بھارت کے ایک ضلع میں غیر شادی شدہ لڑکیوں کے موبائل فون استعمال کرنے پر پابندی

news1225-580x228.jpg

http://www.saach.tv/2013/12/26/news4-285/
 
آخری تدوین:

تلمیذ

لائبریرین
کنواری لڑکیوں پر سانس لینے کی پابندی بھی ہونی چاہیے۔ :rollingonthefloor:

خیر فی زمانہ ایسی تو کوئی بات نہیں۔لیکن آپ تصور نہیں کر سکتیں کہ یہ چھوٹا سا آلہ، جو بذات خود انتہائی مفید ہے، بعض صورتوں میں (خصوصاً کنواری لڑکیوں اور ان کے والدین کے لئے) کتنا سوہان روح بنا ہوا ہے۔او ر اس کے بے جا استعمال کے نتیجے میں کئی خاندانوں کا سکون تباہ ہو چکا ہے۔
 

مقدس

لائبریرین
خیر فی زمانہ ایسی تو کوئی بات نہیں۔لیکن آپ تصور نہیں کر سکتیں کہ یہ چھوٹا سا آلہ، جو بذات خود انتہائی مفید ہے، بعض صورتوں میں (خصوصاً کنواری لڑکیوں اور ان کے والدین کے لئے) کتنا سوہان روح بنا ہوا ہے۔او ر اس کے بے جا استعمال کے نتیجے میں کئی خاندانوں کا سکون تباہ ہو چکا ہے۔
انکل
یہ بات صرف لڑکیوں پر لاگو نہیں کی جا سکتی ناں ۔۔ اٹس سیم ود میلز ٹو
اور موبائل پر پابندی لگانے کے بجائے پیرنٹس کو ان کی تربیت پر دھیان دینا چاہیے۔۔ نہیں تو چور راستے اور بھی بہت مل جایا کرتے ہیں
 

محمداحمد

لائبریرین
شادی کی قید تو نہیں ہونی چاہیے۔ ہاں البتہ کم سن بچوں کو موبائل کمیونیکیشن سے بچا کر رکھا جائے تو بہتر ہے۔ بچوں میں فہم و فراست آ جانے کے بعد کوئی حرج نہیں ہے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
انکل
یہ بات صرف لڑکیوں پر لاگو نہیں کی جا سکتی ناں ۔۔ اٹس سیم ود میلز ٹو
سو فیصدی متفق۔ بلکہ میں تو کہوں گا ، کہ نا سمجھ لڑکیوں کو اس آفت کا سہارا لے کر لڑکے ہی غلط راہ پر لگاتے ہیں۔ اور پھر مروجہ ماحول اور بےجا آزادی نیزمناسب نگرانی کا نہ ہونااور اسی طرح کے کئی عناصر اس بگاڑ کو اور مہمیز دیتے ہیں۔
 

x boy

محفلین
اب پھر سے عاشقی ماشقی کے لئے پرندے استعمال ہونگے،
ایک دفعہ یہی ہوا کہ ایک عاشق نے اپنے ماشق کو بغیر میسچ کے کبوتر بھیج دیا
ماشق نے کبوتر کے ساتھ میسچ بھیجا کہ یہ کیا اس دفعہ خالی کبوتر آیا ہے
عاشق نے لکھ کر بھیجا مس کال دیا تھا۔
 

عثمان

محفلین
اچھی پابندی ہے۔ غیر شادی شدہ نوجوانوں پر بھی ہونی چاہیے۔
حضور۔۔ صرف موبائل فون ہی کیوں ؟ ٹی وی ، انٹرنیٹ اس میدان میں کیا کم ہیں۔ ان سب پر بھی پابندی ہو۔ آپ یہ پابندیاں اپنے طبقے کے افراد پر لگائیں ، تاکہ ان تمام آلات کی جان آپ جیسے لوگوں سے چھوٹے۔
 

عثمان

محفلین
اب پھر سے عاشقی ماشقی کے لئے پرندے استعمال ہونگے،
ایک دفعہ یہی ہوا کہ ایک عاشق نے اپنے ماشق کو بغیر میسچ کے کبوتر بھیج دیا
ماشق نے کبوتر کے ساتھ میسچ بھیجا کہ یہ کیا اس دفعہ خالی کبوتر آیا ہے
عاشق نے لکھ کر بھیجا مس کال دیا تھا۔
آپ پر تو محفل میں بھی پابندی ہونی چاہیے۔
 
لولززز کوائیٹ فنی
کنواری لڑکیوں پر سانس لینے کی پابندی بھی ہونی چاہیے۔ :rollingonthefloor:
آپ پر پابندی کی بات نہیں ہورہی لیکن ہر لڑکی آپ کی طرح سمجھدار تو نہیں ہوتی نا؟ بلکہ جو لڑکے پڑھائی چھوڑ کر فضولیات میں وقت ضائع کرتے ہیں ان پر بھی پابندی ہونی چاہئے۔
 

ساجد

محفلین
ہوتا یہ ہے کہ ہم صرف سنسنی اور تنقید کو پسند کرتے ہیں ، مسائل کے عملی حل کو نہیں ۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کے دیگر ذرائع کے ساتھ ساتھ موبائل فون نے بھی زندگیوں پر بہت اثرات ڈالے ہیں جن میں سے کچھ منفی اثرات ایسے ہیں جن سے دنیا کے آزاد معاشرہ ہونے کے دعویدار بھی تشویش کے شکار ہیں ۔ ذرا اپنے ارد گرد میڈیا اور تحقیق پر نظردوڑائیں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ اثرات معاشروں کو ذہنی اور اخلاقی تبدیلی سے کس حد تک دوچار کر رہے ہیں ۔
ان معلوم حقائق کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ مشرق ہو یا مغرب کوئی ایسا نظام ابھی تک وضع نہیں کیا جا سکا کہ اس کے تباہ کن اثرات سے نمٹا جا سکے ۔ حالانکہ یہ ایسا مسئلہ بھی نہیں جو حل نہ کیا جا سکے ۔ اگر نیت صاف ہو تو نہایت قلیل مدت میں نوجوان نسل کو اس کے غلط استعمال سے روکا جا سکتا ہے لیکن جہاں ماں باپ اور اساتذہ اپنی ذمہ داریوں سے اغماض برت رہے ہیں وہیں حکومتیں بھی موبائل فون کے بے مقصد اور غلط استعمال سے ہونے والی خطیر آمدنی سے محروم نہیں ہونا چاہتیں ۔
اس کا سادہ سا حل فیملی فون ہے جس کا ذکر میں اس سے قبل بھی کر چکا ہوں ۔ فیملی فون ایسا موبائل فون ہوتا ہے جس سے صرف چند ایک مخصوص نمبروں پر ہی کال کی جا سکتی ہے ۔ اس کی سم بلٹ ان ہوتی ہے اور گھر کے ذمہ دار فرد کے نام پر جاری کیا جاتا ہے یوں راہ چلتا کوئی بھی بچہ یا بچی یہ سم خفیہ طور پر خرید اور استعمال نہیں کر سکتی۔ اور والدین اس کا کال کسی بھی وقت ریکارڈ چیک کر سکتے ہیں ۔ اب تو ٹیکنالوجی میں اتنی جدت آ چکی ہے کہ دیگر اقسام کی سہولتوں کے ساتھ ساتھ اس کی مدد سے اپنے بچوں کی نقل و حرکت پر بھی نظر رکھی جا سکتی ہے یعنی یہ "عذاب" ذرا سی توجہ سے نعمت میں بدل سکتا ہے ۔
یہ بات درست کہ اس قسم کے اقدامات سے بچوں کو بے راہ روی سے مکمل طور پر روکا تو نہیں جا سکتا کیونکہ سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ کے دیگر ذرائع بھی ان کی عام دسترس میں ہیں لیکن انہیں اتنی آسانی سے استعمال نہیں کیا جا سکتا جتنی آسانی سے موبائل کو کیا جاتا ہے اس لئے صرف موبائل کے غلط استعمال پر نظر رکھنے سے حالات میں کافی بہتری آ سکتی ہے ۔ جبکہ موبائل فون اب بہت جدید ہو چکا ہے اس میں نیٹ کی سہولت دستیاب ہونے کے دور میں بالا کی تجویز کچھ دوستوں کی نظر میں ناسٹالجیا کے زمرے میں سمجھی جا سکتی ہے لیکن ذرا دھیان کریں کہ اگر ہم قانون کی پابندی ، اخلاقیات اور دیگر مثبت معاشرتی ، سائنسی ، فنی اور ثقافتی اقدار میں پسماندگی کے شکار ہو کر بھی شرمندہ نہیں ہیں تو موبائلی پسماندگی پر "شرمندگی" کی کوئی وجہ نہ ہو گی ۔ ویسے بھی یہ پسماندگی صرف اور صرف اپنی نئی نسل کو قبل از وقت بلوغت کی ایڈوانس منٹ سے روکنے کے لئے ہے ورنہ ہمہ قسم ترقی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ شہر بھر کے مختلف "ڈیٹ پوائنٹس" پر "ترقی" کے کافی مناظر مشاہدے میں آتے ہیں لیکن ایسے ترقی یافتگان بھی ترقی کی طرف پہلا قدم موبائل سے ہی بڑھاتے ہیں ۔ اگر ابا جی کو فیملی فون سے پتہ چل جائے کہ ان کے لعل نے آج گلنار سے وصل کیا تو جہاں "گُل" کو قبل از وقت "نار" بننے سے روکا جا سکے گا وہیں لعل کو شرم دلا کر مزید لال بھی کیا جا سکے گا۔
اگر کچھ دوست پی ٹی اے سے رابطے میں رہتے ہیں تو فیملی فون کے لئے پی ٹی اے اور میڈیا کے سامنے آواز اٹھائیں تو یہ مسئلے کے عملی حل کی طرف ایک اہم قدم ہو سکتا ہے ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
قیصرانی بھائی آپ اظہار رائے کے مخالف کیوں ہیں؟ جو بھی بندہ تہذیب کے دائرے میں رہ کر اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتا ہے اسکو آزادی ہونی چاہئے۔
اظہار رائے کا مخالف نہیں، نام اور جنس بدل بدل کر کے محض فتنہ پروری کی نیت سے آنے والے افراد پر پابندی کا قائل ہوں :)
 
اظہار رائے کا مخالف نہیں، نام اور جنس بدل بدل کر کے محض فتنہ پروری کی نیت سے آنے والے افراد پر پابندی کا قائل ہوں :)
تو ایسے لوگ ہیں یہاں! میں تو نووارد ہوں ، آپ یقیناً مجھ سے بہتر جانتے ہونگے
نوٹ: ً کی ٹپ دینے کا شکریہ
 
ہوتا یہ ہے کہ ہم صرف سنسنی اور تنقید کو پسند کرتے ہیں ، مسائل کے عملی حل کو نہیں ۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کے دیگر ذرائع کے ساتھ ساتھ موبائل فون نے بھی زندگیوں پر بہت اثرات ڈالے ہیں جن میں سے کچھ منفی اثرات ایسے ہیں جن سے دنیا کے آزاد معاشرہ ہونے کے دعویدار بھی تشویش کے شکار ہیں ۔ ذرا اپنے ارد گرد میڈیا اور تحقیق پر نظردوڑائیں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ اثرات معاشروں کو ذہنی اور اخلاقی تبدیلی سے کس حد تک دوچار کر رہے ہیں ۔
ان معلوم حقائق کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ مشرق ہو یا مغرب کوئی ایسا نظام ابھی تک وضع نہیں کیا جا سکا کہ اس کے تباہ کن اثرات سے نمٹا جا سکے ۔ حالانکہ یہ ایسا مسئلہ بھی نہیں جو حل نہ کیا جا سکے ۔ اگر نیت صاف ہو تو نہایت قلیل مدت میں نوجوان نسل کو اس کے غلط استعمال سے روکا جا سکتا ہے لیکن جہاں ماں باپ اور اساتذہ اپنی ذمہ داریوں سے اغماض برت رہے ہیں وہیں حکومتیں بھی موبائل فون کے بے مقصد اور غلط استعمال سے ہونے والی خطیر آمدنی سے محروم نہیں ہونا چاہتیں ۔
اس کا سادہ سا حل فیملی فون ہے جس کا ذکر میں اس سے قبل بھی کر چکا ہوں ۔ فیملی فون ایسا موبائل فون ہوتا ہے جس سے صرف چند ایک مخصوص نمبروں پر ہی کال کی جا سکتی ہے ۔ اس کی سم بلٹ ان ہوتی ہے اور گھر کے ذمہ دار فرد کے نام پر جاری کیا جاتا ہے یوں راہ چلتا کوئی بھی بچہ یا بچی یہ سم خفیہ طور پر خرید اور استعمال نہیں کر سکتی۔ اور والدین اس کا کال کسی بھی وقت ریکارڈ چیک کر سکتے ہیں ۔ اب تو ٹیکنالوجی میں اتنی جدت آ چکی ہے کہ دیگر اقسام کی سہولتوں کے ساتھ ساتھ اس کی مدد سے اپنے بچوں کی نقل و حرکت پر بھی نظر رکھی جا سکتی ہے یعنی یہ "عذاب" ذرا سی توجہ سے نعمت میں بدل سکتا ہے ۔
یہ بات درست کہ اس قسم کے اقدامات سے بچوں کو بے راہ روی سے مکمل طور پر روکا تو نہیں جا سکتا کیونکہ سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ کے دیگر ذرائع بھی ان کی عام دسترس میں ہیں لیکن انہیں اتنی آسانی سے استعمال نہیں کیا جا سکتا جتنی آسانی سے موبائل کو کیا جاتا ہے اس لئے صرف موبائل کے غلط استعمال پر نظر رکھنے سے حالات میں کافی بہتری آ سکتی ہے ۔ جبکہ موبائل فون اب بہت جدید ہو چکا ہے اس میں نیٹ کی سہولت دستیاب ہونے کے دور میں بالا کی تجویز کچھ دوستوں کی نظر میں ناسٹالجیا کے زمرے میں سمجھی جا سکتی ہے لیکن ذرا دھیان کریں کہ اگر ہم قانون کی پابندی ، اخلاقیات اور دیگر مثبت معاشرتی ، سائنسی ، فنی اور ثقافتی اقدار میں پسماندگی کے شکار ہو کر بھی شرمندہ نہیں ہیں تو موبائلی پسماندگی پر "شرمندگی" کی کوئی وجہ نہ ہو گی ۔ ویسے بھی یہ پسماندگی صرف اور صرف اپنی نئی نسل کو قبل از وقت بلوغت کی ایڈوانس منٹ سے روکنے کے لئے ہے ورنہ ہمہ قسم ترقی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ شہر بھر کے مختلف "ڈیٹ پوائنٹس" پر "ترقی" کے کافی مناظر مشاہدے میں آتے ہیں لیکن ایسے ترقی یافتگان بھی ترقی کی طرف پہلا قدم موبائل سے ہی بڑھاتے ہیں ۔ اگر ابا جی کو فیملی فون سے پتہ چل جائے کہ ان کے لعل نے آج گلنار سے وصل کیا تو جہاں "گُل" کو قبل از وقت "نار" بننے سے روکا جا سکے گا وہیں لعل کو شرم دلا کر مزید لال بھی کیا جا سکے گا۔
اگر کچھ دوست پی ٹی اے سے رابطے میں رہتے ہیں تو فیملی فون کے لئے پی ٹی اے اور میڈیا کے سامنے آواز اٹھائیں تو یہ مسئلے کے عملی حل کی طرف ایک اہم قدم ہو سکتا ہے ۔
آپ کے مراسلے نے دل باغ باغ کردیا۔
 
Top