فرحان دانش
محفلین
جون1948ء کو چوہدری قادربخش مجسٹریٹ کی عدالت میں ایک عجیب و غریب مقدمہ پیش ہوا اس مقدمے میں مہاجر کیمپ میں مقیم میاں بیوی پر سرکاری خیمے کا کچھ کپڑا کاٹنے کا الزام تھا۔ پولیس کی حراست میں اس جوڑے نے عدالت کو بتایا کہ ہم اس کیمپ میں پچھلے پانچ ماہ سے مقیم ہیں ہمارے جسموں پر پہنے ہوئے کپڑے پرانے اور بوسیدہ ہوکر اس بری طرح پھٹ چکے تھے جس سے ہمارے جسم جگہ جگہ سے بری طرح ننگے ہو رہے تھے
اور ہم دن کے وقت کیمپ سے پانی اور کھانا لینے کیلئے باہر بھی نہیں نکل سکتے تھے جب دو دن کی بھوک اور پیاس سے مرنے لگے تو مجبوراً اپنے خیمے کا ٹکڑا پھاڑ لیا جسے ہم باری باری اپنے جسموں کے گرد لپیٹ کر راشن اور پانی کیلئے باہر لائن میں لگتے ہیں اس وقت بھی ہم نے اپنے جسموں کو ان ٹکڑوں سے ڈھانپا ہوا ہے ساتھ ہی انہوں نے اپنے جسموں کے گرد اوڑھی ہوئی خیمے کے کپڑے کی بنی ہوئی وہ چادریں اٹھا دیں جس سے جگہ جگہ سے پھٹے اور گھسے ہوئے لباس سے ان کے ننگے جسم بری طرح جھانک رہے تھے۔ یہ وہی مہاجر تھے جنہوں نے پاکستان کیلئے ووٹ دیا، اپنا گھر دیا، اپنے ماں باپ بہن بھائی اور بچے قتل کروائے، اپنے کھیت دیئے، کاروبار دیا، دکانیں دیں سب سے بڑھ کر اپنے آباؤ اجداد کی قبریں چھوڑیں جن کا آج کوئی نام ونشان نہیں…
انہی کے بارے میں ذوالفقار مرزا نے اپنے ”دوست کے دوست “شاہی سید کی ”پر تکلف “دعوت کھانے کے بعد انتہائی غضب ناک لہجے میں فرمایا ”یہ اردو بولنے والے بھوکے ننگے سندھ میں مہاجر بن کر آئے انہیں ہم نے کھانے کو دیا اب یہ ہمارے سامنے کھڑے ہوتے ہیں میری کراچی اور حیدرآباد کے لوگوں سے اپیل ہے کہ ان کم بختوں کو باہر نکال دو“۔ نیک مقصد کیلئے اپنا گھر بار چھوڑنے والے ہیں اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لا سکتے چودہ سو سال پہلے بھی جو دین کیلئے رات کی تاریکی میں چھپ کر جان بچاتے ہوئے مدینہ کی طرف نکلے ان کے پاس بھی کچھ نہیں تھا اسی طرح یہ لوگ بھی اس لئے خالی ہاتھ نکلے تھے کہ انہیں بتایا گیا تھا یہ نیا وطن جہاں تم جا رہے ہو اسلام کیلئے بنایا گیا ہے…
ان کے مقابلے میں جن کی دعوت کا مرزا صاحب حق نمک ادا کر رہے تھے انہوں نے صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں گاندھی اور نہرو کا ساتھ دیتے ہوئے قائد اعظم اور قیام پاکستان کے خلاف ووٹ دیا تھا ان کی طرف سے قائد اعظم کی اپیل پر اپنا گھر بار چھوڑ کر آنے والے مہاجرین کی یہ تضحیک کوئی نئی بات نہیں ہے… مرزا صاحب کا تعلق اس ٹولے سے ہے جنہوں نے قیام پاکستان کے وقت جب دہلی، نارتول، مہندر گڑھ ، الور، بھرت پور، نابھہ، جند، ، بمبئی سے یہ بھوکے ننگے مہاجر کراچی پہنچے تو 10جون کو سندھ کے وزیر تعلیم پیر الٰہی بخش نے اعلان کر دیا کہ پنجاب اور گودھرا کے علا وہ دیگر مقامات سے آنے والوں کو مہاجرین نہیں سمجھا جائے گا اور انہیں کسی بھی قسم کی سہولت دینے سے انکار کر دیا گیا۔ ذوالفقار مرزا بھی آج یہی کہتے ہیں کہ یہ اردو بولنے والے بھوکے ننگے سندھ میں آئے اور ہم نے انہیں پناہ دی ان کو کھانے کیلئے دیا ان کو پینے کیلئے پانی دیا اب یہ ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں انہوں نے حیدرآباد اور کراچی میں اپنے ہمدردوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں اور ان کو یہاں سے بھگا دیں…
بھارت سے ہجرت کرکے آئے ہوئے ان چند بھوکے ننگے مہاجروں میں قائد اعظم محمد علی جناح ہیں جو بمبئی سے ہجرت کر کے پاکستان پہنچے اور اپنی ساری جائیداد پاکستان کے نام کر دی، لیاقت علی خان اپنی تمام جاگیر اور محلات ہندوستان چھوڑ کر پاکستان آئے اور جب گولی لگنے کے بعد آپریشن ٹیبل پر پہنچے تو ڈاکٹروں نے دیکھا کہ ان کی بنیان جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی، حبیب فیملی ہندوستان سے اپنے ساتھ بینک اور انشورنس کمپنی اور کراچی میں صنعتوں کیلئے مشینری لے کر آئی، آدم جی اپنے ساتھ کمرشل بینک اور جیوٹ ملیں لے کر آئے… باوانی، ولیکا، فینسی، ،حئی سنز، میمن اور دہلی کمیونٹی کے لوگوں نے کروڑوں روپے ساتھ لا کر کراچی میں صنعتوں کا جال بچھا د یا۔ناظم آباد، گلشن دہلی مرکنٹائل فاران روہیل کنڈ جیسے عالیشان اور بڑے بڑے پلازے یہ سب ان ننگوں بھوکوں نے تعمیر کئے کراچی بھر میں اسپتال اور اسکول قائم کئے جہاں ہر زبان بولنے والے پاکستانی کو مفت علاج اور تعلیم کی سہولت ہے جب بھی سیلاب آتا ہے، کوئی زلزلہ آتا ہے تو یہ بھوکے ننگے سب سے پہلے مدد کیلئے پہنچتے ہیں۔ رمضان المبارک میں ان کی طرف سے رنگ و نسل کی پروا کئے بغیر کراچی میں جگہ جگہ لاکھوں گز کپڑا تقسیم کیا جاتا ہے، دستر خوان سجا دیئے جاتے ہیں تاکہ کوئی ”ان کی طرح“ بھوکا اور ننگا نہ رہے۔ روزنامہ جنگ کراچی نے اپنے18جولائی1949کے اداریئے میں سندھی لیڈران اور عوام سے اپیل کرتے ہوئے لکھا تھا” سندھی عوام کو چاہئے کہ وہ مہاجرین کی مظلومیت اور مشکلات کا برادرانہ احساس کریں اور کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے مہاجرین کی دل آزاری ہو اور ان کے زخموں کو مزید ٹھیس پہنچے۔ مہاجر خاندان اپنے ہمراہ علم و فن اور تہذیب و تمدن کا جو سرمایہ لے کر آئے ہیں اس کی بدولت ایک دن پورے صوبہ سندھ کی رونق اور خوش حالی کو چار چاند لگ جائیں گے…اور سب نے دیکھا کہ پورے پاکستان سے جس کو روزگار کی ضرورت ہوئی وہ کراچی چلا آیا اور کراچی کی صنعت و تجارت اور تعمیرات نے پورے پاکستان کو اپنے اندر سمو لیا آج پنجابی او رپختون بھائی لاکھوں کی تعداد میں یہاں آباد ہیں لیکن کراچی کا دل چھوٹا نہیں ہوا․․․․
لیکن یکم مئی1950 کو اس وقت کے ایک مرکزی وزیر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا” اب مزید مہاجرین کی آباد کاری کیلئے گنجائش نہیں رہی اگر فالتو مہاجرین کراچی سے نہ گئے تو کراچی شہر غلاظت کا ڈھیر بن جائے گا انہوں نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ میں آج ہی دہلی سے پہنچا ہوں بھارت میں حالات بہتر ہو گئے ہیں اس لیئے یہ مہاجرین اب اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں بھارتی حکومت ان کا خیر مقدم کرے گی اور اس پریس کانفرنس کے ایک ماہ بعد دو جون کو سندھ حکومت نے مرکزی حکومت کو مطلع کرتے ہوئے مہاجرین کی آباد کاری کے اپنے حصے کے پچاس فیصد اخراجات برادشت کرنے سے انکار کر دیا۔جس سے چند روز بعد لالو کھیت، بزرٹا لائنز کے علا قوں میں قائم جھونپڑیوں سے سندھ حکومت نے 33 ہزارمہاجرین کو زبردستی بے دخل کرتے ہوئے کھلے آسمان تلے پناہ لینے پر مجبور کر دیا جولائی میں کراچی میں موسلا دھار بارشیں شروع ہو گئیں اور موسم کی سختی اور وبائی امراض سے ان میں سے 166 افراد لقمہ اجل بن گئے ان میں ہندوستان سے زندہ بچ کر آنے والی اکیلی عورت کی کل کائنات اس کے دو بچے بھی شامل تھے۔
ایسا لگتا ہے کہ ذوالفقار مرزا آج سے تین سو سال پہلے کے کوئی حکمران ہیں جبھی تو شیر شاہ میں تیرہ افراد کے قاتل اس طرح آزاد ہوئے ہیں جیسے انہوں نے قتل نہیں بلکہ شوٹنگ کے کسی مقابلہ میں اول پوزیشن حاصل کی ہے مرزا صاحب کی ایسی ہی حرکتوں اور اب ان کی تقریر کے بعد کراچی شہر کی کچھ دیواروں پر کراچی کو صوبہ بنانے کی جو چاکنگ کی گئی ہے اس پر کچھ لوگ لاشوں کے ڈھیر لگانے کی بات کر رہے ہیں ان کی خدمت میں عرض ہے کہ کراچی کو صوبہ بنانے کا مطالبہ آج سے58 سال قبل پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ نے 21-22اکتوبر1953کو اپنے صوبائی اجلاس میں کیا تھا بائیس اکتوبر کو کراچی مسلم لیگ کونسل کے اجلاس میں احمد ای ایچ جعفر نے کراچی کو علیحدہ صوبہ بنانے کی قرار داد پیش کی جس کے حق میں81اور مخالفت میں صرف 3ووٹ آئے۔
تحریر: منیراحمد بلوچ بشکریہ روزنامہ جنگ
اور ہم دن کے وقت کیمپ سے پانی اور کھانا لینے کیلئے باہر بھی نہیں نکل سکتے تھے جب دو دن کی بھوک اور پیاس سے مرنے لگے تو مجبوراً اپنے خیمے کا ٹکڑا پھاڑ لیا جسے ہم باری باری اپنے جسموں کے گرد لپیٹ کر راشن اور پانی کیلئے باہر لائن میں لگتے ہیں اس وقت بھی ہم نے اپنے جسموں کو ان ٹکڑوں سے ڈھانپا ہوا ہے ساتھ ہی انہوں نے اپنے جسموں کے گرد اوڑھی ہوئی خیمے کے کپڑے کی بنی ہوئی وہ چادریں اٹھا دیں جس سے جگہ جگہ سے پھٹے اور گھسے ہوئے لباس سے ان کے ننگے جسم بری طرح جھانک رہے تھے۔ یہ وہی مہاجر تھے جنہوں نے پاکستان کیلئے ووٹ دیا، اپنا گھر دیا، اپنے ماں باپ بہن بھائی اور بچے قتل کروائے، اپنے کھیت دیئے، کاروبار دیا، دکانیں دیں سب سے بڑھ کر اپنے آباؤ اجداد کی قبریں چھوڑیں جن کا آج کوئی نام ونشان نہیں…
انہی کے بارے میں ذوالفقار مرزا نے اپنے ”دوست کے دوست “شاہی سید کی ”پر تکلف “دعوت کھانے کے بعد انتہائی غضب ناک لہجے میں فرمایا ”یہ اردو بولنے والے بھوکے ننگے سندھ میں مہاجر بن کر آئے انہیں ہم نے کھانے کو دیا اب یہ ہمارے سامنے کھڑے ہوتے ہیں میری کراچی اور حیدرآباد کے لوگوں سے اپیل ہے کہ ان کم بختوں کو باہر نکال دو“۔ نیک مقصد کیلئے اپنا گھر بار چھوڑنے والے ہیں اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لا سکتے چودہ سو سال پہلے بھی جو دین کیلئے رات کی تاریکی میں چھپ کر جان بچاتے ہوئے مدینہ کی طرف نکلے ان کے پاس بھی کچھ نہیں تھا اسی طرح یہ لوگ بھی اس لئے خالی ہاتھ نکلے تھے کہ انہیں بتایا گیا تھا یہ نیا وطن جہاں تم جا رہے ہو اسلام کیلئے بنایا گیا ہے…
ان کے مقابلے میں جن کی دعوت کا مرزا صاحب حق نمک ادا کر رہے تھے انہوں نے صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں گاندھی اور نہرو کا ساتھ دیتے ہوئے قائد اعظم اور قیام پاکستان کے خلاف ووٹ دیا تھا ان کی طرف سے قائد اعظم کی اپیل پر اپنا گھر بار چھوڑ کر آنے والے مہاجرین کی یہ تضحیک کوئی نئی بات نہیں ہے… مرزا صاحب کا تعلق اس ٹولے سے ہے جنہوں نے قیام پاکستان کے وقت جب دہلی، نارتول، مہندر گڑھ ، الور، بھرت پور، نابھہ، جند، ، بمبئی سے یہ بھوکے ننگے مہاجر کراچی پہنچے تو 10جون کو سندھ کے وزیر تعلیم پیر الٰہی بخش نے اعلان کر دیا کہ پنجاب اور گودھرا کے علا وہ دیگر مقامات سے آنے والوں کو مہاجرین نہیں سمجھا جائے گا اور انہیں کسی بھی قسم کی سہولت دینے سے انکار کر دیا گیا۔ ذوالفقار مرزا بھی آج یہی کہتے ہیں کہ یہ اردو بولنے والے بھوکے ننگے سندھ میں آئے اور ہم نے انہیں پناہ دی ان کو کھانے کیلئے دیا ان کو پینے کیلئے پانی دیا اب یہ ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں انہوں نے حیدرآباد اور کراچی میں اپنے ہمدردوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں اور ان کو یہاں سے بھگا دیں…
بھارت سے ہجرت کرکے آئے ہوئے ان چند بھوکے ننگے مہاجروں میں قائد اعظم محمد علی جناح ہیں جو بمبئی سے ہجرت کر کے پاکستان پہنچے اور اپنی ساری جائیداد پاکستان کے نام کر دی، لیاقت علی خان اپنی تمام جاگیر اور محلات ہندوستان چھوڑ کر پاکستان آئے اور جب گولی لگنے کے بعد آپریشن ٹیبل پر پہنچے تو ڈاکٹروں نے دیکھا کہ ان کی بنیان جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی، حبیب فیملی ہندوستان سے اپنے ساتھ بینک اور انشورنس کمپنی اور کراچی میں صنعتوں کیلئے مشینری لے کر آئی، آدم جی اپنے ساتھ کمرشل بینک اور جیوٹ ملیں لے کر آئے… باوانی، ولیکا، فینسی، ،حئی سنز، میمن اور دہلی کمیونٹی کے لوگوں نے کروڑوں روپے ساتھ لا کر کراچی میں صنعتوں کا جال بچھا د یا۔ناظم آباد، گلشن دہلی مرکنٹائل فاران روہیل کنڈ جیسے عالیشان اور بڑے بڑے پلازے یہ سب ان ننگوں بھوکوں نے تعمیر کئے کراچی بھر میں اسپتال اور اسکول قائم کئے جہاں ہر زبان بولنے والے پاکستانی کو مفت علاج اور تعلیم کی سہولت ہے جب بھی سیلاب آتا ہے، کوئی زلزلہ آتا ہے تو یہ بھوکے ننگے سب سے پہلے مدد کیلئے پہنچتے ہیں۔ رمضان المبارک میں ان کی طرف سے رنگ و نسل کی پروا کئے بغیر کراچی میں جگہ جگہ لاکھوں گز کپڑا تقسیم کیا جاتا ہے، دستر خوان سجا دیئے جاتے ہیں تاکہ کوئی ”ان کی طرح“ بھوکا اور ننگا نہ رہے۔ روزنامہ جنگ کراچی نے اپنے18جولائی1949کے اداریئے میں سندھی لیڈران اور عوام سے اپیل کرتے ہوئے لکھا تھا” سندھی عوام کو چاہئے کہ وہ مہاجرین کی مظلومیت اور مشکلات کا برادرانہ احساس کریں اور کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے مہاجرین کی دل آزاری ہو اور ان کے زخموں کو مزید ٹھیس پہنچے۔ مہاجر خاندان اپنے ہمراہ علم و فن اور تہذیب و تمدن کا جو سرمایہ لے کر آئے ہیں اس کی بدولت ایک دن پورے صوبہ سندھ کی رونق اور خوش حالی کو چار چاند لگ جائیں گے…اور سب نے دیکھا کہ پورے پاکستان سے جس کو روزگار کی ضرورت ہوئی وہ کراچی چلا آیا اور کراچی کی صنعت و تجارت اور تعمیرات نے پورے پاکستان کو اپنے اندر سمو لیا آج پنجابی او رپختون بھائی لاکھوں کی تعداد میں یہاں آباد ہیں لیکن کراچی کا دل چھوٹا نہیں ہوا․․․․
لیکن یکم مئی1950 کو اس وقت کے ایک مرکزی وزیر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا” اب مزید مہاجرین کی آباد کاری کیلئے گنجائش نہیں رہی اگر فالتو مہاجرین کراچی سے نہ گئے تو کراچی شہر غلاظت کا ڈھیر بن جائے گا انہوں نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ میں آج ہی دہلی سے پہنچا ہوں بھارت میں حالات بہتر ہو گئے ہیں اس لیئے یہ مہاجرین اب اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں بھارتی حکومت ان کا خیر مقدم کرے گی اور اس پریس کانفرنس کے ایک ماہ بعد دو جون کو سندھ حکومت نے مرکزی حکومت کو مطلع کرتے ہوئے مہاجرین کی آباد کاری کے اپنے حصے کے پچاس فیصد اخراجات برادشت کرنے سے انکار کر دیا۔جس سے چند روز بعد لالو کھیت، بزرٹا لائنز کے علا قوں میں قائم جھونپڑیوں سے سندھ حکومت نے 33 ہزارمہاجرین کو زبردستی بے دخل کرتے ہوئے کھلے آسمان تلے پناہ لینے پر مجبور کر دیا جولائی میں کراچی میں موسلا دھار بارشیں شروع ہو گئیں اور موسم کی سختی اور وبائی امراض سے ان میں سے 166 افراد لقمہ اجل بن گئے ان میں ہندوستان سے زندہ بچ کر آنے والی اکیلی عورت کی کل کائنات اس کے دو بچے بھی شامل تھے۔
ایسا لگتا ہے کہ ذوالفقار مرزا آج سے تین سو سال پہلے کے کوئی حکمران ہیں جبھی تو شیر شاہ میں تیرہ افراد کے قاتل اس طرح آزاد ہوئے ہیں جیسے انہوں نے قتل نہیں بلکہ شوٹنگ کے کسی مقابلہ میں اول پوزیشن حاصل کی ہے مرزا صاحب کی ایسی ہی حرکتوں اور اب ان کی تقریر کے بعد کراچی شہر کی کچھ دیواروں پر کراچی کو صوبہ بنانے کی جو چاکنگ کی گئی ہے اس پر کچھ لوگ لاشوں کے ڈھیر لگانے کی بات کر رہے ہیں ان کی خدمت میں عرض ہے کہ کراچی کو صوبہ بنانے کا مطالبہ آج سے58 سال قبل پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ نے 21-22اکتوبر1953کو اپنے صوبائی اجلاس میں کیا تھا بائیس اکتوبر کو کراچی مسلم لیگ کونسل کے اجلاس میں احمد ای ایچ جعفر نے کراچی کو علیحدہ صوبہ بنانے کی قرار داد پیش کی جس کے حق میں81اور مخالفت میں صرف 3ووٹ آئے۔
تحریر: منیراحمد بلوچ بشکریہ روزنامہ جنگ