بھر لو چاہے جہاں سے مٹھی میں ۔۔۔۔ ایک غزل اصلاح کے لئے۔

ایک غزل اصلاح کے لئے پیش کر رہا ہوں۔
استاد محترم جناب الف عین سر ، اساتذہ کرام اور احباب محفل سے اصلاح اور مشورؤں کی درخواست ہے۔

بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع اور اس کے ارکان ہیں
فاعلاتن مفاعلن فعلن
بھر لو چاہے جہاں سے مٹھی میں
خوشبو ہوگی یہاں کی مٹّی میں

قرب کا لمس ہے نیا اُس کو
یہ انگوٹھی نئی ہے انگلی میں

چاند کا عکس تجھ سا لگتا ہے
ایک حُسنِ یقیں ہے پانی میں

سرسری خیریت لکھی ہے ، مگر
ایک آسودگی ہے چٹھی میں!

جیسے خوشبو ہے رنگِ گل سے الگ
ایسی خُو بُو ہے تیری مہندی میں

آخری اشک پی کے اٹھیئے گا
بیٹھئے آپ، میں ہوں جلدی میں

خیمہ گاہِ فراق یار سے چل
تلخ ایّام چھوڑ ماضی میں

بھوک میں آج بھی وہی معیار
چاند دکھتا ہے سب کو روٹی میں

خواب آنکھوں میں اور چبھتے ہیں
وقت کی ریت ہو جو مٹھّی میں

اب جھلکتا ہے تجربہ کاشف
عمر جھانکے ہے سر کی چاندی میں
 

الف عین

لائبریرین
خوب۔ آج کل بہت کہہ رہے ہو ماشاء اللہ!
بس اس کو دو بارہ دیکھ لو۔
جیسے خوشبو ہے رنگِ گل سے الگ
ایسی خُو بُو ہے تیری مہندی میں
مہندی میں خُو؟
پہلا مصرع بھی ’رنگِ گل سے الگ‘ لہ وجہ سے عجیب سا ہے۔
 
بہت بہتر استاد محترم
اس شعر کو فی الحال غزل سے ہی نکال دیتا ہوں.
آپ نے درست فرمایا سر. آمد کا سلسلہ ہے۔ یہ بالکل تازہ غزل ہے.
ایک نسبتاً پرانی غزل بھی ابھی اصلاح کے لئے موجود ہے
جلد آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔
جزاک اللہ
 
Top