عبداللہ حیدر
محفلین
بھوک سے مرتے انسان اور ہماری ذمے داریاں
کوئی دن نہیں جاتا کہ میڈیا پر خبر نہ آتی ہو کہ فلاں جگہ بھوک و افلاس کے ہاتھوں تنگ آ کر ماں نے اپنے بچوں کو قتل کر دیا، باپ نے خودکشی کر لی ، تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگاری اور غربت سے اتنا تنگ ہوا کہ لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کو پیشہ بنا لیا، مسلمانوں کے اندر ان چیزوں نے اس کثرت کے ساتھ کبھی راہ نہیں پائی تھی لیکن دین سے دوری، مادیت کے غلبے اور خوشحال طبقے کی اپنی ذمے داریوں سے فرار نے ورتحال کو یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ اسلام کا کلمہ پڑھنے والے خودکشی جیسی حرام موت کو غریب والی زندگی ترجیح دے رہے ہیں۔ میڈیا پر آنے والی ایک خبر نے ہر صاحب دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے کہ بھوک کے ہاتھوں تنگ آ کر ایک بھائی اپنی بہن کو بیچنے نکل آیا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ قریب ہے کہ مفلسی کفر تک پہنچا دے، میرا موضوع اس وقت یہ نہیں ہے کہ ان افعال کی شرعی حیثیت کیا ہے، سب جانتے ہیں کہ خودکشی حرام ہے، بے غیرت اور دیوث(یعنی وہ شخص جِسے اپنی محرم عورتوں پر غیرت نہ آتی ہو)جنت کی خوشبو بھی نہیں پا سکے گا وغیرہ، میں اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ان حالات میں ہماری ذمے داری کیا ہے، اور اِس سے پہلے اِس طرف توجہ دِلانا چاہتا ہوں کہ اِس اور اِس طرح کی دیگر تمام تر بُرائیوں کے ظاہر اور مروج ہونے کا اصل سبب اپنے دِینِ حق اِسلام کی اصل تعلیمات سے دُوری ہے ، جی ہاں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ
تَرَی المُؤمِنِینَ فی تَرَاحُمِہِم وَتَوَادِّہِم وَتَعَاطُفِہِم کَمَثَلِ الجَسَدِ اذا اشتَکَی عُضوًا تَدَاعَی لَہُ سَائِرُ جَسَدِہِ بِالسَّہَرِ وَالحُمَّی
"تُم اِیمان والوں کو آپس میں ایک دوسرے سے محبت ، رحمت ، اِحساس میں ایک جِسم کی طرح دیکھو گے کہ اگر کوئی ایک حصہ تکلیف میں ہوا تو سارا ہی جِسم بُخار یا بے آرامی (کی حالت میں اُس ایک حصے کی تکلیف )محسوس کرتا ہے " صحیح البُخاری /حدیث ۵۶۶۵/کتاب الادب /باب ۲۷)
اگر ہم لوگ اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو جانتے ہوں اور اُن پر عمل پیرا رہیں تو ، اولاً تو معاشرتی کسمپرسی کی ایسی حالت ہونے ہی نہ پائے اور اگر کبھی ہو بھی جائےتو بھی اِک دُوجے کا اتنا آسرا اور پیار مُیسر ہو کہ حرام موت اپنانے ، یا اپنے عِزت و غیرت بیچنے ، یا کِسی کی عِزت ، جان مال پر ہاتھ ڈالنے کی نوبت نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ظاہر و باطن کی اصلاح فرمائے ،
اِمام مسلم نے اپنی صحیح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کر یہ فرمان نقل کیا ہے:
دَخَلَت امرَاۃ النَّارَ فِی ہِرَّۃ رَبَطَتہَا فَلا ھیَ اطعَمَتہَا ولا ھیَ ارسَلَتہَا تَاکُلُ مِن خَشَاشِ الارض حَتیَ مَاتَت ہَزلًا
" ایک عور ت ایک بلی کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوئی جِسے اُس عورت نے باندھ رکھا تھا ، نہ اُسے کچھ کِھلاتی تھی اور نہ ہی کھولتی تھی کہ وہ زمین کے کیڑوں مکوڑوں میں سے کچھ کھا لیتی ، یہاں تک کہ اِسی لا پرواہی میں وہ بلی مر گئی" صحیح مسلم /حدیث ۲۶۱۹/کتاب التوبہ /باب ۴)
اس حدیث پر سرسری طور سے نہ گزر جائیے، یہ اس قسم کی ضعیف احادیث میں سے نہیں ہے جو عام طور پر فضائل یا ترغیب و ترھیب کی کتابوں میں مل جاتی ہیں، اس حدیث کو اِمام مسلم نے صحیح مسلم میں روایت کیا ہے اور اہل سنت و الجماعت کے تمام مکاتب فکر متفق ہیں کہ صحیح مسلم کی تمام روایات صحیح ہیں۔کتنی عبرت کا مُقام ہے کہ اللہ کو اُس عورت پر ایک جانور پر ظُلم کرنے ، اوراُس کی حق تلفی کرنے کی وجہ سے اتنا غُصہ آیا کہ اُس عورت کو جہنمی قرار دے دیا ، ہمیں سوچنا چاہیے کہ آخرت میں ہمارا کیا حشر ہو گا جن کے سامنے جانور نہیں زندہ سلامت انسان بھوک و افلاس کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، کتنے ہی غیر ضروری معمولاتِ زندگی ایسے ہیں کہ ہم ان میں ذرا سی تبدیلی پیدا کر لیں تو ہم کئی انسانوں کی کفالت کا سبب بن سکتے ہیں لیکن شاید ہمارے اندر سے آخرت کی جوابدہی کا احساس جاتا رہا ہے، کتنے ایسے اجتماعات ہیں جو سراسر اللہ کی نافرمانی پر مشتمل ہوتے ہیں لیکن ان پر لاکھوں روپیہ پانی کی طرح بہا دیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف اللہ کی مخلوق ایک لقمے کے لیے ترس رہی ہوتی ہے، میوزیکل شوز اور فحاشی کے دوسرے پروگرامز میں تو یہ شیطانی کام ہوتا ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دِین میں اضافہ کردہ بدعات اور رسومات پر اتنی فضول خرچی کی جاتی ہے جس کی کوئی گنجائش اسلام میں نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کاموں سے منع فرمایا ہے
وَآتِ ذَا القُربَی حَقَّہُ وَالمِسکِینَ وَابنَ السَّبِیلِ وَلاَ تُبَذِّر تَبذِیراً
"اور "رشتہ دار ، اور غریب اور مُسافر کو اُس کا حق دو اور فضول خرچی نہ کرو بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں" ( سورت الاِسراء آیت ۲۶)
اِسلام میں جانداروں کے حقوق کی حفاظت اور ادائیگی ہی نہیں بلکہ اُن کی تکلیف و سختی کو دُور کرنے کا بہت مُقام و رُتبہ ہے اور اِس کی تعلیم دی گئی ، اور اِس پر عمل کرنے والوں کو اللہ نے اپنے بُزرگی والے بندے قرار دِیا ہے اور اُنہیں اپنی جنت میں داخل ہونے والا قرار دیا ہے اور اِس داخلے کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی بیان فرمایا
وَیُطعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسکِیناً وَیَتِیماً وَاَسِیراً
" اور وہ لوگ اللہ کی مُحبت میں غریبوں ، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں"[/COLOR
]اور اپنے اُن بُزرگی والے جنتی بندوں کے الفاظ کے طور پر یہ بھی بیان فرمایا کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں
انَّمَا نُطعِمُکُم لِوَجہِ اللَّہِ لَا نُرِیدُ مِنکُم جَزَاء وَلَا شُکُوراً
"(اور اُن کے دِلوں میں یہ ہوتا ہے کہ ) ہم تمہیں صرف اللہ کی رضا کے لیے کھانا کھلا رہے ہیں نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریے کے طالب ہیں " سورۃ الاِنسان (الدھر) /آیت ۸،۹)
اس کے بالمقابل اہلِ جہنم جن جرائم کی پاداش میں جہنم میں پھینکے گئے اس کی کچھ تفصیل یوں بتائی گئی ہے "وہ (جنتی لوگ) جنتوں میں ہوں گے، مجرموں سے پوچھتے ہوں گے تمہیں کیا چیز جہنم میں لے گئی؟ وہ کہیں گے ہم نمازادا نہیں کیا کرتے تھے، اور نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے اور بے ہودہ شکوک و شبہات پیدا کرنے والوں کے ساتھ ہم بھی لگے رہتے تھے اور روز جزا کو جھٹلایا کرتے تھے یہاں تک کہ ہمیں موت آ گئی(، پس انہیں شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کچھ فائدہ نہ دے گی" (سورت المدثر آیت ۴۰ تا ۴۸)
اس آیت میں اہل جہنم کے چار بڑے جرائم مذکور ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ مساکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، اور یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ضروری نہیں کہ بھوکا مسلمان ہو تبھی اسے کھانا کھلایا جائے بلکہ وہ کوئی بھی ہو، کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہواگر بھوکا ہے تو انسان ہونے کے ناطے اس کا یہ حق ہے کہ اسے کھانا کھلایا جائے، اگر ننگا ہے تو اسے کپڑا دیا جائے یا اگر بیمارہے توا س کا علاج کیا جائے، البتہ اگر وہ مسلمان ہے یا رشتہ دار ہے تو کِسی بھی دوسرے اِنسان کی نسبت اُس کا حق بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
میرے بھائیو! جہنم کا عذاب بڑا ہی شدید ہے، اپنے آپ کو اس سے بچا لو، اللہ کی قسم، آخرت کی آگ دنیا کی آگ سے ستر گنا زیادہ سخت ہے ( صحیح البُخاری ) ۔ اپنے آپ کو آگ کے اس گڑھے میں گرنے سے بچا لو جس میں پتھر پھینکا جائے تو ستر سال میں اس کی تہہ تک پہنچے(بخاری) ( صحیح لبُخاری )۔ جہاں کے باسیوں کے لیے پیپ اور زخموں کے دھوون کے سوا کوئی کھانا نہیں جسے سوائے گناہگاروں کے کوئی نہیں کھاتا(سورت الحاقہ)۔ جو چیخیں گے چلائیں گے لیکن کوئی فریاد رسی نہیں کرے گا (سورت ھود)۔ جب دنیا کا سارا سازوسامان چھن جائے گا اور جہنم کو سامنے دیکھ کر انسان پکار اٹھے گا کہ کاش میں اپنی اس زندگی کے لیے کچھ سامان کر رکھا ہوتا(سورت الفجر)
یہ مہینے ایسے ہیں جب برصغیر کے اکثر علاقوں میں غلہ تیار ہو جاتا ہے اور لوگ سال بھر کی ضرورت کے مطابق اسے محفوظ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے اور جہنم سے بچنے کا بڑا نادر موقع ہے۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے استطاعت دے رکھی ہے وہ اپنے لیے غلہ خریدتے وقت اپنے علاقے کے کسی مستحق کو بھی ایک سال کا راشن لے دیں تو ان شاء اللہ ان کے نامہ اعمال میں بہت بڑی نیکی گنی جائے گی، اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ جتنا کر سکتا ہے کرے لیکن اس نیک کام میں حصہ ڈالنے سے پیچھے نہ رہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
یَایُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا انفِقُوا مِمَّا رَزَقنَاکُم مِّن قَبلِ ان یَاتِیَ یَومٌ لاَّ بَیْْعٌ فِیہِ وَلاَ خُلَّۃ وَلاَ شَفَاعَۃ وَالکَافِرُونَ ہُمُ الظَّالِمُونَ
" اے اِیمان لانے والو جو کچھ ہم نے تُمہیں رزق دِیا ہے اُس میں سے خرچ کرو اِس سے پہلے کہ وہ دِن آجائے جِس میں کوئی تجارت نہ ہو سکے گی اور نہ ہی دوستی کام آئے گی اور نہ ہی کوئی سِفارش اور اِنکار کرنے والے ہی (اپنی جانوں پر ) ظُلم کرنے والے ہیں " سورت البقرہ / آیت ۲۵۴)
اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا
"مَن استَطَاعَ مِنکُم ان یَستَتِرَ مِن النَّارِ وَلَو بِشِقِّ تَمرَۃ فَلیَفعَل
" تُم میں سے جو کوئی آگ سے بچ سکے تو وہ ضرور بچےخواہ کھجور کے ایک ٹکڑے (کو صدقہ کر نے )سے ہی (بچے) " ( صحیح مسلم /حدیث ۱۰۱۶/کتاب الزکاۃ /باب ۲۰)
اور اگر کسی کے پاس دینے کو کھجور کے ٹکڑے کے برابر بھی کچھ نہ ہو تو کم از کم اپنے مُصیبت زدہ مُسلمان بھائی بہن کو اچھی باتوں سے حوصلہ ہی دے کہ وہ گناہ کی طرف مائل ہونے کی بجائے صبر کرے اِس طرح دونوں کا بھلا ہو گا ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ہے
اتَّقُوا النَّارَ وَلَو بِشِقِّ تَمرَۃ فَمَن لم یَجِد فَبِکَلِمَۃ طَیِّبَۃ
" آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے (ہی سہی) اور جِسے وہ بھی نہ ملے تو پاکیزہ (اچھی اِیمان جمعی والی) بات کے ذریعے"۔ مُتفقٌ علیہ
"عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ”’ میرے پاس ایک مسکین عورت آئی، اس نے اپنی دو بیٹیوں کو اٹھا رکھا تھا، میں نے اسے تین کھجوریں کھانے کے لیے دیں، اس نے ایک ایک کھجور اپنی بیٹیوں کو دے دی اور تیسری کھجور کھانے کے لیے اپنے منہ کی طرف اٹھائی ہی تھی کہ اس کی بیٹیوں نے اس سے وہ مانگ لی، اس نے اس کھجور کے دو ٹکڑے کیے جسے وہ کھانا چاہتی تھی اور دونوں میں تقسیم کر دی، مجھے اس کا کام اچھا لگا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے سامنے اس کا ذکر کِیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
انَّ اللَّہَ قد اوجَبَ لَہا بِہا الجَنَّۃ او اعتَقَہَا بہا مِن النَّارِ
"اللہ نے اس کے بدلے اس (عورت) کے لیے جنت واجب کر دی ، یا فرمایا کہ، اللہ نے اس کے بدلے میں اسے جہنم سے آزاد کر دیا۔" (صحیح مسلم/حدیث ۲۶۳۰/کتاب البر و الصلہ و الآداب /باب ۴۶)
اس لیے یہ ہرگز نہیں سوچنا چاہیے کہ میرے اتنے تھوڑے سے عمل سے کیا ہو گا، اللہ تعالیٰ مال کی مقدار نہیں دیکھتا بلکہ دلوں کا تقوٰی دیکھتا ہے ،اخلاص دیکھتا ہے، اگر یہ موجود ہوں تو اللہ کی مخلوق کی تھوڑی سی خدمت بھی نجات کا سبب بن سکتی ہے،امام بخاری اور مسلم رحمہما اللہ نے اس سلسلے میں ایک حدیث روایت کی ہے جسے بیان کرنے سے پہلے میں پھر یاد دہانی کرا دوں کہ یہ ضعیف روایات کی قبیل سے نہیں ہے بلکہ بخاری اور مسلم کی روایت کردہ متفق علیہ حدیث ہے ، اور جس حدیث کو یہ دونوں روایت کریں وہ محدثین کے ہاں سب سے زیادہ صحیح اور مضبوط حدیث گنی جاتی ہے۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
بَینَمَا رَجُلٌ یَمشِی بِطَرِیقٍ اشتَدَّ علیہ العَطَشُ فَوَجَدَ بِئرًا فَنَزَلَ فیہا فَشَرِبَ ثُمَّ خَرَجَ فاذا کَلبٌ یَلہَثُ یَاکُلُ الثَّرَی من العَطَشِ فقال الرَّجُلُ لقد بَلَغَ ہذا الکَلبَ مِن العَطَشِ مِثلُ الذی کان بَلَغَ بِی فَنَزَلَ البِئرَ فَمَلَا خُفَّہُ ثُمَّ امسَکَہُ بِفِیہِ فَسَقَی الکَلبَ فَشَکَرَ اللَّہ ُ لَہ ُ فَغَفَرَ لہ ُ قالوا ::: یا رَسُولَ اللَّہِ وَانَّ لنا فی البَہَائِمِ اجرًا ؟::: فقال فی کُلِّ ذَاتِ کَبِدٍ رَطبَۃ اجرٌ
" ایک شخص راستے پر جا رہا تھا کہ اسے شدید پیاس محسوس ہوئی، پس اس نے ایک کنواں پایا وہ اس میں اترا، پانی پیا اور باہر نکل آیا، (باہر آ کر اس نے) ایک کتا دیکھا جس کی زبان پیاس کی شدت سے باہر نکل رہی تھی اور وہ پیاس کی شدت سے گیلی مٹی چاٹ رہا تھا تو اس شخص نے سوچا اس کتے کو بھی اسی طرح پیاس لگی ہے جیسے مجھے لگی تھی، وہ دوبارہ کنویں میں اترا اور اپنی جُراب پانی سے بھر کر کتے کو پانی پلا دیا، اللہ تعالیٰ نے اس کے عمل کی قدر کی اور اسے بخش دیا"۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا " اے اللہ کے رسول کیا ہمارے لیے جانوروں (کے ساتھ اچھائی کرنے ) میں بھی اجر ہے ؟::: تو فرمایا "جِس کا جگر نرم اور رسیلا ہے (یعنی زندہ ہے) اُس (کے ساتھ نیکی کرنے ) میں اجر ہے" مُتفقٌ علیہ / صحیح البُخاری /حدیث ۵۶۶۳/کتاب الادب/باب ۲۷، صحیح مُسلم /حدیث ۲۲۴۴/کتاب السلام/باب۴۱)
پس ، کِسی نیکی کو کم نہیں سمجھا جائے بلکہ ہر ایک نیکی اور خیر کا کام فوراً کیا جائے ، اگر کِسی کو ایک وقت کا کھانا بھی دِیا جا سکے تو دیا جائے یہ نہ سوچا جائے کہ اتنا سا دینے کا کیا فائدہ ، اور نہ ہی اِس انتظار میں نہ رہا جائے کہ جب اتنا اتنا ہو گا تو دیں گے کیونکہ
یَایُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا انفِقُوا مِمَّا رَزَقنَاکُم مِّن قَبلِ ان یَاتِیَ یَومٌ لاَّ بَیْْعٌ فِیہِ وَلاَ خُلَّۃ وَلاَ شَفَاعَۃ وَالکَافِرُونَ ہُمُ الظَّالِمُونَ
"اے اِیمان لانے والو جو کچھ ہم نے تُمہیں رزق دِیا ہے اُس میں سے خرچ کرو اِس سے پہلے کہ وہ دِن آجائے جِس میں کوئی تجارت نہ ہو سکے گی اور نہ ہی دوستی کام آئے گی اور نہ ہی کوئی سِفارش اور اِنکار کرنے والے ہی (اپنی جانوں پر ) ظُلم کرنے والے ہیں"۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ہم میں سے کوئی شخص ضرورت مند اور محتاج کی ضرورت پوری کرتا ہے تو یہ اس کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ:
وَ فِی اَموَالِھِم حَق’ُ للسَائِلِ وَ المَحرُومِ (سورۃ الذاریات آیت19)"اور ان کے مال میں مانگنے والوں کا اور سوال سے بچنے والوں کا حق تھا"۔
یعنی صالحین خود ان لوگوں کی تلاش میں ہوتے ہیں جو محتاج ہوں۔ بیوہ عورتیں ہوں، مریض ہوں یا معذور ہوں اور کما نہ سکتے ہوں یا عیالدار ہوں مگر مانگنے سے ہچکچاتے ہوں۔ اور جو کچھ ان کو دیتے ہیں وہ ان کا حق سمجھ کر انہیں ادا کرتے ہیں صدقہ و خیرات کے طور پر نہیں دیتے کہ ان سے کسی شکریے یا بدلہ کے طالب ہوں یا بعد میں انہیں احسان جتلاتے پھریں۔ جس طرح قرض ادا کرنا ایک حق اور ضروری امر ہے اور قرضہ ادا کر کے کوئی احسان نہیں جتلاتا کہ میں نے تمہارا قرضہ ادا کر دیا ہے اسی طرح مالدار لوگوں کے اموال میں سائل اور محروم کا حق ہوتا ہے اگر وہ ادا نہ کرے گا تو اس کے اپنے سر پر بوجھ رہے گا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایک دوسرے کا دُکھ درد جاننے اور اُس کو دور اور کم کرنے کی ہمت عطا فرمائے۔
کوئی دن نہیں جاتا کہ میڈیا پر خبر نہ آتی ہو کہ فلاں جگہ بھوک و افلاس کے ہاتھوں تنگ آ کر ماں نے اپنے بچوں کو قتل کر دیا، باپ نے خودکشی کر لی ، تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگاری اور غربت سے اتنا تنگ ہوا کہ لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کو پیشہ بنا لیا، مسلمانوں کے اندر ان چیزوں نے اس کثرت کے ساتھ کبھی راہ نہیں پائی تھی لیکن دین سے دوری، مادیت کے غلبے اور خوشحال طبقے کی اپنی ذمے داریوں سے فرار نے ورتحال کو یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ اسلام کا کلمہ پڑھنے والے خودکشی جیسی حرام موت کو غریب والی زندگی ترجیح دے رہے ہیں۔ میڈیا پر آنے والی ایک خبر نے ہر صاحب دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے کہ بھوک کے ہاتھوں تنگ آ کر ایک بھائی اپنی بہن کو بیچنے نکل آیا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ قریب ہے کہ مفلسی کفر تک پہنچا دے، میرا موضوع اس وقت یہ نہیں ہے کہ ان افعال کی شرعی حیثیت کیا ہے، سب جانتے ہیں کہ خودکشی حرام ہے، بے غیرت اور دیوث(یعنی وہ شخص جِسے اپنی محرم عورتوں پر غیرت نہ آتی ہو)جنت کی خوشبو بھی نہیں پا سکے گا وغیرہ، میں اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ان حالات میں ہماری ذمے داری کیا ہے، اور اِس سے پہلے اِس طرف توجہ دِلانا چاہتا ہوں کہ اِس اور اِس طرح کی دیگر تمام تر بُرائیوں کے ظاہر اور مروج ہونے کا اصل سبب اپنے دِینِ حق اِسلام کی اصل تعلیمات سے دُوری ہے ، جی ہاں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ
تَرَی المُؤمِنِینَ فی تَرَاحُمِہِم وَتَوَادِّہِم وَتَعَاطُفِہِم کَمَثَلِ الجَسَدِ اذا اشتَکَی عُضوًا تَدَاعَی لَہُ سَائِرُ جَسَدِہِ بِالسَّہَرِ وَالحُمَّی
"تُم اِیمان والوں کو آپس میں ایک دوسرے سے محبت ، رحمت ، اِحساس میں ایک جِسم کی طرح دیکھو گے کہ اگر کوئی ایک حصہ تکلیف میں ہوا تو سارا ہی جِسم بُخار یا بے آرامی (کی حالت میں اُس ایک حصے کی تکلیف )محسوس کرتا ہے " صحیح البُخاری /حدیث ۵۶۶۵/کتاب الادب /باب ۲۷)
اگر ہم لوگ اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو جانتے ہوں اور اُن پر عمل پیرا رہیں تو ، اولاً تو معاشرتی کسمپرسی کی ایسی حالت ہونے ہی نہ پائے اور اگر کبھی ہو بھی جائےتو بھی اِک دُوجے کا اتنا آسرا اور پیار مُیسر ہو کہ حرام موت اپنانے ، یا اپنے عِزت و غیرت بیچنے ، یا کِسی کی عِزت ، جان مال پر ہاتھ ڈالنے کی نوبت نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ظاہر و باطن کی اصلاح فرمائے ،
اِمام مسلم نے اپنی صحیح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کر یہ فرمان نقل کیا ہے:
دَخَلَت امرَاۃ النَّارَ فِی ہِرَّۃ رَبَطَتہَا فَلا ھیَ اطعَمَتہَا ولا ھیَ ارسَلَتہَا تَاکُلُ مِن خَشَاشِ الارض حَتیَ مَاتَت ہَزلًا
" ایک عور ت ایک بلی کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوئی جِسے اُس عورت نے باندھ رکھا تھا ، نہ اُسے کچھ کِھلاتی تھی اور نہ ہی کھولتی تھی کہ وہ زمین کے کیڑوں مکوڑوں میں سے کچھ کھا لیتی ، یہاں تک کہ اِسی لا پرواہی میں وہ بلی مر گئی" صحیح مسلم /حدیث ۲۶۱۹/کتاب التوبہ /باب ۴)
اس حدیث پر سرسری طور سے نہ گزر جائیے، یہ اس قسم کی ضعیف احادیث میں سے نہیں ہے جو عام طور پر فضائل یا ترغیب و ترھیب کی کتابوں میں مل جاتی ہیں، اس حدیث کو اِمام مسلم نے صحیح مسلم میں روایت کیا ہے اور اہل سنت و الجماعت کے تمام مکاتب فکر متفق ہیں کہ صحیح مسلم کی تمام روایات صحیح ہیں۔کتنی عبرت کا مُقام ہے کہ اللہ کو اُس عورت پر ایک جانور پر ظُلم کرنے ، اوراُس کی حق تلفی کرنے کی وجہ سے اتنا غُصہ آیا کہ اُس عورت کو جہنمی قرار دے دیا ، ہمیں سوچنا چاہیے کہ آخرت میں ہمارا کیا حشر ہو گا جن کے سامنے جانور نہیں زندہ سلامت انسان بھوک و افلاس کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، کتنے ہی غیر ضروری معمولاتِ زندگی ایسے ہیں کہ ہم ان میں ذرا سی تبدیلی پیدا کر لیں تو ہم کئی انسانوں کی کفالت کا سبب بن سکتے ہیں لیکن شاید ہمارے اندر سے آخرت کی جوابدہی کا احساس جاتا رہا ہے، کتنے ایسے اجتماعات ہیں جو سراسر اللہ کی نافرمانی پر مشتمل ہوتے ہیں لیکن ان پر لاکھوں روپیہ پانی کی طرح بہا دیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف اللہ کی مخلوق ایک لقمے کے لیے ترس رہی ہوتی ہے، میوزیکل شوز اور فحاشی کے دوسرے پروگرامز میں تو یہ شیطانی کام ہوتا ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دِین میں اضافہ کردہ بدعات اور رسومات پر اتنی فضول خرچی کی جاتی ہے جس کی کوئی گنجائش اسلام میں نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کاموں سے منع فرمایا ہے
وَآتِ ذَا القُربَی حَقَّہُ وَالمِسکِینَ وَابنَ السَّبِیلِ وَلاَ تُبَذِّر تَبذِیراً
"اور "رشتہ دار ، اور غریب اور مُسافر کو اُس کا حق دو اور فضول خرچی نہ کرو بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں" ( سورت الاِسراء آیت ۲۶)
اِسلام میں جانداروں کے حقوق کی حفاظت اور ادائیگی ہی نہیں بلکہ اُن کی تکلیف و سختی کو دُور کرنے کا بہت مُقام و رُتبہ ہے اور اِس کی تعلیم دی گئی ، اور اِس پر عمل کرنے والوں کو اللہ نے اپنے بُزرگی والے بندے قرار دِیا ہے اور اُنہیں اپنی جنت میں داخل ہونے والا قرار دیا ہے اور اِس داخلے کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی بیان فرمایا
وَیُطعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسکِیناً وَیَتِیماً وَاَسِیراً
" اور وہ لوگ اللہ کی مُحبت میں غریبوں ، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں"[/COLOR
]اور اپنے اُن بُزرگی والے جنتی بندوں کے الفاظ کے طور پر یہ بھی بیان فرمایا کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں
انَّمَا نُطعِمُکُم لِوَجہِ اللَّہِ لَا نُرِیدُ مِنکُم جَزَاء وَلَا شُکُوراً
"(اور اُن کے دِلوں میں یہ ہوتا ہے کہ ) ہم تمہیں صرف اللہ کی رضا کے لیے کھانا کھلا رہے ہیں نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریے کے طالب ہیں " سورۃ الاِنسان (الدھر) /آیت ۸،۹)
اس کے بالمقابل اہلِ جہنم جن جرائم کی پاداش میں جہنم میں پھینکے گئے اس کی کچھ تفصیل یوں بتائی گئی ہے "وہ (جنتی لوگ) جنتوں میں ہوں گے، مجرموں سے پوچھتے ہوں گے تمہیں کیا چیز جہنم میں لے گئی؟ وہ کہیں گے ہم نمازادا نہیں کیا کرتے تھے، اور نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے اور بے ہودہ شکوک و شبہات پیدا کرنے والوں کے ساتھ ہم بھی لگے رہتے تھے اور روز جزا کو جھٹلایا کرتے تھے یہاں تک کہ ہمیں موت آ گئی(، پس انہیں شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کچھ فائدہ نہ دے گی" (سورت المدثر آیت ۴۰ تا ۴۸)
اس آیت میں اہل جہنم کے چار بڑے جرائم مذکور ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ مساکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، اور یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ضروری نہیں کہ بھوکا مسلمان ہو تبھی اسے کھانا کھلایا جائے بلکہ وہ کوئی بھی ہو، کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہواگر بھوکا ہے تو انسان ہونے کے ناطے اس کا یہ حق ہے کہ اسے کھانا کھلایا جائے، اگر ننگا ہے تو اسے کپڑا دیا جائے یا اگر بیمارہے توا س کا علاج کیا جائے، البتہ اگر وہ مسلمان ہے یا رشتہ دار ہے تو کِسی بھی دوسرے اِنسان کی نسبت اُس کا حق بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
میرے بھائیو! جہنم کا عذاب بڑا ہی شدید ہے، اپنے آپ کو اس سے بچا لو، اللہ کی قسم، آخرت کی آگ دنیا کی آگ سے ستر گنا زیادہ سخت ہے ( صحیح البُخاری ) ۔ اپنے آپ کو آگ کے اس گڑھے میں گرنے سے بچا لو جس میں پتھر پھینکا جائے تو ستر سال میں اس کی تہہ تک پہنچے(بخاری) ( صحیح لبُخاری )۔ جہاں کے باسیوں کے لیے پیپ اور زخموں کے دھوون کے سوا کوئی کھانا نہیں جسے سوائے گناہگاروں کے کوئی نہیں کھاتا(سورت الحاقہ)۔ جو چیخیں گے چلائیں گے لیکن کوئی فریاد رسی نہیں کرے گا (سورت ھود)۔ جب دنیا کا سارا سازوسامان چھن جائے گا اور جہنم کو سامنے دیکھ کر انسان پکار اٹھے گا کہ کاش میں اپنی اس زندگی کے لیے کچھ سامان کر رکھا ہوتا(سورت الفجر)
یہ مہینے ایسے ہیں جب برصغیر کے اکثر علاقوں میں غلہ تیار ہو جاتا ہے اور لوگ سال بھر کی ضرورت کے مطابق اسے محفوظ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے اور جہنم سے بچنے کا بڑا نادر موقع ہے۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے استطاعت دے رکھی ہے وہ اپنے لیے غلہ خریدتے وقت اپنے علاقے کے کسی مستحق کو بھی ایک سال کا راشن لے دیں تو ان شاء اللہ ان کے نامہ اعمال میں بہت بڑی نیکی گنی جائے گی، اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ جتنا کر سکتا ہے کرے لیکن اس نیک کام میں حصہ ڈالنے سے پیچھے نہ رہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
یَایُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا انفِقُوا مِمَّا رَزَقنَاکُم مِّن قَبلِ ان یَاتِیَ یَومٌ لاَّ بَیْْعٌ فِیہِ وَلاَ خُلَّۃ وَلاَ شَفَاعَۃ وَالکَافِرُونَ ہُمُ الظَّالِمُونَ
" اے اِیمان لانے والو جو کچھ ہم نے تُمہیں رزق دِیا ہے اُس میں سے خرچ کرو اِس سے پہلے کہ وہ دِن آجائے جِس میں کوئی تجارت نہ ہو سکے گی اور نہ ہی دوستی کام آئے گی اور نہ ہی کوئی سِفارش اور اِنکار کرنے والے ہی (اپنی جانوں پر ) ظُلم کرنے والے ہیں " سورت البقرہ / آیت ۲۵۴)
اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا
"مَن استَطَاعَ مِنکُم ان یَستَتِرَ مِن النَّارِ وَلَو بِشِقِّ تَمرَۃ فَلیَفعَل
" تُم میں سے جو کوئی آگ سے بچ سکے تو وہ ضرور بچےخواہ کھجور کے ایک ٹکڑے (کو صدقہ کر نے )سے ہی (بچے) " ( صحیح مسلم /حدیث ۱۰۱۶/کتاب الزکاۃ /باب ۲۰)
اور اگر کسی کے پاس دینے کو کھجور کے ٹکڑے کے برابر بھی کچھ نہ ہو تو کم از کم اپنے مُصیبت زدہ مُسلمان بھائی بہن کو اچھی باتوں سے حوصلہ ہی دے کہ وہ گناہ کی طرف مائل ہونے کی بجائے صبر کرے اِس طرح دونوں کا بھلا ہو گا ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ہے
اتَّقُوا النَّارَ وَلَو بِشِقِّ تَمرَۃ فَمَن لم یَجِد فَبِکَلِمَۃ طَیِّبَۃ
" آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے (ہی سہی) اور جِسے وہ بھی نہ ملے تو پاکیزہ (اچھی اِیمان جمعی والی) بات کے ذریعے"۔ مُتفقٌ علیہ
"عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ”’ میرے پاس ایک مسکین عورت آئی، اس نے اپنی دو بیٹیوں کو اٹھا رکھا تھا، میں نے اسے تین کھجوریں کھانے کے لیے دیں، اس نے ایک ایک کھجور اپنی بیٹیوں کو دے دی اور تیسری کھجور کھانے کے لیے اپنے منہ کی طرف اٹھائی ہی تھی کہ اس کی بیٹیوں نے اس سے وہ مانگ لی، اس نے اس کھجور کے دو ٹکڑے کیے جسے وہ کھانا چاہتی تھی اور دونوں میں تقسیم کر دی، مجھے اس کا کام اچھا لگا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے سامنے اس کا ذکر کِیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
انَّ اللَّہَ قد اوجَبَ لَہا بِہا الجَنَّۃ او اعتَقَہَا بہا مِن النَّارِ
"اللہ نے اس کے بدلے اس (عورت) کے لیے جنت واجب کر دی ، یا فرمایا کہ، اللہ نے اس کے بدلے میں اسے جہنم سے آزاد کر دیا۔" (صحیح مسلم/حدیث ۲۶۳۰/کتاب البر و الصلہ و الآداب /باب ۴۶)
اس لیے یہ ہرگز نہیں سوچنا چاہیے کہ میرے اتنے تھوڑے سے عمل سے کیا ہو گا، اللہ تعالیٰ مال کی مقدار نہیں دیکھتا بلکہ دلوں کا تقوٰی دیکھتا ہے ،اخلاص دیکھتا ہے، اگر یہ موجود ہوں تو اللہ کی مخلوق کی تھوڑی سی خدمت بھی نجات کا سبب بن سکتی ہے،امام بخاری اور مسلم رحمہما اللہ نے اس سلسلے میں ایک حدیث روایت کی ہے جسے بیان کرنے سے پہلے میں پھر یاد دہانی کرا دوں کہ یہ ضعیف روایات کی قبیل سے نہیں ہے بلکہ بخاری اور مسلم کی روایت کردہ متفق علیہ حدیث ہے ، اور جس حدیث کو یہ دونوں روایت کریں وہ محدثین کے ہاں سب سے زیادہ صحیح اور مضبوط حدیث گنی جاتی ہے۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
بَینَمَا رَجُلٌ یَمشِی بِطَرِیقٍ اشتَدَّ علیہ العَطَشُ فَوَجَدَ بِئرًا فَنَزَلَ فیہا فَشَرِبَ ثُمَّ خَرَجَ فاذا کَلبٌ یَلہَثُ یَاکُلُ الثَّرَی من العَطَشِ فقال الرَّجُلُ لقد بَلَغَ ہذا الکَلبَ مِن العَطَشِ مِثلُ الذی کان بَلَغَ بِی فَنَزَلَ البِئرَ فَمَلَا خُفَّہُ ثُمَّ امسَکَہُ بِفِیہِ فَسَقَی الکَلبَ فَشَکَرَ اللَّہ ُ لَہ ُ فَغَفَرَ لہ ُ قالوا ::: یا رَسُولَ اللَّہِ وَانَّ لنا فی البَہَائِمِ اجرًا ؟::: فقال فی کُلِّ ذَاتِ کَبِدٍ رَطبَۃ اجرٌ
" ایک شخص راستے پر جا رہا تھا کہ اسے شدید پیاس محسوس ہوئی، پس اس نے ایک کنواں پایا وہ اس میں اترا، پانی پیا اور باہر نکل آیا، (باہر آ کر اس نے) ایک کتا دیکھا جس کی زبان پیاس کی شدت سے باہر نکل رہی تھی اور وہ پیاس کی شدت سے گیلی مٹی چاٹ رہا تھا تو اس شخص نے سوچا اس کتے کو بھی اسی طرح پیاس لگی ہے جیسے مجھے لگی تھی، وہ دوبارہ کنویں میں اترا اور اپنی جُراب پانی سے بھر کر کتے کو پانی پلا دیا، اللہ تعالیٰ نے اس کے عمل کی قدر کی اور اسے بخش دیا"۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا " اے اللہ کے رسول کیا ہمارے لیے جانوروں (کے ساتھ اچھائی کرنے ) میں بھی اجر ہے ؟::: تو فرمایا "جِس کا جگر نرم اور رسیلا ہے (یعنی زندہ ہے) اُس (کے ساتھ نیکی کرنے ) میں اجر ہے" مُتفقٌ علیہ / صحیح البُخاری /حدیث ۵۶۶۳/کتاب الادب/باب ۲۷، صحیح مُسلم /حدیث ۲۲۴۴/کتاب السلام/باب۴۱)
پس ، کِسی نیکی کو کم نہیں سمجھا جائے بلکہ ہر ایک نیکی اور خیر کا کام فوراً کیا جائے ، اگر کِسی کو ایک وقت کا کھانا بھی دِیا جا سکے تو دیا جائے یہ نہ سوچا جائے کہ اتنا سا دینے کا کیا فائدہ ، اور نہ ہی اِس انتظار میں نہ رہا جائے کہ جب اتنا اتنا ہو گا تو دیں گے کیونکہ
یَایُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا انفِقُوا مِمَّا رَزَقنَاکُم مِّن قَبلِ ان یَاتِیَ یَومٌ لاَّ بَیْْعٌ فِیہِ وَلاَ خُلَّۃ وَلاَ شَفَاعَۃ وَالکَافِرُونَ ہُمُ الظَّالِمُونَ
"اے اِیمان لانے والو جو کچھ ہم نے تُمہیں رزق دِیا ہے اُس میں سے خرچ کرو اِس سے پہلے کہ وہ دِن آجائے جِس میں کوئی تجارت نہ ہو سکے گی اور نہ ہی دوستی کام آئے گی اور نہ ہی کوئی سِفارش اور اِنکار کرنے والے ہی (اپنی جانوں پر ) ظُلم کرنے والے ہیں"۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ہم میں سے کوئی شخص ضرورت مند اور محتاج کی ضرورت پوری کرتا ہے تو یہ اس کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ:
وَ فِی اَموَالِھِم حَق’ُ للسَائِلِ وَ المَحرُومِ (سورۃ الذاریات آیت19)"اور ان کے مال میں مانگنے والوں کا اور سوال سے بچنے والوں کا حق تھا"۔
یعنی صالحین خود ان لوگوں کی تلاش میں ہوتے ہیں جو محتاج ہوں۔ بیوہ عورتیں ہوں، مریض ہوں یا معذور ہوں اور کما نہ سکتے ہوں یا عیالدار ہوں مگر مانگنے سے ہچکچاتے ہوں۔ اور جو کچھ ان کو دیتے ہیں وہ ان کا حق سمجھ کر انہیں ادا کرتے ہیں صدقہ و خیرات کے طور پر نہیں دیتے کہ ان سے کسی شکریے یا بدلہ کے طالب ہوں یا بعد میں انہیں احسان جتلاتے پھریں۔ جس طرح قرض ادا کرنا ایک حق اور ضروری امر ہے اور قرضہ ادا کر کے کوئی احسان نہیں جتلاتا کہ میں نے تمہارا قرضہ ادا کر دیا ہے اسی طرح مالدار لوگوں کے اموال میں سائل اور محروم کا حق ہوتا ہے اگر وہ ادا نہ کرے گا تو اس کے اپنے سر پر بوجھ رہے گا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایک دوسرے کا دُکھ درد جاننے اور اُس کو دور اور کم کرنے کی ہمت عطا فرمائے۔