بھارت کیا جنگ کے آپشن پر توجہ دے رہا ہے؟
شکیل اختربی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی
بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ دنوں کنٹرول لائن پر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے
اتوار 23 اگست کو بھارت اور پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان ہونے والی بات چیت سے پہلے بھارت کے میڈیا میں ایک جنگ سی چھڑی ہوئی ہے۔
پچھلے کچھ برسوں سے ایک نیا رحجان یہ پیدا ہوا ہےکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی ان کےٹوٹنے کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس بار بھی بات چیت شروع ہونے تک یقین کے ساتھ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ بات چیت ہو سکے گی یا نہیں۔
دونوں ملکوں کےدرمیان ایک عرصے سے بات چیت نہیں ہو رہی تھی اور تعلقات بھی کشیدہ تھے۔ قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان مذاکرات کا دن قریب آتے آتے حالات پہلے سے بھی زیادہ کشیدہ ہو گئے ہیں۔
بھارتی میڈیا میں مذاکرات اور کشمیری علیحدگی پسندوں کے حوالے سے جس طرح کی بحث اور مباحثے چل رہے ہیں اور جس طرح کے جارحانہ بیانات سامنے آ رہے ہیں حالیہ عشروں میں اتنی تلخی کبھی دیکھنے کو نہیں ملی۔
ایک ٹی وی چینل پر حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک ترجمان نے مذاکرات کی حمایت کرنےوالے باقی سبھی پینلسٹ کو پاکستان کا ترجمان اوربھارت مخالف قرار دیا۔ مصالحت اور مذاکرات کی حمایت کرنے والے مبصرین اور دانشوروں کو اگر قوم دشمن نہیں تو کم ازکم انھیں قوم دوست بھی نہیں سمجھا جا رہا۔
بھارت اور پاکستان ایک دوسرے پر کشیدگی بڑھانے کا الزام لگاتے رہے ہیں
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت کے باوجود جنگ کی صورت میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی ضرورت نہیں پیش آئے گی۔ ان کا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ بھارت کواب جنگ اور فوجی کاروائی کے آپشن پر بھی غور کرنا چاہیے۔
حالیہ برسوں میں بھارت کے عسکری تجزیہ کاروں میں یہ تصور عام ہوا ہے کہ پاکستا ن اقتصادی اور فوجی اعتبار سے کافی کمزور ہوا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس بھارت کی اقتصادی طاقت کے ساتھ اس کی فوجی قوت میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
وزاعظم نریندر مودی کی حکومت کی پاکستان پالیسی اسی تصور پر قائم ہے۔ مودی حکومت کا خیال ہے کہ بین الاقوامی سطح پر کشمیر کے سلسلے میں فضا بھارت کے حق میں ہے۔ بھارت مضبوط حالت میں ہے اور وہ اپنا موقف تسلیم کرانے کے لیے پاکستان کو مجبور کر سکتا ہے۔
مودی حکومت نے ایک طرف پاکستان کی نواز شریف حکومت سے مذاکرات کا راستہ کھول رکھا ہے اوردوسری جانب کنٹرول لائن پردراندازی اور فائرنگ کے جواب میں پاکستانی فوج کو جارحانہ طور پر مصروف کر رکھا ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان پہلے کئی بار باقاعدہ جنگ ہو چکی ہے
بھارت کے سکیورٹی حلقوں کا خیال ہے کہ افغان سرحد پر پاکستانی فوج کی بڑی تعداد میں تعیناتی سے پاکستان کی عسکری طاقت منقسم ہے۔ کشمیری علیحدگی پسندوں کو کسی بات چیت سے باہر رکھنے اور اپنی شرط پربات کرنے کے اصرارکے اپنے موقف سے بھارت پاکستانی فوج کے ردعمل کی شدت کا اندازہ لینا چاہتا ہے۔
بھارت کے بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت کا یہ موقف خطرات سے پر ہے اور ملک کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
لیکن برسوں کی دہشت گردی اور حافظ محمد سعید اور داؤد ابراہیم جیسے تلخ حقائق سے بھارت میں دانشوروں اور موجودہ حکومت اوراس کے حامیوں کا ایک بڑا طبقہ پاکستان کے ساتھ ایک فیصلہ کن حل کا متمنی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 70 برس سے جاری مذاکرات کے عمل کا نتیجہ وہ دیکھ چکے ہیں۔ اب یہ طبقہ دوسرے آپشن پربھی توجہ مرکوز کرہا ہے۔
شکیل اختربی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی
بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ دنوں کنٹرول لائن پر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے
اتوار 23 اگست کو بھارت اور پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان ہونے والی بات چیت سے پہلے بھارت کے میڈیا میں ایک جنگ سی چھڑی ہوئی ہے۔
پچھلے کچھ برسوں سے ایک نیا رحجان یہ پیدا ہوا ہےکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی ان کےٹوٹنے کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس بار بھی بات چیت شروع ہونے تک یقین کے ساتھ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ بات چیت ہو سکے گی یا نہیں۔
دونوں ملکوں کےدرمیان ایک عرصے سے بات چیت نہیں ہو رہی تھی اور تعلقات بھی کشیدہ تھے۔ قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان مذاکرات کا دن قریب آتے آتے حالات پہلے سے بھی زیادہ کشیدہ ہو گئے ہیں۔
بھارتی میڈیا میں مذاکرات اور کشمیری علیحدگی پسندوں کے حوالے سے جس طرح کی بحث اور مباحثے چل رہے ہیں اور جس طرح کے جارحانہ بیانات سامنے آ رہے ہیں حالیہ عشروں میں اتنی تلخی کبھی دیکھنے کو نہیں ملی۔
ایک ٹی وی چینل پر حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک ترجمان نے مذاکرات کی حمایت کرنےوالے باقی سبھی پینلسٹ کو پاکستان کا ترجمان اوربھارت مخالف قرار دیا۔ مصالحت اور مذاکرات کی حمایت کرنے والے مبصرین اور دانشوروں کو اگر قوم دشمن نہیں تو کم ازکم انھیں قوم دوست بھی نہیں سمجھا جا رہا۔
بھارت اور پاکستان ایک دوسرے پر کشیدگی بڑھانے کا الزام لگاتے رہے ہیں
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت کے باوجود جنگ کی صورت میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی ضرورت نہیں پیش آئے گی۔ ان کا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ بھارت کواب جنگ اور فوجی کاروائی کے آپشن پر بھی غور کرنا چاہیے۔
حالیہ برسوں میں بھارت کے عسکری تجزیہ کاروں میں یہ تصور عام ہوا ہے کہ پاکستا ن اقتصادی اور فوجی اعتبار سے کافی کمزور ہوا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس بھارت کی اقتصادی طاقت کے ساتھ اس کی فوجی قوت میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
وزاعظم نریندر مودی کی حکومت کی پاکستان پالیسی اسی تصور پر قائم ہے۔ مودی حکومت کا خیال ہے کہ بین الاقوامی سطح پر کشمیر کے سلسلے میں فضا بھارت کے حق میں ہے۔ بھارت مضبوط حالت میں ہے اور وہ اپنا موقف تسلیم کرانے کے لیے پاکستان کو مجبور کر سکتا ہے۔
مودی حکومت نے ایک طرف پاکستان کی نواز شریف حکومت سے مذاکرات کا راستہ کھول رکھا ہے اوردوسری جانب کنٹرول لائن پردراندازی اور فائرنگ کے جواب میں پاکستانی فوج کو جارحانہ طور پر مصروف کر رکھا ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان پہلے کئی بار باقاعدہ جنگ ہو چکی ہے
بھارت کے سکیورٹی حلقوں کا خیال ہے کہ افغان سرحد پر پاکستانی فوج کی بڑی تعداد میں تعیناتی سے پاکستان کی عسکری طاقت منقسم ہے۔ کشمیری علیحدگی پسندوں کو کسی بات چیت سے باہر رکھنے اور اپنی شرط پربات کرنے کے اصرارکے اپنے موقف سے بھارت پاکستانی فوج کے ردعمل کی شدت کا اندازہ لینا چاہتا ہے۔
بھارت کے بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت کا یہ موقف خطرات سے پر ہے اور ملک کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
لیکن برسوں کی دہشت گردی اور حافظ محمد سعید اور داؤد ابراہیم جیسے تلخ حقائق سے بھارت میں دانشوروں اور موجودہ حکومت اوراس کے حامیوں کا ایک بڑا طبقہ پاکستان کے ساتھ ایک فیصلہ کن حل کا متمنی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 70 برس سے جاری مذاکرات کے عمل کا نتیجہ وہ دیکھ چکے ہیں۔ اب یہ طبقہ دوسرے آپشن پربھی توجہ مرکوز کرہا ہے۔