بھگت سنگھ سے بیت اللہ محسود تک۔۔۔۔۔۔

سید زبیر

محفلین
cleardot.gif

بھگت سنگھ سے بیت اللہ محسود تک۔۔۔۔۔۔




سامراجی قوتوں کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ وسائل کے
حصول کے لئےظلم وتشدد کا نہ صرف سہارا لیتے ہیں بلکہ اپنی بر بریت کی
تشہیر کے ذریعے دیگر اقوام کو بھی ذہنی طور پر مفلوج کر دیتے ہیں ۔فرانس
کا افریقہ پر قبضہ ہو یا روس کا وسط ایشیا کی ریاستوں پر یا فرنگی
سامراج کا ہند پر قبضہ ہو ۔سامراجی قوتیں آزادی کے متوالوں کے سر کچلنے
کے لئےان کو مختلف القابات سے بد نام کرتے رہتے ہیں ۔مقبقضہ علاقے کی
عوام اور اقوام عالم کی ہمدردی کے حصول کے اپنے مجرمانہ فعل کو درست
فعل ثابت کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ کا سہارا لیتے ہیں ۔مقامی آبادی کے
لالچی ،خودغرض اور غدار طبقے کو جاگیروں اور دولت سے نوازتے ہیں یہی
غدار طبقہ اپنے مفاد کی خاطر ملک کی غیرت کو انتہائی ارزاں بیچ دیتا
ہے۔پاک و ہند کی تاریخ ایسے غداروں جن میں نظام اور نواب کثیر تعداد میں
شامل ہیں سے بھری ہوئی ہے جنہوں نے انگریز سامراج کے اقتدار کو
استحکام بخشا مگر ٹیپو سلطان ، رانی جھانسی اودھ کی بیگم حضرت محل ،
رانی آف تلسی پور ، خان بہادر روہیلہ ، طرے باز خان ، منگل پانڈے ، رائے
احمد نواز خان کھرل اور بھگت سنگھ جیسے لا تعداد آزادی کے متوالے تاریخ
کے ماتھے کا جھومر ہیں
برصغیر کی جدوجہد آزادی کا ہیرو ۔ جلیانوالہ باغ امرتسر اور
عدم تعاون کی تحریک کے خونیں واقعات سے اثر قبول کیا۔ 1921ء میں سکول
چھوڑ دیا اور نیشنل کالج میں تعلیم شروع کی۔ 1927ء میں لاہور میں دسہرہ
بم کیس کے سلسلے میں گرفتار ہوا اور لاہور کے شاہی قلعے میں رکھا گیا۔
ضمانت پر رہائی کے بعد نوجوان بھارت سبھا بنائی۔ اور پھر انقلاب پسندوں
میں شامل ہوگیا۔ دہلی میں عین اس وقت، جب مرکزی اسمبلی کا اجلاس ہو رہا
تھا اس نے اور بے ۔کے دت نے اسمبلی ہال میں دھماکا پیدا کرنے والا بم
پھینکا۔ دنوں گرفتار کرلیے گئے۔ عدالت نے عمر قید کی سزا دی۔
1928ء میں سائمن کمیشن کی آمد پر لاہور ریلوے سٹیشن پر زبردست احتجاجی
مظاہرہ ہوا۔ پولیس نے لاٹھی چارج کیا جس میں لالہ لاچپت رائے رائے زخمی
ہوگئے۔ اس وقت لاہور کے سینئر سپرٹینڈنٹ پولیس مسٹر سکاٹ تھے۔ انقلاب
پسندوں نے ان کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا۔ لیکن ایک دن پچھلے پہر جب
مسٹر سانڈرس اسسٹنٹ سپرٹینڈنٹ پولیس لاہور اپنے دفتر سے موٹر سائیکل پر
دفتر سے نکلے تو راج گرو اور بھگت سنگھ وغیرہ نے ان کو گولی مار ہلاک کر
دیا۔ حوالدار جین نے سنگھ کا تعاقب کیا۔ انھوں نے اس کو بھی گولی مار دی
۔ اور ڈی اے وی کالج ہوسٹل میں کپڑے بدل کر منتشر ہوگئے۔ آخر خان بہادر
شیخ عبدالعزیز نے کشمیر بلڈنگ لاہور سے ایک رات تمام انقلاب پسندوں کو
گرفتار کر لیا۔ لاہور کے سینٹرل جیل کے کمرۂ عدالت میں ان پر مقدمہ چلایا
گیا۔ بھگت سنگھ اور دت اس سے قبل اسمبلی بم کیس میں سزا پا چکے تھے۔
مقدمہ تین سال تک چلتا رہا۔ حکومت کی طرف سے خان صاحب قلندر علی خان اور
ملزمان کی طرف سے لالہ امرد اس سینئر وکیل تھے۔ بھگت سنگھ اور سکھ دیو کو
سزائے موت کا حکم دیا گیا اور 23 مارچ 1931 کو ان کو آج کے شادمان لاہور
میں واقع پھانسی گھات میں پھانسی دے دی گئی۔ فیزوز پور کے قریب، دریائے
ستلج کے کنارے، ان کی لاشوں کو جلا دیا گیا۔ بعد میں یہاں ان کی ایک
یادگار بھی قائم کی گئی۔
اس دور کی دیسی اور بدیشی قوتوں نے بھگت سنگھ کو دہشت گرد اور ہند دشمن
قرار دیا 1857 کی جنگ آزادی میں ہند کا ایک مخصوص مراعات یافتہ طبقہ
ہند کی عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہا تھا کہ فرنگی ہمارے نجات
دہندہ ہین جو ہمیں ترقی کی راہ پر لے جاءیں گے ہم میں ان سے مقابلے کی
سکت نہیں ہے۔بھگت سنگھ کی حمائت کرنے کی کسی میں جرأت نہ تھی تمام اہم
سیسی رہنما مکمل خموش تھے ایسے میں اگر کسی کی آواز ابھری تو قائداعظم
کی آواز تھی ۔ اس اصول پرست سیست دان نے 12 اور14 ستمبر 1929 کو
قانون سا اسمبلی میں اپنی گرجدار آواز میں برطانوی حکومت کو مخاطب کرتے
ہوئے کہا " یہ جو شخص بھوک ہڑتال کر رہا ہے اس کا اپنا ایک نظریہ ہے اور
وہ اپنے با جواز مقصد کے حصول کے لئے مخلص ہے وہ کوئی عام مجرم یا قاتل
نہیں ہے ۔۔۔۔۔اس کے عمل کے محرکات کیا ہیں ؟ یہ حکومت کا جابرانہ نظام
ہے جس کو ہند کی عوام نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔۔۔۔ ۔۔میں آخر میں
برطانوی حکومت کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ان محرکات کی وجوہات سنجیدگی
سے تلاش کریں جس کے باعث ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں ان وجوہات پر جتنی
زیادہ توجہ دیں گے اتنا ہی ان کے لئے آسانیاں پیدا ہوں گی اور سب سے بڑھ
کر ٹیکس دہندگان کی کثیر رقم آزادی کے متوالوں کو کچلنے پر صرف نہ ہوگی۔
بیت اللہ محسود 1974 میں وزیرستان میں پیدا ہوئے۔ پاکستان کا قبائلی
علاقہ جسے بابائے قوم نے پاکستان کا بازوئے شمشیر زن کہا تھ جہان اسلام
چھٹی ہجری میں پہنچ چکا تھا ۔ جہاں کے قبائل کا تعلق خلیفہ ہارون الرشید
کے برامکی قبیلہ سے جا ملتا ہے ۔اس علاقے کی صدیوں سے روائت رہی ہے کہ
اسلحہ ان کا زیور سمجھا جاتا ہے اسلحے کی وافر موجودگی کے باوجود جراءم
کی نسبت پاکستان کے انتہائی مہذب معاشروں کی نسبت نہائت کم رہی ہے دن
اور رات کو اجنبی فرد نے کبھی یہاں اپنے کو غیر محفوظ نہ سمجھا ۔اس
ماحول میں پیدا ہونے والا بچہ ابھی پنچ چھے برس ہی کا تھا کہ افغنستان
میں روسی جارحیت ہوئی جس کے اثرات صدیوں سے منسلک اس خطے پر ہونے لازمی
تھے ۔ کم سنی ہی سے اس بچے کے کان جہاد سے آشنا ہو گئ جب وہ ستاءیس برس
کا ہوا تو 11 ستمبر 2001 کو امرکہ میں ٹور کا سانحہ پیش آیا یہ ایک
ایس غیر انسانی جرم تھا جس کی کسی بھی صورت توضیح پیش نہیں کی جاسکتی
تھی ۔ ان دھماکوں کے مجرموں تک رسائی حاصل کرنے کے کئی مثبت طریقے بھی
موجود تھے جن میں جدید ترین سائنسی آلات کی مدد سے مجرموں تک با سا نی
پہنچا جا سکتا تھا مگر اس موقع سے سرمایہ دارانہ ذہن نےمستفید ہونے کے
لئے اور افغانستان کے ی معدنیات اور کے حسول کا منصوبہ بنایا اور ایک
کمزور اور پس ماندہ ملک افغانستان پر حملہ آور ہو گیا اس سے قبل بھی
سسوڈان ، صومالیہ اور یمن جیسے چھوٹے ممالک کی خود مختاری کچل چکا تھا
عراق ،افغانستان، یمن، صومالی امیں ہونے والے امریکی دلخراش مظالم کی
داستان یں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں جن کو کسی بھی صورت جائز قرار نہیں
دی جا سکتا امت مسلمہ کی بد قسمتی کہ بیشتر مسلم ممالک کی طرح پاکستان
پر بھی بزدل ، لالچی ،خودغرض ظبقہ اقتدار میں تھا جس نے انتہائی ڈھٹائی
سے پڑوسی برادر ملک پر حملے کے لئے ان طاغوتی قوتوں کو ہر ممکن حد تک مدد
فراہم کی ان کو فضاءی و زمینی محفوظ راہداریاں فراہم کر کے اپنے ہم
وطنوں کو غیر محفوظ کر دیا ۔ ۔اپنے فضائی اڈے اپنے پڑوسی کو تباہ کرنے
کے لئے اغیار کے حوالے کیے ڈاکٹر عافیہ سمیت سینکڑوں عظیم مجاہد امریکہ
کے حوالے کر کے خوب دولت کمائی امریکی حواریوں کے اس طبقے نے لال مسجد
سلام آباد میں بھی سینکڑوں معصوم اور کم سن طالبات کو فاسفورس بم اور
فاسفورس کی گولیوں سے اپنے ہی ہم وطنوں نے جلا کر رکھ دیا ایک معسوم بھی
زخمی یا معذور ہک اپنی جاں نہ بچا سکی یہ مفاد پرستی ،لالچ اور بے
حمیتی کی ایسی مثال ہے جس کے مجروں پر تا قیامت امت مسلمہ ، اللہ اور
اسکے آخری رسول کی لعنت برستی رہے گی ۔کیا ان مجرموں کا ظلم اتنا شدید
تھا کہ صفائی کا موقعہ دئیے بغیر انہیں شہید کر دیا معصوم بچیوں کی
روحیں آج بھی ظالموں کے انجام کی منتظر ہیں اور سفاکی بے حسی ملاحظہ ہو
جس وقت اسلام آباد میں یہ کاروائی ہو رہی تھی وطن عزیز کا انتظامی اور
آئینی سربراہ شوکت عزیز بقول انکے ایک حوار چودھری شجاعت کے بقول آئس
کریم کھانے پارلر گئے ہوئے تھے
ان حالات میں آزادی کے متوالوں کے مختلف گروۃ قائم ہوئے جو ظلم کے سامنے
کھڑے ہو گئے ۔ امریکہ نے ایسے موقعہ پر اپنے پاکستانی خوشہ چینوں کی
مرضی اور ایما پر ڈرون حملوں کے آغاز سے ہماری مقدس دھرتی ماں کی عصمت
بکھیر کر رکھ دی پاکستان کی حدود میں پہلا ڈرون حملہ 18 جون 2004 کو
ہوا جس میں نیک محمد کو نشانہ بنایا گیا ۔نیک محمد اپنے دوست شیر زمان
کے گھر کھانے میں مصروف تھے کہ ڈرون کے میزائیل نے انھیں ، شیر زمان کے
دو نا بالغ بچوں اور نیک محمد کی اہلیہ کو شہید کردیا ذرائع ابلاغ نے
بھر پور طریقے سے اس امریکی حملے کو جاءز قرار دیتے ہوئے نیک محمد کو ایک
خطرناک دہشت گرد بنا دیا ۔ بیت اللہ محسود جوان ہوا ۔جنہوں نے کبھی غیر
اللہ کے سامنے سر نہ جھکایا تھا آج ان کے ہم وطن ، محافظ بیرونی حملہ
آور غاصبوں کو راہیں دکھا رہے تھے ۔ بیت اللہ محسود نے اپنے علاقے کے
مختلف گروہوں کو یک جا کر کے تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد رکھی ان کا
ہدف بیرونی غاصب قوتیںاور ان کے مقامی خوشامد ،لالچی ،ہوس پرست مقتدر
حواری تھے ۔جنہوں نے سینکڑوں امریکی ایجنٹوں کو ملک میں متعصب دہشت
گردی، کرنے کی ہرقسم کی نہ صرف چھوٹ دی بلکہ حق نمک کی ادائیگی میں اپنے
ہم وطنوں کی جانوں کی قیمت پر ہر قسم کی اعانت کی 2001 سے حاوی ۔ملک کی
طاقتور قوتوں نے اس جبر اور ظلم کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو پوری قوت
سے دبا یا ۔ ان لالچی اور بزدل قوتوں کی وجہ سے مادر وطن 40,000 سپوتوں
۔۔ ، ایک میجر جنرل ،دو برگیڈیر سمیت ۔دو ڈویژن کے قریب فوج اور 70 بلین
ڈالر سے زائد سے ہاتھ دھو بیٹھی. اس کے علاوہ عافیہ صدیقی جیسے متعدد ہم
وطن افیار کے حوالے کردئیے
بیت اللہ محسود ان حالات میں اپنی ملی اور قومی ذمہ داریوں کی ادئیگی
کے لئیے سر بکف میدان میں نکلا اس مجاہد کا قصور کیا تھا ؟ اپنی دھرتی
ماں کا تحفظ، وطن عزیز سے وطن کی حرمت بیچنے والوں کا صفایا ۔ جس کی
سرزمین پر اغیار قابض ہوں، جس کے ہموطنوں کو مقتدر طبقے کی ایما پر اپنے
اور غیر گولیوں سے بھون رہے ہوں اس کو دہشت گرد کہنا کہاں کا انصاف ہے
۔مگر آج کا میڈیا صرف امریکی ایجنڈے پر کام کرہا ہے کیونکہ وہی اس کی
تخلیق کا باعث بنا ۔ کسی غیرتمند اینکر پرسن نے مغربی صحافیوں کو
سمجھانے کی کوشش نہ کی کہ ظالم اور جارح کون ہے اور مظلوم کون ہے ۔ کسی
اینکر پرسن نے ان بے بس مجاہدین کا مقدمہ نہیں لڑا بلکہ امریکی ایجنڈے
کے تحت عبادت گاہوں ، معصوم شہریوں پر امریکی ریونڈ ڈیوس اور اور ان کے
سر پرستون کے کئیے گئے مظالم اور حملوں کو بھی انہی حریت پسندوں کے ذمے
لگاتے رہے یہی وہ امریکی ایجنڈا ہے جس پر عمل کرتے ہوئے پاکستانیمیڈیا
پاکستان کی نظریاتی سرحدوں ، ملکی قومی وقار ، اور تہذیب و قافت کو تباہ
کرنے پر ہمہ وقت تیار رہتا ہے اسی میڈیا نے مجاہدین اسلام کو امریکی
اشارے پر دہشت گرد بنا دیا
بہر حال دنیا والے اپنی تدبیریں کرتے ہیں اور خالق کائنات اپنی چال چلتا
ہے ہونا وہی ہے جو ہمارا رب چاہے گا ۔ لال مسجد کے اور راہ حق کے شہیدوں
کا خون رنگ لائے گا ان کی فریادیں اور آہیں عرش معلیٰ پر منتظر ہیں
ظالم انہی مظلوموں کے ہاتھوں رسوا اور تباہ ہوگا
 

شمشاد

لائبریرین
سید زبیر صاحب اردو محفل میں خوش آمدید۔

پوچھ سکتا ہوں کہ مندرجہ بالا تحریر کس کی ہے؟
 

سید زبیر

محفلین
برادرم شمشاد صاحب ، آپ کے خوش آمدید کہنے کا تہہ دل سے مشکور ہوں ۔ آپ کا سوال سر آنکھوں پر ۔۔یہ مضمون ایک ایسے شخص کا ہے جس کی اکلوتی لاڈلی بیٹی ،تمام خاندان کی آنکھوں کا تارا اسلامک یونیورسٹی خود کش حملے میں شہید ہوچکی ۔ اس شخص نے وزیرستان کے لوگوں کو قریب سے دیکھا ہے ۔بہر حال آپ کی مستند رائے کا منتظر رہون گا۔۔۔۔ سید زبیر
 

شمشاد

لائبریرین
سید زبیر صاحب آپ کا شکریہ لیکن صاحب تحریر کا نام اور اگر یہ تحریر پہلے کسی پرنٹ میڈیا پر شائع ہو چکی تو حوالہ دینا ضروری ہے۔
 

سید زبیر

محفلین
برادرم شمشاد صاحب : یہ میرا ہی مضمون ہے پرنٹ میڈیا کو ارسال کیا تھا مگر شاید ایسے مضامین وہ اشاعت کے قابل نہیں سمجھتے ۔برادرم اگر ی مضمون +پ کے معیار کا نہیں ہے تو براہ کرم Deleteکر دیں احقر یسد زبیر
 

شمشاد

لائبریرین
برادرم شمشاد صاحب : یہ میرا ہی مضمون ہے پرنٹ میڈیا کو ارسال کیا تھا مگر شاید ایسے مضامین وہ اشاعت کے قابل نہیں سمجھتے ۔برادرم اگر ی مضمون +پ کے معیار کا نہیں ہے تو براہ کرم Deleteکر دیں احقر یسد زبیر

سید زبیر صاحب بہت شکریہ۔
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ بٹیا کو جنت میں اعلیٰ درجہ عطا فرمائے اور آپ سبکو صبر عطا فرمائے۔
اردو محفل کے اراکین کی ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں۔

آپ کی مزید تحریروں کا انتظار رہے گا۔
 
Top