بھول بھلکڑ

بھول بھلکڑ
ناصر محمود خٹک​
کسی جنگل میں ایک ننھا منا ہاتھی رہا کرتا تھا۔ نام تھا جگنو۔ میاں جگنو ویسے تو بڑے اچھے تھے۔ ننھی سی سونڈ، ننھی سی دم اور بوٹا سا قد، بڑے ہنس مکھ اور یاروں کے یار، مگر خرابی یہ تھی کہ ذرا دماغ کے کمزور تھے۔ بس کوئی بات ہی نہیں رہتی تھی۔ امی جان کسی بات کو منع کرتیں تو ڈر کے مارے ہاں تو کرلیتے مگر پھر تھوڑی ہی دیر بعد بالکل بھول جاتے اور اس بات کو پھر کرتے لگتے۔ ابا جان​
پریشان تھے تو امی جان عاجز، تمام ساتھی میاں جگنو کا مذاق اڑاتے اور انہیں بھول بھلکڑ کہا کرتے۔​
ابا جان میاں جگنو کا کان زور سے اینٹھ کر کہتے، "دیکھو بھئی جگنو! تم نے تو بالکل ہی حد کردی۔ بھلا ایسا بھی دماغ کیا کہ کوئی بات یاد ہی نہ رہے۔ تم باتوں کو یاد رکھنے کی کوشش کیا کرو۔ ہاتھی کی قوم تو بڑے تیز دماغ ہوتی ہے۔ برس ہا برس کی باتیں نہیں بھولتی۔ مگر خدا جانے تم کس طرح کے ہاتھی ہو۔ اگر تمہاری یہی حالت رہی تو تم سارے خاندان کی ناک کٹوادو گے۔"​
جگنو میاں جلدی سے اپنی ننھی سی سونڈ پر ہاتھ پھیرتے اور سر ہلا کر کہتے، "ابا جان اب کے تو معاف کردیجئے۔ آئندہ میں ضرور باتیں یاد رکھنے کی کوشش کروں گا۔"​
مگر یہ ہمیشہ کی طرح بھول جاتے اور اپنی کرنی سے باز نہ آتے اور بھئی بات یہ ہے کہ دنیا میں اتنی بہت سی تو باتیں ہیں۔ بھلا کوئی کہاں تک یاد رکھے۔ اونھ۔​
اب مثلاً تمام ہاتھی بن مانسوں سے نفرت کرتے تھے۔ کیوں کہ آج سے سو برس پہلے کسی بن مانس نے ایک بڑا سا ناریل کسی ہاتھی کے منہ پر دے مارا تھا۔ اس دن سے تمام ہاتھی بن مانسوں کے دشمن ہوگئے۔ یہ بات جگنو کو بہت سے ہاتھیوں نے سمجھائی تھی مگر میاں جگنو تو تھے ہی بھول بھلکڑ، کئی بار کان پکڑ کر توبہ کی کہ اب بن مانسوں کے بچوں کے ساتھ نہیں کھیلوں گا۔ کھیلنا کیسا ان کی صورت بھی نہیں دیکھوں گا۔​
مگر دوسرے ہی دن ساری توبہ بھول جاتے اور پھر ان کے ساتھ کبڈی کھیلنا شروع کردیتے۔ ہاتھیوں کے دوسرے دشمن طوطے تھے۔ ہاتھی ان سے بھی بڑی نفرت کرتے تھے۔ بات یہ تھی کہ ایک دفعہ کوئی ہاتھی بیمار ہوگیا۔ اس لیے ہاتھیوں نے طوطوں سے کہا کہ شور مت مچایا کرو۔ اس سے مریض کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے، مگر توبہ، وہ طوطے ہی کیا جو ٹیں ٹیں کرکے آسمان سر پر نہ اٹھالیں۔ اس دن سے ہاتھی طوطوں سے بھی بیر رکھنے لگے۔ وہ تو کہو ان کے بس کی بات نہیں تھی ورنہ انہوں نے تو کبھی کی ان کی چٹنی بنا کر رکھ دی ہوتی، جگنو کے ماں باپ اور یار دوستوں نے اسے یہ بات بھی کئی مرتبہ بتائی تھی اور کہا تھا کہ طوطوں سے ہماری لڑائی ہے۔ تم بھی ان سے بات مت کیا کرو۔ مگر میاں جگنو بن مانس والی بات کی طرح یہ بات بھی بھول جاتے اور طوطوں کو اپنی پیٹھ پر چڑھا کر سارے جنگل میں کودے کودے پھرتے۔​
میاں جگنو کی یہ حرکتیں دیکھ کر ہاتھیوں نے اس سے بول چال بند کردی۔ بڑے بڑے ہاتھیوں نے کہا کہ جگنو کا حافظہ اتنا خراب ہے کہ کسی کی دوستی اور دشمنی کو نہیں سمجھتا بھلا یہ کسی سے دشمنی کیا کرسکے گا۔​
تمام ہاتھی اس کو بے وقوف کہہ کہہ کر چڑاتے اور اس پر پھبتیاں کستے۔ مگر جگنو کو کسی کی پروا نہیں تھی۔ وہ اتنا سیدھا سادا اور نیک دل تھا کہ وہ ان کے مذاق کا بالکل برا نہ مانتا تھا اور پھر اس کا حافظہ بھی تو کمزور تھا۔ اسے یاد ہی نہیں رہتا تھا کہ کون دوست ہے کون دشمن، کون سی بات اچھی ہے، کون سی بری۔​
ایک دن ایک بڑا ہی خوفناک واقعہ پیش آیا۔ جنگو جنگل میں ٹہلتا پھر رہا تھا کہ ایسا معلوم ہوا جیسے ایک دم زمین پھٹ گئی اور وہ اس میں سما گیا۔ اصل میںشکاریوں نے یہ گڑھا کھود کر اس کے اوپر گھاس پھونس ڈھانپ دیا تھا تاکہ ہاتھی اس کے اوپر سے گزریں تو نیچے گر پڑیں اور پھر وہ انہیں پکڑ لیں۔ قسمت کی بات، میاں جگنو ہی کی شامت آگئی۔​
ایک دم اوپر سے گرنے سے میاں جگنو کے بہت چوٹ آئی تھی۔ تھوڑی دیت تک تو اس کی سمجھ میں یہی نہیں آیا کہ یہ ہوا کیا۔ آخر جب اس نے آنکھیں ملیں اور ادھر ادھر دیکھا تو پھر اسے معلوم ہوا کہ وہ ایک گہرے گڑھے میں گر پڑا ہے۔ اب تو اس کی جان نکل گئی۔ اس نے پیر پٹک پٹک کر اور ادھر ادھر ٹکریں مار مار کر لاکھ کوشش کی کہ کسی طرح گڑھے سے نکل جائے مگر کچھ بن نہ پڑی۔ بے چارے نے ہر طرف سے مایوس ہو کر زور سے چنگھاڑنا شروع کردیا، "ابا، ابا، اماں،اماں! دوڑو دوڑو۔"​
جگنو کی چیخیں سن کر جنگل کے تمام ہاتھی دوڑ پڑے اور گڑھے کے پاس کھڑے ہو کر نیچے دیکھنے لگے۔ جگنو نے چیخ کر کہا، "میں ہوں جگنو، ،اس گڑھے میں پڑا ہوں۔ خدا کے لیے مجھے یہاں سے نکالو۔"​
اس کے ماں باپ نے نیچے جھک کر اسے دیکھا۔ چند بڑے بوڑھے ہاتھی بھی اس کے پاس آگئے۔ سب کے سب پریشان تھے۔ امی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ جگنو کو اس مصیبت سے کس طرح نجات دلائیں۔ انہیں خاموش دیکھ کر جگنو کا دل بیٹھ گیا اور آنکھوں میں آنسو بھر کر بولا، "تم مجھے یہاں سے نہیں نکال سکتے، میری مدد کوئی نہیں کرسکتا، اف میں کیا کروں۔"​
سب ہاتھیوں نے مایوسی سے سر ہلایا اور آہستہ آہستہ چلے گئے۔ چلتے وقت اس کی ماں نے کہا، "جگنو! گھبرانامت، ہم تمہارے لیے کھانا لے کر آتے ہیں۔ مگر جگنو کو کھانے کی ضرورت نہ تھی۔ وہ اس گڑھے سے نکلنا چاہتا تھا۔"​
ہاتھی چلے گئے تو اس نے ایک گہری سانس لی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اچانک اسے سر پر بہت سے پروں کے پھڑ پھڑانے کی آواز آئی۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو رنگ برنگے طوطے نظر آئے۔ یہ سب اس کے دوست تھے جنہیں وہ اپنی پیٹھ پر چڑھاکر جنگل کی سیر کراتا تھا۔ کچھ طوطے گڑے پر آکر بولے، "جگنو گھبراﺅ نہیں۔ ہم ابھی تمہیں اس مصیبت سے چھٹکارا دلاتے ہیں۔ خاطر جمع رکھو۔"​
یہ کہہ کر وہ چلے گئے اور پھر جگنو نے سنا کہ طوطے بن مانسوں کو آوازیں دے رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد طوطے بہت سے بن مانسوںکو لے کر آگئے۔ ان کے ہاتھوں میں انگوروں کی لمبی لمبی رسیوں جیسی بیلیں تھیں۔ انہوں نے بیلوں کے سرے گڑھے میں لٹکاد یے اور کچھ بن مانس ان کے ذریعے گڑے میں اتر گئے۔ جگنو انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اب اسے باہر نکلنے کی کچھ امید ہوگئی تھی۔ ہنس کر بولا، "میرے دوستو! کیا تم مجھے باہر نکالنے میں کامیاب ہوجاﺅ گے۔"​
بن مانس بولے، "کیوں نہیں ضرور! خدا نے چاہا تو ابھی ابھی ہم تمہیں اوپر کھینچ لیں گے اگر کوئی اور ہاتھی ہوتا تو ہم ذرا بھی پروا نہ کرتے کیوں کہ وہ ہم سے نفرت کرتے ہیں۔ مگر تمہاری بات دوسری ہے، تم ہمارے دوست ہو اور دوست کی مدد کرنا دوست کا فرض ہے۔ لو اب ذرا تم سیدھے کھڑے ہوجاﺅ تاکہ ہم تمہیں ان رسیوں سے باندھ دیں۔"​
جگنو کھڑا ہوگیا اور بن مانسوں نے اسے رسیوں سے خوب جکڑ دیا پھر وہ ان تمام رسیوں کو لے کر گڑھے سے باہر چلے گئے اور انہیں سب کو بٹ کر ایک موٹی سی رسی بنالی۔ پھر ایک بن مانسو زور سے بولا، "ہوشیار، خبردار۔"​
سب کے سب بن مانسوں نے رسی کو مضبوطی سے تھام لیا اور تن کر کھڑے ہوگئے اسی بن مانس نے پھر کہا، "کھینچو، ایک ساتھ۔"​
اب سارے بن مانس رسی کو پوری طاقت سے کھینچنے لگے۔​
ایک زور کے جھٹکے کے ساتھ جگنو کے پیر ایک دم زمین سے اٹھ گئے اور پھر وہ آہستہ آہستہ اوپر اٹھتا گیا۔ اس کا دل دھک دھک کررہا تھا، بدن پر پسینے چھوٹ رہے تھے، اگر رسی ٹوٹ گئی تو، تو وہ پھر دھڑام سے نیچے گر پڑے گا۔ بن مانس برابر رسی کھینچ رہے تھے اور ساتھ ساتھ شور بھی مچاتے جاتے، "ہاں شاباش، کیا کہنے بہادرو، بس تھوڑا سا فاصلہ اور رہ گیا ہے۔ ہاں لگے زور۔"​
تھوڑی دیر میں میاں جگنو زمین کے اوپر تھے۔ انہوں نے حیرت سے آنکھیں ملیں۔ چاروں طرف دیکھا اور جب سب دوستوں نے خوشی سے تالیاں بجائیں۔ تب وہ سمجھے کہ میں سچ مچ اوپر آگیا ہوں۔ نئی زندگی پا کر جگنو کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ کھلکھلائے پڑتے تھے۔ یار دوستوں سے خوب خوب گلے ملے اور بولے، "تم سچ مچ میرے دوست ہو۔ دوست وہ جو مصیبت میں کام آئے۔ چلو سب میری پیٹھ کر چڑھ جاﺅ۔"​
جگنو میاں گھر پہنچے تو ماں باپ رو رہے تھے۔ ان کے لیے تو میاں جگنو ختم ہوچکے تھے لیکن انہیں ایکا ایکی آتا ہوا دیکھ کر دن رہ گئے۔ امی جان، میرے لعل کہہ کر چمٹ گئیں۔ ابا جان نے بھی پیار کیا۔ جب دلوں کی بھڑاس نکل چکی تو میاں جگنو نے بتایا کہ جن جانوروں کو آپ دشمن سمجھتے اور انہیں ہمیشہ نفرت کی نظر سے دیکھتے تھے، انہوں نے ہی میری جان بچائی تو وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے میاں جگنو کو اجازت دے دی کہ تم خوشی سے طوطوں اور بن مانسوں کے ساتھ کھیلا کرو، تمہیں کوئی نہیں روکے ٹوکے گا۔ اس دن سے تمام ہاتھوں نے انہیں بے وقوف بھی کہنا چھوڑ دیا اور ان سے ہنسی خوشی ملنے جلنے لگے۔​
جگنو کے ماں باپ کو آج پہلی بار معلوم ہوا کہ دوسروں کے خلاف دل میں خواہ مخواہ حسد اور دشمنی رکھنے سے یہ بہتر ہے کہ انہیں دوست بنایا جائے تاکہ وہ وقت پر کام آسکیں۔​
٭٭٭​
 

سید زبیر

محفلین
بھول بھلکڑ
ناصر محمود خٹک​
امی جان، میرے لعل کہہ کر چمٹ گئیں۔ ابا جان نے بھی پیار کیا۔ جب دلوں کی بھڑاس نکل چکی تو میاں جگنو نے بتایا کہ جن جانوروں کو آپ دشمن سمجھتے اور انہیں ہمیشہ نفرت کی نظر سے دیکھتے تھے، انہوں نے ہی میری جان بچائی تو وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے میاں جگنو کو اجازت دے دی کہ تم خوشی سے طوطوں اور بن مانسوں کے ساتھ کھیلا کرو، تمہیں کوئی نہیں روکے ٹوکے گا۔ اس دن سے تمام ہاتھوں نے انہیں بے وقوف بھی کہنا چھوڑ دیا اور ان سے ہنسی خوشی ملنے جلنے لگے۔​
جگنو کے ماں باپ کو آج پہلی بار معلوم ہوا کہ دوسروں کے خلاف دل میں خواہ مخواہ حسد اور دشمنی رکھنے سے یہ بہتر ہے کہ انہیں دوست بنایا جائے تاکہ وہ وقت پر کام آسکیں۔​
٭٭٭​
بھائی انیس الرحمن ،بہت خوب ، لاجواب سبق آموز کہانی شریک محفل کی ۔ آپ ہمدرد نونہال کی کہانیوں کو جس طرح محفوظ کر رہے ہیں اللہ آپ کو اس کی جزا دے۔ ہمیشہ خوش رہیں (آمین)
 
بھول بھلکڑ
ناصر محمود خٹک​
کسی جنگل میں ایک ننھا منا ہاتھی رہا کرتا تھا۔ نام تھا جگنو۔ میاں جگنو ویسے تو بڑے اچھے تھے۔ ننھی سی سونڈ، ننھی سی دم اور بوٹا سا قد، بڑے ہنس مکھ اور یاروں کے یار، مگر خرابی یہ تھی کہ ذرا دماغ کے کمزور تھے۔ بس کوئی بات ہی نہیں رہتی تھی۔

بس کوئی بات
یاد
ہی
نہیں رہتی تھی۔

شکریہ جناب انیس الرحمن
بہت اچھی کہانی ہے
 
Top