سید زبیر
محفلین
بھارت کے سابق صدر اور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ذاکر حسین کی کتاب 'حالی محب وطن ' مطبوعہ ۱۹۴۳سے اقتباس
" حالی نے بھی اپنے مرشد سید احمد خاں اور دوسرے ممتاز ساتھیوں کی طر ح انگریزی تسلط کو اسی نظر سے دیکھا۔اسی لیے اس پر اطمینان کا اظہار اور اسی وجہ سے اس کے ساتھ تعاون کی تلقین کی ۔میرا خیال ہے کہ اگر حالی آج زندہ ہوتے تو بھی برطانیہ اور ہندوستان کے اس تعلق کو جو اس ہنگامہ خیز عہد میں پہلی مرتبہ مستحکم ہوا تھا اچا ہی جانتے اور ذمہ داری اور وفاق وفاق کی خوش آیندتوقعات کی وجہ وہ حالات کے تغیر کے با وجود بھی شائد دونوں قوموں کے لیے اس تعلق کے برقرار رہنے کے متمنی ہوتے ۔ لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ اگر ان توقعات کے پورا ہونے کے قرائن نہ ہوتے اور محکومیت مطلق کی جگہ شریک حکومت ہونے کی امید قوی نہ ہوتی
تو حالی کا وطن دوست دل اس تعلق کی ذلت کے احساس سے خالی اور اس کی زبان اس احساس کے اظہار سے محترز نہ رہتی اس لیے کہ اس وقت بھی جب اور سب کو اس تعلق کے برکات ہی نظر آتے تھے اور خود حالی کی عقل اس تعلق کی مقر تھی اس کے دل میں ضرور ایک کانٹا سا کھٹکتا تھا ، جس کے دکھ کا اظہار عقل کی پاسبانی کے باعث رک رک کر ہی سہی 'مگر ہوتا ضرور تھا !
آپ ان کے کلام کو غور سے پڑھئیے ۔جگہ جگہ اور اکثر متوقع طور پر ایسے شعر ملیں گے جن میں صاف اس تکلیف کا اظہار ہوتا ہے۔کالے اور گورے کی صحت کے طبی امتحان والا قطعہ آپ سب نے پڑھا ہوگا ۔ دو شخص ایک کالا ایک گورا سول سرجن کے پاس بیماری کا صداقت نامہ لینے جارہے ہیں راستہ میں تکرار ہوگئی گورے نے کالے کو مارا 'کالا غریب بے ہوش ہو گیا ۔ڈولی میں پڑ کر ڈاکٹر صاحب کے پاس گیا گورا یوں ہی پہنچا دونوں نے ڈاکٹر صاحب سے روئداد بیان کی تو انھوں نے :
دی سند گورے کو لکھ ' تھی جس میں تصدیق مرض
اور یہ لکھا تھا سائل ہے بہت زار و نازار
یعنی اک کالا نہ جس گورے کے مکے سے مرے
کر نہیں سکتا حکومت ہند پر وہ زینہار
اور کہا کالے سے 'تم کو مل نہیں سکتی سند
کیونکہ تم معلوم ہوتے ہو بظاہر جاندار
ایک کالا پِٹ کے جو گورے سے فوراً مر نہ جائے
آئے بابا اس کی بیماری کا کیونکر اعتبار
دیوان میں غزلیں پڑھتے پڑھتے یہ شعرت سامنے آجائے کہ ،
روسی ہوں یا تتاری ہم کو ستائیں گے کیا
دیکھا ہے ہم برسوں لطف و کرم تمہارا
یا یہ کہ :
داد طلب سب غیر ہوں جب تو ان میں کسی کا پاس نہ ہو
بتلائی ہے زمانہ نے انصاف کی یہ پہچان ہمیں
صحرا میں کچھ بکریوں کو قصاب چراتا پھرتا تھا
دیکھ کے اس کو سارے تمہارے آگئے یاد احسان ہمیں
تو آپ کیا سمجھیں گے ؟
زمزمۂ قیصری کے نام سے جو ایک انگریزی نظم کا ترجمہ کیا ہے اس کے ایک طویل حاشیہ میں کس دکھ کے ساتھ اس بربادی کا ذکر کیا ہے جو متمدن مغربی اقوام کے ہاتھوں اکثر غیر یورپی ممالک میں برپا ہوئے ۔ لکھتے لکھتے یہ کہہ کر کسی نے کیا خوب کہا ہے '
خود اپنے دو شعر نقل کرتے ہیں :
نہیں خالی ضرر سے وحشیتوں کی لوٹ بھی 'لیکن
عذر اس لوٹ سے سے جو لوٹ ہے علمی واخلاقی
نہ گل چھوڑے ،نہ برگ و بار چھوڑے تو گلشن میں
یہ گلچینی ہے یا لٹس ہے گلچین،یا قزاقی!
تدبیرقیامِ سلطنت والا قطعہ پڑھئیے کہ
تدبیر یہ کہتی تھی کہ جو ملک ہو مفتوح
واں پاؤں جمانے کے لیے تفرقہ ڈالو
اور عقل خلاف اس کے تھی یہ مشورہ دیتی
یہ حرف ِسبک بھول کے منہ سے نہ نکالو
پر رائے نے فرمایا کہ جو کہتی ہے تدبیر
مانو اسے'اور عقل کا کہنا بھی نہ ٹالو
کرنے کے ہیں جو وہ کرتے رہتے رہو لیکن
جا بات سبک ہو اسے منہ سے نہ نکالو
تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ حالی کی نظر ہماری سیاسی بے بسی کے ان گوشوں سے بے خبر نہ تھی اور اس کا دل تعبد کی ان تکلیفوں سے نا آشنا نہ تھا مگر حالی کی تصانیف پر غور سے نظر ڈالیے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ عنصر ان کے حب وطن کے جذبے میں کچھ بہت اہم اور موثر جزو نہ تھا۔ "