آخری تدوین:
لیکن نوجوانوں کو کاروبار وغیرہ کیلئے تو لازمی ضروری ہے۔ہاں جو بھی عملی زندگی میں نہیں آئے ان پر ہونی چائیےاچھی پابندی ہے۔ غیر شادی شدہ نوجوانوں پر بھی ہونی چاہیے۔
کنواری لڑکیوں پر سانس لینے کی پابندی بھی ہونی چاہیے۔
انکلخیر فی زمانہ ایسی تو کوئی بات نہیں۔لیکن آپ تصور نہیں کر سکتیں کہ یہ چھوٹا سا آلہ، جو بذات خود انتہائی مفید ہے، بعض صورتوں میں (خصوصاً کنواری لڑکیوں اور ان کے والدین کے لئے) کتنا سوہان روح بنا ہوا ہے۔او ر اس کے بے جا استعمال کے نتیجے میں کئی خاندانوں کا سکون تباہ ہو چکا ہے۔
سو فیصدی متفق۔ بلکہ میں تو کہوں گا ، کہ نا سمجھ لڑکیوں کو اس آفت کا سہارا لے کر لڑکے ہی غلط راہ پر لگاتے ہیں۔ اور پھر مروجہ ماحول اور بےجا آزادی نیزمناسب نگرانی کا نہ ہونااور اسی طرح کے کئی عناصر اس بگاڑ کو اور مہمیز دیتے ہیں۔انکل
یہ بات صرف لڑکیوں پر لاگو نہیں کی جا سکتی ناں ۔۔ اٹس سیم ود میلز ٹو
حضور۔۔ صرف موبائل فون ہی کیوں ؟ ٹی وی ، انٹرنیٹ اس میدان میں کیا کم ہیں۔ ان سب پر بھی پابندی ہو۔ آپ یہ پابندیاں اپنے طبقے کے افراد پر لگائیں ، تاکہ ان تمام آلات کی جان آپ جیسے لوگوں سے چھوٹے۔اچھی پابندی ہے۔ غیر شادی شدہ نوجوانوں پر بھی ہونی چاہیے۔
آپ پر تو محفل میں بھی پابندی ہونی چاہیے۔اب پھر سے عاشقی ماشقی کے لئے پرندے استعمال ہونگے،
ایک دفعہ یہی ہوا کہ ایک عاشق نے اپنے ماشق کو بغیر میسچ کے کبوتر بھیج دیا
ماشق نے کبوتر کے ساتھ میسچ بھیجا کہ یہ کیا اس دفعہ خالی کبوتر آیا ہے
عاشق نے لکھ کر بھیجا مس کال دیا تھا۔
آپ پر پابندی کی بات نہیں ہورہی لیکن ہر لڑکی آپ کی طرح سمجھدار تو نہیں ہوتی نا؟ بلکہ جو لڑکے پڑھائی چھوڑ کر فضولیات میں وقت ضائع کرتے ہیں ان پر بھی پابندی ہونی چاہئے۔لولززز کوائیٹ فنی
کنواری لڑکیوں پر سانس لینے کی پابندی بھی ہونی چاہیے۔
تو ایسے لوگ ہیں یہاں! میں تو نووارد ہوں ، آپ یقیناً مجھ سے بہتر جانتے ہونگےاظہار رائے کا مخالف نہیں، نام اور جنس بدل بدل کر کے محض فتنہ پروری کی نیت سے آنے والے افراد پر پابندی کا قائل ہوں
آپ کے مراسلے نے دل باغ باغ کردیا۔ہوتا یہ ہے کہ ہم صرف سنسنی اور تنقید کو پسند کرتے ہیں ، مسائل کے عملی حل کو نہیں ۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کے دیگر ذرائع کے ساتھ ساتھ موبائل فون نے بھی زندگیوں پر بہت اثرات ڈالے ہیں جن میں سے کچھ منفی اثرات ایسے ہیں جن سے دنیا کے آزاد معاشرہ ہونے کے دعویدار بھی تشویش کے شکار ہیں ۔ ذرا اپنے ارد گرد میڈیا اور تحقیق پر نظردوڑائیں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ اثرات معاشروں کو ذہنی اور اخلاقی تبدیلی سے کس حد تک دوچار کر رہے ہیں ۔
ان معلوم حقائق کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ مشرق ہو یا مغرب کوئی ایسا نظام ابھی تک وضع نہیں کیا جا سکا کہ اس کے تباہ کن اثرات سے نمٹا جا سکے ۔ حالانکہ یہ ایسا مسئلہ بھی نہیں جو حل نہ کیا جا سکے ۔ اگر نیت صاف ہو تو نہایت قلیل مدت میں نوجوان نسل کو اس کے غلط استعمال سے روکا جا سکتا ہے لیکن جہاں ماں باپ اور اساتذہ اپنی ذمہ داریوں سے اغماض برت رہے ہیں وہیں حکومتیں بھی موبائل فون کے بے مقصد اور غلط استعمال سے ہونے والی خطیر آمدنی سے محروم نہیں ہونا چاہتیں ۔
اس کا سادہ سا حل فیملی فون ہے جس کا ذکر میں اس سے قبل بھی کر چکا ہوں ۔ فیملی فون ایسا موبائل فون ہوتا ہے جس سے صرف چند ایک مخصوص نمبروں پر ہی کال کی جا سکتی ہے ۔ اس کی سم بلٹ ان ہوتی ہے اور گھر کے ذمہ دار فرد کے نام پر جاری کیا جاتا ہے یوں راہ چلتا کوئی بھی بچہ یا بچی یہ سم خفیہ طور پر خرید اور استعمال نہیں کر سکتی۔ اور والدین اس کا کال کسی بھی وقت ریکارڈ چیک کر سکتے ہیں ۔ اب تو ٹیکنالوجی میں اتنی جدت آ چکی ہے کہ دیگر اقسام کی سہولتوں کے ساتھ ساتھ اس کی مدد سے اپنے بچوں کی نقل و حرکت پر بھی نظر رکھی جا سکتی ہے یعنی یہ "عذاب" ذرا سی توجہ سے نعمت میں بدل سکتا ہے ۔
یہ بات درست کہ اس قسم کے اقدامات سے بچوں کو بے راہ روی سے مکمل طور پر روکا تو نہیں جا سکتا کیونکہ سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ کے دیگر ذرائع بھی ان کی عام دسترس میں ہیں لیکن انہیں اتنی آسانی سے استعمال نہیں کیا جا سکتا جتنی آسانی سے موبائل کو کیا جاتا ہے اس لئے صرف موبائل کے غلط استعمال پر نظر رکھنے سے حالات میں کافی بہتری آ سکتی ہے ۔ جبکہ موبائل فون اب بہت جدید ہو چکا ہے اس میں نیٹ کی سہولت دستیاب ہونے کے دور میں بالا کی تجویز کچھ دوستوں کی نظر میں ناسٹالجیا کے زمرے میں سمجھی جا سکتی ہے لیکن ذرا دھیان کریں کہ اگر ہم قانون کی پابندی ، اخلاقیات اور دیگر مثبت معاشرتی ، سائنسی ، فنی اور ثقافتی اقدار میں پسماندگی کے شکار ہو کر بھی شرمندہ نہیں ہیں تو موبائلی پسماندگی پر "شرمندگی" کی کوئی وجہ نہ ہو گی ۔ ویسے بھی یہ پسماندگی صرف اور صرف اپنی نئی نسل کو قبل از وقت بلوغت کی ایڈوانس منٹ سے روکنے کے لئے ہے ورنہ ہمہ قسم ترقی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ شہر بھر کے مختلف "ڈیٹ پوائنٹس" پر "ترقی" کے کافی مناظر مشاہدے میں آتے ہیں لیکن ایسے ترقی یافتگان بھی ترقی کی طرف پہلا قدم موبائل سے ہی بڑھاتے ہیں ۔ اگر ابا جی کو فیملی فون سے پتہ چل جائے کہ ان کے لعل نے آج گلنار سے وصل کیا تو جہاں "گُل" کو قبل از وقت "نار" بننے سے روکا جا سکے گا وہیں لعل کو شرم دلا کر مزید لال بھی کیا جا سکے گا۔
اگر کچھ دوست پی ٹی اے سے رابطے میں رہتے ہیں تو فیملی فون کے لئے پی ٹی اے اور میڈیا کے سامنے آواز اٹھائیں تو یہ مسئلے کے عملی حل کی طرف ایک اہم قدم ہو سکتا ہے ۔