کاشفی
محفلین
غزل
(نواب مرزا خان داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
بھنویں تنتی ہیں، خنجر ہاتھ میں ہے، تَن کے بیٹھے ہیں
کسی سے آج بگڑی ہے کہ وہ یوں بَن کے بیٹھے ہیں
دلوں پر سیکڑوں سّکے ترے جوبن کے بیٹھے ہیں
کلیجوں پر ہزاروں تیر اس چتون کے بیٹھے ہیں
الہٰی کیوں نہیں اُٹھتی قیامت ماجرا کیا ہے
ہمارے سامنے پہلو میں وہ دُشمن کے بیٹھے ہیں
یہ گستاخی یہ چھیڑ اچھی نہیں ہے اے دلِ ناداں
ابھی پھر روٹھ جائیں گے ابھی وہ مَن کے بیٹھے ہیں
اثر ہے جذب الفت میں تو کھینچکر آہی جائیں گے
ہمیں پرواہ نہیں ہم سے اگر وہ تَن کے بیٹھے ہیں
سبک ہو جائیں گے گر جائیںگے وہ بزمِ دشمن میں
کہ جب تک گھر میں بیٹھے ہیں تو لاکھوں مَن کے بیٹھے ہیں
فسوں ہے یا دعا ہے یہ معّما کُھل نہیں سکتا
وہ کچھ پڑھتے ہوئے ، آگے میرے مدفن کے بیٹھے ہیں
بہت رویا ہوں میںجب سے یہ میں نے خواب دیکھا ہے
کہ آپ آنسو بہائے سامنے دُشمن کے بیٹھے ہیں
کھڑے ہوں زیز طوبی وہ نہ دم لینے کو دم بھر بھی
جو حسرت مند تیرے سایہء دامن کے بیٹھے ہیں
تلاش منزل مقصد کی گردش اُٹھ نہیں سکتی
کمر کھولے ہوئے رستے میں ہم رہزن کے بیٹھے ہیں
یہ جوش گر یہ تو دیکھو کہ جب فرقت میں رویا ہوں
درو دیوار اک پل میں مرے مسکن کے بیٹھے ہیں
یہ اُٹھنا بیٹھنا محفل میں اُن کا رنگ لائے گا
قیامت بن کے اُٹھیں گے بھبوکا بن کے بیٹھے ہیں
کسی کی شامت آئیگی کسی کی جان جائیگی
کسی کی تاک میں وہ بام پر بن ٹھن کے بیٹھے ہیں
قسم دے کر اُنہیں سے پوچھ لو تم رنگ ڈھنگ اُس کے
تمہاری بزم میں کچھ دوست بھی دُشمن کے بیٹھے ہیں
کوئی چھینٹا پڑے تو داغ کلکتے چلے جائیں
عظیم آباد میں ہم منتظر ساون کے بیٹھے ہیں
(نواب مرزا خان داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
بھنویں تنتی ہیں، خنجر ہاتھ میں ہے، تَن کے بیٹھے ہیں
کسی سے آج بگڑی ہے کہ وہ یوں بَن کے بیٹھے ہیں
دلوں پر سیکڑوں سّکے ترے جوبن کے بیٹھے ہیں
کلیجوں پر ہزاروں تیر اس چتون کے بیٹھے ہیں
الہٰی کیوں نہیں اُٹھتی قیامت ماجرا کیا ہے
ہمارے سامنے پہلو میں وہ دُشمن کے بیٹھے ہیں
یہ گستاخی یہ چھیڑ اچھی نہیں ہے اے دلِ ناداں
ابھی پھر روٹھ جائیں گے ابھی وہ مَن کے بیٹھے ہیں
اثر ہے جذب الفت میں تو کھینچکر آہی جائیں گے
ہمیں پرواہ نہیں ہم سے اگر وہ تَن کے بیٹھے ہیں
سبک ہو جائیں گے گر جائیںگے وہ بزمِ دشمن میں
کہ جب تک گھر میں بیٹھے ہیں تو لاکھوں مَن کے بیٹھے ہیں
فسوں ہے یا دعا ہے یہ معّما کُھل نہیں سکتا
وہ کچھ پڑھتے ہوئے ، آگے میرے مدفن کے بیٹھے ہیں
بہت رویا ہوں میںجب سے یہ میں نے خواب دیکھا ہے
کہ آپ آنسو بہائے سامنے دُشمن کے بیٹھے ہیں
کھڑے ہوں زیز طوبی وہ نہ دم لینے کو دم بھر بھی
جو حسرت مند تیرے سایہء دامن کے بیٹھے ہیں
تلاش منزل مقصد کی گردش اُٹھ نہیں سکتی
کمر کھولے ہوئے رستے میں ہم رہزن کے بیٹھے ہیں
یہ جوش گر یہ تو دیکھو کہ جب فرقت میں رویا ہوں
درو دیوار اک پل میں مرے مسکن کے بیٹھے ہیں
یہ اُٹھنا بیٹھنا محفل میں اُن کا رنگ لائے گا
قیامت بن کے اُٹھیں گے بھبوکا بن کے بیٹھے ہیں
کسی کی شامت آئیگی کسی کی جان جائیگی
کسی کی تاک میں وہ بام پر بن ٹھن کے بیٹھے ہیں
قسم دے کر اُنہیں سے پوچھ لو تم رنگ ڈھنگ اُس کے
تمہاری بزم میں کچھ دوست بھی دُشمن کے بیٹھے ہیں
کوئی چھینٹا پڑے تو داغ کلکتے چلے جائیں
عظیم آباد میں ہم منتظر ساون کے بیٹھے ہیں