بھان متی کا کنبہ - پارٹ تھری - شاعر الموت دیوانہ

وسیم

محفلین
شاعر الموت دیوانے سے بھان متی کا تعلق بہت دیر سے بنا۔ جیسے دو پیار کرنے والے سڑک پہ کسی حادثے میں ملتے ہیں ویسے ہی سڈنی میں بھان متی اور دیوانے کا ملن ہوا۔ تھیلی کا روڑہ جب اپنی اصل فنی و ادبی مادرِ گاہ پہنچا تو کہکشانِ ادب کا وہ نیا ستارہ ظہور پذیر ہوا جس کی روشنی سے قبیلہ بھان متی اردو بے ادبی کی اک نئی جہت سے روشناس ہو گیا۔


سڈنی کی حسین شام میں دشمنانِ پاکستان کے ریسٹورنٹ میں بھان متی اپنے دربارِ ادبیہ میں ادیبانہ زندگانی کی گونا گو کامیابیوں کا قصہِ الف لیلیٰ بزبانِ خود، مبہوت بیٹھے، منہ کھولے، آنکھیں پھاڑے سامعین کے گوش گزار کر رہے تھے کہ اچانک بھان متی زندہ باد کےنعرے نے کُنبے کو چونکا دیا۔ پلٹ کر دیکھنے پہ ایک کلین شیو "ادھیڑ عمر نوجوان" ماتھے پہ بال بکھرائے، مسکین سی صورت بنائے، وفورِ عقیدت و احترام بھان متی کے چہرے کی بلائیں لیتا نظر آیا۔ بھان متی کے بے نیازانہ عینک کے پیچھے سے سوالیہ اندازمیں دیکھنے پہ اس نے دونوں ہاتھ سر پہ رکھے تو بھان متی نے بندہ پروری کے خیال کے زیرِ اثر اذنِ کلام کی اجازت مرحمت فرمائی۔

"خاکسار کو دیوانہ کہتے ہیں، عرصہ دراز سے سڈنی کا رہائشی ہوں، حضور کی ادبی سرپرستی سے واقف ہوں اور آپ کی سرپرستی میں شاعری کا بیڑہ غرق سوری بیڑہ پار لگانا چاہتا ہوں۔ آج آپ کی ادبی زندگی کی ایسی شاندار روداد سن کر یہ عاجز خود کو بھان متی کا دیوانہ کہلوانا چاہتا ہے" دیوانے نے مکھن لگاتے ہوئے عرض کیا۔ بھان متی کی انا یہ سن کر فوراً مینار پاکستان پہ چڑھ گئی اوراس نے دیوانے کو گراں قدر اعزاز سے نوازتے ہوئے اپنے کلام کا تعارف کروانے اور اسے سامعین محفل کے سامنے پیش کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ دیوانے نے نہایت ہوشیاری سے سب کو دیوانہ بناتے ہوئے پہلے سے پبلش کردہ اپنی بے ہنگم ، معاف کیجیے گا بے ڈھنگ، پھر معاف کیجیے گا بے دھڑک، بے وزن، بے دید و بے شرم (اکٹھے ہی معافی دیجیے گا) شاعری کی کتاب(جس کے تمام نسخے اس نے مارکیٹ سے خود ہی خرید رکھے تھے) ہر ایک اینٹ و روڑے کے سامنے دھر دی۔ تمام روڑے جواپنے سامنے ادبی ہیروں کو ایک پتھر سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نا تھے وہ منہ پھاڑے یہ عجیب منظر دیکھ رہے تھے۔ کہاں تو وہ بھان متی کی محفل میں ایک ایک شعر سنانے کو ترستے تھے اور کہاں یہ دیوانہ آیا، اس نے دیکھا اور پوری محفل کو فتح کر ڈالا۔

اُدھر چار و ناچار بعوض تعریف بھان متی کو چند صفحے دیوانے کی شاعری کے پڑھنے پڑے۔ دیوانے کی ملغوبہ شاعری سے کُنبے کےکان سنسنا اٹھے اور بھان متی کی زبان بھی لڑکھڑانے لگی۔ اس نے مسکینہ و التجائیہ نگاہوں سے چاچا سیاپے کی طرف سیاپا ڈالنےکے لیے دیکھا۔ چاچے سیاپے کو الله دے اور بندہ لے کے مصداق اپنی علمیت جھاڑنے کاموقع مل گیا۔ سب سے پہلے اس نے دیوانے کو بے بھاؤ کی وہ بحریں سنائی کہ دیوانہ پہ خصوصی اور محفل پہ عمومی ہولے ہولے مزید دیوانگی طاری ہونے لگی۔ بعد ازاں چاچا سیاپے نے اوزانِ شاعری کے باٹ اٹھا کر آہستہ آہستہ دیوانے کی شاعری کا وزن اتنا گرایا کہ آخر میں دیوانہ کا فقط نام ہی وزن میں باقی رہ سکا۔


دیوانے نے یہ صورتحال دیکھ کر مسکین سی صورت بنائی اور فریاد کی "دیوانے کا کلامِ بے مثال، شاعر سڈنی ، سرپرستِ ادبِ جنوبی نصف کرہ، محافظِ زبانِ اردو بہ ارض آسٹریلیا کی نظرِ کرم کا محتاج ہے"۔ دیوانے کی تعریف اور مظلومیتِ حال کو دیکھ کر بھان متی نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا اور مسکراتے ہوئے اعلان کیا کہ آج سے دیوانہ، شاعر الموت دیوانہ کہلائے گا۔ مزید اعلان کیا کہ دیوانہ آج سے تم لوگوں کا "روڑہ بھائی" ہے اور یوں دیوانے نے "ادب" سے، "ادب کی بے ادبی" زندگی میں قدم رکھا اور سڈنی کے شاعروں میں ایک عدد مزید بے وزن روح کااضافہ ہو گیا۔

اس دن کے بعد سے سڈنی کے ہر مشاعرے میں شاعر الموت دیوانے کا کلام لازم ٹہرا۔ جہاں تک رہی بات کلیاتِ دیوانہ کی تو وہ اتنی مشہور ہوئی کہ سُنا ہے سڈنی میں اس کے صفحات پر ابھی تک نیو اسٹار کباب کے شیش کباب رکھ کر پیش کیے جاتے ہیں۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top