بھولا پریمی از ایس ایس ساگر

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ازل سے ماحول اور انسان کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے، شاید اِسی لیے حیات ِنباتات اور بھولے پریمؔی کی زندگی میں قدرِمشترک پائی جاتی ہے۔ جیسے ہی پیڑوں کی ٹہنیاں موسمِ بہار میں پھولوں کی چادر اوڑھتی ہیں، بھولے کےمن میں بھی پریم کے نَنّھے منّے شگوفے پھُوٹنے لگتے ہیں۔بھولا پریمؔی زندگی کی لگ بھگ پندرہ بہاریں دیکھ چکا۔بچپن کی چند بہاریں اُس نےنیکر پہنےرنگ برنگی تتلیوں کے پیچھے بھاگتے گزاری تھیں۔پھرجب سے نیکر پتلون میں بدلی ، اس نے رنگ برنگے آنچلوں کا تعاقب شروع کر دیا ۔ یوں تو ہر سال بھولے پریمیؔ کےدل میں محبت کےسرخ گلاب اُگتے ہیں مگر پچھلے سال کچھ ایسا ہوا جوگزرے ماہ و سال میں نہیں ہوا تھا۔اس کےدل کی زرخیز مٹی میں چپکے سےایک سیاہ گلاب اُگ آیا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ اسے ماسی برکتے کی بیٹی صغریٰ تندورچن سے پیار ہو گیا۔صغریٰ کی سانولی سی رنگت میں اسے یکایک حُسن لیلیٰ کی جھلک دکھائی دینے لگی۔اب اسے سوتے جاگتے ہر طرف صغریٰ ہی دکھائی دیتی۔بلکہ یوں کہیےکہ کُرِہ اَرض پر بسنے والی ہردوشیزہ اسےصغریٰ جیسی لگنے لگی۔بچپن کا دوست منیر فلسؔفی تو یہاں تک کہتا تھا کہ بھولے پریمی کی یہ سرابی کیفیت ارضی نہیں، کائناتی ہے۔ دلیل یہ تھی کہ وہ جب بھی بھولے کے سامنے بچپن کی کہانی کا ذکر چھیڑ تاکہ چاند پرایک بڑھیا رہتی ہے جو چرَخہ کاتنےمیں مصروف ہے، تو وہ بھڑک اٹھتا۔منیر فلسفیؔ کے تخیلاتی فلسفے کی سختی سے نفی کرنے لگتا۔ وجہ یہ تھی کہ اس نے جب بھی آنکھ بھر کےچاند کو دیکھا، اسے وہاں ہمیشہ صغریٰ ہی اپنی زلف مشکبار سے جوئیں نکالتی دکھائی دی تھی۔
اب تو دیوانگی کا یہ عالم تھا کہ اسے آئینے میں اپنا اچھا خاصا گول مٹول چہرہ بھی صغریٰ کے لمبوترے چہرے جیسا ِلگنے لگا تھا۔ اس پر غضب یہ کہ دن میں دو تین بار وہ ماں جی کو بھی صغریٰ کہہ کر پکار لیتا۔ وہ تو اللہ بھلا کرے ماں جی کی ضعفِ سماعت کا، جس کی بدولت بھولے پریمیؔ کے سر کےبال اس کی جوتیوں سے اب تک محفوظ تھے۔ ورنہ ماں جی کو تو گنتی بھی نہیں آتی تھی۔ انہیں تو ہاتھ جوڑ کر بتانا پڑتا کہ ماں جی ! بس کردیں سو جوتیاں پوری ہو گئی ہیں۔
بھولے پریمیؔ کی اُس سے دُگنی عمر کی محبوبہ شام کے وقت اپنے گھر کے باہرتندور لگاتی تھی۔ شوہر سے علیٰحدگی اور ماسی برکتے کی بیماری کے سبب اس نے خودتندور کی کمان سنبھال لی تھی۔ جلد ہی اس کےتندورکی شہرت ہر سُو پھیل گئی۔ ایک طرف صغریٰ کی ہلکی پھلکی اورگرم گرم روٹیاں پیٹ کی بھوک مزید بڑھاتی تھیں تو دوسری طرف اس کی لچھے دار باتیں گاہکوں کے دلوں کو خوب لبھاتیں ۔
اُس شام بھولا پریمیؔ تندور پرگیا تو حسب معمول صغریٰ روٹیاں لگانے میں مصروف تھی ۔ تندور کے پاس بچھی چٹائی پر اخبار بچھا کر، وہ روٹی نکلنے کا انتظار کرنے لگا۔ صغریٰ نےبے دھیانی میں سلاخ میں پروئی ہوئی گرم گرم روٹی گھما کر اس کی طرف پھینکی تو وہ سیدھی بھولے کے اُلٹے ہاتھ پہ آ گری۔ اس اچانک اُفتاد پربھولا ہڑبڑا اُٹھا۔ ’ہائے میں مر گیا‘۔ بھولےکے منہ سے بے اختیار ان کلمات کا نکلنا تھا کہ صغریٰ کی ہنسی چھوٹ گئی۔ وہ تو ازل سے اپنی بے محل ہنسی کے ہاتھوں بدنام تھی۔ ایک بار جو ہنسی چھوٹتی تو پھر وہ یوں کھڑ کھڑ ہنستی کہ دیکھنے والوں کو اس کی دماغی صحت پر شک ہونے لگتا۔اس وقت بھی دوپٹے کا پَلوُّ دانتوں میں داب کر اپنی ہنسی روکنےکی لاکھ کوشش کی مگر ضبط مشکل تھا۔ اس دن کے بعدصغریٰ کا تندور بھولے پریمی کے لیے کوہلو بن گیا۔وہ آنکھیں موندے کسی بیل کی طرح اس کےطواف میں جُت گیا۔
اب سکول سے گھرلوٹتے ہی اُسےشدت سےبھوک ستانے لگتی۔ ماں جی حیران ہو کرکہتیں۔بھولے بیٹا! دوپہر کا کھایا تو ہضم ہو لینے دو۔ وہ منہ بسور کے کہتا۔ ماں جی!۔آپکا بیٹا اب بڑا ہو رہا ہے۔ اس کی غذائی ضروریات بھی بڑھ گئی ہیں اور آپ ہر وقت مجھے اس طرح سے ٹوکا نہ کریں۔ماں جی زیرلب مسکراتیں اور کہتیں۔ناں بھلا! ٹوکنے سے کیا ہوتا ہے بیٹا؟۔ وہ جھٹ سے کہتا۔ آپ خود تو کہتی ہیں ماں جی کہ ٹوکنے سے بھوک مر جاتی ہے۔اب کیاپیٹ میں بھوک کا لاشہ اٹھائےپھرتا رہوں؟۔ اس کی فلسفیانہ باتیں ماں جی کے سر سے گزر جاتیں۔ وہ چپ ہو جاتیں مگرپھر اندر سےممتابول اُٹھتی۔ اچھا بیٹا! ذراٹھہرو ۔ بکریوں کا دودھ دوہ کرمیں تمہارے لیے دو روٹیاں سینک دیتی ہوں۔ ماں جی کی بات سن کر وہ بےتاب ہو اٹھتا اورکہتا۔ رہنے دیں ماں جی۔ میرے پیٹ میں بھوک کےمارے چوہے دوڑ رہے ہیں۔ آپ کے انتظار میں یہ میرا پیٹ کاٹ کھائیں گے۔ میں جا کرتندور سے روٹیاں لے آتا ہوں۔یہ کہہ کر وہ ماں جی کوحیرت کے سمندر میں ڈبکیاں کھاتا چھوڑ کر گھر سے نکل پڑتا اور سیدھا صغریٰ کے تندور پہ جا دم لیتا۔
تندور کےسامنے چند فرلانگ کے فاصلے پر ایک وسیع میدان تھا جہاں لڑکےبالےکبھی کبھار کرکٹ کھیلا کرتے تھے ۔ وہ اس میدان میں ایک درخت کے نیچے ڈیرا ڈال لیتا اور تندور کھلنے کا انتظار کرنے لگتا۔ بقول انور مسعودؔ ، انتظار تو تعطیل حیات کا نام ہے۔ اگرچہ دیواریں نہ بھی ہوں تب بھی انسان خود کو قید میں محسوس کرنے لگتا ہے۔ زندگی رک جاتی ہے۔ بھولا پریمیؔ اس معاملے میں خوش قسمت تھا کہ اسے انتظارکے جا ں گسل لمحات میں ایک ساتھی میسر آ گیا تھا۔ایک کتا پہلے سے اُسے درخت کے نیچے لیٹا ہوا ملتا تھا۔ اب اللہ جانے وہ بھی بھولے پریمی کی طرح وبائی عشق کا شکار تھا یا پھر جسم کی خارش سے نڈھال کہ بھولے پریمی کی آمد پر بھی وہ ٹس سے مس نہ ہوتا۔ بھولا پریمی تصور صغریٰ میں گمُ اسے سگِ لیلٰی سمجھ کرپیار سے اس کی پشت پر ہاتھ پھیرتا اور وہ چپ چاپ دَم سادھے یوں مدہوش پڑا رہتا جیسے بھنگ پی رکھی ہو۔ صغریٰ تندور کھولتی تو اسے دور میدان میں بھولا پریمی ایک عدد کتے کے ساتھ خواب خرگوش کے مزے لوٹتاہوا نظر آتا۔ بسا اوقات تو کتے اور بھولے پریمی کےخودساختہ آمیزے میں اجزائے ترکیبی کی آمیزش اس قدر گہری ہو جاتی کہ دور سے ان کی الگ الگ پہچان محال نظر آتی۔
صغریٰ کو اب بھولے پریمی کا یوں بلاناغہ تندور کے چکر کاٹناکھٹکنے لگا تھا۔ایک طرف صغریٰ کی دال کالی ہو نے لگی تھی تو دوسری طرف بھولے پریمی کی نظروں میں صغریٰ کا حسن دلفریب دن بہ دن نکھرتاجا رہا تھا۔ روٹیاں اٹھا لے بھولے!کن خیالوں میں گم ہے۔ صغریٰ کی آواز پر بھولا پریمیؔ چونک اٹھتا۔ خیالوں میں صغریٰ کے ساتھ اپنا ڈسکو ڈانس ادھورا چھوڑ وہ جلدی سے روٹیاں اخبار میں لپیٹنے لگتا۔ ساتھ ہی ساتھ حسرت بھری نگاہیں تندور کی سلاخوں پر ڈالتا ۔ ایک خواہش بڑی شدت سے اس کے دل میں سر اٹھاتی کہ کاش پھر سے ایک بار صغریٰ تندور سےگرم گرم روٹی نکالے اور گھما کے اس کے ہاتھ پر دے مارے اور پھر دانتوں میں دوپٹے کا پلو دابے ہنستی چلی جائے۔ مگر جب محبوب کی طرف سے تجدید وفا کا کوئی امکاں نظر نہ ٓاتا توچاروناچار اٹھتا اور بوجھل قدموں سے گھر کی راہ لیتا۔
رفتہ رفتہ بھولا پریمی ؔسکول سےبھی غیر حاضر رہنے لگا ۔اب وہ سکول سے نکل کر سیدھا اس چھپڑ پر جا پہنچتا جہاں صغریٰ اکثر اپنی بھینس نہلا رہی ہوتی ۔ وہ چپکے سے درخت کی اوٹ میں کھڑا ہو کر اسے تکتا رہتا ۔ ایک دن صغریٰ کی نظر درخت کے پیچھے چھپے بھولے پر جا پڑ ی۔ ارے بھولے! توُ ادھر کیا کر رہا ہے؟۔ اس کے سوال پر بھولا بوکھلاگیا بولا۔ وہ جی ۔۔ میں ادھر سے گزر رہا تھا سوچا پوچھ لوں ،کسی مدد کی ضرورت تو نہیں ! ۔ صغریٰ کو بھولے کی بوکھلاہٹ پر ہنسی آ گئی بولی۔ تو میری کیا مدد کرے گا۔ کیا بھینس کو نہلا ئے گا؟۔ بھولا سینہ تان کر بولا ۔ کیوں نہیں جی۔ اگرحکم دیں تو حاضر ہوں۔ صغریٰ کچھ سوچ میں پڑ گئی پھرکچھ توقف کے بعد چہرے پہ شرارت سجا کر بولی۔ اچھا تو۔۔۔ذرا میری بھینس کو چھپڑ سے نکال دو ۔ وہ جانتی تھی کہ چھپڑ میں بیٹھی بھینس کو پانی سے نکالنا بھولے کے بس کی بات نہیں۔ ابھی لو۔ یہ کونسا مشکل کام ہے ۔ بھولے نےبڑے پراعتماد لہجے میں کہا اور پھر منہ سے مخصوص آواز نکالتے چھپڑ میں بیٹھی بھینس کوپانی سےنکلنے کےاشارے کرنے لگا۔مگر بھینس جو صرف صغریٰ کی آواز پہچانتی تھی کیوں کر متوجہ ہوتی۔بھینس کی بے نیازی اور اپنی ناقدری پر بھولے پریمی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، چھڑی اٹھائی اور شلوار کے پائنچے گھٹنوں تک چڑھا کر چھپڑ میں اتر گیا۔ قریب پہنچ کر اس نے چھڑی سے بھینس کوٹہوکا دیامگر وہ پھر بھی ٹس سے مس نہ ہوئی۔ اب تو بھولا غصے سے لال پیلا ہو گیا۔ آخرکو محبوبہ کے سامنے عزت کا سوال تھا۔ اس نے گھما کر چھڑی بھینس کی کمر پر دے ماری ۔ضرب کھا کر بھینس ڈکارتی ہوئی زوردار طریقے سے اٹھی اور ایک طرف بھاگ نکلی۔ بھولا پریمی بھینس کی لپیٹ سے بچنے کے لیے تیزی سے ایک طرف کو ہٹا مگر توازن برقرار نہ رکھ سکا اور کمر کے بل چھپڑ میں جا گرا۔ اُٹھا تو سر سے پاؤں تک کیچڑ ملےپانی میں لت پت تھا۔ اس کی یہ حالت زار دیکھ کر صغریٰ کی ہنسی چھوٹ گئی۔طویل عرصے بعد بھولے کے من کی مراد بر آئی تھی۔ وہ اپنی حالت بھول کر چھپڑ میں کھڑا صغریٰ کو ہنستے ہوئے دیکھنے لگا۔اس عالم بیخودی میں بھولے کو احساس تک نہ ہوا کہ کب صغریٰ اپنی بھینس کولے کر چلی گئی اور اب چھپڑ کنارے پہ کھڑی ماں جی اس کی طرف حیرت بھری نظروں سے تک رہی تھیں۔ بھولے بیٹا! تمہاراسکول چھپڑ میں کب سے کھلنےلگا ؟۔ ماں جی کی آوازسن کر بھولا پریمی اپنے حواس میں آ یا۔ وہ ۔۔ماں جی۔۔ وہ ۔۔۔ دراصل ماسٹر صاحب کا مچھلی کھانے کو دل چاہاتھا اس لیےمچھلی پکڑ نےیہاں چلا آیا۔بھولے پریمی نے بات بنانے کی کوشش کی مگر وہ کہتے ہیں ناکہ سو سنار کی اور ایک لوہار کی ۔ماں جی اس کی نیت بھانپ گئی تھیں بولیں۔ بھولے بیٹا۔ تمہاری ماں نے ساری حیاتی اس چھپڑ کنڈے گزاری ہے۔ آج تک مجھے تو یہاں کوئی مری مچھلی بھی دکھائی نہیں دی۔ تجھے اگر خدمت کا اتنا ہی شوق چڑھا ہے تو یوں کر۔ یہاں سےایک مینڈک پکڑ لے اور اس کا سوُپ بنا کر پلا دے اپنے ماسٹرکو۔ ماں جی نے بھولے کا کان پکڑا ور اسے تقریباً کھینچتے ہوئے گھر لے آئیں۔
اس دن کے بعد بھولے پریمی کا سکول جانا بند ہو گیا۔ وہ بہت خوش ہوا کیونکہ یہی توچاہتا تھا کہ کسی طرح سکول سے جان چھوٹے اور وہ صغریٰ کے مکتب عشق کا قاعدہ اٹھا لے ۔مگرجلد ہی اس کی امیدوں پر پانی پھر گیا ،جب ماں جی نے اسے پورے دو ماہ کی قید بامشقت کی سزا سنا دی۔ صغریٰ کی بھینس سنبھالنے کی آرزو دل میں لیے اسے اب ماں جی کی بکریاں سنبھالنی پڑ گئیں ۔ بھولا پریمی تو صغریٰ کی زلفوں کا اسیر تھا اسے گھر کی دیواریں کاٹ کھانے کو دوڑنے لگیں۔ کئی بارگھر سے فرار کا سوچا مگرہر بار ماں جی کی جوتیوں کا خیال آڑے آ جاتا۔ آخرکار دل میں سوچا کہ دو مہینے گھر میں گزارے بغیر کوئی چارہ نہیں تو چپ چاپ ماں جی کی بکریوں کی چاکری میں لگ گیا۔ دو مہینے پورے ہونے پر ماں جی کے سامنے کان پکڑ کراپنےسابقہ گناہوں کی معافی مانگی تو رہائی پائی۔ پروانۂ آزادی ملنےپر پھر سے دلِ قیس کو لیلٰی کی یا د ستانے لگی۔
آخر ایک شام نظر بچا کر گھر سے نکلا اور سیدھا تندور کی راہ لی۔ راستے بھر یہ سوچتا رہا کہ آج توضرور دل کی بات محبوب کے گوش گزار کروں گا۔مگر جس وقت در محبوب چھوا تووہاں کا ماحول کچھ بدلا بدلا سا لگا۔ صغریٰ آج خلاف معمول تندور پر بڑی بن سنورکر بیٹھی تھی۔ چہرے کی چمک دیکھ کر لگتا تھا جیسے چیری بلاسم کی پوری ڈبیا منہ پرمل لی ہو۔ ہونٹوں پر گہری سرخ لپ اسٹک لگی تھی ۔ اپنی گھنگریالی زلفیں سمیٹ کر اس نے ایسا گھونسلے نما جوڑا بنایا تھا کہ چڑیا دیکھے تو اس کا دل انڈے دینے کو مچل اُٹھے۔ بھولے پر نظر پڑتے ہی وہ چہک کر بولی۔ ارے بھولے بھیا۔ بڑے دنوں بعد نظر آئے ہو۔ کہاں تھے؟۔بھیا کا لفظ سن کر بھولے نے ناگواری سے نظریں چرالیں، بولا۔ ماں جی بیمارتھیں اس لیے گھر میں ان کی خدمت پر مامور تھا۔ وہ بولی۔ اللہ صحت دے ماں جی کو۔اچھا ان سے ملو ۔ یہ میرے شوہر ہیں۔ دو ہفتے ہو ئےہماری شادی کو۔ صغریٰ نےشرماتے ہوئے ایک طرف اشارہ کیا تو بھولے کی چلتی نبض جیسے تھم سی گئی ۔ اُس نے پتھرائی آنکھوں سےصغریٰ کی انگلی کی سیدھ میں دیکھا۔ قریب ہی ایک موٹی توند اورگنجے سر والا ادھیڑ عمرشخص بنیان اور تہبند پہنے، منہ میں بیڑی دبائے جلدی جلدی آٹے کے پیڑے بنانے میں مصروف تھا۔ بھولے پریمی کو اپنی طرف دیکھتا پا کرمصافحے کے لیے آگے بڑھا اورمسکرانے کی کوشش میں اپنی پوری بتیسی باہر نکال دی۔ اس کوشش میں منہ سے پان کی پیک کی ایک پچکاری نکلی اورسیدھی بھولے پریمی کے ہاتھ پہ آ گری ۔ بھولا ہڑبڑا کر پیچھے ہٹا۔ یہ منظر دیکھ کر صغریٰ کی ہنسی چھوٹ گئی ۔ وہ دوپٹے کا پلو منہ میں دبائے ہنسے جا رہی تھی۔ آج پہلی بار بھولے پریمی کوصغریٰ کی ہنسی زہر لگ رہی تھی۔شاید اس لیے کہ اس میں اب ایک مردانہ ہنسی بھی شامل ہو چکی تھی۔
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
ساگر بھائی آپ نے بہت ہی خوبصورت مزاح لکھا ہے۔ اور بہت خوبصورت تشبہیں استعمال کی ہیں۔ قاری کو بے ساختہ مسکرانے پر مجبور کرتی آپ کی تحریر قابل ستائش ہے۔
لکھتے رہیے اور شریک محفل کرتے رہیے۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ساگر بھائی آپ نے بہت ہی خوبصورت مزاح لکھا ہے۔ اور بہت خوبصورت تشبہیں استعمال کی ہیں۔ قاری کو بے ساختہ مسکرانے پر مجبور کرتی آپ کی تحریر قابل ستائش ہے۔
لکھتے رہیے اور شریک محفل کرتے رہیے۔
بہت نوازش شمشاد بھائی۔ پذیرائی پر شکرگزار ہوں۔
 

سیما علی

لائبریرین
ساگر صاحب!!!
آپکے مزاح کا انداز نفسیات انسانی اور جذبات انسانی کی ترجمانی کرتا ہےکیونکہ مزاح نہ لطیفہ گوئی ہے ، نہ تضحیک نہ طنز۔بلکہ وہ کچھ لکھے کہ پڑھنے والا تحر یر کی گہرائی میں جا کر محسوس کرے۔
مزاح جو جذبات کو مجروح کیے بغیر، اور کسی کی دل آزاری
کئے بغیر تخلیق کرنا مشکل کام ہے ۔
بہت خوب ماشاء اللّہ خوب صورت اندازِ مزاح۔۔۔۔بہت سی دعائیں اور داد اس تحریر پر ۔۔۔۔۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ساگر صاحب!!!
آپکے مزاح کا انداز نفسیات انسانی اور جذبات انسانی کی ترجمانی کرتا ہےکیونکہ مزاح نہ لطیفہ گوئی ہے ، نہ تضحیک نہ طنز۔بلکہ وہ کچھ لکھے کہ پڑھنے والا تحر یر کی گہرائی میں جا کر محسوس کرے۔
مزاح جو جذبات کو مجروح کیے بغیر، اور کسی کی دل آزاری
کئے بغیر تخلیق کرنا مشکل کام ہے ۔
بہت خوب ماشاء اللّہ خوب صورت اندازِ مزاح۔۔۔۔بہت سی دعائیں اور داد اس تحریر پر ۔۔۔۔۔
سیما آپا۔ آپ کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی کے لیے بیحد ممنون ہوں۔
 
تحریر میں روانی اور سلاست ہے، ساتھ ساتھ کچھ تراکیب پنجاب کی فراموش ثقافت کی یاد دلاتی ہیں جو ایک اچھے لکھاری کی نشانی ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
ٹرپل ایس بھیا
آج پھر دوبارہ پڑھی تحریر،بہت اچھی لگی اور جس تحریر کو پڑھنے مین دوبارہ لطف آئے وہ لکھاری کے لئے بڑا اعزاز ہے ۔
جیتے رہے شاد وآباد رہئیے ۔ایک گانا یاد آرہا ہے ؀
لائی بے قدراں نال یاری
تے ٹوٹ گئی تڑک کر کے
 
آخری تدوین:

ایس ایس ساگر

لائبریرین

ایس ایس ساگر

لائبریرین
آج پھر دوبارہ پڑھی تحریر،بہت اچھی لگی اور جس تحریر کو پڑھنے مین دوبارہ لطف آئے وہ لکھاری کے لئے بڑا اعزاز ہے ۔
جیتے رہے شاد وآباد رہئیے ۔ایک گانا یاد آرہا ہے ؀
لائی بے قدراں نال یاری
تے ٹوٹ گئی تڑک کر کے
سیما آپا۔تحریر کودوبارہ پڑھنے اور پسندیدگی کا اظہار کرنے پر آپکا بہت مشکور و ممنون ہوں۔ بہت شکریہ۔
 
Top