محسن وقار علی
محفلین
بھارت نے جسے حقیقی کنٹرول لائن تسلیم کر رکھا ہے وہ اس کی یکطرفہ سمجھ ہے
اس مہینے کی 15 تاریخ کو بھارتی فوجیوں کو پتہ چلا کہ چین کے فوجی لداخ میں بھارت کے ذریعے تسلیم شدہ حقیقیی کنٹرول لائن پارکر کے بھارتی خطے میں 10 کلو میٹر اندر آ کر اپنی چوکیاں اور اڈے قائم کر چکے ہیں۔
کچھ عرصے پہلے بعض چینی فوجی اہلکاروں نے ایک بھارتی دفاعی تحقیقی ادارے میں کہا تھا کہ بھارت اور چین کے درمیان مغربی سیکٹر میں کوئی تنازع نہیں ہے۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ جموں و کشمیر کے لداخ خطے کو بھارت کا خطہ ہی تسلیم نہیں کرتے۔
لداخ میں چینی فوج کی سرگومیوں پر بھارت کے دفاعی اور سرکاری حلقوں میں زبردست تشویش پھیلی ہوئی ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق چینی فوجی 19 کلومیٹر تک بھارتی خطے میں داخل ہو چکے ہیں اور اب وہ وہاں اپنے اڈے اور چوکیاں قائم کر رہے ہیں۔
وزارت خارجہ اور وزارت دفاع چین کی اس پیش قدمی کو عوامی طور پر بہت کم اہمیت دے رہے ہیں اور اس طرح کے بیانات دیے جا رہے ہیں کہ بھارت چین سرحد پر کئی مقامات پر دونوں ملکوں کی الگ الگ سمجھ ہے اور یہ کہ ’اس عارضی اختلاف‘ کو فلیگ میٹنگ کے ذریعے حل کر لیا جائےگا۔
لیکن پس پردہ بھارت کی وزارت دفاع اور وزارت خارجہ اس تنازع کی سنگینی اس کی نوعیت اور چین کی نئی قیادت کے رحجان کو سمجھنے کے لیے پوری طرح متحرک ہیں۔
چین سے بھارت کا سرحدی تنازع 50 برس پرانا ہے۔ بھارت نے جسے حقیقی کنٹرول لائن تسلیم کر رکھا ہے وہ اس کی یکطرفہ سمجھ ہے۔ اس لائن کو چین نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ یہی نہیں وہ بھارت کی ریاستوں اروناچل پردیش اور سکّم کے ایک بڑے خطے پر اپنا دعوی کرتا رہا ہے۔
دونوں ممالک نے اس تنازع کو حل کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنا رکھی ہے جو درجنوں مذاکرات کر چکی ہے مگر ابھی تک سرحد کی ایک انچ زمین کا تنازع حل نہیں کر سکی ہے۔ بھارت کا رویہ اس تنازع کومستقل طور پر حل کرنے کے بجائے ہمیشہ اس سے آنکھیں چرانے کا رہا ہے۔ نتیجے میں چین سے سرحدی تنازع اب خطرناک پیچیدگی اختیار کر رہا ہے۔
بھارت نے چین کے مقابلے اپنی فوج کی جدید کاری کا عمل نسبتاً دیر سے شروع کیا ہے۔ پچھلے سات آٹھ برس سے بھارت اپنی فوج کی جدید کاری کے لیے دنیا میں دفاعی سازو سامان خریدنے والا دنیا کا سب سے سے بڑا ملک رہا ہے۔
بھارت اور چین کے درمیان سرحد کے تنازعے پر ایک جنگ بھی ہو چکی ہے۔
حال میں اس نے صرف بھارت چین سرحد پر تعیناتی اور جنگی تیاری کے لیے ایک لاکھ فوجی بھرتی کرنے کا عمل شروع کیا ہے ۔ گزشتہ چند برسوں میں بھارت نے ہند، چین سرحد پر ہوائی پٹیاں بنانا ، فوجی رسد اور رسائی کے لیےسڑکیں تعیمر کرنا اور اپنی سرحدی چوکیوں کو مستحکم کرنا شروع کیا ہے۔
بھارت اپنی آبدوزیں، توپیں، مزائل، بحری بیڑے اور جنگی جہاز وغیرہ سبھی دفاعی تیاریاں بنیادی طور پر اب چین کے ساتھ محاذ کے نکتہ نظر سے کر رہا ہے جبکہ چین ان تیاریوں میں بہت پہلے آگے نکل چکا ہے۔
لیکن اب بھارت کی جنگی تیاریوں اور امریکہ سے اس کی بڑھتی ہوئی قربت سے چین میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ سرحدوں پر چین کا بڑھتا ہوا دباؤ اسی بڑھتی ہوئی بے چینی کا عکاس ہے۔
سرحدی تنازع کے سبب بھارت اور چین کے درمیان ماضی میں جنگ بھی ہو چکی ہے لیکن اب بھارت جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اب وقت آگیا ہے کہ بھارت حقیقت پسندی سے کام لے اور ایک قومی سیاسی اتفاق رائے سے چین سے ایک مقررہ مدت کے اندر اپنے سرحدی تنازعات مستقل طور پر حل کرے۔
شکیل اختر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی