، مقبوضہ وادی میں دفعہ 144 نافذ کرکے غیرمعینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کردیا گیا ہے، وادی میں تمام تعلیمی اداروں کو بھی تاحکم ثانی بند کرکے کشمیر کی تمام جامعات میں امتحانات ملتوی کردیے گئے ہیں جب کہ موبائل فون اور لینڈ لائن سمیت انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے۔

کٹھ پتلی انتظامیہ نے کشمیریوں کی آواز کو دبانے کے لیے حریت رہنماؤں، سابق وزرائے اعلیٰ مقبوضہ کشمیر عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت سجاد لون کو ان کے گھروں میں نظر بند کردیا ہے۔

بھارتی حکومت نے مقبوضہ وادی کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کرکے ہزاروں اضافی فوجیوں کی تعینات کردیا ہے، خبرایجنسی کے مطابق بھارت مقبوضہ کشمیر میں مزید 70 ہزار فوجی لا رہا ہے جب کہ بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مزید 8 ہزار فوجیوں کو تعینات کردیا گیا ہے۔

دوسری جانب مودی سرکار نے صدارتی فرمان جاری کرتے ہوئے بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے کوختم کردیا جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی علاقہ کہلائے گی جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔
 

فرقان احمد

محفلین
مودی نے انتخابی معرکہ سر کرنے کے بعد جارحانہ حکمت عملی اپنا لی ہے۔ یہ سب قانون سازی تو ہو جائے گی تاہم حتمی فیصلہ کشمیری خود کریں گے، جلد یا بدیر۔ ہندوستان نے اس پیش رفت کے بعد بہت بڑی تعداد میں فوجی تعینات کیے ہیں جو اس بات کے غماز ہیں کہ یہاں رہنے بسنے والوں کی اکثریت ان خیالات کی ہم نوا نہیں ہے۔ ابھی بہت اتھل پتھل ہونا باقی ہے تاہم، فوری طور پر، شاید کچھ نہ ہو گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
آرٹیکل 35 اے اور بھارتی سازش
سید امجد حسین بخاری ہفتہ 3 اگست 2019
1765024-articlea-1564747715-951-640x480.jpg

کشمیر کی آزادانہ حیثیت ختم کرنے کے لیے بھارتی سرکار آرٹیکل 35A ختم کرنا چاہتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

27 اکتوبر 1947 سری نگر میں زندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھی۔ کشمیریوں نے 5 ہزار 134 مربع میل کشمیر کا علاقہ، جبکہ 27 ہزار 991 مربع میل گلگت بلتستان کو بھارتی تسلط سے آزاد کرالیا تھا۔ مجاہدین سری نگر تک پہنچ چکے تھے، لیکن اس تاریک دن بھارت نے پیراشوٹ کے ذریعے اپنی فوجیں سری نگر اور دیگر علاقوں پر اتار دیں۔ اسی طرح جموں کے قتل عام کو دبانے کےلیے بھی علاقے میں بھاری تعداد میں فوجی دستے تعینات کردئیے تھے، جن کی تعداد اس وقت 7 لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔

مقبوضہ وادی ایک فوجی اسٹیٹ بن چکی ہے۔ بڑی شاہراہوں سے لے کر چھوٹے گاؤں ساری وادی فوجی کیمپ کا منظر پیش کررہی ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کا کیس اقوام متحدہ میں لے کرگیا جس نے پاکستان اور بھارت کو پابند کیا کہ وہ یہاں کے عوام کی مرضی و منشا کے مطابق الحاق کا اختیار انہیں دیں۔ 1948 کی جنگ بندی کے بعد بھارت اپنے معاہدوں سے مکر گیا اور وادی پر اپنا تسلط برقرار رکھا ہوا ہے۔

پاکستان اور بھارت دونوں اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ریاست کی آزادانہ حیثیت کو برقرار رہنے دیں۔ اس کےلیے پاکستانی آئین اور بھارتی آئین کے آرٹیکل 35 اے اس کی حیثیت کا تعین بھی کرتے ہیں۔ بھارتی آئین میں جموں و کشمیر کی خصوصی شہریت کے حق سے متعلق موجود دفعہ 35 اے کے مطابق جموں و کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں غیر منقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا، یہاں نوکری حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی اسے یہاں سرمایہ کاری کا اختیار حاصل ہے۔

یہ قوانین مہاراجہ ہری سنگھ نے 1927 سے لے کر 1932 تک نافذ کئے تھے۔ لیکن اب شنید یہ ہے کہ بھارت کشمیریوں کی شناخت تبدیل کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ بی جے پی ہر دور میں اس قانون کو ختم کرنے کےلیے کوششیں کرتی رہی ہے لیکن ریاستی حکومت اس کے راستے میں رکاوٹ بنتی رہی۔ اب بھارتیہ جنتا پارٹی کی این جی او ’دی سٹیزن‘ نے اس میں ترمیم کےلیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے۔ غالب امکان ہے کہ سپریم کورٹ اس قانون میں ترمیم کردے گی۔ مقبوضہ کشمیر میں آئینی امور کی ماہر جویریہ منظور ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ اس حوالے سے کوئی قانون نہیں بناسکتی، کیوں کہ ریاست کےلیے قانون سازی کا حق صرف ریاستی حکومت کے پاس ہے۔ تاہم ہندو نواز سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ کا سہارا لے کر چور دروازے سے ریاست کی شناخت ختم کرانے کی منصوبہ بندی کررہی ہیں۔

تاریخی کتب کے مطابق دوسری جنگ عظیم کے بعد شمالی پنجاب کے لوگوں نے ریاست میں اپنا کاروبار بڑھانے کےلیے یہاں رہائش اختیار کی تھی، جس کے بعد مقامی افراد نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اس عمل سے ریاست کے پشتینی باشندوں کے کاروبار پر اثر پڑے گا۔ انہوں نے مہاراجہ سے غیر ریاستی باشندوں کی آبادی روکنے کا مطالبہ کیا۔ جس کے بعد یہ قانون نافذ کیا گیا۔ جموں کے پنڈت اور وادی کے مسلمان سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ آرٹیکل میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہ کی جائے۔

دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قانون سازی کےلیے بھارتی حکومت کو ریاستی اسمبلی کی اتفاق رائے سے قانون میں ترمیم کرنا ہوگی لیکن اس وقت محبوبہ مفتی قانون میں ترمیم کے خلاف ہیں اور انہوں نے فاروق عبداللہ سمیت دیگر سیاسی قیادت سے اپیل کی ہے کہ وہ آئینی ترمیم کی سازش کامیاب نہ ہونے دیں۔ تادم تحریر بھارت نواز سیاسی جماعتیں، حریت کانفرنس اور دیگر ریاستی تنظیموں نے آئینی ترمیم کی بھرپور مخالفت کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

27 اکتوبر 1947 کی طرح گزشتہ دنوں بھارتی سرکار نے پیراشوٹ کے ذریعے سرینگر ایئر پورٹ پر اپنی مزید فورسز اتار دی ہیں۔ وزرات داخلہ کے مطابق وادی میں 40 ہزار سے زائد مزید فوجی تعینات کردئیے گئے ہیں۔ اسی طرح مرکزی حکومت کی جانب سے جاری مراسلے میں وادی میں موجود مساجد کا ریکارڈ مرتب کرنے کی ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں۔ ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے وادی میں قیام پذیر سیاحوں اور یاتریوں کو بھی اپنے علاقوں میں واپس جانے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ان اقدامات اور ہدایات کے بعد وادی افواہوں کی زد میں ہے۔ شہری ہیجان کی کیفیت میں مبتلا ہیں اور انہیں وادی کے مستقبل کی فکر لاحق ہے۔ وادی کے اکثر حصوں میں انٹرنیٹ سروس بند جبکہ موبائل نیٹ ورکس پر بھی کڑی نگرانی کی جارہی ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں موجود صحافیوں اور عزیز و اقارب سے اس معاملے پر تفصیلی گفتگو ہوئی ہے۔ جن کا کہنا تھا کہ ریاستی باشندے شدید اضطراب میں ہیں، شہریوں نے گھروں میں راشن اکٹھا کرنا شروع کردیا ہے۔ اے ٹی ایم مشینوں سے کیش اور پٹرول پمپوں سے پٹرول ذخیرہ کیا جا رہا ہے۔ شہری کسی بھی ہنگامی صورت سے نمٹنے کےلیے خود کو تیار کر رہے ہیں۔ لیکن یہ صورتحال کب تک رہے گی؟ بھارتی عدالت زعفرانی چادر بریگیڈ کے سامنے جھک جائے گی یا آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرے گی؟ اگر بھارتی سرکار کشمیری عوام کی امنگوں کے خلاف کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اس کے بعد وادی میں تشدد اور جبر کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ بھارتی حکومت نے وادی میں تعینات مسلمان پولیس اہلکاروں کو غیر مسلح کردیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ صورت حال 15 اگست کے بعد واضح ہوگی، تاہم اس ہنگامہ خیزی کی تین بڑی وجوہات ہیں جن میں حریت رہنما یاسین ملک کے خلاف عدالتی فیصلہ، کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ، جبکہ بعض ذرائع کے مطابق بھارت مقبوضہ وادی کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے، جس میں جموں اور لداخ کو وادی سے علیحدہ کرکے الگ ریاست کا درجہ دینے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ اس منصوبے سے وادی کی جداگانہ حیثیت برقرار رکھنے والے آرٹیکلز 270 اور 35 اے خودبخود ختم ہوجائیں گے۔ تاہم اس معاملے پر جموں کے مسلمان اور ہندو منقسم نظر آتے ہیں۔

مودی جی ہندواتوا کا نعرہ بلند کرکے اقتدار میں آئے تھے۔ جبکہ ہندو نواز ووٹرز نے اس بار بھی انہیں بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا۔ انہوں نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرانے کا وعدہ کیا تھا مگر پانچ سال اقتدار میں رہنے کے باوجود وہ بھی اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔ نریندر مودی نے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی قسمیں کھائی تھیں مگر اپنے جاسوس پکڑوا دئیے، طیارے گنوا بیٹھے اور خارجہ امور میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب بھارتی وزیراعظم اور ان کی جماعت کے پاس صرف کشمیر کا معاملہ بچا ہے، جس پر وہ گزشتہ پانچ سال اقتدار میں رہے اور اسی بنیاد پر وہ دوبارہ کرسی اقتدار پر براجمان ہیں۔

کشمیر میں ہونے والے مظالم کا اگر جائزہ لیا جائے تو 90 کی دہائی میں بھارتی فوج نے مودی کے دور اقتدار میں کشمیریوں کی زندگی اجیرن بنائی ہے۔ برہان وانی کا واقعہ اور اس کے بعد کی صورتحال کے ذمے دار بھی بھارتی وزیراعظم ہی ہیں۔

آرٹیکل 35 اے کی آڑ میں ریاستی عوام کو دبانے کی بھارتی سازش جہاں کشمیریوں سے ان کی شناخت کا حق چھین لے گی، وہیں وادی میں قتل عام کا بازار بھی مزید بڑھ سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آزاد کشمیر اور دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری اس اقدام کےلیے آواز بلند کریں اور کشمیر کا مستقبل تباہ ہونے سے بچانے کےلیے اپنا کردار ادا کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
مریم نانی میڈیا سیل نے قوم کو متحد رکھنے کی بجائے اپنے لفافوں کے ذریعہ حکومت کے خلاف افواہوں کا آغاز کر دیا ہے۔

مفاد پرست نقادوں سے ہوشیار رہئے
 

یاقوت

محفلین
خندہ زن کُفر ہے، احساس تجھے ہے کہ نہیں
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں
رب کریم آپ سے شکوہ نہیں بس اپنا ادھڑا ہوا جسم دکھانا تھا۔مجھے پتا ہے تیری بے نیازیاں اپنی جگہ لیکن میرے کرتوت فرتوت اپنی جگہ کس کا گلہ کروں​
آج ایک اور کاری وار امت مسلمہ کے جسد پر لگا دیا گیا۔تبصرے ہوں گے،تھوڑی باتیں ہوں گی،ایک دوسرے کو تسلیاں دی جائیں گی،بہکتے جذبات کو مصلحات اور مجبوریوں کی لوریاں سنا سنا کر سلا دیا جائے گا۔درد کشمیر کو ہے میں کیا جانوں درد کیا ہوتا ہے میں تو نعرہ لگاؤں گا،میں تو سیاست کروں گا،میں تو اپنی مجبوریوں کا رونا روؤں گا،میں تو اخبارات میں بیان دوں گا،میں فیس بک پر کشمیر کو پاکستان بنادوں گا۔یہ میں ہوں آج کا مسلمان خواہشات کے اندھے جنگلوں میں آنکھوں پرپٹی باندھ کر چلتا ہوا میں کیا جانوں درد کیا ہوتا ہے مجھے سے آئی فون کے فکس پرائس پوچھیں یہ مت پوچھیں برہان وانی کیوں جان سے گزرا اسکی لاش کو کیوں سبز ہلالی پرچم میں لپیٹا گیا میں کیا جانوں یہ تو جاننے والے جانیں ہیں۔حلق کا شگاف وسیع کرو،آنتوں میں خوب ہوا جمع کرو،من کی ساری چیخوں کو ایک بار لپیٹ کر اندر کھینچو،اب لگاؤ نعرہ کشمیر بنے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( ؟ )
:cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry:
 

زیک

مسافر
یہ اقدام جس طرح لیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر انڈیا کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔

بات صرف آرٹیکل 370 کی نہیں ہے بلکہ کشمیر کو ریاست سے یونین ٹیریٹری بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اب وہاں پکا دہلی راج چلے گا۔

کشمیری ابھی کچھ کر سکیں یا نہیں لیکن انڈیا اب ظلم و جبر کے ذریعہ ہی اس پر قابض رہے گا۔ اور یہ ظلم پہلے کی نسبت کافی زیادہ ہو گا۔

دوسری طرف پاکستان کی کٹھ پتلی حکومت اس معاملے میں کوئی ری ایکشن نہیں دکھا سکی۔ نہ ہی “دنیا کی بہترین سپائی ایجنسی” آئی ایس آئی نے اصلی حکومت (یعنی جرنیلوں) کو وقت پر بریف کیا۔ لہذا لگتا یہی ہے کہ کشمیر کے مسئلے میں پاکستان کا پتہ بھی صاف ہو گیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
دوسری طرف پاکستان کی کٹھ پتلی حکومت اس معاملے میں کوئی ری ایکشن نہیں دکھا سکی۔ نہ ہی “دنیا کی بہترین سپائی ایجنسی” آئی ایس آئی نے اصلی حکومت (یعنی جرنیلوں) کو وقت پر بریف کیا۔ لہذا لگتا یہی ہے کہ کشمیر کے مسئلے میں پاکستان کا پتہ بھی صاف ہو گیا ہے۔
جرنیلوں نے تو خود تو کبھی مسئلہ کشمیر کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس لئے ان کو کیا فکر کہ حالات کس طرف جا رہے ہیں۔
نیز آئی ایس آئی کو ملک کی سیاست میں مداخلت سے فرصت ملے تو وہ اپنے اصل کام پر دھیان دیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
کشمیر سے متعلق بھارتی اقدام پر پاکستان نے اقوام متحدہ سے رجوع کرلیا
ویب ڈیسک 38 منٹ پہلے
1768854-shahmahmood-1565029099-322-640x480.jpg

مقبوضہ کشمیر کی یہی صورتحال رہی تو امن و امان کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، وزیرخارجہ. فوٹو: فائل

اسلام آباد: بھارت کی جانب سے کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے پر پاکستان نے اقوام متحدہ سے رجوع کرلیا۔

دفتر خارجہ کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انٹونیو گوٹریس کو خط لکھا ہے جس میں انہیں مقبوضہ جموں و کشمیر کی تشویش ناک صورتحال اور خطے میں امن امان کی صورتحال سے آگاہ کیا گیا ہے۔

خط میں بتایا گیا ہے کہ ہیومن رائٹس کمشنر آفس نے گزشتہ ماہ جاری ہونے والی دوسری رپورٹ میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی جانب سے جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا پردہ چاک کیا ہے جس میں نہتے کشمیریوں کی زیر حراست ہلاکتوں، بچوں سمیت نہتے لوگوں پر پیلٹ گن کے بے دریغ استعمال اور اس کے نتیجے میں سیکڑوں افراد کی بصارت سے محرومی کا بتایا گیا ہے۔

وزیر خارجہ نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ ہیومن رائٹس کمشنر آفس کی طرف سے جاری کی گئی اس غیر جانب دارانہ رپورٹ میں آشکار کی گئی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں کالے قانون کے تحت نہتے کشمیریوں کو جبر و تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے اور اس کے علاوہ بھارتی فورسز فائرنگ سے لائن آف کنٹرول پر بسنے والے معصوم شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہیں جس سے عام بے گناہ شہریوں کی شہادتیں ہو رہی ہیں اور املاک کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے، یہ 2003ء کے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور اگر یہی صورتحال رہی اور اس کا سدباب نہ کیا گیا تو امن و امان کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

خط کے متن میں ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں گزشتہ کئی دہائیوں سے 7 لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی کے باوجود مزید 10 ہزار سے زیادہ فورس بھجوائے جانے کی اطلاعات تشویش ناک ہیں، سری نگر ائیرپورٹ پر خصوصی طیاروں کی نقل و حرکت اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں اضافی دستوں کی آمد اور بھارت کی طرف سے کسی حکومتی عہدے دار کا تاحال میڈیا میں آنے والی ان رپورٹوں کی تردید نہ کرنا ان اطلاعات و خدشات کو مزید تقویت دے رہا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ بھارتی ریلوے کی طرف سے ہفتے بھر کے لیے راشن کو محفوظ کرنے کی ہدایات، کشمیریوں کے خوف و ہراس میں مزید اضافے کا موجب بن رہی ہیں اور مزید خدشات جنم لے رہے ہیں، پاکستان بھارتی آرٹیکل 35 اے اور 370 کے تحت مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کو حاصل خصوصی اسٹیٹس، حق ملکیت اور حق شہریت کو ختم کرنے کے خلاف ہے کیونکہ اس طرح اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کا عمل متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
کشمیر سے متعلق بھارتی اقدام پر پاکستان نے اقوام متحدہ سے رجوع کرلیا
ویب ڈیسک 38 منٹ پہلے
1768854-shahmahmood-1565029099-322-640x480.jpg

مقبوضہ کشمیر کی یہی صورتحال رہی تو امن و امان کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، وزیرخارجہ. فوٹو: فائل

اسلام آباد: بھارت کی جانب سے کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے پر پاکستان نے اقوام متحدہ سے رجوع کرلیا۔

دفتر خارجہ کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انٹونیو گوٹریس کو خط لکھا ہے جس میں انہیں مقبوضہ جموں و کشمیر کی تشویش ناک صورتحال اور خطے میں امن امان کی صورتحال سے آگاہ کیا گیا ہے۔

خط میں بتایا گیا ہے کہ ہیومن رائٹس کمشنر آفس نے گزشتہ ماہ جاری ہونے والی دوسری رپورٹ میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی جانب سے جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا پردہ چاک کیا ہے جس میں نہتے کشمیریوں کی زیر حراست ہلاکتوں، بچوں سمیت نہتے لوگوں پر پیلٹ گن کے بے دریغ استعمال اور اس کے نتیجے میں سیکڑوں افراد کی بصارت سے محرومی کا بتایا گیا ہے۔

وزیر خارجہ نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ ہیومن رائٹس کمشنر آفس کی طرف سے جاری کی گئی اس غیر جانب دارانہ رپورٹ میں آشکار کی گئی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں کالے قانون کے تحت نہتے کشمیریوں کو جبر و تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے اور اس کے علاوہ بھارتی فورسز فائرنگ سے لائن آف کنٹرول پر بسنے والے معصوم شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہیں جس سے عام بے گناہ شہریوں کی شہادتیں ہو رہی ہیں اور املاک کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے، یہ 2003ء کے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور اگر یہی صورتحال رہی اور اس کا سدباب نہ کیا گیا تو امن و امان کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

خط کے متن میں ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں گزشتہ کئی دہائیوں سے 7 لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی کے باوجود مزید 10 ہزار سے زیادہ فورس بھجوائے جانے کی اطلاعات تشویش ناک ہیں، سری نگر ائیرپورٹ پر خصوصی طیاروں کی نقل و حرکت اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں اضافی دستوں کی آمد اور بھارت کی طرف سے کسی حکومتی عہدے دار کا تاحال میڈیا میں آنے والی ان رپورٹوں کی تردید نہ کرنا ان اطلاعات و خدشات کو مزید تقویت دے رہا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ بھارتی ریلوے کی طرف سے ہفتے بھر کے لیے راشن کو محفوظ کرنے کی ہدایات، کشمیریوں کے خوف و ہراس میں مزید اضافے کا موجب بن رہی ہیں اور مزید خدشات جنم لے رہے ہیں، پاکستان بھارتی آرٹیکل 35 اے اور 370 کے تحت مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کو حاصل خصوصی اسٹیٹس، حق ملکیت اور حق شہریت کو ختم کرنے کے خلاف ہے کیونکہ اس طرح اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کا عمل متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
رسمی کاروائی، تاہم، ناگزیر اور بروقت۔ کچھ نہ کچھ ہاتھ پاؤں تو ہلانا ہوں گے؛ ہر ممکن حد تک۔
 
Top