وسیم
محفلین
بھان متی کا کنبہ۔ پارٹ ٹو - پروفیسر افسانچی
یوں تو بھان متی کے کنبے میں بھانت بھانت کے "نمونچے" موجود ہیں۔ لیکن ہوا کچھ یوں کہ چند سال پہلے پاکستان میں کیمسٹری کے ایک "پروفینچی" سے ہاتھ پاؤں جوڑ کر معافی مانگی گئی اور انہوں نے بھی کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریٹائرمنٹ قبول کر لی۔اور یوں وہ ادبی داستان شروع ہوئی جس کا اختتام بھان متی کے کنبے میں ایک اور فرد افسانچی کے اضافے سے ہوا۔
ایسی نادر شخصیت کے ادبی عدم سے وجود میں آنے والی داستان کیمیاوی بھی ہے اور ادبیاوی بھی۔ پروفینچی صاحب جو ساریزندگی تیزاب کے مرکب سے نمک حاصل کر کے سالن میں ڈالتے رہے، انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد ادب پر بھی تجربہ کرنے کافیصلہ کر ڈالا۔
اس بات پہ پہلے تو ان کے جاننے والے حیران ہوئے مگر رفتہ رفتہ انہیں یقین ہو گیا کہ اردو ادب کا نیا "ڈپٹی نذیر احمد" آ وارد ہواہے۔ لیکن برا ہو طبعیت کی چونچالی کا جس سے زندگی تیزاب سے نکل کر عذاب میں آ گئی۔ نا تو شاعری کے فارمولے کا انہیں پتہ چل سکا اور نہ ہی ناول نگاری کے کیمیائی خواص ان کے کنوارے (ادبی کنوارے) ہاتھوں پہ مہندی رچا سکے۔
یہ بہت ہی پریشان کن صورتحال تھی۔ پریشانی کے اسی دور میں اچانک ایک دن ٹی وی پہ ڈی جے علامہ عامر لیاقت حسین کو دین سے غالب اور غالب سے مفکری پہ چھلانگیں مارتے دیکھا تو آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر آنکھ مارتے ہوئے مسکرا کے بولے، ہماری پروفیسری کے ہوتے ہوئے اب ایسا نہیں چلے گا۔
اور پھر ادب کو ایسا آم کھانے کو دیا کہ بیچارے افسانے کا ملک شیک بنا بیٹھے۔ ایک لائین ادھر سے اچکی، دوسری سطر وہاں سے پکڑی، کومے اور فل سٹاپ کو کان پکڑوائے اور انگلیوں پہ گن کے پوری سات لائنیں لکھیں، مسکرا کر خیالی مونچھوں کا تاؤ دیا اوراس عجیب و غریب مرکب کو افسانچہ قرار دے ڈالا۔ کچھ دنیا حیران، باقی پریشان کہ پروفینچی صاحب یہ کیا ایجاد کر بیٹھے۔
نہ سر نہ پیر، نہ کہانی نہ لطیفہ، نہ منہ نہ متھا، نہ اینٹ نہ روڑا، نہ پان نہ پاندان، نہ روٹی کپڑا نہ مکان۔ یار دوستوں نے بہت سمجھایا کہ افسانے کو اسٹوڈنٹس کا مستقبل سمجھ کر برباد نہ کرو اور ادب کو ان عجائباتِ کیمیاوی سے غسل دینے سے پرہیز کرو۔
لیکن دوستوں افسانچہ صاحب ڈٹ گئے کہ آنے والا دور صرف تباہی اوہ سوری افسانچے کا ہے۔ وہ اپنے عظیم الشان تجربے کولیے گلی گلی رانجھا بن کر گھومتے پھر رہے تھے کہ اچانک آسٹریلیا والوں نے ویزہ دے کر پاکستانیوں کی جان بخشی کروا دی۔ آسٹریلیامیں وارد ہوئے تو بھان متی کی سرچ لائٹ آنکھوں نے اپنا وہ انوکھا روڑہ پہچان لیا جو برسوں پہلے داتا صاحب کے عرس پہ چاولوں کا لفافہ لوٹتے بچھڑ گیا تھا۔
ایک پروقار محفل میں ان کو مدعو کیا گیا، حسب عادت اور حسب توفیق ان کو مکھن لگایا گیا اور سب نے مل جل کر اس کیمیائی تجربے کو پروفیسر افسانچی کا نام دے کر باقاعدہ اپنے کنبے میں شامل کر لیا۔ تو دوستوں یوں کنبے میں اس نادر روڑے (نمونچے) کا بھی اضافہ ہوگیا، جس کے بغیر یہ کُنبہ نا مکمل رہتا۔
یوں تو بھان متی کے کنبے میں بھانت بھانت کے "نمونچے" موجود ہیں۔ لیکن ہوا کچھ یوں کہ چند سال پہلے پاکستان میں کیمسٹری کے ایک "پروفینچی" سے ہاتھ پاؤں جوڑ کر معافی مانگی گئی اور انہوں نے بھی کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریٹائرمنٹ قبول کر لی۔اور یوں وہ ادبی داستان شروع ہوئی جس کا اختتام بھان متی کے کنبے میں ایک اور فرد افسانچی کے اضافے سے ہوا۔
ایسی نادر شخصیت کے ادبی عدم سے وجود میں آنے والی داستان کیمیاوی بھی ہے اور ادبیاوی بھی۔ پروفینچی صاحب جو ساریزندگی تیزاب کے مرکب سے نمک حاصل کر کے سالن میں ڈالتے رہے، انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد ادب پر بھی تجربہ کرنے کافیصلہ کر ڈالا۔
اس بات پہ پہلے تو ان کے جاننے والے حیران ہوئے مگر رفتہ رفتہ انہیں یقین ہو گیا کہ اردو ادب کا نیا "ڈپٹی نذیر احمد" آ وارد ہواہے۔ لیکن برا ہو طبعیت کی چونچالی کا جس سے زندگی تیزاب سے نکل کر عذاب میں آ گئی۔ نا تو شاعری کے فارمولے کا انہیں پتہ چل سکا اور نہ ہی ناول نگاری کے کیمیائی خواص ان کے کنوارے (ادبی کنوارے) ہاتھوں پہ مہندی رچا سکے۔
یہ بہت ہی پریشان کن صورتحال تھی۔ پریشانی کے اسی دور میں اچانک ایک دن ٹی وی پہ ڈی جے علامہ عامر لیاقت حسین کو دین سے غالب اور غالب سے مفکری پہ چھلانگیں مارتے دیکھا تو آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر آنکھ مارتے ہوئے مسکرا کے بولے، ہماری پروفیسری کے ہوتے ہوئے اب ایسا نہیں چلے گا۔
اور پھر ادب کو ایسا آم کھانے کو دیا کہ بیچارے افسانے کا ملک شیک بنا بیٹھے۔ ایک لائین ادھر سے اچکی، دوسری سطر وہاں سے پکڑی، کومے اور فل سٹاپ کو کان پکڑوائے اور انگلیوں پہ گن کے پوری سات لائنیں لکھیں، مسکرا کر خیالی مونچھوں کا تاؤ دیا اوراس عجیب و غریب مرکب کو افسانچہ قرار دے ڈالا۔ کچھ دنیا حیران، باقی پریشان کہ پروفینچی صاحب یہ کیا ایجاد کر بیٹھے۔
نہ سر نہ پیر، نہ کہانی نہ لطیفہ، نہ منہ نہ متھا، نہ اینٹ نہ روڑا، نہ پان نہ پاندان، نہ روٹی کپڑا نہ مکان۔ یار دوستوں نے بہت سمجھایا کہ افسانے کو اسٹوڈنٹس کا مستقبل سمجھ کر برباد نہ کرو اور ادب کو ان عجائباتِ کیمیاوی سے غسل دینے سے پرہیز کرو۔
لیکن دوستوں افسانچہ صاحب ڈٹ گئے کہ آنے والا دور صرف تباہی اوہ سوری افسانچے کا ہے۔ وہ اپنے عظیم الشان تجربے کولیے گلی گلی رانجھا بن کر گھومتے پھر رہے تھے کہ اچانک آسٹریلیا والوں نے ویزہ دے کر پاکستانیوں کی جان بخشی کروا دی۔ آسٹریلیامیں وارد ہوئے تو بھان متی کی سرچ لائٹ آنکھوں نے اپنا وہ انوکھا روڑہ پہچان لیا جو برسوں پہلے داتا صاحب کے عرس پہ چاولوں کا لفافہ لوٹتے بچھڑ گیا تھا۔
ایک پروقار محفل میں ان کو مدعو کیا گیا، حسب عادت اور حسب توفیق ان کو مکھن لگایا گیا اور سب نے مل جل کر اس کیمیائی تجربے کو پروفیسر افسانچی کا نام دے کر باقاعدہ اپنے کنبے میں شامل کر لیا۔ تو دوستوں یوں کنبے میں اس نادر روڑے (نمونچے) کا بھی اضافہ ہوگیا، جس کے بغیر یہ کُنبہ نا مکمل رہتا۔